نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
حرام و ناجائز امور کا بیان

3. تصویر کی حرمت کا بیان

حدیث نمبر: 588
125- وبه: أن رافع بن إسحاق مولى الشفاء أخبره، قال: دخلت أنا وعبد الله بن أبى طلحة على أبى سعيد الخدري نعوده، فقال لنا أبو سعيد: أخبرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”أن الملائكة لا تدخل بيتا فيه تماثيل أو صور“، شك إسحاق لا يدري أيتهما قال أبو سعيد الخدري.
رافع بن اسحاق سے روایت ہے کہ میں اور عبداللہ بن ابی طلحہ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کے لئے گئے تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا: بے شک جس گھر میں مجسمے یا تصاویر ہوں تو وہاں (رحمت کے) فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ اسحق کو شک ہوا، انہیں واضح طور پر معلوم نہ تھا کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے ان میں سے کون سا کلمہ کہا؟
تخریج الحدیث: «125- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 965/2، 966 ح 1867، ك 54 ب 3 ح 6) التمهيد 300/1، الاستذكار: 1803، و أخرجه الترمذي (2805) من حديث مالك به وقال: ”حسن صحيح“ وصححه ابن حبان (1486)»

حدیث نمبر: 589
260- مالك عن نافع عن القاسم بن محمد عن عائشة أم المؤمنين أنها اشترت نمرقة فيها تصاوير. فلما رآها رسول الله صلى الله عليه وسلم قام على الباب فلم يدخل، فعرفت فى وجهه الكراهية وقالت: يا رسول الله، أتوب إلى الله ورسوله، فماذا أذنبت؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”ما بال هذه النمرقة؟“ قالت: اشتريتها لك تقعد عليها وتتوسدها. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”إن أصحاب هذه الصور يوم القيامة يعذبون بها، يقال لهم: أحيوا ما خلقتم“، ثم قال: إن البيت الذى فيه الصور لا تدخله الملائكة.“
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک تکیہ نما چھوٹا کمبل خریدا جس پر تصویریں تھیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو دروازے پر کھڑے ہو گئے اور اندر تشریف نہ لائے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر ناپسندیدگی کے اثرات دیکھے اور کہا: یا رسول اللہ! میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرتی ہوں، مجھ سے کیا غلطی ہوئی ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ نمرقہ (چھوٹا تکیہ) کیا ہے؟ میں نے کہا: میں نے اسے آپ کے لیے خریدا ہے تاکہ آپ اس پر بیٹھیں اور تکیہ لگائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان تصویر والوں کو قیامت کے دن عذاب ہو گا، انہیں کہا جائے گا کہ تم نے جو بنایا ہے اسے زندہ کرو۔، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس گھر میں تصویریں ہوں وہاں (رحمت کے) فرشتے داخل نہیں ہوتے۔
تخریج الحدیث: «260- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 966/2، 967 ح 1869، ك 54 ب 3 ح 8) التمهيد 50/16،51، الاستذكار:1805، أخرجه البخاري (2105) و مسلم (2107/96) من حديث مالك به، وفي رواية يحيي بن يحيي: ”وتوسدها“.»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 589 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 589  
´تصویر کی حرمت کا بیان`
«. . . 260- مالك عن نافع عن القاسم بن محمد عن عائشة أم المؤمنين أنها اشترت نمرقة فيها تصاوير. فلما رآها رسول الله صلى الله عليه وسلم قام على الباب فلم يدخل، فعرفت فى وجهه الكراهية وقالت: يا رسول الله، أتوب إلى الله ورسوله، فماذا أذنبت؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما بال هذه النمرقة؟ قالت: اشتريتها لك تقعد عليها وتتوسدها. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن أصحاب هذه الصور يوم القيامة يعذبون بها، يقال لهم: أحيوا ما خلقتم، ثم قال: إن البيت الذى فيه الصور لا تدخله الملائكة. . . .»
. . . ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک تکیہ نما چھوٹا کمبل خریدا جس پر تصویریں تھیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو دروازے پر کھڑے ہو گئے اور اندر تشریف نہ لائے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر ناپسندیدگی کے اثرات دیکھے اور کہا: یا رسول اللہ! میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرتی ہوں، مجھ سے کیا غلطی ہوئی ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ نمرقہ (چھوٹا تکیہ) کیا ہے؟ میں نے کہا: میں نے اسے آپ کے لیے خریدا ہے تاکہ آپ اس پر بیٹھیں اور تکیہ لگائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان تصویر والوں کو قیامت کے دن عذاب ہو گا، انہیں کہا جائے گا کہ تم نے جو بنایا ہے اسے زندہ کرو۔، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس گھر میں تصویریں ہوں وہاں (رحمت کے) فرشتے داخل نہیں ہوتے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 589]

تخریج الحدیث: [واخرجه البخاي 2105، ومسلم 2107/96، من حديث مالك به وفي روايته يحي بن يحي: «وتوسدها» ]
تفقہ:
➊ کپڑا ہو یا کاغذ وغیرہ، جانداروں کی تصاویر بنانا حرام ہے۔
➋ کتاب و سنت کے خلاف کاموں پر غصہ کرنا جائز ہے۔
➌ جس گھر میں تصویریں ہوں وہاں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔
➍ اگر لاعملی میں غلطی ہوجائے تو معاف ہے لیکن صاحبِ علم کو چاہئے کہ اس شخص کو جو انجانے میں غلطی کر رہا ہے دلیل سے سمجھا دے۔
➎ نیز دیکھئے ح 125
➏ جن کپڑوں پر جانداروں کی تصویریں ہوں ان کا استعمال حرام ہے۔
➐ جس کپڑے پر تصویریں تھیں اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھاڑ دیا تھا۔ دیکھئے صحیح بخاری (2479) [وصحيح مسلم 2107]
➑ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی تو آپ ان کے پاس تشریف لے گئے۔ پھر وہاں ایک پردہ لٹکا ہوا دیکھ کر واپس چلے گئے [مسند أحمد 221، 220/5 ح 21922 و سنده حسن، سنن ابي داود: 3755 وصححه ابن حبان مختصرا: 6320 و الحاكم 186/1 ح 2758 ووافقه الذهبي، نيز ديكهئے صحيح بخاري: 2613]
➒ ایک روایت میں آیا ہے کہ سیدنا ابومسعود عقبہ بن عمرو الانصاری رضی اللہ عنہ نے اس گھر میں دعوت کھانے سے انکار کردیا تھا جہاں تصویر لگی ہوئی تھی۔ دیکھئے [السنن الكبريٰ للبيهقي 7/368 وسنده حسن وصححه الحافظ ابن حجر رحمه الله فى فتح الباري 9/249 قبل ح5181]
➓ تمام امور میں الله اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور یہ اہل حق کا امتیاز ہے۔
◈ اگر شوہر کی اجازت ہو تو بیوی شرعی حدود اور پردے کے احکام کو مدِ نظر رکھتے ہوئے خرید وفروخت کرسکتی ہے۔
◈ بیوی اپنے مال میں شوہر کی اجازت کے بغیر اور شوہر کے مال میں اس کی اجازت کے ساتھ تصرف کرسکتی ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 260   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا اللہ ساجد حفظ اللہ
مولانا داود راز رحمہ اللہ
الشیخ عبدالستار الحماد حفظ اللہ
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3651  
´گھر میں تصاویر رکھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ایسے وقت میں آنے کا وعدہ کیا جس میں وہ آیا کرتے تھے، لیکن آنے میں دیر کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے، دیکھا تو جبرائیل علیہ السلام دروازے پر کھڑے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: آپ کو اندر آنے سے کس چیز نے باز رکھا؟ فرمایا: گھر میں کتا ہے، اور ہم لوگ ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کتے اور تصویریں ہوں۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3651]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حضرت جبرئیل ؑ وعدے کے مطابق تشریف لے آئے تھے لیکن گھر کے اندر تشریف نہ لا سکے۔

(2)
رسول اللہ ﷺ کو علم غیب حاصل نہ تھا ورنہ پہلے ہی کتے کو نکال دیتے اور جبرئیل ؑ کو باہر انتظار نہ کرنا پڑتا۔

(3)
