نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
کھانے اور مشروبات سے متعلق مسائل

11. سوسمار (ضب) حلال ہے

حدیث نمبر: 404
70- مالك عن ابن شهاب عن أبى أمامة بن سهل بن حنيف عن عبد الله بن عباس عن خالد بن الوليد بن المغيرة المخزومي: أنه دخل مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بيت ميمونة، قال: فأتي بضب محنوذ فأهوى إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده، فقال بعض النسوة اللاتي فى بيت ميمونة: أخبروا رسول الله صلى الله عليه وسلم بما يريد أن يأكل منه. فقيل: هو ضب يا رسول الله. فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده، قال: فقلت: أحرام هو يا رسول الله؟ قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”لا، ولكنه لم يكن بأرض قومي فأجدني أعافه.“ قال خالد: فاجتررته فأكلته ورسول الله صلى الله عليه وسلم ينظر.
سیدنا خالد بن ولید بن مغیرہ المخرومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہوئے تو بھنا ہو ایک سو سمار (سمسار، ضب) آپ کے پاس لایا گیا تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے لیے اس کی طرف اپنا  ہاتھ بڑھایا سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں بعض عورتوں میں سے کسی نے کہا: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جسے کھانا چاہتے ہیں اس کے بارے میں آپ کو بتا دو کہا گیا: یا رسول اﷲ! یہ سمسار (ضب) ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اٹھا لیا۔ میں نے کہا: یا رسو ل اﷲ! کیا یہ حرام ہے؟ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں لیکن یہ ہماری قوم کے علاقے میں نہیں ہوتی، پس اس لیے میری طبیعت اس سے انکار کرتی ہے۔سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے اسے اپنی طرف کھینچا، پھر کھا لیا اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف دیکھ رہے تھے۔  ​
تخریج الحدیث: «70- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 968/2 ح 1871، ك 54 ب 4 ح 10) التمهيد 247/6، الاستذكار: 1807، و أخرجه البخاري (5537) من حديث مالك به ورواه مسلم (1944/44) من حديث الزهري به.»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 404 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 404  
´ہر حلال چیز کا کھانا ضروری نہیں`
«. . . عن خالد بن الوليد بن المغيرة المخزومي: انه دخل مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بيت ميمونة، قال: فاتي بضب محنوذ فاهوى إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده، فقال بعض النسوة اللاتي فى بيت ميمونة: اخبروا رسول الله صلى الله عليه وسلم بما يريد ان ياكل منه. فقيل: هو ضب يا رسول الله. فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده، قال: فقلت: احرام هو يا رسول الله؟ قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا، ولكنه لم يكن بارض قومي فاجدني اعافه . . .»
. . . سیدنا خالد بن ولید بن مغیرہ المخرومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہوئے تو بھنا ہو ایک سو سمار (سمسار، ضب) آپ کے پاس لایا گیا تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے لیے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں بعض عورتوں میں سے کسی نے کہا: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جسے کھانا چاہتے ہیں اس کے بارے میں آپ کو بتا دو کہا گیا: یا رسول اﷲ! یہ سمسار (ضب) ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اٹھا لیا۔ میں نے کہا: یا رسو ل اﷲ! کیا یہ حرام ہے؟ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں لیکن یہ ہماری قوم کے علاقے میں نہیں ہوتی، پس اس لیے میری طبیعت اس سے انکار کرتی ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 404]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 5537، من حديث مالك به ورواه مسلم 44/1944، من حديث الزهري به]

تفقه
➊ ہر حلال چیز کا کھانا ضروری نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمسار (سانڈا) کے بارے میں فرمایا: نہ میں اسے کھاتا ہوں اور نہ میں اسے حرام قرار دیتا ہوں۔ [الموطأ 1/968 ح1872، وسنده صحيح وصححه الترمذي: 1790]
➋ سمسار (ضب/سانڈا) حلال ہے۔ بعض لوگ اس کا ترجمہ گوہ یا گرگوہ کرتے ہیں جو کہ صحیح نہیں ہے۔
➌ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں تھے بلکہ صرف اللہ ہی عالم الغیب ہے اور یہ اللہ کی صفت خاصہ ہے۔
➍ اپنے دوستوں اور شاگردوں وغیرہم کی بہترین دعوت کرنا جائز ہے۔
➎ حلال و حرام قرار دینے کا اختیار کسی امتی کو نہیں ہے بلکہ اس کا دارومدار کتاب و سنت اور دلائل شرعیہ پر ہے۔
➏ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا، سیدنا خالد بن الولید رضی اللہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم دونوں کی خالہ تھیں۔
➐ گوشت کھانا جائز ہے۔
➑ یہ عین ممکن ہے کہ آدمی پر اپنے علاقے کی بعض مباح عادات و اطوار کا کچھ اثر باقی رہے۔
➒ جس مباح چیز کو دل نہ چاہے اسے چھوڑ دینا جائز ہے۔
➓ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا جائے اور آپ اسے دیکھتے ہوئے خاموشی اختیار کریں تو اسے تقریری حدیث کہتے ہیں اور یہ بھی قولی و فعلی حدیث کی طرح حجت ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 70   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ محمد حسین میمن حفظ اللہ
الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ
مولانا عطا اللہ ساجد حفظ اللہ
مولانا داود راز رحمہ اللہ
الشیخ عبدالستار الحماد حفظ اللہ
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5400  
´بھنا ہوا گوشت کھانا`
«. . . عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، قَالَ:" أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِضَبٍّ مَشْوِيٍّ، فَأَهْوَى إِلَيْهِ لِيَأْكُلَ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّهُ ضَبٌّ، فَأَمْسَكَ يَدَهُ، فَقَالَ خَالِدٌ: أَحَرَامٌ هُوَ؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنَّهُ لَا يَكُونُ بِأَرْضِ قَوْمِي، فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ، فَأَكَلَ خَالِدٌ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ . . .»
. . . خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھنا ہوا ساہنہ پیش کیا گیا تو آپ اسے کھانے کے لیے متوجہ ہوئے۔ اسی وقت آپ کو بتایا گیا کہ یہ ساہنہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ خالد رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا یہ حرام ہے؟ فرمایا کہ نہیں لیکن چونکہ یہ میرے ملک میں نہیں ہوتا اس لیے طبیعت اسے گوارا نہیں کرتی۔ پھر خالد رضی اللہ عنہ نے اسے کھایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَطْعِمَةِ: 5400]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5400 کا باب: «بَابُ الشِّوَاءِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد ترجمۃ الباب سے بھنا ہوا گوشت کے کھانے کے بارے میں ہے کہ اسے کھانا درست ہے، تحت الباب ضب والی روایت نقل فرمائی ہے، ضب تو آپ علیہ السلام نے طبیع ناگواری کی وجہ سے تناول نہیں فرمایا اور غور طلب پہلو یہ ہے کہ آپ علیہ السلام نے اس کے مشوی اور بھنے ہوئے ہونے پر اعتراض نہیں فرمایا اور نہ ہی اس پر کسی قسم کی نکیر فرمائی، جو اس بات کی دلیل ہے کہ بھنا ہوا گوشت کھانے میں مضائقہ نہیں ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ العسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام ابن بطال رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا کہ:
«واشار ابن بطال إلى أن أخذ الحكم للترجمة ظاهر من جهة أنه صلى الله عليه وسلم أهدى ليأكل ثم لم يمتنع الا لكونه ضباً فلو كان غير ضب لأكل.» [فتح الباري لابن حجر: 463/10]
ترجمۃ الباب کے لیے اخذ حکم اس جہت سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھانے کے لیے آگے ہوئے صرف اس کے ساہنہ کی وجہ سے ممتنع رہے، گویا اگر وہ نہ ہوتا تو یہ بھنا ہوا گوشت تناول فرماتے۔
قریب قریب یہی توجیہ ابن الملقن نے بھی دی، چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
«والحديث ظاهر لما ترجم له وهو جواز أكل الشواء، لأنه صلى الله عليه وسلم أهدى ليأكل منه، لو كان مما لا يتقزز أكله غير الضب.» [التوضيح لشرح الجامع الصحيح: 150/26]

لہٰذا ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضب اس لیے تناول نہیں فرمایا تھا کہ وہ آپ کی طبیعت مبارک کو پسند نہ تھا، حالانکہ وہ بھنا ہوا تھا، اس کے علاوہ اگر کوئی اور بھنا ہوا گوشت ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے تناول فرماتے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھنی ہوئی اشیاء پر نکیر نہیں فرمائی، لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔

نوٹ:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یاد رکھیں کہ ساہنہ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام نہیں ٹھہرایا پس یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کو ناگوار تھا اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو تناول نہیں فرماتے تھے۔ باقی دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ علیہ السلام کے سامنے ساہنہ کھاتے تھے لیکن آپ علیہ السلام ان کو روکتے نہ تھے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ساہنہ حلال ہے۔

امام ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ آدمی ساہنہ کھائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام نہیں قرار دیا، یقیناًً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر پر اسے کھایا گیا ہے آپ کی موجودگی میں اگر یہ حرام ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو کھانے کی اجازت نہ دینے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 129   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4321  
´ضب کا بیان۔`
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھنا ہوا ضب لایا گیا اور آپ کے قریب رکھا گیا، آپ نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا تاکہ اس سے کھائیں، تو وہاں موجود کچھ لوگوں نے آپ سے کہا: اللہ کے رسول! یہ تو ضب کا گوشت ہے، آپ نے اس سے اپنا ہاتھ اٹھا لیا، اس پر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا کہ اللہ کے رسول! کیا ضب حرام ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، لیکن میری قوم کی زمین میں نہیں تھا، لہٰذا مجھے اس سے گھن آ رہی ہے، پھر خالد رضی اللہ عنہ [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4321]
