نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
مکہ و مدینہ کے فضائل ومسائل

3. مدینہ حرم ہے

حدیث نمبر: 638
16- وبه: عن أبى هريرة أنه كان يقول: لو رأيت الظباء ترتع بالمدينة ما ذعرتها، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”ما بين لابتيها حرام.“
اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے تھے: اگر میں مدینے میں ہرنوں کو چرتے ہوئے دیکھوں تو انہیں ڈراؤں گا نہیں۔ (کیونکہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو سیاہ پتھروں والی زمین کے درمیان (مدینہ کا علاقہ) حرام (حرم) ہے۔
تخریج الحدیث: «16- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 889/2، ح 1711، ك 45 ب 3 ح 11) التمهيد 309/6، الاستذكار: 1641، و أخرجه البخاري (1873) ومسلم(1372/471) من حديث مالك به.»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 638 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 638  
´مکہ مکرمہ کی طرح مدینہ طیبہ بھی حرم ہے`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما بين لابتيها حرام.»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو سیاہ پتھروں والی زمین کے درمیان (مدینہ کا علاقہ) حرام (حرم) ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 638]

تخریج الحدیث: [الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 889/2، ح 1711، ك 45 ب 3 ح 11، التمهيد 309/6، الاستذكار: 1641 ● و أخرجه البخاري 1873، ومسلم1372/471، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ مکہ مکرمہ کی طرح مدینہ طیبہ بھی حرم ہے جیسا کہ متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ دیکھئے: [نظم المتناثر من الحديث المواتر للكتاني ص 212 ح 244]
اسے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ درج ذیل صحابہ کرام نے بھی روایت کیا ہے:
● سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ [صحيح بخاري: 1867، و صحيح مسلم: 6613]
● سیدنا علی رضی اللہ عنہ [صحيح بخاري: 1870، و صحيح مسلم: 1370]
● سیدنا عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ [صحيح بخاري: 2129 و صحيح مسلم: 1360]
● سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ [صحيح مسلم: 1361]
● سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ [صحيح مسلم: 1362]
● سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ [صحيح مسلم: 1363] وغیرہم
◄ ان احادیث صحیحہ متواترہ کے مقابلے میں بعض الناس خود ساختہ شبہات کی بنأ پر کہتے ہیں کہ «لا حرم للمدينة عندنا» ہمارے نزدیک مدینہ حرم نہیں ہے۔ ديكهئے: [ردالمحتار 278/2، الدر المختار 184/1]
➋ مدینہ میں شکار کرنا اور بے ضرر درخت اور پودے کاٹنا حرام ہے سوائے اذخر گھاس کے جس کی اجازت دی گئی ہے۔
➌ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہر وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔
➍ قرآن کی طرح حدیث بھی حجت ہے اور حدیث وحی خفی ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 16   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا اللہ ساجد حفظ اللہ
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ
شیخ الحدیث مولانا عبد العزیز علوی حفظ اللہ
مولانا داود راز رحمہ اللہ
الشیخ عبدالستار الحماد حفظ اللہ
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3113  
´مدینہ کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! ابراہیم تیرے خلیل (گہرے دوست) اور تیرے نبی ہیں، اور تو نے مکہ کو بزبان ابراہیم حرام ٹھہرایا ہے، اے اللہ! میں تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں، اور میں مدینہ کو اس کی دونوں کالی پتھریلی زمینوں کے درمیان کی جگہ کو حرام ٹھہراتا ہوں ۱؎۔ ابومروان کہتے ہیں: «لابتيها» کے معنی مدینہ کے دونوں طرف کی کالی پتھریلی زمینیں ہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3113]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
لابة يا حره سے مراد زمین کا ایک ایسا قطعہ ہےجس میں سیاہ رنگ کے پتھر پائے جاتے ہیں۔

(2)
مدینہ شریف کے مشرق اور مغرب میں اس قسم کے دو قطعات پائے جاتے ہیں جو مشرقی حرہ اور مغربی حرہ کے نام سے معروف ہیں۔
مشرقی حرہ کا نام حرہ واقم اور مغربی حرہ کا نام حرہ وبرہ ہے۔ (حاشيه صحيح مسلم از محمد فواد الباقي، الحج، باب فضل المدينه۔
۔
۔
۔
وبيان حدود حرمها)

