نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
جہاد سے متعلق مسائل

8. مال غنیمت کا بیان

حدیث نمبر: 565
508- مالك عن يحيى بن سعيد عن عمر بن كثير بن أفلح عن أبى محمد مولى أبى قتادة عن أبى قتادة بن ربعي أنه قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام حنين، فلما التقينا كانت للمسلمين جولة، قال: فرأيت رجلا من المشركين قد علا رجلا من المسلمين، قال: فاستدرت له حتى أتيته من ورائه، فضربته بالسيف على حبل عاتقه حتى قطعت الدرع، قال: فأقبل على فضمني ضمة وجدت منها ريح الموت، ثم أدركه الموت فأرسلني. قال: فلقيت عمر بن الخطاب فقلت: ما بال الناس؟ فقال: أمر الله، ثم إن الناس تراجعوا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”من قتل قتيلا له عليه بينة، فله سلبه“ قال: فقمت فقلت: من يشهد لي؟ ثم جلست، ثم قال الثانية ”من قتل قتيلا له عليه بينة، فله سلبه“ قال: فقمت، ثم قلت: من يشهد لي؟ ثم جلست، ثم قال ذلك الثالثة، فقمت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ”ما لك يا أبا قتادة؟“ فاقتصصت عليه القصة، فقال رجل من القوم: صدق يا رسول الله، وسلب ذلك القتيل عندي، فأرضه منه يا رسول الله، فقال أبو بكر: لاها الله، إذا لا يعمد إلى أسد من أسد الله يقاتل عن الله وعن رسوله فيعطيك سلبه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”صدق، فأعطه إياه“ قال أبو قتادة: فأعطانيه، فبعث الدرع، فابتعت به مخرفا فى بني سلمة، فإنه لأول مال تأثلته فى الإسلام.
سیدنا ابوقتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حنین والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے پھر جب ہمارا (کافروں سے) سامنا ہوا تو مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی، میں نے مشرکوں میں سے ایک آدمی دیکھا جس نے ایک مسلمان کو نیچے گرایا ہوا تھا تو میں پیچھے سے آیا اور اس کے کندھے پر تلوار کا وار کیا حتی کہ میں نے اس کی زرہ کاٹ دی، پس وہ میری طرف آیا، تو مجھے بھینچ کر دبا لیا حتی کہ میں نے موت کی خوشبو سونگھی یعنی مجھے مرنے کا خوف ہوا۔ پھر وہ مر گیا تو مجھے چھوڑ دیا۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے کہا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ کا حکم ہے۔ پھر لوگ واپس آ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی (کافر) کو قتل کیا ہے (اور) اس کے پاس دلیل ہے تو مقتول کا سامان اسے ہی ملے گا۔ لہٰذا میں نے کھڑے ہو کر کہا: میری گواہی کون دے گا؟ پھر میں بیٹھ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری دفعہ فرمایا کہ جس نے کسی کو قتل کیا ہے (اور) اس کے پاس دلیل ہے تو اس کا سامان اسے ہی ملے گا۔ لہٰذا میں نے کھڑے ہو کر کہا: میری گواہی کون دے گا؟ پھر میں بیٹھ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری دفعہ کہا: تو میں کھڑا ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوقتادہ! کیا بات ہے؟ تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا قصہ سنایا۔ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا: یا رسول اللہ! انہوں نے سچ کہا ہے اور اس مقتول کا سامان میرے پاس ہے۔ یا رسول اللہ! آپ انہیں راضی کریں کہ یہ سامان مجھے دے دیں تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا فیصلہ نہیں کریں گے کہ اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر اللہ اور رسول کی طرف سے لڑے اور مقتول کا سامان تجھے دے دیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہوں (ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ) نے سچ کہا ہے، تم اس مقتول کا سامان (ابوقتادہ کو) دے دو۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس نے سامان مجھے دے دیا تو میں نے زرہ بیچ کر بنوسلمہ میں ایک باغ خریدا۔ یہ اسلام میں پہلا مال غنیمت تھا جو میری جائیداد بنا۔