اردو حاشہ:
(1) کسی حلال چیز سے مطلقاً نفرت کرنا یا طبیعت کو اس کا اچھا نہ لگنا اس کی حرمت کو لازم نہیں، تفصیل گزشتہ حدیث کے فوائد میں دیکھی جا سکتی ہے۔
(2) کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دینا صرف اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے۔ اس کے سوا کوئی شخص طبعی کراہت یا کسی اور وجہ سے کسی حلال چیز کو حرام قرار نہیں دے سکتا۔
(3) حدیث میں مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ کسی کھانے پر عیب نہیں لگاتے تھے جبکہ اس حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے۔ بظاہر تعارض ہے، دونوں میں کیا تطبیق ہے؟ تعارض والی کوئی بات نہیں کیونکہ کسی چیز کی ناپسندیدگی اور چیز ہے اور اس پر عیب لگانا اور ہے۔ عیب لگانا تو یہ ہے کہ کوئی شخص یا اہل خانہ آپ کے لیے چیز پکائیں اور آپ اس پکی پکائی چیز میں کیڑے نکالنا شروع کر دیں وغیرہ۔
(4) حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اچھے لوگوں کی طبیعتیں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے سانڈے کا گوشت کھانے سے کراہت محسوس فرمائی جبکہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسے کھا لیا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4321   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3241  
´ضب (صحرائے نجد میں پائے جانے والے گوہ) کا بیان۔`
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بھنی ہوئی ضب (گوہ) لائی گئی، اور آپ کو پیش کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے لیے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا ۱؎، تو وہاں موجود ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ضب (گوہ) کا گوشت ہے (یہ سن کر) آپ نے اس سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، خالد رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ضب (گوہ) حرام ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، لیکن وہ میرے علاقہ میں نہیں ہوتی اس لیے میں اس سے گھن محسوس کرتا ہوں، (یہ سن کر) خالد رض۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الصيد/حدیث: 3241]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جوچیز دل کواچھی نہ لگے اسے نہ کھانا جائز ہے۔
یہ حلال چیز کو حرام قرار دینے میں شامل نہیں۔

(2)
میرے علاقے میں۔
اور ایک روایت میں (بارض قومی)
میری قوم کے علاقے میں۔
اس سے مراد مکہ مکرمہ اور اس کے قریب و جوار کا علاقہ ہے جوقریش کامسکن تھا۔
حجاز کے دوسرے حصوں میں ضب (سانڈے)
بکثرت موجود ہیں۔ (فتح الباری: 9/ 822)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3241   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5391  
5391. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا خالد بن ولید ؓ جنہیں اللہ کی تلوار کہا جاتا ہے، نے بتایا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ اپنی اور سیدنا ابن عباس ؓ کی خالہ سیدہ میمونہ ؓ کے پاس گئے۔ ان کے پاس بھنا ہوا سانڈا تھا جو ان کی ہمشیرہ سیدہ حفیدہ بنت حارث‬ ؓ ن‬جد سے لائی تھیں، انہوں نے یہ سانڈا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ آپ ﷺ کسی کھانے کی طرف ہاتھ بڑھائیں حتیٰ کہ بتایا جاتا کہ یہ کیا ہے اور اس چیز کا نام لیاجاتا۔ رسول اللہ ﷺ نے سانڈے کی طرف ہاتھ بڑھایا تو وہاں موجود عورتوں میں سے ایک عورت نے کہا: جوکچھ تم نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے رکھا ہے وہ رسول اللہ ﷺ کو بتاؤ کہ یہ سانڈا ہے۔ یہ سن کر آپ نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ سیدنا خالد بن ولید ؓ نے دریافت کیا: اللہ کے رسول! کیا سانڈا حرام ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں بلکہ یہ میری قوم کی سرزمین میں نہیں ہوتا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5391]
حدیث حاشیہ:
اس سے صاف ساہنہ کی حلت نکلتی ہے۔
قسطلانی نے کہا ائمہ اربعہ اس کی حلت کے قائل ہیں اور طحاوی نے جو حنفی ہیں، اس کی حلت کو ترجیح دی ہے مگر متاخرین حنفیہ جیسے صاحب ہدایہ نے اس کو مکروہ لکھا ہے اور ابوداؤد کی حدیث سے دلیل لی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ضب کھانے سے منع فرمایا مگر یہ حدیث ضعیف ہے جو صحیح حدیث ہے مقابلہ پر قابل استدلال نہیں ہے۔