گھروں میں بزرگوں یا بچوں کی تصویریں فریم کر کے سجانا یا محض سجاوٹ کے لیے انسانوں اور حیوانوں کی تصویریں رکھنا یا ٹیلی ویژن اور وی سی آر میں فلمیں دیکھنا گھر سے رحمت و برکت ختم ہو جانے کا باعث ہے لہٰذا ایسی چیزوں سے اجتناب لازم ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3651   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2105  
2105. اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے ایک ایسا تکیہ خریدا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں جب رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھا تو دروازے پر کھڑے ہوگئے اندر تشریف نہ لائے۔ میں نے آپ کے چہرے پر ناگواری کے آثار دیکھے تو عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!میں اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی طرف رجوع کرتی ہوں، مجھ سے کیا گناہ سر زد ہوا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "یہ تکیہ کیسا ہے؟"میں نے عرض کیا: میں نے یہ آپ کے لیے خریدکیا ہے تاکہ آپ اس پر ٹیک لگا کر بیٹھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "یہ تصویریں بنانے والے قیامت کے دن عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا: جو صورتیں تم نے بنائی ہیں انھیں زندہ کرو۔ " نیز آپ نے فرمایا: "جس گھر میں تصویریں ہوں اس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2105]
حدیث حاشیہ:
تشریح:
اس حدیث سے صاف نکلتا ہے کہ جاندار کی مورت بنانا مطلقاً حرام ہے، نقشی ہو یا مجسم۔
اس لیے کہ تکئے پر نقشی صورتیں بنی ہوئی تھیں۔
اور باب کا مطلب اس حدیث سے اس طرح نکلتا ہے کہ باوجود یکہ آپ نے مورت دار کپڑا عورت مرد دونوں کے لیے مکروہ رکھا مگر اس کا خریدنا جائز سمجھا۔
اس لیے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ حکم نہیں دیا کہ بیع کو فسخ کریں۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2105   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3224  
3224. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی کریم ﷺ کے لیے ایک تکیہ تیار کیا جس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں گویا وہ منقش تکیہ تھا۔ آپ ﷺ تشریف لائے تو لوگوں کے درمیان کھڑے ہوگئے اور آپ کے چہرہ انور کا رنگ تبدیل ہونے لگا: میں نے عرض کیا! اللہ کے رسول ﷺ! ہم سے کیا غلطی ہوئی ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ تکیہ کیسا ہے؟ میں نے عرض کیا: یہ تکیہ آپ کے لیے میں نے تیار کیا ہے تاکہ آپ اس پر آرام فرمایاکریں۔ آپ نے فرمایا: کیا تمھیں معلوم نہیں کہ جس گھر میں تصویر ہو اس گھر میں فرشتے نہیں آتے۔ اور جو تصویر بنائے اسے قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ اس سےکہے گا: جو تصویر تم نے بنائی ہے اسے زندہ کرکے دکھاؤ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3224]
حدیث حاشیہ:
جانداروں کی صورت بنانا اس سے ناجائز ہونا ثابت ہوا اور یہی ٹھیک ہے اور فرشتوں کا وجود بھی ثابت ہوا اور یہ بھی کہ وہ نیکی دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور بدی دیکھ کر ناخوش ہوتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3224   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5181  
5181. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ انہوں نے ایک چھوٹا سا تصویروں والا قالین خریدا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اسے (گھر میں لٹکتے) دیکھا تو دروازے ہی پر کھڑے ہو گئے اور اندر نہ گئے مجھے آپ کے چہرہ انور پر کراہت کے آثار محسوس ہوئے تو میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں اللہ اور اس کے رسول کے حضور توبہ کرتی ہوں! میں نے کون سا گناہ کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ قالین کیساہے؟ میں نے عرض کی: یہ تو میں نے آپ کے لیے خریدا ہے تا کہ کبھی آپ اس کو بچھا کر بیٹھیں اور کبھی اسکا تکیہ بنالیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ تصویریں بنانے والے قیامت کے دن عذاب دیئے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا۔ جو تم نے بنایا ہے اس میں روح ڈالو اور اسے زندہ کرو۔ پھر فرمایا: جس گھر میں یہ تصویریں ہوں وہاں رحمت کے فرشتے یقیناً نہیں آتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5181]
