نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
خرید و فروخت کے مسائل

13. جھوٹی بولی لگانا منع ہے

حدیث نمبر: 507
243- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن النجش.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجش (جھوٹی بولی لگانے) سے منع فرمایا ہے۔
تخریج الحدیث: «243- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 684/2 ح 1428، ك 31 ب 45 ح 97) التمهيد 347/13، الاستذكار:1350، و أخرجه البخاري (2142) ومسلم (1516/13) من حديث مالك به.»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 507 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 507  
´جھوٹی بولی لگانا منع ہے`
«. . . 243- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن النجش. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجش (جھوٹی بولی لگانے) سے منع فرمایا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 507]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2142، ومسلم 13/1516، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ لغت میں نجش کا مفہوم یہ ہے کہ بیع وغیرہ کی بولی میں بائع کی ہمدردی اور خریداری کی ترغیب کے لئے قیمت پڑھانا (اور خریدنے کا ارادہ نہ کرنا) اسے بیع مزایدہ کہتے ہیں، یہ شرعاً مکروہ ہے۔ (القاموس الوحید ص1613 ج)
امام مال نے بھی تقریباً یہی مفہوم بیان کیا ہے۔
➋ بولی میں اگر دھوکا مقصود نہ ہو تو جائز ہے۔ دیکھئے حدیث سابق: 242
➌ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے گھر میں کوئی چیز نہیں ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! ایک کمبل ہے جس ہم اوڑھتے بھی ہیں اور بچھاتے بھی ہیں اور ایک پیالہ ہے جس میں پیتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دونوں چیزیں یہاں لے آؤ۔ وہ لے آئے تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنے ہاتھ میں پکڑ کر فرمایا: یہ چیزیں کون خریدتا ہے؟ ایک آدمی نے کہا: میں یہ دونوں چیزیں ایک درہم میں خریدتا ہوں۔ آپ نے دو یا تین دفعہ فرمایا: ایک درہم سے زیادہ کون دیتا ہے؟ ایک آدمی نے کہا: میں یہ دونوں چیزیں دو درہم میں خریدتا ہوں، آپ نے اس سے دو درہم لے کر اس انصاری کو دے دیئے۔۔۔ الخ [سنن ابي داود: 1641، وسنده حسن لذاته وحسنه الترمذي: 1218، ابوبكر الحنفي حسن الحديث ولم يصح قول البخاري فيه: لا يصح حديثه وأخطأ من ضعف هذا الحديث]
اس حسن لزاتہ حدیث سے جائز بولی کا جواز ثابت ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 243   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ
مولانا داود راز رحمہ اللہ
الشیخ عبدالستار الحماد حفظ اللہ
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4509  
´فرضی بھاؤ پر بھاؤ بڑھانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرضی بھاؤ پر بھاؤ بڑھانے سے منع فرمایا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4509]
اردو حاشہ:
دیکھئے حدیث: 4496، فائدہ: 3۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4509   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6963  
6963. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بلاوجہ قیمت بڑھانے سے منع کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6963]
حدیث حاشیہ:
یعنی محض جھوٹ بول کر بھاؤ بڑھانا اور گاہکوں کو دھوکہ دینا جیسا کہ نیلام کرنے والے ایجنٹ بنا لیتے ہیں اور وہ لوگوں کو فریب دینے کے لیے بھاؤ بڑھاتے رہتے ہیں۔
یہ دھوکہ دہی بہت بری ہے۔
کتنے غریب اس دھوکہ میں آکر لٹ جاتے ہیں۔
لہٰذا ایسی حیلہ سازی سے بہت ہی زیادہ بچنے کی کوشش کرنا چاہئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6963   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2142  
2142. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے دھوکا دینے کے لیے نرخ بڑھانے سے منع کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2142]
حدیث حاشیہ:
نجش خاص طور پر شکار کو بھڑکانے کے معنی میں آتا ہے۔
یہاں ایک خاص مفہوم شرعی کے تحت یہ مستعمل ہے۔
وہ مفہوم یہ کہ کچھ تاجر اپنے غلط گو ایجنٹ مقرر کردیتے ہیں جن کا کام یہی ہوتا ہے کہ ہر ممکن صورت میں خریدنے والوں کو دھوکہ دے کر زیادہ قیمت وصول کرائیں۔
ایسے ایجنٹ بعض دفعہ گاہک کی موجودگی میں اس چیز کا دام بڑھا کر خریدار بنتے ہیں۔
حالانکہ وہ خریدار نہیں ہیں۔
گاہک دھوکہ میں آکر بڑھے ہوئے داموں پر وہ چیز خرید لیتا ہے۔
الغرض بیع میں دھوکہ فریب کی جملہ صورتیں سخت ترین گناہ کبیرہ کا درجہ رکھتی ہیں۔
شریعت نے سختی سے ان کو روکا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2142   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2142  
2142. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے دھوکا دینے کے لیے نرخ بڑھانے سے منع کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2142]
حدیث حاشیہ:
(1)
نجش کے لغوی معنی،شکار کو اپنی جگہ سے بھگانا ہے تاکہ اسے اپنے جال میں پھانسا جائے۔
شرع میں اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص قیمت زیادہ لگائے، حالانکہ اس کا خریدنے کا ارادہ نہیں۔
وہ صرف دوسرے کو چیز خریدنے پر اکساتا ہے اور دھوکے میں ڈالتا ہے۔
چونکہ فروخت کرنے والااس کی موافقت کرتا ہے اس لیے دونوں گناہ میں شریک ہوں گے۔
(2)
ہمارے ہاں تجارتی منڈیوں میں تاجر حضرات ایسے ایجنٹ مقرر کردیتے، جن کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر ممکن خریدار کو دھوکا دے کر زیادہ قیمت دینے پر آمادہ کریں۔
ایسے ایجنٹ بعض اوقات خریدار کی موجودگی میں مطلوبہ چیز کی قیمت بڑھا کر خریدار بنتے ہیں، حالانکہ یہ خریدار نہیں ہوتے۔
گاہک دھوکے میں آکر زیادہ قیمت پر چیز خرید لیتا ہے۔
الغرض خرید و فروخت میں دھوکا دہی کی جملہ صورتیں حرام اور کبیرہ گناہ کا درجہ رکھتی ہیں۔
شریعت نے ان سے منع کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2142   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6963  
6963. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بلاوجہ قیمت بڑھانے سے منع کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6963]
حدیث حاشیہ:

نجش یہ ہے کہ کسی چیز کی قیمت بڑھانا جبکہ اسے خریدنے کا ارادہ نہ ہو، تاکہ اس طرح دوسرے لوگوں کو وہ چیز خریدنے پر آمادہ کیا جائے۔
چونکہ ایسا کرنا قیمت زیادہ کرنے کا حیلہ ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
آج کل ہماری منڈیوں میں یہی دھندا ہوتا ہے، چنانچہ نیلام کرنے والے محض جھوٹ بول کر بھاؤ بڑھاتے ہیں اور دوسروں کو دھوکا اور فریب دیتے ہیں۔
حالانکہ یہ ایجنٹ حضرات چیزیں خریدنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
اس قسم کی دھوکا دہی بہت بُری بات ہے کتنے ہی بھولے بھالے غریب اس دھوکے میں آکر لٹ جاتے ہیں۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ خریدوفروخت کرتے وقت اس طرح کی حیلہ سازی ہرگزنہیں کرنی چاہیے تاکہ غریب عوام دھوکے میں نہ آئیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6963   


حدیث نمبر: 508
353- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”لا تلقوا الركبان للبيع، ولا يبع بعضكم على بيع بعض، ولا تناجشوا، ولا يبع حاضر لباد، ولا تصروا الإبل والغنم، فمن ابتاعها بعد ذلك فهو بخير النظرين بعد أن يحلبها، إن رضيها أمسكها، وإن سخطها ردها وصاعا من تمر.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: باہر سے سودا لانے والوں کو سودا خریدنے کے لئے پہلے جا کر نہ ملو اور نہ تم میں سے کوئی آدمی دوسرے سودے پر سودا کرے اور (دھوکا دینے کے لئے جھوٹی) بولی نہ لگاو اور شہری دیہاتی کے لئے نہ بیچے اور اونٹنیوں اور بکریوں کے تھنوں میں (بیچنے کے لئے) دودھ نہ روکو، پھر اگر کوئی شخص اس کے بعد ایسا جانور خرید لے تو اسے دوھنے کے بعد دو میں سے ایک اختیار ہے: اگر اسے پسند ہو تو (سودا باقی رکھ کر) اس جانور کو اپنے پاس رکھ لے اور اگر ناپسند ہو تو اس جانور کو کھجوروں کے ایک صاع کے ساتھ واپس کر دے۔
تخریج الحدیث: «353- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 683/2، 684 ح 1428، ك 31 ب 45 ح 96) التمهيد 184/18، الاستذكار: 1349، وأخرجه البخاري (2150)، ومسلم (1515/11) من حديث مالك به.»