بیان میں حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی والدہ لبابہ صغریٰ تھیں اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی والدہ لبابہ کبریٰ تھیں۔
یہ دونوں حارث کی بیٹی ہیں اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5391   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5537  
5537. سیدنا خالد بن ولید ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ام المومنین سیدہ میمونہ‬ ؓ ک‬ے گھر گئے تو آپ ﷺ کی خدمت میں ایک بھنا ہوا سانڈا پیش کیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا کہ اہل خانہ میں سے کسی عورت نے کہا کہ آپ جو کھانے کا ارادہ رکھتے ہیں اس کے متعلق آپ کو بتا دو۔ حاضرین نے کہا: اللہ کے رسول! یہ سانڈے کا گوشت ہے، چنانچہ آپ نے کھانے سے اپنا ہاتھ کھنیچ لیا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا یہ حرام ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں چونکہ یہ میری قوم کی سرزمین میں نہیں ہوتا، اس لیے مجھے اس سے گھن آتی ہے۔ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور اسے کھانا شروع کر دیا جبکہ رسول اللہ ﷺ دیکھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5537]
حدیث حاشیہ:
کوئی کھائے یا نہ کھائے یہ امر اختیاری ہے مگر ساہنہ کا کھانا بلا تردد جائز وحلال ہے۔
جیسا کہ یہاں احادیث میں مذکور ہے۔
امام احمد اور امام طحاوی نے نکالا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ساہنہ کے گوشت کی ہانڈیاں الٹ دی تھیں۔
یہ اس پر محمول ہے کہ پہلے آپ کو اس کے مسخ ہونے کا گمان تھا پھر یہ گمان جاتا رہا اور آپ نے صحابہ کو اس کے کھانے کی اجازت دی۔
حضرت خالد رضی اللہ عنہ اللہ کی تلوار سے ملقب ہیں جو سنہ 21ھ میں فوت ہوئے۔
رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5537   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5400  
5400. سیدنا خالد بن ولید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ کی خدمت میں ایک مرتبہ بھنا ہوا سانڈا پیش کیا گیا۔ جب آپ نے اسے کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو آپ سے کہا گیا: یہ تو سانڈا ہے۔ آپ ﷺ نے سن کر دست مبارک روک لیا۔ سیدنا خالد بن ولید ؓ نے عرض کی: اللہ کےرسول! کیا یہ حرام ہے؟ آپ نے فرمایا: (حرام تو نہیں) لیکن میری قوم کی سر زمین میں نہیں پایا جاتا اس لیے میں اس سے گھن محسوس کرتا ہوں۔ چنانچہ سیدنا خالد بن ولید ؓ نے اسے کھانا شروع کر دیا جبکہ رسول اللہ ﷺ دیکھ رہے تھےامام مالک نے ابن شہاب سے (ضب مشوي کے بجائے) ضب محنوذ کے الفاظ نقل کیے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5400]
حدیث حاشیہ:
باب کا مطلب حضرت امام بخاری نے اس حدیث سے یوں نکالا کہ صرف ساہنہ ہونے کی وجہ سے وہ گوشت آپ نے چھوڑ دیا ورنہ کھانے کو بھنا گوشت کھانا ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5400   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5391  
5391. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا خالد بن ولید ؓ جنہیں اللہ کی تلوار کہا جاتا ہے، نے بتایا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ اپنی اور سیدنا ابن عباس ؓ کی خالہ سیدہ میمونہ ؓ کے پاس گئے۔ ان کے پاس بھنا ہوا سانڈا تھا جو ان کی ہمشیرہ سیدہ حفیدہ بنت حارث‬ ؓ ن‬جد سے لائی تھیں، انہوں نے یہ سانڈا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ آپ ﷺ کسی کھانے کی طرف ہاتھ بڑھائیں حتیٰ کہ بتایا جاتا کہ یہ کیا ہے اور اس چیز کا نام لیاجاتا۔ رسول اللہ ﷺ نے سانڈے کی طرف ہاتھ بڑھایا تو وہاں موجود عورتوں میں سے ایک عورت نے کہا: جوکچھ تم نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے رکھا ہے وہ رسول اللہ ﷺ کو بتاؤ کہ یہ سانڈا ہے۔ یہ سن کر آپ نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ سیدنا خالد بن ولید ؓ نے دریافت کیا: اللہ کے رسول! کیا سانڈا حرام ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں بلکہ یہ میری قوم کی سرزمین میں نہیں ہوتا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5391]
حدیث حاشیہ:
عرب کے ہاں غذائی اشیاء کی قلت تھی، اس لیے وہ کسی چیز سے نفرت نہیں کرتے تھے اور نہ انہیں گھن ہی آتی تھی۔