مشرق ومغرب میں یہ حرم مدینہ کی حد ہیں۔
احد کے شمال میں جبل ثور اور مدینہ کے جنوب میں جبل عیر حرم مدینہ کی حد ہیں جبکہ احد پہاڑ حرم میں شامل ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3113   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3921  
´مدینہ کی فضیلت کا بیان`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے تھے کہ اگر میں مدینہ میں ہرنوں کو چرتے دیکھوں تو انہیں نہ ڈراؤں اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: اس کی دونوں پتھریلی زمینوں ۱؎ کے درمیان کا حصہ حرم ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3921]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ دونوں پتھریلی زمینیں (حرہ) حرّہ غربیہ اور حرّہ شرقیہ کے نام سے معروف ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3921   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3330  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ان حدیثوں میں قبول نہ ہونے کا معنی یہ ہے کہ ان پر اجروثواب نہیں دے گا،
اور نہ یہ گناہوں کا کفارہ بنیں گے،
اور نہ ہی ان سے درجات میں رفعت وبلندی حاصل ہو گی اگرچہ وہ ان کا تارک شمار نہیں ہو گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3330   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1873  
1873. حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: اگر میں مدینہ طیبہ میں ہرن چرتے ہوئے دیکھوں تو انھیں ہراساں نہیں کرتا ہوں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مدینہ طیبہ کے دونوں پتھریلے کناروں کا درمیانی علاقہ قابل احترام ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1873]
حدیث حاشیہ:
وہاں شکار جائز نہیں ہے۔
اس حدیث سے بھی صاف ظاہر ہوا کہ مدینہ حرم ہے۔
تعجب ہے ان حضرات پر جو مدینہ کے حرم ہونے کا انکار کرتے ہیں جب کہ حرم مدینہ کے متعلق صراحت کے ساتھ کتنی ہی احادیث نبویہ موجود ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1873   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1869  
1869. حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: مدینہ طیبہ کے دونوں پتھریلے کناروں کادرمیانی حصہ میری زبان سے قابل احترام ٹھہرایا گیا ہے۔ حضرت ابو ہریرۃ ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ بنوحارثہ کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: اے بنوحارثہ!میرے خیال کے مطابق تم حرم سے باہر ہو۔ پھر آپ نے توجہ فرمائی تو کہا: نہیں بلکہ تم حرم کے اندر ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1869]
حدیث حاشیہ:
(1)
لابة سیاہ کنکریوں کی جگہ کو کہتے ہیں۔
اسے حره بھی کہا جاتا ہے۔
مدینہ کے مشرق اور مغرب میں یہ مقام واقع ہے۔
ایک کو حرہ شرقیہ اور دوسرے کو حرہ غربیہ کہتے ہیں۔
(2)
بنو حارثہ، قبیلۂ اوس کی ایک شاخ اور ایک چھوٹا خاندان ہے۔
دور جاہلیت میں یہ لوگ بنو الاشہل کے ساتھ رہتے تھے۔
جب ان میں جنگ ہوئی تو بنو حارثہ شکست کھا کر خیبر کی طرف چلے گئے اور وہاں سکونت اختیار کر لی، پھر صلح کرنے کے بعد واپس وہاں آ گئے۔
پہلی دفعہ عدم توجہ کی وجہ سے فرمایا کہ تم حرم سے باہر ہو، پھر غوروخوض اور سوچ و بچار کرنے کے بعد فرمایا کہ تم حرم ہی میں ہو۔
بہرحال رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ کے آس پاس علاقے کو حرم قرار دیا ہے۔
امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے یہی مقصود ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1869   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1873  
1873. حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: اگر میں مدینہ طیبہ میں ہرن چرتے ہوئے دیکھوں تو انھیں ہراساں نہیں کرتا ہوں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مدینہ طیبہ کے دونوں پتھریلے کناروں کا درمیانی علاقہ قابل احترام ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1873]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ روایت کئی ایک الفاظ سے مروی ہے، مثلا:
لا بيتها، حرتيها، جبليها، مأزقيها۔
ان مختلف الفاظ کے پیش نظر احناف نے اس حدیث کو مضطرب قرار دیا ہے اور مدینہ کے حرم کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے، حالانکہ ان الفاظ میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ مدینہ طیبہ کے پہاڑ عموما سیاہ ہیں، اس لیے حرۃ کے معنی بھی سیاہ پتھر ہیں۔
لابة اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں سیاہ پتھر پڑے ہوئے ہوں۔
اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کا واضح فرمان ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا اور اس کے لیے دعا فرمائی، میں نے مدینہ طیبہ کو اسی طرح حرم قرار دیا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم ؑ نے مکہ مکرمہ کو حرم کہا تھا۔
(صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2129) (2)
اس میں شکار کرنے پر کوئی تاوان اور فدیہ نہیں، البتہ رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا:
جسے تم مدینہ طیبہ میں شکار کرتے دیکھو تو تمہارے لیے اس سے چھینا ہوا مال حلال ہے۔
(مسندأحمد: 170/1)
احناف کہتے ہیں کہ مدینے کا حرم فی الحقیقت حرم نہیں اور نہ وہاں شکار کرنا ہی حرام ہے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ حرم مدینہ میں کسی قسم کا شکار نہ کیا جائے۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3317(1362)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1873   