حدیث حاشیہ:
بے جان چیزوں کی تصویریں اس سے مستثنیٰ ہیں۔
فتح الباری میں ہے کہ جس دعوت میں حرام کام ہوتا ہو تو اگر اس کے دور کرنے پر قادر ہو تو اس کو دور کر دے ورنہ لوٹ کر چلا جائے، کھانا نہ کھائے اور طبرانی نے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ فاسقوں کی دعوت قبول کرنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔
مثلاً وہ لوگ شراب پیتے ہوں یا فاحشہ عورتوں کا ناچ رنگ ہو رہا ہو تو اس دعوت میں شرکت نہ کرنا بہتر ہے۔
حضرت ابو ایوب انصاری کا یہ کمال ورع تھا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے مکان میں دیوار پر کپڑا دیکھ کر اس میں بیٹھنا اور کھانا گوارا نہ کیا۔
قسطلانی نے کہا کہ جمہور شافعیہ اس کی کراہت کے قائل ہیں کیونکہ اگر حرام ہوتا تو دوسرے صحابہ بھی وہاں نہ بیٹھتے نہ کھانا کھاتے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ دوسرے صحابہ کو حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی رائے سے اتفاق نہ ہو اگر حضرت ابو ایوب آج کی بدعات کو دیکھتے تو کیا کہتے، جبکہ بیشتر اہل بدعت نے قبروں اور مزاروں پر اس قدر زیب و زینت کر رکھی ہے کہ بت خانوں کو بھی مات کر رکھا ہے ایک مقام پر ایک بزرگ اجالا شاہ نامی کا مزار ہے جہاں صبح اجالا ہوتے ہی روزانہ کمخواب کی ایک نئی چادر چڑھائی جاتی ہے اس پر مٹھائی کی ٹوکری ہوتی ہے اور صندل سے ان کی قبر کو لیپا جاتا ہے۔
صد افسوس کہ ایسی حرکتوں کو عین اسلام سمجھا جاتا ہے اور اصلاح کے لئے کوئی کچھ کہہ دے تو اسے وہابی کہہ کر معیوب قرار دیا جاتا ہے اور اس سے سخت دشمنی کی جاتی ہے۔
اللہ پاک ایسے نام نہاد مسلمانوں کو نیک سمجھ عطا کر ے، آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5181   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2105  
2105. اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے ایک ایسا تکیہ خریدا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں جب رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھا تو دروازے پر کھڑے ہوگئے اندر تشریف نہ لائے۔ میں نے آپ کے چہرے پر ناگواری کے آثار دیکھے تو عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!میں اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی طرف رجوع کرتی ہوں، مجھ سے کیا گناہ سر زد ہوا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "یہ تکیہ کیسا ہے؟"میں نے عرض کیا: میں نے یہ آپ کے لیے خریدکیا ہے تاکہ آپ اس پر ٹیک لگا کر بیٹھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "یہ تصویریں بنانے والے قیامت کے دن عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا: جو صورتیں تم نے بنائی ہیں انھیں زندہ کرو۔ " نیز آپ نے فرمایا: "جس گھر میں تصویریں ہوں اس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2105]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں مکروہ چیز کی اس قسم کو بیان کیا گیا ہے جو مرد اور عورت دونوں کے لیے مکروہ ہے جبکہ پہلی حدیث میں اس مکروہ کا ذکر تھا جو صرف مردوں کے لیے ناجائز تھی۔
(2)
حدیث کی باب سے مطابقت اس طرح ہے کہ تصویر والا کپڑا مرد اور عورت دونوں کے لیے مکروہ ہے اس کے باوجود آپ نے اس کی خریدوفروخت کو برقرار رکھا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کو یہ حکم نہیں دیا کہ وہ اس بیع کو فسخ کردیں۔
(3)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تصویر کشی اور فوٹو گرافی ہر قسم کی حرام ہے،خواہ عکس ہویا مجسم،دیوار پر بنائی جائے یا کپڑے پر نقش ہو۔
حدیث میں مذکور وعید صرف بنانے والے ہی کے لیے نہیں بلکہ استعمال کرنے والے کو بھی شامل ہے۔
