نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
نکاح کے مسائل

10. حاملہ عورت سے جماع

حدیث نمبر: 361
90- وبه: عن عائشة أم المؤمنين عن جدامة بنت وهب الأسدية أنها قالت: أخبرتني أنها سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ”لقد هممت أن أنهى عن الغيلة حتى ذكرت الروم وفارس يصنعون ذلك فلا يضر أولادهم شيئا.“
سیدہ جدامہ بنت وہب الاسدیہ رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: میں نے ارادہ کیا تھا کہ غیلہ (حاملہ یا مرضعہ بیوی سے جماع) سے منع کر دوں لیکن مجھے یاد آیا کہ رومی اور فارسی لوگ ایسا کرتے ہیں تو ان کی اولاد کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔
تخریج الحدیث: «90- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 607/2، 608 ح 1329، ك 30 ب 3 ح 16) التمهيد 90/13 وقال: ”وهذا حديث صحيح ثابت“، الاستذكار: 1249، و أخرجه مسلم (1442) من حديث مالك به.»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 361 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم361  
´ایام رضاعت میں جماع`
«. . . عن جدامة بنت وهب الاسدية انها قالت: اخبرتني انها سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لقد هممت ان انهى عن الغيلة حتى ذكرت الروم وفارس يصنعون ذلك فلا يضر اولادهم شيئا . . .»
. . . سیدہ جدامہ بنت وہب الاسدیہ رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: میں نے ارادہ کیا تھا کہ غیلہ (حاملہ یا مرضعہ بیوی سے جماع) سے منع کر دوں لیکن مجھے یاد آیا کہ رومی اور فارسی لوگ ایسا کرتے ہیں تو ان کی اولاد کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 361]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 1442، من حديث ما لك به .]

تفقه:
➊ اگر عورت اپنے بچے بچی کو دودھ پلا رہی ہو تو ایام نفاس کے بعد خاوند اپنی بیوی سے ایام رضاعت میں جماع کر سکتا ہے۔
➋ پہلی امتوں کے واقعات بیان کرنا جائز ہے بشرطیکہ ان واقعات کی سند صحیح ہو۔
➌ زیادہ علم والا اور افضل انسان اپنے سے کم علم والے اور مفضول سے روایت بیان کر سکتا ہے کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ حدیث سیدہ جدامہ رضی اللہ عنہا سے بیان کی ہے اور بالاتفاق اہل سنت سیدہ عائشہ ان سے افضل ہیں۔ رضی اللہ عنہما
➍ حاملہ بیوی سے شوہر کا جماع کرنا جائز ہے بشرطیکہ پیٹ والے بچے کو کسی ضرر کا اندیشہ نہ ہو۔
➎ نبی ان کا ہر قول و فعل امت مسلمہ کے لئے احسان، خیر اور رحمت ہی رحمت ہے۔
➏ غیر اقوام سے مفید اور معقول چیز میں اخذ کی جا سکتی ہیں۔
➐ اجتہاد کرنا جائز ہے بشرطیکہ واضح دلیل کے خلاف نہ ہو۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 90   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ
الشیخ عمر فاروق سعیدی حفظ اللہ
مولانا عطا اللہ ساجد حفظ اللہ
شیخ الحدیث مولانا عبد العزیز علوی حفظ اللہ
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3328  
´دودھ پلانے والی عورت سے جماع کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ جدامہ بنت وہب نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا ارادہ ہوا کہ «غیلہ» سے روک دوں پھر مجھے خیال ہوا کہ روم و فارس کے لوگ بھی «غیلہ» کرتے ہیں اور ان کی اولاد کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔‏‏‏‏ اسحاق (راوی) کی روایت میں «یصنعہ» کی جگہ «یصنعونہ» ہے۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3328]
اردو حاشہ:
بچہ ابھی دودھ پیتا ہو اور حمل ٹھہر جائے تو بعض دفعہ دودھ بچے کے لیے مضر بن جاتا ہے۔ دودھ چھڑانا پڑتا ہے ورنہ بچے کو اسہال لگ جاتے ہیں۔ اگر حمل نہ ٹھہرے تو صرف جماع سے دودھ کو نقصان نہیں پہنچتا۔ چونکہ ایسی حالت میں جماع حمل کا سبب بن سکتا ہے جس سے نقصان ہوگا‘ اس لیے اس فعل (غیلہ) سے روکا بھی جاسکتا ہے جیساکہ رسول اللہﷺ کا خیال تھا مگر چونکہ اس پابندی پر عمل کرنا خاوند کے لیے تقریباً ناممکن ہے کہ وہ تقریباً دو سال تک اپنی بیوی سے جماع نہ کرے خصوصاً جبکہ بیوی بھی ایک ہو‘ اس لیے یہ پابندی مصلحت کے خلاف ہے اور لوگوں کو خوامخواہ آزمائش اور فتنے میں ڈالنے والی بات ہے‘ لہٰذا آپ نے یہ خیال چھوڑدیا۔ چنانچہ اب مدت رضاعت میں جماع کرنا جائز ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3328   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3882  
´رضاعت کے دوران عورت سے جماع کرنا کیسا ہے؟`
جدامہ اسدیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: میں نے قصد کر لیا تھا کہ «غیلہ» سے منع کر دوں پھر مجھے یاد آیا کہ روم اور فارس کے لوگ ایسا کرتے ہیں اور ان کی اولاد کو اس سے کوئی ضرر نہیں پہنچتا۔‏‏‏‏ مالک کہتے ہیں: «غیلہ» یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی سے حالت رضاعت میں جماع کرے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الطب /حدیث: 3882]
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایامِ رضاعت میں بیوی سے ہم بستری کرنا جائز ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3882   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2011  
´مدت رضاعت میں بیوی سے جماع کرنے کا بیان۔`
جدامہ بنت وہب اسدیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: میں نے ارادہ کیا کہ بچہ کو دودھ پلانے والی بیوی سے جماع کرنے کو منع کر دوں، پھر میں نے دیکھا کہ فارس اور روم کے لوگ ایسا کر رہے ہیں، اور ان کی اولاد نہیں مرتی اور جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے «عزل» کے متعلق پوچھا گیا تھا، تو میں نے آپ کو فرماتے سنا: وہ تو «وأدخفی» (خفیہ طور زندہ گاڑ دینا) ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 2011]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  دودھ پلانے کے ایام میں ہم بستری کرنے سے حمل ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے ماں کا دودھ کم ہوجاتا ہے او ردودھ پیتا بچہ پورا دودھ نہ ملنے کی وجہ سے کمزور رہ جاتا ہے۔
 غیلہ کی صورت میں یہ اندیشہ موجود تو ہے، تاہم یقینی نہیں۔
دودھ کی کمی کا تدارک بھینس، گائے اور بکری وغیرہ کے دودھ سے ممکن ہے۔
ایسے حالات میں وقت سے پہلے دودھ چھڑانا نقصان دہ نہیں ہوگا، اس لیے اس سے اجتناب کرنا جائز تو ہے ضروری نہیں۔

