نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
کھانے اور مشروبات سے متعلق مسائل

13. اگر مچھلی سمندر میں مر جائے تو حلال ہے

حدیث نمبر: 407
486- مالك عن وهب بن كيسان عن جابر بن عبد الله أنه قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثا قبل الساحل وأمر عليهم أبا عبيدة بن الجراح وهم ثلاثمائة وأنا فيهم، فخرجنا حتى إذا كنا ببعض الطريق فني الزاد، فأمر أبو عبيدة بأزواد ذلك الجيش فجمع ذلك كله، فكان مزودي تمر؛ قال: فكان يقوتناه كل يوم قليلا قليلا حتى فني ولم تصبنا إلا تمرة تمرة فقلت: وما تغني تمرة؟ فقال: لقد وجدنا فقدها حيث فنيت. قال: ثم انتهينا إلى البحر فإذا حوت مثل الظرب، فأكل منه ذلك الجيش ثمان عشرة ليلة ثم أمر أبو عبيدة بضلعين من أضلاعه فنصبا، ثم أمر براحلة فرحلت، ثم مرت تحتهما ولم تصبهما.
سیدنا جابر بن عبداللہ (الانصاری رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساحل کی طرف تین سو صحابہ کا ایک دستہ بھیجا اور ان کا امیر سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو بنایا، میں بھی ان میں تھا۔ ہم روانہ ہوئے حتی کہ راستے میں زاد راہ ختم ہو گیا تو ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ لشکر میں باقی ماندہ خوراک اکٹھی کی جائے۔ پھر یہ ساری خوراک اکٹھی کر لی گئی تو کھجوروں کی دو تھیلیاں ہوئیں۔ اسے ہم بطور خوراک روزانہ تھوڑا تھوڑا استعمال کرتے رہے حتیٰ کہ یہ بھی ختم ہو گئیں اور ہمیں صرف ایک ایک کھجور ملتی تھی۔، (وہب بن کیسان رحمہ اللہ راوی نے) کہا: میں نے پوچھا: ایک کھجور سے کیا ہوتا تھا؟ تو انہوں نے فرمایا: جب یہ بھی ختم ہو گئی تو پھر ہمیں اس کی قدر محسوس ہوئی۔ پھر ہم سمندر کے پاس پہنچے تو ٹیلے کی مانند ایک (بڑی) مچھلی پڑی تھی تو اس لشکر نے اٹھارہ راتیں اس میں سے کھایا۔ پھر سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ اس کی دو پسلیاں کھڑی کی گئیں تو انہوں نے حکم دیا کہ ایک اونٹنی پر کجاوہ رکھا جائے، چنانچہ وہ ان کے نیچے سے گزر گئی اور ان سے لگی نہیں۔
تخریج الحدیث: «486- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 930/2، 931 ح 1794، ك 49 ب 10 ح 24) التمهيد 11/23، وقال: ”هذا حديث صحيح مجتمع عليٰ صحته“ الاستذكار: 1727، و أخرجه البخاري (2483) ومسلم (1935/21) من حديث مالك به.»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 407 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 407  
´اگر مچھلی سمندر میں مر جائے تو حلال ہے`
«. . . 486- مالك عن وهب بن كيسان عن جابر بن عبد الله أنه قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثا قبل الساحل وأمر عليهم أبا عبيدة بن الجراح وهم ثلاثمائة وأنا فيهم، فخرجنا حتى إذا كنا ببعض الطريق فني الزاد، فأمر أبو عبيدة بأزواد ذلك الجيش فجمع ذلك كله، فكان مزودي تمر؛ قال: فكان يقوتناه كل يوم قليلا قليلا حتى فني ولم تصبنا إلا تمرة تمرة فقلت: وما تغني تمرة؟ فقال: لقد وجدنا فقدها حيث فنيت. قال: ثم انتهينا إلى البحر فإذا حوت مثل الظرب، فأكل منه ذلك الجيش ثمان عشرة ليلة ثم أمر أبو عبيدة بضلعين من أضلاعه فنصبا، ثم أمر براحلة فرحلت، ثم مرت تحتهما ولم تصبهما. . . .»
. . . سیدنا جابر بن عبداللہ (الانصاری رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساحل کی طرف تین سو صحابہ کا ایک دستہ بھیجا اور ان کا امیر سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو بنایا، میں بھی ان میں تھا۔ ہم روانہ ہوئے حتی کہ راستے میں زاد راہ ختم ہو گیا تو ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ لشکر میں باقی ماندہ خوراک اکٹھی کی جائے۔ پھر یہ ساری خوراک اکٹھی کر لی گئی تو کھجوروں کی دو تھیلیاں ہوئیں۔ اسے ہم بطور خوراک روزانہ تھوڑا تھوڑا استعمال کرتے رہے حتیٰ کہ یہ بھی ختم ہو گئیں اور ہمیں صرف ایک ایک کھجور ملتی تھی۔، (وہب بن کیسان رحمہ اللہ راوی نے) کہا: میں نے پوچھا: ایک کھجور سے کیا ہوتا تھا؟ تو انہوں نے فرمایا: جب یہ بھی ختم ہو گئی تو پھر ہمیں اس کی قدر محسوس ہوئی۔ پھر ہم سمندر کے پاس پہنچے تو ٹیلے کی مانند ایک (بڑی) مچھلی پڑی تھی تو اس لشکر نے اٹھارہ راتیں اس میں سے کھایا۔ پھر سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ اس کی دو پسلیاں کھڑی کی گئیں تو انہوں نے حکم دیا کہ ایک اونٹنی پر کجاوہ رکھا جائے، چنانچہ وہ ان کے نیچے سے گزر گئی اور ان سے لگی نہیں۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 407]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2483، ومسلم 21 / 1935، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ وہ مچھلی جو سمندر میں مر جائے (طافیہ) وہ حلال ہے۔
➋ مخلوق میں سے کوئی بھی مشکل کشا نہیں ہے یعنی اسباب کے بغیر کوئی کسی کی مشکل حل نہیں کر سکتا۔
➌ صحابہ کرام غیب نہیں جانتے تھے، انہوں نے راہِ جہاد میں مشکلات کا سامنا کیا۔
➍ خلیفۃ المسلمین کی ذمہ داری ہے کہ اسلام کی دعوت اور اہلِ اسلام کے دفاع کے لئے عسکری دستے روانہ کرے۔
➎ مصیبت میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہئے۔
➏ سفر میں زادِ راہ لینا مسنون ہے۔
➐ خلیفہ اور اس کے مامورین کو چاہئے کہ ہر وقت مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور خیرخواہی میں مصروف رہیں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 486