الغرض حدیث ابن عمر عنوان کے ایک جز پر دلالت کرتی ہے،یعنی اس چیز کی خریدوفروخت جائز ہے جسے مرد حضرات استعمال نہیں کرسکتے اور حدیث عائشہ عنوان کے تمام اجزاء پر دلالت کرتی ہے،اس لیے کہ تصویر والے کپڑے کا استعمال مرد اور عورت دونوں کے لیے منع ہے،اس کے باوجود اس کی خریدوفروخت کو جائز قرار دیا گیا ہے کیونکہ تصویروں کو ختم کرکے اسے بھی استعمال کرنا درست ہے۔
والله اعلم. الحکم التفصیلی:
المواضيع 1. الوعيد للمصور (اللباس والزينة)
2. عاقبة أصحاب الصور (اللباس والزينة)
3. حكم الصور على الوسائد (اللباس والزينة)
4. اتخاذ الصور في المنازل (اللباس والزينة)
5. الملائكة لا تدخل بيتا فيه صورة (اللباس والزينة)
6. التجارة فيما يكره (المعاملات)
7. الملائكة لا تدخل بيتا فيه صور (الإيمان)
موضوعات 1. مصور کے لیے وعید (لباس اور زینت کے مسائل)
2. تصویر بنانے والوں کا انجام (لباس اور زینت کے مسائل)
3. تکیوں پر تصویریں رکھنا (لباس اور زینت کے مسائل)
4. گھروں میں تصاویر رکھنا (لباس اور زینت کے مسائل)
5. تصویروں والے گھروں میں فرشتے داخل نہیں ہوتے (لباس اور زینت کے مسائل)
6. مکروہ چیزوں کی بیع کرنا (معاملات)
7. فرشتے تصویروں والے گھر میں داخل نہیں ہوتے (ایمان)
Topics 1. Threat for photographer (Issues of Clothing and Fashion)
2. Reward for photographers (Issues of Clothing and Fashion)
3. Printed pillows (Issues of Clothing and Fashion)
4. Keeping pictures in houses (Issues of Clothing and Fashion)
5. Angels do not enter the house having pictures (Issues of Clothing and Fashion)
6. Selling abominable items (Matters)
7. Andels do not enter the house having pictures (Faith)
Sharing Link:
https:
//www.mohaddis.com/View/Sahi-
Bukhari/T8/2105 تراجم الحديث المذكور المختلفة موجودہ حدیث کے دیگر تراجم × ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
٣. شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد راز (مکتبہ قدوسیہ)
5. Dr. Muhammad Muhsin Khan (Darussalam)
حدیث ترجمہ:
اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے ایک ایسا تکیہ خریدا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں جب رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھا تو دروازے پر کھڑے ہوگئے اندر تشریف نہ لائے۔
میں نے آپ کے چہرے پر ناگواری کے آثار دیکھے تو عرض کیا:
اللہ کے رسول اللہ ﷺ!میں اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی طرف رجوع کرتی ہوں، مجھ سے کیا گناہ سر زد ہوا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"یہ تکیہ کیسا ہے؟"میں نے عرض کیا:
میں نے یہ آپ کے لیے خریدکیا ہے تاکہ آپ اس پر ٹیک لگا کر بیٹھیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"یہ تصویریں بنانے والے قیامت کے دن عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا:
جو صورتیں تم نے بنائی ہیں انھیں زندہ کرو۔
" نیز آپ نے فرمایا:
"جس گھر میں تصویریں ہوں اس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔
" حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں مکروہ چیز کی اس قسم کو بیان کیا گیا ہے جو مرد اور عورت دونوں کے لیے مکروہ ہے جبکہ پہلی حدیث میں اس مکروہ کا ذکر تھا جو صرف مردوں کے لیے ناجائز تھی۔
(2)
حدیث کی باب سے مطابقت اس طرح ہے کہ تصویر والا کپڑا مرد اور عورت دونوں کے لیے مکروہ ہے اس کے باوجود آپ نے اس کی خریدوفروخت کو برقرار رکھا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کو یہ حکم نہیں دیا کہ وہ اس بیع کو فسخ کردیں۔
(3)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تصویر کشی اور فوٹو گرافی ہر قسم کی حرام ہے،خواہ عکس ہویا مجسم،دیوار پر بنائی جائے یا کپڑے پر نقش ہو۔
حدیث میں مذکور وعید صرف بنانے والے ہی کے لیے نہیں بلکہ استعمال کرنے والے کو بھی شامل ہے۔