حدیث نمبر: 639
403- مالك عن عمرو مولى المطلب عن أنس بن مالك أن رسول الله صلى الله عليه وسلم طلع له أحد، فقال: ”هذا جبل يحبنا ونحبه، اللهم إن إبراهيم حرم مكة وأني أحرم ما بين لابتيها.“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب احد (پہاڑ) دیکھا تو فرمایا: یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں، اے اللہ! ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا اور میں ان دو کالی زمینوں کے درمیان (مدینہ) کو حرم قرار دیتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «403- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي889/2 ح 1710، ك 45 ب 3 ح 10) التمهيد 175/20، 176، الاستذكار: 1640، و أخرجه البخاري (3367) من حديث مالك به ورواه مسلم (1365) من حديث عمرو بن ابي عمرو به، سقط من الأصل واستدركته من صحيح البخاري.»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 639 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 639  
´مدینہ حرم ہے`
«. . . 403- مالك عن عمرو مولى المطلب عن أنس بن مالك أن رسول الله صلى الله عليه وسلم طلع له أحد، فقال: هذا جبل يحبنا ونحبه، اللهم إن إبراهيم حرم مكة وأني أحرم ما بين لابتيها. . . .»
. . . سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب احد (پہاڑ) دیکھا تو فرمایا: یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں، اے اللہ! ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا اور میں ان دو کالی زمینوں کے درمیان (مدینہ) کو حرم قرار دیتا ہوں۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 639]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 3367، من حديث مالك به و رواه مسلم 1365، من حديث عمرو بن ابي عمرو به ● سقط من الأصل واستدركته من صحيح البخاري]

