نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
قرآن و تفسیر کا بیان

9. «ان الصفا والمروة» کا شان نزول

حدیث نمبر: 576
467- وبه قال: قلت لعائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم وأنا يومئذ حديث السن، أرأيت قول الله تبارك وتعالى: {إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما} فما أرى على أحد شيئا أن لا يطوف بهما، فقالت عائشة: كلا: لو كانت كما تقول كانت: فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما، إنما أنزلت هذه الآية فى الأنصار، كانوا يهلون لمناة، وكانت مناة حذو قديد، وكانوا يتحرجون أن يطوفوا بين الصفا والمروة فلما جاء الإسلام سألوا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فأنزل الله تبارك وتعالى: {إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما}.
اور اسی سند کے ساتھ عروہ بن زبیر رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے (اپنی خالہ اور) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا اور اس وقت میں چھوٹا بچہ تھا: آپ کا اللہ تعالیٰ کے اس قول کے بارے میں کیا خیال ہے؟ «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّـهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا» بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، پس جو بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ وہ صفا و مروہ کا طواف (یعنی سعی) کرے۔ [البقرة: 158] ، ميرا خيال ہے کہ اگر کوئی شخص ان کی سعی نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے، تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ہرگز نہیں، اگر یہ بات ہوتی تو آیت اس طرح ہوتی کہ جو طواف نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ یہ آیت تو انصاریوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو (اسلام سے پہلے) منات (دیوی) کے لئے لبیک کہتے تھے اور اور منات قُدید (مقام) کے قریب تھی، وہ صفا اور مروہ کی سعی میں حرج سمجھتے تھے پھر جب اسلام آ گیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّـهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا» ۔
تخریج الحدیث: «467- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 373/1 ح 849، ك 20 ب 42 ح 129) التمهيد 150/22، الاستذكار: 797، و أخرجه البخاري (1790) من حديث مالك به، من رواية يحيي بن يحيي وجاء فى الأصل: ”هالت“ وهو خطأ.»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 576 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 576  
´ «ان الصفا والمروة» کا شان نزول`
«. . . 467- وبه قال: قلت لعائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم وأنا يومئذ حديث السن، أرأيت قول الله تبارك وتعالى: {إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما} فما أرى على أحد شيئا أن لا يطوف بهما، فقالت عائشة: كلا: لو كانت كما تقول كانت: فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما، إنما أنزلت هذه الآية فى الأنصار، كانوا يهلون لمناة، وكانت مناة حذو قديد، وكانوا يتحرجون أن يطوفوا بين الصفا والمروة فلما جاء الإسلام سألوا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فأنزل الله تبارك وتعالى: إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما . . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ عروہ بن زبیر رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے (اپنی خالہ اور) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا اور اس وقت میں چھوٹا بچہ تھا: آپ کا اللہ تعالیٰ کے اس قول کے بارے میں کیا خیال ہے؟ «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّـهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا» بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، پس جو بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ وہ صفا و مروہ کا طواف (یعنی سعی) کرے۔ [البقرة: 158]، ميرا خيال ہے کہ اگر کوئی شخص ان کی سعی نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے، تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ہرگز نہیں، اگر یہ بات ہوتی تو آیت اس طرح ہوتی کہ جو طواف نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ یہ آیت تو انصاریوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو (اسلام سے پہلے) منات (دیوی) کے لئے لبیک کہتے تھے اور اور منات قُدید (مقام) کے قریب تھی، وہ صفا اور مروہ کی سعی میں حرج سمجھتے تھے پھر جب اسلام آ گیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّـهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا» ۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 576]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1790، من حديث مالك به * من رواية يحييٰ بن يحييٰ وجاء فى الأصل: وقالَتْ وهو خطأ]

تفقه:
➊ دوسرے دلائل سے ثابت ہے کہ عمرے اور حج میں صفا ومروہ کی سعی ضروری ہے۔ مذکورہ حدیث میں ان لوگوں کا رد مقصود ہے جو اسے گناہ سمجھتے تھے۔
➋ بچپن ہی سے علم حاصل کرنے کی جستجو میں رہنا چاہئے۔
➌ حج اور سعی کے تفصیلی مسائل کے لئے دیکھئے: میری کتاب (حاجی کے شب وروز)
➍ کتاب و سنت کا وہی مفہوم معتبر ہے جو سلف صالحین سے بالاتفاق ثابت ہے۔
➎ عالم خواہ کتنا ہی علوم و فنون کا ماہر ہو خطاء کا احتمال بہرحال رہتا ہے۔
➏ مشکل مسائل میں بڑے علماء کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور تحقیق کے بعد ہی کوئی موقف اختیار کرنا چاہئے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 467