ان کے سامنے جو چیز بھی آتی اسے کھا لیتے، اس کے متعلق سوال نہ کرتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے حلال و حرام کی پابندی کرنے والے تھے لیکن آپ جنگلی حیوانات کے بارے میں پوری پوری معلومات نہ رکھتے تھے، اس لیے آپ کھانے سے پہلے اس کے متعلق سوال کرتے کہ یہ کیا ہے؟ معلوم ہونے کے بعد اگر کھانے کے قابل ہوتی تو کھا لیتے بصورت دیگر اسے ترک کر دیتے۔
بندۂ مسلم کو بھی اس کی پیروی کرنا ضروری ہے، چنانچہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ یہ سانڈے کا گوشت ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ہاتھ کھینچ لیا۔
(صحیح مسلم، حدیث: 5040 (1948)
چونکہ یہ حرام نہیں تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں بلکہ آپ کے سامنے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسے کھا لیا اور آپ نے انہیں کچھ نہ کہا۔
(فتح الباري: 662/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5391   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5400  
5400. سیدنا خالد بن ولید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ کی خدمت میں ایک مرتبہ بھنا ہوا سانڈا پیش کیا گیا۔ جب آپ نے اسے کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو آپ سے کہا گیا: یہ تو سانڈا ہے۔ آپ ﷺ نے سن کر دست مبارک روک لیا۔ سیدنا خالد بن ولید ؓ نے عرض کی: اللہ کےرسول! کیا یہ حرام ہے؟ آپ نے فرمایا: (حرام تو نہیں) لیکن میری قوم کی سر زمین میں نہیں پایا جاتا اس لیے میں اس سے گھن محسوس کرتا ہوں۔ چنانچہ سیدنا خالد بن ولید ؓ نے اسے کھانا شروع کر دیا جبکہ رسول اللہ ﷺ دیکھ رہے تھےامام مالک نے ابن شہاب سے (ضب مشوي کے بجائے) ضب محنوذ کے الفاظ نقل کیے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5400]
حدیث حاشیہ:
(1)
بھنا ہوا گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں بلکہ بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھنا ہوا گوشت تناول فرمایا ہے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے اس طرح عنوان ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا لیکن سانڈا ہونے کی وجہ سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، اگر وہ سانڈا نہ ہوتا تو آپ اسے ضرور کھاتے۔
شارح بخاری ابن بطال رحمہ اللہ نے اسی طرح لکھا ہے۔
(فتح الباري: 671/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5400   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5537  
5537. سیدنا خالد بن ولید ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ام المومنین سیدہ میمونہ‬ ؓ ک‬ے گھر گئے تو آپ ﷺ کی خدمت میں ایک بھنا ہوا سانڈا پیش کیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا کہ اہل خانہ میں سے کسی عورت نے کہا کہ آپ جو کھانے کا ارادہ رکھتے ہیں اس کے متعلق آپ کو بتا دو۔ حاضرین نے کہا: اللہ کے رسول! یہ سانڈے کا گوشت ہے، چنانچہ آپ نے کھانے سے اپنا ہاتھ کھنیچ لیا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا یہ حرام ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں چونکہ یہ میری قوم کی سرزمین میں نہیں ہوتا، اس لیے مجھے اس سے گھن آتی ہے۔ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور اسے کھانا شروع کر دیا جبکہ رسول اللہ ﷺ دیکھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5537]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ اپنی طبعی کراہت کی وجہ سے اسے کھانا پسند نہیں کیا لیکن آپ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کے کھانے سے منع بھی نہیں کیا، اس لیے جسے پسند ہو کھا لے اور جسے پسند نہ ہو وہ نہ کھائے۔
کسی کا کھانا نہ کھانا ایک اختیاری امر ہے مگر سانڈا کھانا جائز اور حلال ہے۔
(2)
عربوں کے ہاں سانڈا کھانے کا عام رواج تھا بلکہ تقریبات میں خصوصی کھانے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا، چنانچہ یزید بن اصم کہتے ہیں کہ مدینہ طیبہ میں ہم ایک شادی کی تقریب میں شامل ہوئے تو اہل خانہ نے ہمیں تیرہ سانڈے پیش کیے۔
ہم میں سے کچھ حضرات نے کھایا اور بعض نے اسے ترک کر دیا۔
(صحیح مسلم، الأطعمة، حدیث: 5040 (1948)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے بہت لوگوں کو نفع پہنچاتا ہے۔