تخریج الحدیث: «508- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 454/2، 455 ح 1005، ك 21 ب 10 ح 18) التمهيد 242/23، الاستذكار: 942، و أخرجه البخاري (3142) ومسلم (1751) من حديث مالك به.»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 565 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 565  
´مال غنیمت کا بیان`
«. . . 508- مالك عن يحيى بن سعيد عن عمر بن كثير بن أفلح عن أبى محمد مولى أبى قتادة عن أبى قتادة بن ربعي أنه قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام حنين، فلما التقينا كانت للمسلمين جولة، قال: فرأيت رجلا من المشركين قد علا رجلا من المسلمين، قال: فاستدرت له حتى أتيته من ورائه، فضربته بالسيف على حبل عاتقه حتى قطعت الدرع، قال: فأقبل على فضمني ضمة وجدت منها ريح الموت، ثم أدركه الموت فأرسلني. قال: فلقيت عمر بن الخطاب فقلت: ما بال الناس؟ فقال: أمر الله، ثم إن الناس تراجعوا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قتل قتيلا له عليه بينة، فله سلبه قال: فقمت فقلت: من يشهد لي؟ ثم جلست، ثم قال الثانية من قتل قتيلا له عليه بينة، فله سلبه قال: فقمت، ثم قلت: من يشهد لي؟ ثم جلست، ثم قال ذلك الثالثة، فقمت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما لك يا أبا قتادة؟ فاقتصصت عليه القصة، فقال رجل من القوم: صدق يا رسول الله، وسلب ذلك القتيل عندي، فأرضه منه يا رسول الله، فقال أبو بكر: لاها الله، إذا لا يعمد إلى أسد من أسد الله يقاتل عن الله وعن رسوله فيعطيك سلبه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: صدق، فأعطه إياه قال أبو قتادة: فأعطانيه، فبعث الدرع، فابتعت به مخرفا فى بني سلمة، فإنه لأول مال تأثلته فى الإسلام. . . .»
. . . سیدنا ابوقتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حنین والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے پھر جب ہمارا (کافروں سے) سامنا ہوا تو مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی، میں نے مشرکوں میں سے ایک آدمی دیکھا جس نے ایک مسلمان کو نیچے گرایا ہوا تھا تو میں پیچھے سے آیا اور اس کے کندھے پر تلوار کا وار کیا حتی کہ میں نے اس کی زرہ کاٹ دی، پس وہ میری طرف آیا، تو مجھے بھینچ کر دبا لیا حتی کہ میں نے موت کی خوشبو سونگھی یعنی مجھے مرنے کا خوف ہوا۔ پھر وہ مر گیا تو مجھے چھوڑ دیا۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے کہا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ کا حکم ہے۔ پھر لوگ واپس آ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی (کافر) کو قتل کیا ہے (اور) اس کے پاس دلیل ہے تو مقتول کا سامان اسے ہی ملے گا۔ لہٰذا میں نے کھڑے ہو کر کہا: میری گواہی کون دے گا؟ پھر میں بیٹھ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری دفعہ فرمایا کہ جس نے کسی کو قتل کیا ہے (اور) اس کے پاس دلیل ہے تو اس کا سامان اسے ہی ملے گا۔ لہٰذا میں نے کھڑے ہو کر کہا: میری گواہی کون دے گا؟ پھر میں بیٹھ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری دفعہ کہا: تو میں کھڑا ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوقتادہ! کیا بات ہے؟ تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا قصہ سنایا۔ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا: یا رسول اللہ! انہوں نے سچ کہا ہے اور اس مقتول کا سامان میرے پاس ہے۔ یا رسول اللہ! آپ انہیں راضی کریں کہ یہ سامان مجھے دے دیں تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا فیصلہ نہیں کریں گے کہ اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر اللہ اور رسول کی طرف سے لڑے اور مقتول کا سامان تجھے دے دیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہوں (ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ) نے سچ کہا ہے، تم اس مقتول کا سامان (ابوقتادہ کو) دے دو۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس نے سامان مجھے دے دیا تو میں نے زرہ بیچ کر بنوسلمہ میں ایک باغ خریدا۔ یہ اسلام میں پہلا مال غنیمت تھا جو میری جائیداد بنا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 565]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 3142، ومسلم 1751، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ میدانِ جنگ میں دست بدست لڑائی میں جو مسلمان کسی کافر کو قتل کرے تو اس کافر کا سامان مسلمان کو ملتا ہے۔ کفار سے لڑائی (جہاد) کی بدولت حاصل ہونے والا مال غنیمت کہلاتا ہے جسے خلیفہ کی طرف سے مجاہدین میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
➋ زمین وجائیداد خریدنا جہاد اور تقوے کے خلاف نہیں ہے۔
➌ غزوۂ حنین کے شروع میں صحابۂ کرام کو شکست کا سامنا کرنا پڑا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت سے فتح میں تبدیل کردیا۔
➍ شرعی عذر یا جنگی تدبیر کے پیشِ نظر میدانِ جنگ سے محدود ومؤقت پسپائی ہو سکتی ہے۔
➎ سیدنا ابوقتادہ الانصاری رضی اللہ عنہ بہت بہادر اور سچے انسان تھے۔ سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے انھیں اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر قرار دیا ہے۔
➏ مسلمان بھائی کی مدد کرنا مجاہدین کا طرۂ امتیاز ہے۔
➐ ثقہ راوی کی توثیق کرنی چاہئے جیسا کہ سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کے طرزِ عمل سے ثابت ہے۔ اس کے مفہوم مخالف سے معلوم ہوا کہ مجروح راوی پر جرح کرنا جائز ہے۔
➑ اہلِ اقتدار کو چاہئے کہ ہر صاحبِ حق تک اس کا حق پہنچانے میں ہر ممکن تعاون کریں۔
➒ زمینوں کی خرید و فروخت کا کاروبار جائز ہے بشرطیکہ اس میں دھوکا، بدنیتی اور فراڈ وغیرہ نہ ہو۔
➓ اپنا حق لینا ہر مسلمان کا بنیادی حق ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 508   


حدیث نمبر: 566
213- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث سرية فيها عبد الله بن عمر قبل نجد، فغنموا إبلا كثيرة، فكانت سهمانهم اثني عشر بعيرا أو أحد عشر بعيرا ونفلوا بعيرا بعيرا.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف (مجاہدین کا) ایک دستہ روانہ کیا جس میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے۔ پھر انہیں مال غنیمت میں بہت سے اونٹ ملے تو ہر آدمی کے حصے میں بارہ بارہ یا گیارہ گیارہ اونٹ آئے پھر ہر ایک کو ایک ایک اونٹ زائد دیا گیا۔
تخریج الحدیث: «213- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 450/2 ح 1000، ك 21 ب 6 ح 15) التمهيد 35/14، الاستذكار:939، و أخرجه البخاري (3134) ومسلم (1749/35) من حديث مالك به.» ‏‏‏‏
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 566 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 566  
´مال غنیمت کا بیان`
«. . . 213- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث سرية فيها عبد الله بن عمر قبل نجد، فغنموا إبلا كثيرة، فكانت سهمانهم اثني عشر بعيرا أو أحد عشر بعيرا ونفلوا بعيرا بعيرا. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف (مجاہدین کا) ایک دستہ روانہ کیا جس میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے۔ پھر انہیں مال غنیمت میں بہت سے اونٹ ملے تو ہر آدمی کے حصے میں بارہ بارہ یا گیارہ گیارہ اونٹ آئے پھر ہر ایک کو ایک ایک اونٹ زائد دیا گیا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 566]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 3134، ومسلم 35/1749، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اگر امیر المؤمنین یا ان کا مامور خُمس نکالنے کے بعد مالِ غنیمت یا اس میں سے کچھ اپنے لشکر میں تقسیم کردے تو لشکر والوں کے لئے یہ حلال ہے۔