(2)
  عزل کے بارے میں دیکھئے فوائد حدیث: 1926۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2011   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3564  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
غِيلَه اور غَيلَه:
زیراورزبر کے ساتھ۔
دودھ پلانے والی عورت کے ساتھ مباشرت کرنے کو کہتے ہیں اور ابن السکیت کے نزدیک حاملہ عورت کے دودھ پلانے کو غیلہ کہتے ہیں۔
فوائد ومسائل:
حکماء کا خیال ہے حاملہ عورت کے دودھ میں بیماری پیدا ہوجاتی ہے،
اور یہ دودھ پینے والا بچہ لاغر اور کمزور ہو جاتا ہے،
اس لیے عرب اس دودھ سے احتراز کرتے تھے۔
لیکن دودھ میں بیماری اورتبدیلی کا پیدا ہونا قطعی اور یقینی نہیں ہے،
بعض دفعہ یہ نقصان کا باعث بنتا ہے خاص کر جبکہ بچہ چھوٹا ہو۔
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب فارسیوں اور رومیوں کے بارے میں یہ معلوم کرلیا۔
انہیں غیلہ سے نقصان نہیں پہنچتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عربوں کے بارے میں بھی یہی فیصلہ کیا کہ انہیں اس کام سے منع نہ کیا جائے۔
اگر کوئی احتراز کر لے،
تو یہ بہتر ہے۔
(حجۃاللہ ج2 ص135)
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3564   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3565  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
نطفہ چونکہ اولاد کا سبب اور باعث بنتا ہے،
اس لیے اس کو ضائع کرنا سعی لا حاصل کرنا،
اپنے طورپرتخم اور بیج کو ضائع کرنا ہے،
اور اس طرح یہ گویا اپنی نیت اور ارادے کے اعتبار سے پوشیدہ طور پر اولاد کو ضائع کرنا ہے۔
لیکن یہ حدیث دوسری حدیث کے منافی نہیں ہے،
جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کے عزل کو مؤدہ صغریٰ قراردینے کی تکذیب کی ہے۔
کیونکہ یہودیوں کا تصور تھا کہ عزل کی صورت میں حمل کا قرار ممکن نہیں ہے،
اس سے بچہ پیدا ہی نہیں ہو سکتا اور یہ بات قطعاً غلط ہے۔
جس بچے کے پیدا ہونے کا اللہ فیصلہ کر چکا ہے وہ عزل کے باوجود پیدا ہو کر رہتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3565