یہ چرواہوں کی خوراک ہے۔
اگر میرے پاس ہوں تو میں انہیں ضرور کھاؤں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طبعی کراہت کی وجہ سے انہیں نہیں کھایا تھا۔
(صحیح مسلم، الأطعمة، حدیث: 5042 (1950) (3)
بالعموم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انہیں نہ کھانے کے متعلق دو سبب بیان کیے جاتے ہیں:
٭ مکہ مکرمہ اور اس کے آس پاس سانڈے نہیں پائے جاتے تھے، اس لیے آپ کو گھن آتی تھی اور آپ نے اسے ناپسند فرمایا اور کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔
٭ اس میں ایک ناگوار سی بو ہوتی ہے، اس لیے آپ نے اسے کھانا پسند نہیں کیا۔
آپ نے فرمایا:
میرے پاس اللہ کی طرف سے آنے والے (فرشتے)
ہیں جیسا کہ آپ لہسن وغیرہ نہیں کھاتے تھے۔
(فتح الباري: 822/9)
بہرحال آپ نے سانڈا نہیں کھایا، خواہ اس کی کوئی بھی وجہ ہو، لیکن ناپسندیدگی کے باوجود آپ نے اسے حرام قرار نہیں دیا بلکہ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
تم کھاؤ کیونکہ یہ حلال ہے۔
(صحیح مسلم، الأطعمة، حدیث: 5032 (1944)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5537   


حدیث نمبر: 405
297- وبه: أن رجلا نادى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، ما ترى فى الضب؟ فقال: ”لست بآكله ولا محرمه.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دی اور کہا: یا رسول اللہ! آپ کا ضب (سمسار) کے بارے میں کیا خیال ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ میں اسے کھاتا ہوں اور نہ اسے حرام قرار دیتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «297- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 968/2 ح 1872، ك 54 ب 4 ح 11) التمهيد 63/17، الاستذكار: 1808، و أخرجه الترمذي (1790 وقال: ”هذا حديث حسن صحيح“) و النسائي (197/7 ح 4320) من حديث مالك به ورواه البخاري (5536) ومسلم (1943) من حديث عبداللٰه بن دينار به.»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 405 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 405  
´سوسمار (ضب) حلال ہے`
«. . . 297- وبه: أن رجلا نادى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، ما ترى فى الضب؟ فقال: لست بآكله ولا محرمه. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دی اور کہا: یا رسول اللہ! آپ کا ضب (سمسار) کے بارے میں کیا خیال ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ میں اسے کھاتا ہوں اور نہ اسے حرام قرار دیتا ہوں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 405]

تخریج الحدیث: [وأخرجه الترمذي 1790 وقال: هذا حديث حسن صحيح، والنسائي 7/197 ح4320، من حديث مالك به ورواه البخاري 5536، ومسلم 1943، من حديث عبدالله دينار به]
تفقه:
➊ ضب (سمسار/سانڈا) حلال ہے جیسا کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔ مثلاً دیکھئے حدیث سابق: 70
➋ اگر کوئی حلال چیز پسند نہ ہو تو اسے کھانا ضروری نہیں ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 297   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ
مولانا داود راز رحمہ اللہ
الشیخ عبدالستار الحماد حفظ اللہ
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4319  
´ضب کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تھے تو ضب کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: میں اسے نہ کھاتا ہوں اور نہ ہی اسے حرام قرار دیتا ہوں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4319]
اردو حاشہ:
(1) سانڈا حلال ہے۔ حدیث میں مذکور الفاظ [وَلَا أُحَرِّمُهُ ]  اس کی تصریح دلیل ہیں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مروی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی حدیث اس سے بھی صریح ہے کہ انھوں نے ضب، یعنی سانڈے کے متعلق خود رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: [أحَرامٌ الضَّبُّ يا رَسولَ اللَّهِ؟ ] اے اللہ کے رسول! کیا سانڈا حرام ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: [لا، ولَكِنْ لَمْ يَكُنْ بأَرْضِ قَوْمِي، فأجِدُنِي أعافُهُ ] نہیں (سانڈا حرام نہیں) لیکن یہ میری قوم کے علاقے میں نہیں تھا، اس لیے میں اس سے (طبعی طور پر) کراہت محسوس کرتا ہوں۔ (صحیح البخاري، الأطعمة، حدیث: 5391، وصحیح مسلم، الصید والذبائح، حدیث: 1945)