تفقه:
➊ جس طرح مکہ حرم ہے اسی طرح مدینہ بھی حرم ہے لہٰذا بعض الناس کا مدینہ کو حرم ماننے سے انکار کرنا واضح طور پر انکارِ حدیث کے مترادف ہے۔
➋ اہل ایمان مدینے کے پہاڑ اُحد سے محبت کرتے ہیں۔
➌ اُحد پہاڑ کو کاٹنا، ختم کرنا یا اس پر تعمیرات کرنا ناجائز ہے بلکہ قیامت تک اسے اسی حالت میں چھوڑنا چاہئے۔
➍ احد کا اہل ایمان سے محبت کرنا امور غیبیہ میں سے ہے جس پر اس صحیح حدیث ودیگر احادیث ِ صحیحہ کی وجہ سے ایمان لانا واجب ہے۔ نیز دیکھئے الموطأ حدیث:16
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 403   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ محمد حسین میمن حفظ اللہ
مولانا عطا اللہ ساجد حفظ اللہ
شیخ الحدیث مولانا عبد العزیز علوی حفظ اللہ
مولانا داود راز رحمہ اللہ
الشیخ عبدالستار الحماد حفظ اللہ
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4084  
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں یہ ارشاد فرمایا کہ کون سی مسجد زمین پر پہلے بنائی گئی، تحت الباب میں جس حدیث کا ذکر فرمایا ہے اس میں مطلق طور پر بھی کسی مسجد کا ذکر نہیں، بلکہ وہاں تو احد پہاڑ کا ذکر موجود ہے، لہٰذا ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت ظاہر نہیں ہوتی، لیکن اسی باب کے تحت جو حدیث سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس میں بآسانی مناسبت کا پہلو موجود ہے۔۔۔۔ مگر انس رضی اللہ عنہ والی حدیث میں مناسبت مشکل ہے۔
لیکن اگر غور کیا جائے تو حدیث کا تعلق باب سے دو جگہوں پر ہوتا ہے۔
الف: ترجمۃ الباب میں ہے کہ کون سی مسجد پہلے زمین پر تعمیر کی گئی؟
تو دلیل کے طور پر مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کے بارے میں حدیث پیش فرمائی، یعنی یہاں پر مناسبت یہ ہے کہ ترجمۃ الباب سوالیہ کے طور پر تھا، لہٰذا حدیث اس کا جواب مہیا کرتی ہے کہ وہ مسجد مکہ میں ہے، یعنی مسجد حرام، لہٰذا یہاں سے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث باب سے مطابقت رکھتی ہے۔
ب: سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی جو حدیث ہے کہ احد پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت کرتے ہیں، یہاں پر مناسبت یہ ہے کہ جس جگہ مسجد حرام ہے، یعنی مکہ کی سرزمین پر تو احد پہاڑ بھی مکے کی سرزمین پر ہی واقع ہے، لہٰذا یہاں پر ایک باریک مناسبت قائم ہوتی ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ والی حدیث کا تعلق ایک اور طریقے سے بھی ہے، وہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ بیت اللہ کی سب سے پہلی تعمیر سیدنا ابرہیم علیہ السلام نے فرمائی اور مسجد اقصیٰ کی تعمیر سیدنا سلیمان علیہ السلام نے فرمائی، لیکن امام بخاری رحمہ اللہ بڑی ہی باریک بینی سے یہاں یہ رد فرما رہے ہیں کہ ایسا نہیں ہے، بلکہ اول تعمیر ان سے پہلے ہو چکی تھی، اسی لئے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ والی حدیث پیش فرمائی تاکہ یہ اشکال ذہنوں سے دور ہو جائے، ترجمۃ الباب کے ذریعے امام بخاری رحمہ اللہ یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اول تعمیر مسجد حرام کی سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے نہیں فرمائی اور احد پہاڑ والی حدیث کی مناسبت بھی یہی ہے کہ اس میں ابراہیم علیہ السلام کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لیا ہے۔

علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«مطابقة للترجمة فى قوله: ان ابراهيم»
یعنی ترجمۃ الباب کی مطابقت حدیث کے اس لفظ سے ہے، بےشک ابراہیم۔۔۔
لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت قائم ہوتی ہے۔

