نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
قرآن و تفسیر کا بیان

7. سورۂ اخلاص کی فضیلت

حدیث نمبر: 573
382- مالك عن عبيد الله بن عبد الرحمن عن عبيد بن حنين مولى آل زيد بن الخطاب أنه قال: سمعت أبا هريرة يقول: أقبلت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فسمع رجلا يقرأ {قل هو الله أحد. الله الصمد. لم يلد ولم يولد. ولم يكن له كفوا أحد} فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”وجبت“ فسألته: ماذا يا رسول الله؟ فقال: ”الجنة“ فقال أبو هريرة: فأردت أن أذهب إلى الرجل فأبشره، ثم فرقت أن يفوتني الغداء، مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فآثرت الغداء ثم ذهبت إلى الرجل فوجدته قد ذهب. وحديث عبيد الله الأغر قد تقدم مع زيد بن رباح. تم الجزء الثاني من الملخص بحمد الله عدد من وقع فيه ممن روى عنه مالك ثلاثون رجلا، لجميعهم فيه مائتا حديث وأربعة وثلاثون حديثا.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آیا تو ایک آدمی کو «قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ . اللَّـهُ الصَّمَدُ . لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ . وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ» کہہ دو! وہ اللہ اکیلا ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ (سورة الاخلاص) کی تلاوت کرتے ہوئے سنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واجب ہو گئی۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا واجب ہو گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت۔، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے ارادہ کیا کہ جا کر اس آدمی کو خوشخبری دوں لیکن پھر مجھے یہ خدشہ لاحق ہوا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوپہر کا کھانا رہ جائے گا تو میں نے کھانے کو ترجیح دی، پھر اس آدمی کی طرف گیا تو وہ جا چکا تھا۔، عبیداللہ الاغر کی حدیث زید بن رباح کے ساتھ گزر چکی ہے [ ح۱۸۶] اور الملخص کا دوسرا جزء مکمل ہوا۔، والحمدللہ اس میں جن لوگوں سے (امام) مالک نے روایتیں بیان کی ہیں ان کی تعداد تیس آدمی ہے اور (ابوالحسن القابسی کی ترقیم کے مطابق) ان کی کل حدیثیں دو سو چونتیس ہیں۔
تخریج الحدیث: «382- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 208/1، ح 487، ك 15 ب 6 ح 18) التمهيد 215/19، الاستذكار: 456، و أخرجه الترمذي (2897 وقال: هٰذا حديث حسن، إلخ) و النسائي (171/2، ح 995) من حديث مالك به وصححه الحاكم (566/1) ووافقه الذهبي، من رواية يحيي بن يحيي، وسقط من الأصل.»

حدیث نمبر: 574
391- مالك عن عبد الرحمن بن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبى صعصعة الأنصاري ثم المازني عن أبيه عن أبى سعيد الخدري أن رجلا سمع رجلا يقرأ {قل هو الله أحد} ويرددها، فلما أصبح جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر له ذلك وكان الرجل يتقالها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”والذي نفسي بيده، إنها لتعدل ثلث القرآن.“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی کو «‏‏‏‏قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ» پڑھتے ہوئے سنا، وہ اسے بار بار پڑھ رہا تھا، سننے والے آدمی نے صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں بتایا، گویا وہ اسے بہت تھوڑا عمل سمجھ رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! بے شک یہ (سورہ اخلاص) ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔
تخریج الحدیث: «391- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 208/1، ح 486، ك 15 ب 6 ح 17) التمهيد 227/19، الاستذكار: 455، و أخرجه البخاري (5013) من حديث مالك به.»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 574 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 574  
´سورۂ اخلاص کی فضیلت`
«. . . 391- مالك عن عبد الرحمن بن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبى صعصعة الأنصاري ثم المازني عن أبيه عن أبى سعيد الخدري أن رجلا سمع رجلا يقرأ {قل هو الله أحد} ويرددها، فلما أصبح جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر له ذلك وكان الرجل يتقالها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: والذي نفسي بيده، إنها لتعدل ثلث القرآن. . . .»
. . . سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی کو «‏‏‏‏قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ» پڑھتے ہوئے سنا، وہ اسے بار بار پڑھ رہا تھا، سننے والے آدمی نے صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں بتایا، گویا وہ اسے بہت تھوڑا عمل سمجھ رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! بے شک یہ (سورہ اخلاص) ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 574]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 5013، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ سورۃ الاخلاص بڑی فضیلت والی سورۃ ہے کیونکہ اسے ایک تہائی قرآن کے برابر قرار دیا گیا ہے۔
➋ کتاب و سنت سے ثابت شدہ کسی عمل کو چھوٹا سمجھ کر ترک یا اس سے لاپرواہی نہیں کرنی چاہیے۔
➌ ایک ہی سورۃ ساری رکعات میں دہرائی جا سکتی ہے۔ نیز دیکھئے الموطأ حدیث: 382
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 391   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ
مولانا داود راز رحمہ اللہ
الشیخ عبدالستار الحماد حفظ اللہ
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 996  
´ «قل ھو اللہ أحد» پڑھنے کی فضیلت کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک شخص کو «قل هو اللہ أحد» پڑھتے سنا، وہ اسے باربار دہرا رہا تھا، جب صبح ہوئی تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہ تہائی قرآن کے برابر ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 996]
996 ۔ اردو حاشیہ:
تہائی کے برابر اس کے متعلق اہل علم کے مختلف اقوال ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ اپنے مضمون کے لحاظ سے تہائی کے برابر ہے کیونکہ دین کی بنیاد تین چیزوں پر ہے:
➊ توحید
➋ رسالت اور
➌ آخرت۔ اس میں کامل و اکمل توحید کا بیان ہے۔ بعض اہل علم کا یہ خیال ہے کہ اسے ایک تہائی قرآن اس لیے کہا گیا ہے کہ قرآن میں احکام، اخبار اور اللہ تعالیٰ کی توحید بیان کی گئی ہے۔ اور یہ سورت تیسرے حصے پر مشتمل ہے، لہٰذا یہ تہائی قرآن ہے۔ ان کی دلیل صحیح مسلم کی روایت ہے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو تین حصوں میں تقسیم فرمایا، چنانچہ سورۂ « ﴿قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ﴾ » کو تیسرا حصہ بنایا۔ [صحیح مسلم صلاة المسافرین، حدیث: 811]
اور بعض کے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ اس کی تلاوت کا ثواب ایک تہائی قرآن کی تلاوت کے برابر ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [فتح الباري: 78-77/9، تحت حدیث: 5013]
یہ ہر ایک گروہ کی اپنی اپنی توجیہات ہیں، لہٰذا مختلف قسم کی تاویلات کرنے کے بجائے اگر نص کو اس کے ظاہر پر محمول کر لیں کہ یہ سورت تلاوت اور ثواب کے لحاظ سے ثلث (تہائی قرآن) کے برابر ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعید نہیں۔ واللہ أعلم۔
ایک آدمی نے ایک آدمی کو سنا پڑھنے والے حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہما تھے جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ قتادہ رضی اللہ عنہ نے رات کا قیام کیا اور ساری رات « ﴿قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ﴾ » پڑھتے رہے، اس سے زیادہ کچھ نہ پڑھا۔ [مسند أحمد: 15/3]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ممکن ہے سننے والے ابوسعید ہی ہوں، اس لیے کہ یہ ان کے اخیافی بھائی تھے اور ایک دوسرے کے پڑوس میں رہتے تھے اور یہی بات ابن عبدالبر نے بالجزم کہی ہے۔ گویا کہ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے اپنا اور اپنے بھائی کا نام پوشیدہ رکھا۔ [فتح الباري: 78/9، تحت حديث: 5013]
لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا ابوسعید رضی اللہ عنہ کو سامع قرار دینا محل نظر ہے کیونکہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے بھائی قتادہ رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی رات کے قیام میں « ﴿قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ﴾ » ہی پڑھتا رہا، جب ہم نے صبح کی تو ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور رات کا سارا ماجرا سنایا۔ گویا کہ اس آدمی نے اس قرأت کو کم سمجھا…… تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! بے شک یہ سورت ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔ [صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث: 5014]
اس روایت سے صراحتاً معلوم ہوتا ہے کہ سننے والے ابوسعید نہیں تھے۔ ہاں، البتہ پڑھنے والے قتادہ رضی اللہ عنہ ہو سکتے ہیں۔ واللہ أعلم۔
➌ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کا ہاتھ ہے جیسے اس کی شان کے لائق ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 996   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7374  
7374. سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے دوسرے شخص کو بار بار «قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ» پڑھتے سنا۔ پھر جب صبح ہوئی تو وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ واقعہ آپ کےسامنے اس طرح سے بیان کیا گویا وہ آدمی اسے بہت کم شمار کرتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ سورت ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔ اسماعیل بن جعفر نے امام مالک سے یہ اضافہ بیان کیا ہے کہ سیدنا ابو سعید خدری ؓ نے کہا: مجھے میرے بھائی سیدنا قتادہ بن نعمان ؓ نے نبی ﷺ سے حدیث بیان کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7374]
حدیث حاشیہ:
اس سورت کو سورہ اخلاص کہا گیا ہے۔
اس میں جملہ اقسام کے شرک کی تردید کرتے ہوئے خالص توحید کی پیش کیا گیا ہے۔
ا سکا ہر ہر لفظ توحید کا مظہر ہے۔
مضامین قرآن کے تین حصے ہیں۔
ایک حصہ توحید الٰہی اور اس کے صفات وافعال کا بیان‘ دوسرا قصص کا بیان‘ تیسرا احکام شریعت کا بیان تو قل ھو اللہ أحد میں ایک حصہ موجود ہے اس لیے اس صورت کا مقام تہائی قرآن کے برابر ہوا۔
سورہ اخلاص کی تفسیر میں حضرت شاہ عبد العزیز فرماتے ہیں بعضے از علماء گفتہ اند کہ شرکت گاہے درعدد می باشد وآنر بلفظ احد نفی فرمود گاہے در مرتبہ منصب می باشد و آنرا بلفظ صمد نفی فرمود وگاہے درنسبت می شد وآنر بلفظ لم یلد ولم یولد نفی فر مود وگاہے درکار تا ثیرمی باشدوآنرا بہ لہ کفوا احد نفی فرمودو بہمیں جہت ایں سورہ راسوہ اخلاص می گوید۔
یعنی بعض علماء نے کہا ہے کہ شرکت بھی عدد میں ہوتی ہے جس کی لفظ احد سے نفی کردی گئی ہے اور کبھی شرکت مرتبہ اور منصب میں ہوتی ہے اس کی نفی لفظ صمد سے کی گئی ہے۔
کبھی شرکت نسبت میں ہوتی ہے جس کا لفظ لم یلد ولم یولد سے نفی کی گئی ہے اور کبھی شرکت کام اور تاثیر میں ہوتی ہے اس کی نفی لفظ ولم یکن له کفوا أحد سے کی گئی ہے۔
آگے حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ دنیا کے مذاہب باطلہ پانچ ہیں۔
اول دہریہ‘ دوم فلاسفہ‘ سوم ثنویہ‘ چہارم یہوونصاریٰ پنجم مجوسیاں اور ہر ایک کے ذکر میں حضرت شاہ صاحب نے اس سورہ کا وہ کلمہ ذکر کیا ہے جس سے اس فرقہ کی تردید ہوتی ہے۔
پس اس سورہ کو مسئلہ میں توحید میں جامع ومانع قرار دیا گیا ہے اسی لیے اس کی فضیلت ہے جو اس حدیث میں مذکور ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7374   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5015  
5015. سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے ایک اور روایت ہے انہوں نے کہا نبی ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا: کیا تم میں سے کسی کے لیے یہ ممکن نہیں کہ قرآن کا ایک تہائی حصہ ایک رات میں پڑھا کرے؟ صحابہ کرام‬ ؓ ک‬و یہ عمل بہت مشکل معلوم ہوا۔ انہوں نے عرٖض کی: اللہ کے رسول! ہم میں نے کون اس طاقت رکھتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہُ الوَاحِدُ الصَمدُ (قل اللہ أحد) قرآن مجید کا ایک تہائی حصہ ہے۔ محمد بن یوسف فربری نے بیان کیا کہ میں نے ابو عبداللہ (امام بخاری) کے کاتب ابو جعفر محمد بن ابی حاتم سے سنا کہ یہ روایت ابراہیم نخعی کے واسطہ سے مرسل ہے لیکن ضحاک مشرقی سے متصل بیان ہوئی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5015]