(2) معلوم ہوا حلال وطیب چیز جو طبعاً ناپسند ہو اسے کھانا ضروری نہیں۔ اس سے اس کی حلت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ طبی لحاظ سے دیکھا جائے تو ناپسند چیز کھانے سے ناخوش گوار اور منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
(3) حدیث میں لفظ ضب استعمال ہوا ہے۔ ہمارے ہاں عموماً اس کے معنی گوہ کیے جاتے ہیں لیکن جو اوصاف ضب کے بیان کیے گئے ہیں، وہ تمام کے تمام سانڈے میں بھی پائے جاتے ہیں، اس لیے درست بات یہی ہے کہ اس سے مراد سانڈا ہے، گوہ نہیں۔ واللہ أعلم۔
(4) معلوم ہوا ضب حرام نہیں ورنہ آپ کھانے سے منع فرما دیتے، بلکہ آپ کے دستر خوان پر آپ کے سامنے اسے کھایا گیا۔ باقی رہا آپ کا اسے نہ کھانا تو آپ کی طبع لطیف کا تقاضا تھا۔ آپ بہت سی ایسی چیزوں سے پرہیز فرماتے تھے جو قطعاً حلال ہیں، مثلاً: لہسن، پیاز وغیرہ۔ حلت اور حرمت الگ چیز ہے اور طبعی کراہت وناپسندیدگی الگ چیز ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4319   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1790  
´ضب (گوہ) کھانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ضب (گوہ) کھانے کے بارے میں پوچھا گیا؟ تو آپ نے فرمایا: میں نہ تو اسے کھاتا ہوں اور نہ حرام کہتا ہوں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة/حدیث: 1790]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہوا کہ ضب کھانا حلال ہے،
بعض روایات میں ہے کہ آپﷺ نے اسے کھانے سے منع فرمایا ہے،
لیکن یہ ممانعت حرمت کی نہیں بلکہ کراہت کی ہے،
کیوں کہ صحیح مسلم میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
اسے کھاؤ یہ حلال ہے،
لیکن یہ میرا کھانا نہیں ہے،
ضب کا ترجمہ گوہ سانڈا اورسوسمار سے کیا جاتا ہے،
واضح رہے کہ اگران میں سے کوئی قسم گرگٹ کی نسل سے ہے تو وہ حرام ہے،
زہریلا جانور کیچلی دانت والا پنچہ سے شکارکرنے اور اسے پکڑ کر کھانے والے سبھی جانورحرام ہیں۔
ایسے ہی وہ جانور جن کی نجاست وخباثت معروف ہے،
لفظ ضب پر تفصیلی بحث کے لیے سنن ابن ماجہ میں انہی ابواب کا مطالعہ کریں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1790   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5536  
5536. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: سانڈا نہ تو میں خود کھاتا ہوں اور نہ اسے حرام قرار دیتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5536]
حدیث حاشیہ:
ساہنہ ایک جنگلی جانور ہے جو حلال ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں کھایا جیسا کہ یہاں مذکور ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5536   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7267  
7267. سیدنا توبہ عنبری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: مجھ سے امام شعبی نے فرمایا: تم نے دیکھا سیدنا حسن بصری نبی ﷺ سے کتنی احادیث بیان کرتے ہیں جبکہ میں سیدنا ابن عمر ؓ کی خدمت میں تقریباً ڈیڑھ دو برس رہا ہوں لیکن میں نے انہیں نبی ﷺ سے سوائے ایک حدیث کے اور کوئی حدیث بیان کرتے نہیں سنا۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ کے صحابہ کرام میں سے چند حضرات جن میں سیدنا سعد ؓ بھی تھے گوشت کھا رہے تھے کہ امہات المومنین میں سے ایک نے آگاہ کیا کہ یہ سانڈے کا گوشت ہے۔ (یہ سن کر) وہ کھانے سے رک گئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: کھاؤ کیونکہ یہ حلال ہے۔۔۔۔۔یا فرمایا: اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔۔۔۔۔لیکن میں اسے نہیں کھاتا کیونکہ میری یہ خوراک نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7267]
حدیث حاشیہ:
شعبی کا یہ مطلب نہیں کہ معاذ اللہ امام حسن بصری جھوٹے ہیں بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ امام حسن بصری حدیث بیان کرنے میں بہت جرات کرتے ہیں حالانکہ وہ تابعی ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ صحابی ہو کر بہت کم حدیث بیان کرتے تھے۔
یہ احتیاط کی بنا پر تھا کہ خدا نخواستہ کوئی غلط حدیث بیان میں آئے اور میں زندہ دوزخی بنوں کیونکر غلط حدیث بیان کروں۔
تشریح:
قرآن وحدیث پر چنگل مارنا اور ان کے خلاف رائے وقیاس سے بچنا بنیاد ایمان ہے۔
سب سے پہلے رائے قیاس پر عمل کرنے اور نصر صریح کو رد کرنے والا ابلیس ہے۔