ایک اشکال اور اس کا جواب
موجودہ دور کے منکرین حدیث سرسری مطالعے کے پیش نظر صحیح بخاری کی اس حدیث پر اشکالات وضع کرتے ہیں اور احادیث سے مسلمانوں کو بدظن کرنے میں مصروف العمل ہیں یہاں پر یہ شبہ ظاہر کیا گیا ہے کہ کعبہ کی تعمیر تو ابراہیم علیہ السلام نے فرمائی تھی اور مسجد اقصیٰ کی تعمیر سلیمان علیہ السلام نے تو پھر ان دونوں کے درمیان چالس سال کا وقفہ کس طرح مستند ہو گا؟ حالانکہ ان دونوں نبیوں کے مابین ہزار سال سے زیادہ کا وقفہ ہے، لہٰذا یہ حدیث درست نہیں ہے۔
الجواب: یاد رکھا جائے، مذکورہ بالا حدیث جو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں اول تعمیر کا ذکر ہے اور یہ تعمیر آدم علیہ السلام ہی کے دور میں ہوئی تھی،
چنانچہ شارحین لکھتے ہیں:
«ويرتفع الاشكال بأن يقال الاية والحديث لا يدلان على بناء ابراهيم وسليمان لما بنيا ابتداء وضعهما لهما بل ذاك تجديد لما كان اسسه غيرهما وبدأه وقد روي ان اول من بنى البيت آدم وعلى هذا فيجوز ان يكون عنده من ولده وضع بيت المقدس من بعده باربعين . انتهي . . . . .»
یعنی آیت اور حدیث پر اعراض اس طرح سے دور کیا جا سکتا ہے کہ ہر دو (آیت اور حدیث) اس امر پر دلالت نہیں کرتی ہیں کہ ان ہر دو کی (بیت اللہ اور بیت المقدس) کی ابتدائی بنیاد ابراہیم علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام نے رکھیں، بلکہ حقیقت یوں ہے کہ ان دونوں مسجدوں کی بنیاد ان دونوں کے علاوہ رکھی گئی ہے اور یہ دونوں ابراہیم علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام ان ہر دو مقامات کی تجدید کرنے والے ہیں اور یہ مروی ہے کہ ابتداء میں بیت اللہ کو سیدنا آدم علیہ السلام نے اس کی بنیاد رکھی تھی۔

امام بیہقی رحمہ اللہ اپنی مشہور کتاب الدلائل میں سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً حدیث نقل فرماتے ہیں کہ:
«بعث الله جبريل الي آدم فأمره ببناء البيت، فبناه آدم، ثم اثره بالطواف به، وقيل له انت اول الناس، وهذا اول بيت وضع للناس .»
یعنی اللہ تعالیٰ نے جبریل علیہ السلام کو آدم علیہ السلام ک طرف بھیجا، اور آپ کو مسجد کی تعمیر کا حکم دیا، پھر آدم علیہ السلام نے اس کی تعمیر فرمائی، پھر آپ کو اس کے طواف کا حکم ملا اور کہا گیا کہ آپ پہلے لوگوں میں سے ہیں جس نے عبادت کی غرض سے لوگوں کے لئے گھر بنایا۔
اس حدیث سے یہ اشکال دور ہوتا ہے کہ سب سے پہلے بیت اللہ جس نے تعمیر کی، وہ آدم علیہ السلام تھے نہ کہ ابراہیم علیہ السلام، کیوں کہ حدیث میں تجدید تعمیر کا ذکر نہیں ہے بلکہ تاسیس تعمیر کا ذکر ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«اول البناء ووضع أساس المسجد و ليس ابراهيم أول من بني الكعبة و لا سليمان أول من بني بيت المقدس فقد روينا ان اول من بني الكعبة آدم ثم انتشر ولده فى الارض .»
سب سے پہلی بنیاد مسجد کی رکھنے والے ابراہیم علیہ السلام نہیں ہیں اور نہ ہی مسجد اقصیٰ کی پہلی بنیاد رکھنے والے سلیمان علیہ السلام ہیں، بلکہ روایت کے مطابق مسجد حرام کی سب سے پہلی بنیاد آدم علیہ السلام نے رکھی، پھر اس کے بعد ولد آدم علیہ السلام زمین میں پھیلی۔

امام القرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ان الحديث لا يدل على أن ابرهيم وسليمان لما بنيا المسجدين ابتدا وضعتهما لهما، بل ذالك تحدير لما كان اسسه غيرهما .»
یقیناً حدیث اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کی اولین بنیاد ابراہیم علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام نے رکھی، بلکہ (حدیث اس پر دال ہے کہ) انہوں نے مسجدوں کی تجدید کی تھی جو ان سے پہلے بنائی گئی تھیں۔