حدیث حاشیہ:
اسی لئے حضرت امام بخاری نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں نکالا، اگر یہ حدیث صرف ابراہیم نخعی کے طریق سے مروی ہوتی تو حضرت امام بخاری اس کو نہ لاتے کیونکہ وہ منقطع ہے۔
امام بخاری اور اکثر اہلحدیث منقطع کو مرسل اور متصل کو مسند کہتے ہیں (وحیدی)
اس سورت کو سورۃ اخلاص کا نام دیا گیا ہے، اس کی فضیلت کے لئے یہ احادیث کافی ہیں جو حضرت امام نے یہاں نقل فرمائی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5015   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5015  
5015. سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے ایک اور روایت ہے انہوں نے کہا نبی ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا: کیا تم میں سے کسی کے لیے یہ ممکن نہیں کہ قرآن کا ایک تہائی حصہ ایک رات میں پڑھا کرے؟ صحابہ کرام‬ ؓ ک‬و یہ عمل بہت مشکل معلوم ہوا۔ انہوں نے عرٖض کی: اللہ کے رسول! ہم میں نے کون اس طاقت رکھتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہُ الوَاحِدُ الصَمدُ (قل اللہ أحد) قرآن مجید کا ایک تہائی حصہ ہے۔ محمد بن یوسف فربری نے بیان کیا کہ میں نے ابو عبداللہ (امام بخاری) کے کاتب ابو جعفر محمد بن ابی حاتم سے سنا کہ یہ روایت ابراہیم نخعی کے واسطہ سے مرسل ہے لیکن ضحاک مشرقی سے متصل بیان ہوئی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5015]
حدیث حاشیہ:

اس سورت سے خصوصی محبت اور اس کا وظیفہ دین و دنیا کی ترقی کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتا ہے کیونکہ اس میں توحید خالص کا بیان تمام اقسام شرک کی مذمت اور عقائد باطلہ کی بیخ کنی ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی فضیلت میں جو احادیث بیان کی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ تین مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ لینے سے پورے قرآن کی تلاوت کا ثواب ملتا ہے۔
رات کے وقت سورہ اخلاص کی تلاوت کرنے والے خود حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے جو حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مادری بھائی اور ان کے پڑوس میں رہتے تھے۔
اس کی صراحت ایک دوسری روایت میں ہے۔
(مسند أحمد: 15/3)
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو فوجی دستے کا سالار بنایا تو وہ انھیں نماز پڑھاتا اور ہر رکعت میں سورہ اخلاص پڑھتا تھا۔
اس نے بتایا کہ اس میں اللہ کی صفات ہیں لہٰذا میں اسے پسند کرتا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ اس سے بھی محبت کرتا ہے۔
(صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7375)
ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص ہر رکعت میں قراءت کا آغاز ﴿ قُل ھُوَ اللہُ أَحَد﴾ سے کرتا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا:
﴿ قُل ھُوَ اللہُ أَحَد﴾ سے محبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تجھے جنت میں داخل کر دیا ہے۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 772)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورت کو قرآن کا تہائی قرار دیا ہے ہم اس کی وضاحت آئندہ کتاب التوحید میں کریں گے۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5015   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7374  