➋ اگر کفار کی طرف سے حملے کا خطرہ ہو تو خلیفہ کے حکم سے جہادِ تقدیم کے طور پر حملہ کیا جا سکتا ہے۔
➌ کفار سے حالت جنگ میں جو مال ملے اسے مال غنیمت کہتے ہیں۔
➍ سعید بن المسیب رحمہ اللہ فرماتے تھے: لوگ جب میدانِ جہاد میں مالِ غنیمت کی تقسیم کرتے تو ایک اونٹ دس بکریوں کے برابر قرار دیتے تھے۔ [الموطأ 2/450 ح1001، وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 213   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
شیخ الحدیث مولانا عبد العزیز علوی حفظ اللہ
مولانا داود راز رحمہ اللہ
الشیخ عبدالستار الحماد حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4559  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے اگر بڑے لشکر سے الگ کر کے کوئی دستہ کسی مہم پر روانہ کیا جائے اور وہ دستہ کامیاب ہو کر غنیمت کا مال حاصل کر لے تو وہ تمام لشکر کا شمار ہو گا کیونکہ وہ دستہ کی پشت پر تھا اور دشمن پر اس کا بھی رعب و دبدبہ تھا،
لیکن اس دستہ کو اس غنیمت میں کچھ زائد حصہ ان کی حوصلہ افزائی کے لیے دیا جائے گا،
اس لیے امیر دستہ نے جو ہر آدمی کو ایک اونٹ دیا تھا،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی اعتراض نہیں فرمایا،
اس لیے حدیث تقریری کے طور پر اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا،
لیکن اس مسئلہ میں اختلاف ہے وہ زائد حصہ اصل غنیمت میں سے دیا جائے گا یا مجاہدین کے چار حصوں سے یا خمس کے پانچواں حصہ میں سے،
شوافع کا راجح مسلک یہ ہے کہ وہ خمس کے خمس سے دیا جائے گا اور احناف کا موقف یہ ہے کہ اگر امیر نے انعام کا اعلان غنیمت کے حصول سے پہلے کیا ہے تو وہ مجاہدوں کے چار حصوں سے دیا جائے گا اور اگر پہلے اعلان نہیں کیا تو پھر خمس سے دیا جائے گا،
امام مالک کے نزدیک خمس سے دیا جائے گا اور امام احمد کے نزدیک اصل غنیمت سے،
حسن بصری،
اوزاعی اور ابو ثور کا بھی یہی نظریہ ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4559   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3134  
3134. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نجد کی طرف ایک فوجی دستہ بھیجا جس میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بھی شامل تھے۔ انھیں بہت سے اونٹ بطور غنیمت ملے۔ انھیں تقسیم کیا گیا تو ہر سپاہی کے حصے میں بارہ بارہ گیارہ گیارہ اونٹ آئے اور ایک ایک اونٹ انھیں مزید انعام میں دیاگیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3134]
حدیث حاشیہ:
اور ظاہر ہے کہ لشکر کے سردار نے یہ انعام خمس میں سے دیا ہوگا۔
گویہ فعل لشکر کے سردار کا تھا مگر آنحضرت ﷺ کے زمانے میں ہوا‘ آپ ﷺ نے سنا ہوگا اور اس پر سکوت فرمایا تو حجت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3134   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4338  
4338. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے نجد کی طرف ایک لشکر روانہ کیا۔ میں بھی اس میں شریک تھا۔ ہمارے حصے میں بارہ بارہ اونٹ آئے اور ایک ایک اونٹ بطور انعام ملا، اس طرح ہم تیرہ، تیرہ اونٹ لے کر واپس لوٹے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4338]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے اس غزوے کو طائف کے بعد ذکر کیا ہے جبکہ دیگر اہل مغازی کا موقف ہے کہ یہ لشکر فتح مکہ کو جانے سے پہلے آپ نے روانہ کیا تھا۔
اس کے سالار حضرت ابوقتادہ ؓ تھے۔
اس میں صرف پچیس آدمی تھے جنھوں نے غطفان کے مقابلے میں دوسواونٹ اور دوہزاربکریاں حاصل کیں۔
(فتح الباري: 70/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4338