قرآن مجید کی صریح آیات اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے منکر کی سزا یہی ہے کہ وہ دوزخ میں اپنا ٹھکانا بنا رہا ہے۔
ایک عورت ذات نے گوشت کے بارے میں بتلایا کہ وہ سانڈے کا گوشت ہے۔
اس کی خبر کو سب نے تسلیم کیا۔
اسی سے عورت کی خبر بھی قبول کی جائے گی بشر طیکہ وہ ثقہ ہو۔
اسی سے خبر واحد کا حجت ہونا ثابت ہوا جو لوگ خبر واحد کو حجت نہیں مانتے ان کا مسلک صحیح نہیں ہے جملہ احادیث کے نقل کرنے سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا یہی مقصد ہے۔
والحمد للہ اولاً وآخراً یہ باب ختم ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7267   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5536  
5536. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: سانڈا نہ تو میں خود کھاتا ہوں اور نہ اسے حرام قرار دیتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5536]
حدیث حاشیہ:
ایک حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے، حضرت ثابت بن ودیعہ کہتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ لشکر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے ہمیں بہت سے سانڈے ملے۔
میں ان میں سے ایک بھون کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آیا اور آپ کے سامنے رکھا۔
آپ نے ایک تنکا لیا اور اس کی انگلیاں شمار کیں، پھر فرمایا:
بنی اسرائیل کی ایک قوم کو زمینی جانوروں کی شکل میں مسخ کر دیا گیا تھا۔
مجھے نہیں معلوم وہ کون سے جانور تھے۔
پھر آپ نے نہ اسے کھایا اور نہ منع کیا۔
(سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3795)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سانڈے سے پکی ہوئی ہانڈیاں الٹا دیں۔
(مسند أحمد: 196/4)
یہ روایت اس امر پر محمول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے ان کے مسخ شدہ ہونے کا گمان تھا تو آپ نے ان ہانڈیوں کو الٹ دینے کا حکم دیا۔
جب آپ کو علم ہوا کہ مسخ شدہ انسانوں کی آگے نسل نہیں چلی تو ان کے کھانے سے توقف کیا، نہ خود کھایا اور نہ اس سے منع کیا، البتہ آپ نے خود کھانا پسند نہ فرمایا جس کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔
(فتح الباري: 823/9)
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سانڈے کا گوشت کھانے سے منع کیا۔
(سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3796)
لیکن یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس میں اسماعیل بن عیاش نامی راوی مدلس ہے اور اس نے اس روایت کو "عن" سے بیان کیا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5536   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7267  
7267. سیدنا توبہ عنبری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: مجھ سے امام شعبی نے فرمایا: تم نے دیکھا سیدنا حسن بصری نبی ﷺ سے کتنی احادیث بیان کرتے ہیں جبکہ میں سیدنا ابن عمر ؓ کی خدمت میں تقریباً ڈیڑھ دو برس رہا ہوں لیکن میں نے انہیں نبی ﷺ سے سوائے ایک حدیث کے اور کوئی حدیث بیان کرتے نہیں سنا۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ کے صحابہ کرام میں سے چند حضرات جن میں سیدنا سعد ؓ بھی تھے گوشت کھا رہے تھے کہ امہات المومنین میں سے ایک نے آگاہ کیا کہ یہ سانڈے کا گوشت ہے۔ (یہ سن کر) وہ کھانے سے رک گئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: کھاؤ کیونکہ یہ حلال ہے۔۔۔۔۔یا فرمایا: اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔۔۔۔۔لیکن میں اسے نہیں کھاتا کیونکہ میری یہ خوراک نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7267]
حدیث حاشیہ:
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ شدت احتیاط کی وجہ سے بہت کم احادیث بیان کرتے تھے کہیں ایسا نہ ہو کہ ان سے کوئی ایسی بات ہو جائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد نہ فرمائی ہو۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے خبر واحد کی حجیت کو بیان فرمایا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے ایک عورت کے آگاہ کرنے سے اپنے ہاتھ روک لیے اور اس کی بات پر عمل کیا۔
اس لیے اگر خبر واحد ثقہ راوی سے مروی ہو تو اس کے حجت ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7267