7374. سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے دوسرے شخص کو بار بار «قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ» پڑھتے سنا۔ پھر جب صبح ہوئی تو وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ واقعہ آپ کےسامنے اس طرح سے بیان کیا گویا وہ آدمی اسے بہت کم شمار کرتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ سورت ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔ اسماعیل بن جعفر نے امام مالک سے یہ اضافہ بیان کیا ہے کہ سیدنا ابو سعید خدری ؓ نے کہا: مجھے میرے بھائی سیدنا قتادہ بن نعمان ؓ نے نبی ﷺ سے حدیث بیان کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7374]
حدیث حاشیہ:

ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے بھائی حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زما نے میں صبح تک (قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ)
یعنی سورہ اخلاص پڑھتا رہا، اس پر کچھ زیادہ نہ پڑھا۔
جب صبح ہوئی تووہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔
اس کے بعدپوری حدیث بیان کی۔
(صحیح البخاري، فضائل قرآن، حدیث: 5013)
اس حدیث میں سورہ اخلاص کو تہائی قرآن کے برابر قرار دیا گیا ہے۔
اس کی مختلف توجیہات بیان کی جاتی ہیں۔
:
۔
ایک تہائی احکام ومسائل پر مشتمل ہے۔
اس میں حلال وحرام کا بیان ہے اور اس ایک تہائی میں جزاوسزا اور وعدہ وعید کا ذکر ہے۔
تیسری تہائی اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کے اسماء کے لیے ہے۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ کے نام اور اس کی صفات کا بیان ہے، اس لیے اسے تہائی قرآن کہا گیا ہے۔
۔
مضامین قرآن کے تین حصے ہیں:
ایک حصے میں توحید الٰہی اور اللہ تعالیٰ کے افعال اور اس کی صفات کا بیان ہے۔
دوسرے حصے میں قصص وواقعات بیان ہوئے ہیں اورتیسرا حصہ احکام شریعت پر مشتمل ہے۔
چونکہ اس سورت میں توحید خالص اور اس کی صفات کا بیان ہے، اس لیے اسے تہائی قرآن کیا گیا ہے۔
۔
قرآن مجید میں بنیادی طور پر تین قسم کے عقائد بیان ہوئے ہیں، یعنی توحید، رسالت اورآخرت، اس سورت میں عقیدہ توحید کو بڑے جامع انداز میں بیان کیا گیا ہے، اس لیے اسے قرآن کے ایک تہائی کےبرابر قراردیا گیا ہے۔

معتزلہ اور جہمیہ کا خیال ہے کہ کلام اللہ تعالیٰ تمام تر اللہ کی صفات پر مشتمل ہے لہذا کلام اللہ میں تفاضل اور برتری جائز نہیں۔
یہ عقیدہ جہالت کپر مبنی ہے کیونکہ کلام اللہ میں وہ خبر جو اس کی حمد وثنا پر مشتمل ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا بیان ہے اس خبر سے کہیں بڑھ کر ہے جس میں ابلیس، فرعون، ابولہب اور ھامان وغیرہ کا ذکر ہے اگرچہ ان سب کو کلام اللہ ہی کہا جاتا ہے، تاہم ان میں سے ایک کو دوسرے پر برتری حاصل ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ (قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ)
اور (تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ)
دونوں اللہ تعالیٰ کا کلام ہیں، اس اعتبار سے دونوں برابر ہیں لیکن ان میں جس چیز کی خبر دی گی ہے اس اعتبار سے دونوں میں بہت فرق ہے۔
(قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ)
ایک ایسا کلام ہے۔
جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے متعلق خبر دی ہے اور(تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ)
میں اپنی مخلوق میں سے ایک بدتر انسان کی خبر دی ہے۔
اس اعتبار سے ایک کو دوسرے پر برتری حاصل ہے۔
(مجموع الفتاویٰ 57/17)
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ مشرکین نے کہا:
اےمحمد (صلی اللہ علیہ وسلم)
! اپنے رب کا نسب بیان کریں تو اس وقت یہ سورت نازل ہوئی۔
(المستدرك للحاکم:
540/2)

الغرض اس سورت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے۔
وہی اکیلا کائنات کا خالق ومالک ہے۔
پوری کائنات کا نظام اس اکیلے کے پاس ہے۔
وہی مارتا اور وہی زندہ کرتا ہے۔
وہی اکیلا قادر مطلق، مددگار حاجت روا اور مشکل کشا ہے۔
وہی دعائیں سنتا اور مرادیں پوری کرتا ہے۔
اس سورت کو مسئلہ توحید میں جامع مانع قرار دیا گیا ہے۔
حدیث میں اس کی فضیلت اسی وجہ سے بیان ہوئی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7374