الغرض حدیث ابن عمر عنوان کے ایک جز پر دلالت کرتی ہے،یعنی اس چیز کی خریدوفروخت جائز ہے جسے مرد حضرات استعمال نہیں کرسکتے اور حدیث عائشہ عنوان کے تمام اجزاء پر دلالت کرتی ہے،اس لیے کہ تصویر والے کپڑے کا استعمال مرد اور عورت دونوں کے لیے منع ہے،اس کے باوجود اس کی خریدوفروخت کو جائز قرار دیا گیا ہے کیونکہ تصویروں کو ختم کرکے اسے بھی استعمال کرنا درست ہے۔
والله اعلم. حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے، انہیں قاسم بن محمد نے اور انہیں ام المومنین عائشہ‬ ؓ ن‬ے کہ انہوں نے ایک گدا خریدا جس پر مورتیں تھیں۔
رسول کریم ﷺ کی نظر جوں ہی اس پر پڑی، آپ ﷺ دروازے پر ہی کھڑے ہو گئے اور اندر داخل نہیں ہوئے۔
(عائشہ‬ ؓ ن‬ے بیان کیا کہ)
میں نے آپ کے چہرہ_x0004_¿ مبارک پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے تو عر ض کیا، یا رسول اللہ! میں اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتی ہوں اور اس کے رسول اللہ ﷺ سے معافی مانگتی ہوں، فرمائیے مجھ سے کیا غلطی ہوئی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا، یہ گدا کیسا ہے؟ میں نے کہا کہ میں نے یہ آپ ہی کے لیے خریدا ہے تاکہ آپ اس پر بیٹھیں اور اس سے ٹیک لگائیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا، لیکن اس طرح کی مورتیں بنانے والے لوگ قیامت کے دن عذاب کئے جائیں گے۔
اور ان سے کہا جائے گاکہ تم لوگوں نے جس چیزکو بنایا اسے زندہ کر دکھاؤ۔
آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جن گھروں میں مورتیں ہوتی ہیں (رحمت کے)
فرشتے ان میں داخل نہیں ہوتے۔
حدیث حاشیہ:
تشریح:
اس حدیث سے صاف نکلتا ہے کہ جاندار کی مورت بنانا مطلقاً حرام ہے، نقشی ہو یا مجسم۔
اس لیے کہ تکئے پر نقشی صورتیں بنی ہوئی تھیں۔
اور باب کا مطلب اس حدیث سے اس طرح نکلتا ہے کہ باوجود یکہ آپ نے مورت دار کپڑا عورت مرد دونوں کے لیے مکروہ رکھا مگر اس کا خریدنا جائز سمجھا۔
اس لیے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ حکم نہیں دیا کہ بیع کو فسخ کریں۔
(وحیدی)
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA)
:
(mother of the faithful believers)
I bought a cushion with pictures on it. When Allah's Apostle (ﷺ) saw it, he kept standing at the door and did not enter the house. I noticed the sign of disgust on his face, so I said, "O Allah's Apostle (ﷺ)! I repent to Allah and H is Apostle (ﷺ) . (Please let me know)
what sin I have done." Allah's Apostle (ﷺ) said, "What about this cushion?" I replied, "I bought it for you to sit and recline on." Allah's Apostle (ﷺ) said, "The painters (i.e. owners)
of these pictures will be punished on the Day of Resurrection. It will be said to them, 'Put life in what you have created (i.e. painted)
.' " The Prophet (ﷺ) added, "The angels do not enter a house where there are pictures." حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
تشریح:
اس حدیث سے صاف نکلتا ہے کہ جاندار کی مورت بنانا مطلقاً حرام ہے، نقشی ہو یا مجسم۔
اس لیے کہ تکئے پر نقشی صورتیں بنی ہوئی تھیں۔
اور باب کا مطلب اس حدیث سے اس طرح نکلتا ہے کہ باوجود یکہ آپ نے مورت دار کپڑا عورت مرد دونوں کے لیے مکروہ رکھا مگر اس کا خریدنا جائز سمجھا۔
اس لیے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ حکم نہیں دیا کہ بیع کو فسخ کریں۔
(وحیدی)
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر)
١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم2123٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
2105٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
1963٤. ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
2105٥. ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