امام عبدالرزاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
عطاء، سعید بن مسیب، عمرو بن دینار اور امام معمر رحمها اللہ فرماتے ہیں کہ کعبہ کو سب سے پہلے آدم علیہ السلام نے بنایا تھا۔
لہٰذا حدیث زیر بحث میں جن عمارتوں کا ذکر ملتا ہے، وہ آدم علیہ السلام کی تعمیر کردہ ہیں، جو کہ چالیس سال کے وقفے میں رکھی گئیں، نہ کہ یہ عمارتیں ابراہیم علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کی ہیں۔
لہٰذا حدیث پر اعتراض فضول ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 24   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3115  
´مدینہ کی فضیلت کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: احد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے، اور ہم اس سے، اور وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ پر قائم ہے، اور عیر (یہ بھی ایک پہاڑ ہے) جہنم کے باغات میں سے ایک باغ پر قائم ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3115]
اردو حاشہ:
علامہ زہیر شاویش نے فرمایا:
عیر ایک بہت چھوٹا سا پہاڑ ہےجو مدینہ ائیر پورٹ کے قریب واقع ہے۔ 2۔
صحیح مسلم میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی نظر احد پہاڑ پر پڑی تو فرمایا:
یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔ (صحيح مسلم الحجباب فضل المدينه۔
۔
۔
۔
وبيان حدود حرمهاحديث: 1365)

   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3115   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3373  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں ادراک اور شعور رکھا ہے۔
اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتار دیتے وہ بھی اللہ کی خشیت اور خوف سے،
فروتنی اور عاجزی اختیار کرتے ہوئے ٹکڑے ٹکرے ہو جاتا)

(سورہ حشر)
اور دوسری جگہ فرمایا:
(ہر چیز اللہ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کرتی ہے لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں۔
)

اورحنانہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فراک پر ہچکیاں لے کر رویا تھا،
اس ادراک اور شعور کی بنا پر احد پہاڑ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا تھا اورجواباً آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس سے محبت کرتے تھے۔
اسی لیے ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرے کیونکہ انسان پتھر سے گیا گزرا نہیں ہو سکتا اور محبت کا میعار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت واتباع ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3373   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2889  
2889. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ خیبر کی طرف نکلا توراستے میں آپ کی خدمت کرتا تھا۔ جب نبی کریم ﷺ واپس تشریف لائے اور احد پہاڑ سامنے ظاہر ہواتوفرمایا: یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ پھر آپ نے مدینہ طیبہ کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کرکے فرمایا: اے اللہ!میں اس کے دونوں پتھریلےمیدانوں کے درمیانی خطے کو حرمت والا قراردیتا ہوں، جس طرح حضرت ابراہیم ؑ نے مکہ کو حرمت والا قرار دیا تھا۔ اے اللہ! تو ہمارے صاع اور مد میں برکت عطا فرما۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2889]
حدیث حاشیہ:
اس سے مدینہ شریف کی حرمت بھی ثابت ہوئی جیسا کہ مکہ شریف کی حرمت ہے‘ مدینہ کے لئے بھی حدود حرم متعین ہیں جن کے اندر وہ سارے کام ناجائز ہیں جو حرم مکہ میں ناجائز ہیں۔
اہلحدیث کا یہی مسلک ہے کہ مدینہ بھی مکہ ہی کی طرح حرام ہے۔
(والتفصیل مقام آخر)
خیبر مدینہ سے شام کی جانب تین منزل پر ایک مقام ہے۔
یہ یہودیوں کی آبادی تھی۔
آنحضرتﷺ کو حدیبیہ سے آئے ہوئے ایک ماہ سے کم ہی عرصہ ہوا تھا کہ آپﷺ نے خیبر کے یہودیوں کی سازش کا حال سنا کہ وہ مدینہ پر حملہ کرنے والے ہیں‘ ان ہی کی مدافعت کے لئے آپ ﷺ نے پیش قدمی فرمائی اور اہل اسلام کو فتح مبین حاصل ہوئی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2889   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3367  
3367. حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے جبل اُحد آیا تو آپ نے فرمایا: یہ پہاڑہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ اے اللہ! حضرت ابراہیم ؑ نے مکہ کو حرم بنایا تھا اور میں مدینہ طیبہ کے دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیان والی جگہ حرم قراردیتا ہوں۔ اس روایت کو عبد اللہ بن زید ؓنے بھی نبی ﷺ سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3367]
حدیث حاشیہ:
احد پہاڑ ہم سے محبت رکھتاہے۔
محبت رکھنا حقیقتاً مراد ہے۔
کیوں کہ اللہ پاک نے اپنی ہر مخلوق کو اس کی شان کے مطابق علم و ادراک دیا ہے۔
جیسے کہ آیت ﴿وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ﴾ (بني إسرائیل: 44)
میں مراد ہے۔
حدیث ہٰذا سے مدینہ المنورہ کی حرمت بھی مثل مکۃ المکرہ ثابت ہوئی۔
جو حضرات حرمت مدینہ کے قائل نہیں ہیں ان کو اس پر مزید غور کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ حدیث کتاب الحج میں گزرچکی ہے۔
اس میں حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر ہے اس لیے اس باب میں لائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3367   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4084  
4084. حضرت انس بن مالک ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے جب اُحد پہاڑ ظاہر ہوا تو آپ نے فرمایا: یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ اے اللہ! حضرت ابراہیم ؑ نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا تھا اور میں مدینہ طیبہ کے دونوں کناروں کے درمیانی علاقے کو حرم قرار دیتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4084]
حدیث حاشیہ:
رسول کریم ﷺ نے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ کواپنا ایسا وطن قرار دے لیا تھا کہ اس کی محبت آپ کی ہر رگ وپے میں جاگزیں ہوگئی تھی۔
وہاں کی ہر چیز سے محبت کا ہونا آپ کا فطری تقاضا بن گیا تھا۔
اسی بنا پر پہاڑ احد سے بھی آپ کو محبت تھی جس کا یہا ں اظہار فرمایا۔
ورثہ میں مدینہ منورہ سے الفت ومحبت ہر مسلمان کو ملی ہے۔
حدیث سے مدینہ منورہ کا مثل مکہ حرم ہونا بھی ثابت ہوا۔
مگر بعض لوگ حرمت مدینہ کے قائل نہیں اور وہ ایسی احادیث کی مختلف تاویل کر دیتے ہیں جو صحیح نہیں۔
مدینہ بھی اب ہر مسلمان کے لیے مثل مکہ حرم محترم ہے۔
اللہ تعالی ہر مسلمان کو بار بار اس مقدس شہر میں حاضری کی سعادت عطا فرمائے آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4084   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7333  
7333. سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک دفعہ احد پہاڑ ظاہر ہوا تو آپ نے فرمایا: یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ اے اللہ! سیدنا ابراہیم ؑ نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا اور میں مدینہ طیبہ کے دونوں کناروں کی درمیانی جگہ کو حرم قرار دیتا ہوں۔ احد پہاڑ کے متعلق سیدنا سہل ؓ نے نبی ﷺ سے بیان کرنے میں سیدنا انس ؓ کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7333]
حدیث حاشیہ:
کوہ احد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا محبوب قرار دیا۔
پس یہ پہاڑ ہر مسلمان کے لیے محبوب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7333   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3367  
3367. حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے جبل اُحد آیا تو آپ نے فرمایا: یہ پہاڑہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ اے اللہ! حضرت ابراہیم ؑ نے مکہ کو حرم بنایا تھا اور میں مدینہ طیبہ کے دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیان والی جگہ حرم قراردیتا ہوں۔ اس روایت کو عبد اللہ بن زید ؓنے بھی نبی ﷺ سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3367]
حدیث حاشیہ:

اُحد پہاڑ کی ہم سے محبت حقیقی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں اس کی شان کے مطابق علم و ادراک رکھا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے۔
﴿وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ۗ﴾ کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کررہی ہو لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو۔
(بني إسرائیل: 17/44)

اس حدیث سے مدینہ طیبہ کی حرمت ثابت ہوتی ہے چونکہ اس میں سیدنا ابراہیم ؑ کا ذکر ہے۔
کہ انھوں نے مکے کو حرام قراردیا تھا۔
اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو یہاں بیان کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3367   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4083  
4083. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: یہ اُحد پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4083]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ نے اُحد پہاڑ کے متعلق اپنی محبت کے جذبات کا اظہار متعدد مرتبہ فرمایا، چنانچہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب آپ حجۃ الوداع سے واپس آئے تو آپ نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے۔
کچھ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ غزوہ تبوک سے واپسی پر جب مدینہ طیبہ کے درودیوار نظرآئے تواحد پہاڑ کے متعلق محبت بھرے احساسات کا اظہار فرمایا۔

یہاں ایک اشکال ہے کہ پہاڑ ایک جامد چیز ہے وہ محبت کیسے کرسکتا ہے کیونکہ محبت کرنا ذی روح چیزوں کا کام ہے، بعض حضرات نے اس کا جواب دیا ہے کہ اس سے مراد اہل اُحد، یعنی انصار ہیں جو اُحد کے سائے میں رہتے تھے۔
لیکن اہل تحقیق کا کہنا ہے کہ جمادات میں بھی محبت پائی جاتی ہے، اس لیے احد کی محبت مبنی برحقیقت ہے۔
اس کے فوائد ہم آئندہ حدیث کی تشریح میں ذکر کریں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4083   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4084  
4084. حضرت انس بن مالک ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے جب اُحد پہاڑ ظاہر ہوا تو آپ نے فرمایا: یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ اے اللہ! حضرت ابراہیم ؑ نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا تھا اور میں مدینہ طیبہ کے دونوں کناروں کے درمیانی علاقے کو حرم قرار دیتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4084]
حدیث حاشیہ:

جانبین سے محبت حقیقت پرمبنی ہے۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادرہے وہ جمادات میں محبت کا جذبہ پیدا کرسکتا ہے۔
جیسا کہ قرآن میں ہے:
دنیا کی ہر چیز اللہ کی تسبیح کرتی ہے لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔
(بنی اسرائیل: 44: 17)
کنکریوں کا تسبیح کرنا بھی ثابت ہے، نیز مسجد نبوی میں رکھے ہوئے کھجور کے تنے نے رسول اللہ ﷺ کی جدائی کے وقت رونا شروع کردیا تھا جسے تمام حاضرین نے سنا۔
اسی طرح اُحد پہاڑ بھی اہل اسلام سے محبت کرتا ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے جبل احد میں طبع ایمانی رکھ دی جس کی بنا پر وہ محبت کرتا ہے۔
واللہ اعلم۔

یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس دن سے آسمانوں اورزمین کو پیدا کیا ہے اسی دن سے مکہ کوحرم بنایا ہے اورقیامت تک اس کی حرمت باقی رہے گی، البتہ حضرت ابراہیم ؑ نے اس کی حرمت کا اظہار کیا تھا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4084   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7333  
7333. سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک دفعہ احد پہاڑ ظاہر ہوا تو آپ نے فرمایا: یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ اے اللہ! سیدنا ابراہیم ؑ نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا اور میں مدینہ طیبہ کے دونوں کناروں کی درمیانی جگہ کو حرم قرار دیتا ہوں۔ احد پہاڑ کے متعلق سیدنا سہل ؓ نے نبی ﷺ سے بیان کرنے میں سیدنا انس ؓ کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7333]
حدیث حاشیہ:
ہمارے نزدیک اُحد پہاڑ کا محبت کرنا مبنی برحقیقت ہے۔
اللہ تعالیٰ اس میں ادراک اور سوجھ بوجھ پیدا کرنے پر قادر ہے جیسے اس ستون میں اللہ تعالیٰ نے ادراک پیدا کیا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فراق اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی برداشت نہ کرسکا اور اس نے بلند آواز سے رونا شروع کر دیا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد پہاڑ کو اپنا محبوب قرار دیا، اسی وجہ سے تمام مسلمان اس سے محبت کرتے ہیں اور اسے محبت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
احد پہاڑ کو اسی وجہ سے تاریخی حیثیت حاصل ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7333