1999٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2044٧. ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2105٨. ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2105١٠.ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2105 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة تمہید باب × تمہید کتاب × ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔
اور سود کو حرام قراردیا ہے۔
" نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)
" فائدہ:
سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔
جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔
اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔
اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔
اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔
دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔
انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔
معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔
الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔
لفظ بيوع بيع کی جمع ہے۔
اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔
بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔
شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔
یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں:
(1)
مشتری (خریدار) (2)
بائع (فروخت کار) (3)
بیع(مال تجارت) (4)
بیع (معاہدۂ تجارت)
۔
قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾ )
اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔
"(النساء29: 4)
باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔
اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔
اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:
(1)
فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔
(2)
خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔
(3)
قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔
(4)
فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔
(5)
کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔
(6)
اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔
(7)
اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔
کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔
ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔
عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔
معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔
(عمدۃ القاری: 8/291)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔
(فتح الباری: 4/364)
امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔
ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔
مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔
ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔
قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔
اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔
آمين سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:
" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔
اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔
حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔
(عمدۃ القاری: 8/292)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2105   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5181  
5181. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ انہوں نے ایک چھوٹا سا تصویروں والا قالین خریدا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اسے (گھر میں لٹکتے) دیکھا تو دروازے ہی پر کھڑے ہو گئے اور اندر نہ گئے مجھے آپ کے چہرہ انور پر کراہت کے آثار محسوس ہوئے تو میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں اللہ اور اس کے رسول کے حضور توبہ کرتی ہوں! میں نے کون سا گناہ کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ قالین کیساہے؟ میں نے عرض کی: یہ تو میں نے آپ کے لیے خریدا ہے تا کہ کبھی آپ اس کو بچھا کر بیٹھیں اور کبھی اسکا تکیہ بنالیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ تصویریں بنانے والے قیامت کے دن عذاب دیئے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا۔ جو تم نے بنایا ہے اس میں روح ڈالو اور اسے زندہ کرو۔ پھر فرمایا: جس گھر میں یہ تصویریں ہوں وہاں رحمت کے فرشتے یقیناً نہیں آتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5181]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں اس لیے داخل نہ ہوئے کہ اس میں تصاویر تھیں اور یہ ان منکرات شرعیہ میں سے ہے جن کے ہوتے ہوئے وہاں جانا منع ہے کیونکہ تصاویر کی موجودگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور فرشتوں کے دخول کے لیے رکاوٹ کا باعث تھی، لہٰذا ایسی دعوت میں بھی شریک نہیں ہونا چاہیے جہاں خلاف شرع کام ہوں۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جس دعوت میں حرام کام ہوتا ہو اگر اس کے ازالے پر قادر ہو تو شریک ہو کر اسے دور کرے اگر اس کے ازالے پر قدرت نہ ہو تو واپس آ جائے اور کھانا نہ کھائے۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاسقوں کی دعوت قبول کرنے سے منع فرمایا ہے، (المعجم الکبیر للطبراني: 275/1، رقم: 444، طبع مکتبة المعارف)
مثلاً:
وہاں لوگ شراب پیتے ہوں یا فاحشہ عورتوں کا ناچ گانا ہو تو ایسی دعوت میں شرکت نہ کرنا بہتر ہے۔
(فتح الباري: 310/9)
لیکن یہ سب کچھ حاضری کے بعد ہے اور اگر حاضری سے پہلے ہی علم ہو جائے تو دعوت قبول ہی نہ کرے۔
والله اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5181   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5957  
5957. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے ایک چھوٹا سا گدا خریدا جس تصویریں تھیں۔ نبی ﷺ (اسے دیکھ کر) دروازے ہی پر کھڑے رہے۔ اندر داخل نہ ہوئے۔ میں نے کہا: (اللہ کے رسول!) میں اللہ کے حضور اس غلطی سے توبہ کرتی ہوں جس کا میں نے ارتکاب کیا ہے آپ نے فرمایا: یہ گدا کس لیے ہے؟ میں نے عرض کی: یہ آپ کے بیٹھنے اور اس پر ٹیک لگانے کے لیے ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یقیناً اس قسم کی تصاویر بنانے والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا۔ جو تم نے بنایا تھا اسے زندہ کر کے دکھاؤ۔ اور جس میں تصویر ہو اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5957]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گدے پر بیٹھنا پسند نہیں کیا جس پر تصویریں تھیں جبکہ قبل ازیں حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے تصویر والے پردے کو پھاڑ کر دو تکیے بنائے تھے جس پر آپ بیٹھا کرتے تھے۔
ان احادیث میں قطعاً کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ جب پردہ پھاڑ کر دو گدے بنائے گئے تو تصویریں بھی پھٹ گئیں اور وہ اپنی اصلی حالت میں نہ رہیں، اس لیے آپ ان پر بیٹھتے اور آرام فرماتے تھے اور بازار سے خریدے ہوئے گدے پر تصاویر جوں کی توں تھیں، اس لیے آپ نے ان پر بیٹھنا پسند نہیں فرمایا۔
جب تصویر اپنی صورت پر باقی ہو گی تو گھر میں فرشتوں کے داخل ہونے کے لیے رکاوٹ کا باعث ہے اور جب تصویر پھٹی ہو تو فرشتوں کے داخلے کے لیے مانع نہیں ہے۔
(2)
بہرحال تصویر ہر حال میں ممنوع ہے، خواہ اس کا سایہ ہو یا نہ ہو، وہ کپڑا بنتے وقت دھاگوں سے بنائی جائے یا نقش کی جائے دونوں صورتوں میں تصویر حرام اور ناجائز ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ مذکورہ وعید بنانے والے اور استعمال کرنے والے دونوں کے لیے ہے کیونکہ تصویر استعمال کے لیے بنائی جاتی ہے، تصویر بنانے والا تو محض ایک سبب ہے اور اسے استعمال کرنے والا براہ راست اس سے استفادہ کرتا ہے۔
اگر بنانے والے کے لیے یہ وعید ہے تو استعمال کرنے والے کے لیے تو بالاولیٰ ہونی چاہیے۔
(فتح الباري: 478/10)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5957