نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
خمس کا بیان

1. دفینے سے پانچواں حصہ دینا ضروری ہے

حدیث نمبر: 290
19- وبه: عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”جرح العجماء جبار والبئر جبار والمعدن جبار. وفي الركاز الخمس.“
اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چوپایہ جانور (اگر نقصان کرے تو) رائیگاں ہے (اس کا کوئی بدلہ نہیں) کنویں اور معدنیات کا بھی یہی حکم ہے اور مدفون خزانے میں پانچواں حصہ (اللہ کے لئے نکالنا) ہے۔
تخریج الحدیث: «19- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ868/2، 869، ح 1687، ك 43 ب 18 ح 12) التمهيد 19/7، الاستذكار: 1616، و أخرجه البخاري (1499) ومسلم(1710) من حديث مالك به.»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 290 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 290  
´چوپایہ کسی آدمی کا نقصان کر دے تو مالک سے بدلہ نہیں لیا جائے گا`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: جرح العجماء جبار والبئر جبار والمعدن جبار. وفي الركاز الخمس.»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چوپایہ جانور (اگر نقصان کرے تو) رائیگاں ہے (اس کا کوئی بدلہ نہیں) کنویں اور معدنیات کا بھی یہی حکم ہے اور مدفون خزانے میں پانچواں حصہ (اللہ کے لئے نکالنا) ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/0: 290]

تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ868/2، 869، ح 1687، ك 43 ب 18 ح 12، التمهيد 19/7، الاستذكار: 1616 ● و أخرجه البخاري 1499، ومسلم1710، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اگر چوپایہ جانور کسی آدمی کا نقصان کر دے تو اس کے مالک سے بدلہ نہیں لیا جائے گا بشرطیکہ اس نقصان میں جانور کے مالک کی کوتاہی اور شرارت کا دخل نہ ہو۔
ابن محیصہ الانصاری رحمہ اللہ (ثقہ تابعی) سے باسند صحیح مروی ہے کہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی اونٹنی نے کسی کے باغ کو نقصان پہنچایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ دن کو حفاظت کرنا، مال (اور زمین) کے مالکوں کا کام ہے اور رات کو حفاظت کرنا جانوروں کے مالکوں کا کام ہے۔ [سنن ابن ماجه: 2332]
● اگر حرام بن سعد بن محیصہ نے یہ روایت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنی ہے تو سند صحیح ہے ورنہ مرسل (ضعیف) ہے۔ اس وجہ سے اس روایت سے استدلال صحیح نہیں ہے۔
➋ اگر کوئی آدمی کسی شخص کے کنویں میں گر جائے تو کنویں کے مالک پر کوئی جرمانہ اور تاوان نہیں ہے بشرطیکہ کنویں کے مالک کا اس کے گرنے یا گرانے میں کوئی ہاتھ نہ ہو۔
➌ اگر کسی شخص کو پرانے زمانے کا کوئی دفن شدہ خزانہ مل جائے تو وہ اس سے زکوٰۃ کے بجائے پانچواں حصہ (خُمُس) نکال کر اللہ کے راستے میں (خلیفہ کے بیت المال یا نصاب زکوٰاۃ کی آٹھ قسموں میں) صرف کرے گا۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 19   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ
الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ
الشیخ عمر فاروق سعیدی حفظ اللہ
مولانا عطا اللہ ساجد حفظ اللہ
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ
شیخ الحدیث مولانا عبد العزیز علوی حفظ اللہ
الشیخ عبدالستار الحماد حفظ اللہ
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 502  
´(زکوٰۃ کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا معدنیات میں خمس یعنی پانچواں حصہ ہے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 502]
لغوی تشریح:
«وَفِي الرِّكَازِ» اس میں واؤ پہلے جملے پر عطف کے لیے ہے اور وہ جملہ ہے: «اَلْعَجُمَاءُ جُبَارٌ وَالْبِئْرُ جُبَارٌ وَالْمَعُدِنٌ جُبَارٌ» مصنف نے اختصار کے پیش نظر اتنا حصہ چھوڑدیا ہے۔ اور «اَلرِّكَاز» کے را کے نیچے کسرہ ہے۔ اس سے مراد جاہلیت کے زمانے کا زمین میں مدفون خزانہ جو بغیر کسی کثیر عمل و مشقت کے حاصل ہو۔ ٘
«‏‏‏‏اَلْخُمُسُ» خا اور میم دونوں پر ضمہ ہے۔ کسی چیز کے پانچ برابر حصے کئے جائیں تو ان میں سے ایک پانچواں حصہ (خمس) کہلاتا ہے۔ اور یہ مبتدا مؤخر ہے اور اس کی خبر پہلا جملہ «فَي الرِّكَازِ» ہے۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رکاز کے مال میں زکاۃ نہیں بلکہ اس کی حیثیت اموال غنیمت کی سی ہے اور اس میں «خُمُس» واجب ہے جو بیت المال میں جمع کیا جائے گا اور باقی تمام مال کا مالک وہ شخص ہو گا جسے یہ خزانہ ملے۔

فائدہ:
مدفون خزانہ اگر کسی انسان کو مل جائے تو جس وقت ملے اسی وقت اس میں سے خمس، یعنی کل مال کا پانچواں حصہ فی سبیل اللہ تقسیم کر دے۔ اس میں زکاۃ نہیں بلکہ زکاۃ سے کئی گنا زیادہ، یعنی کل مال میں سے بیس فیصد اللہ کی راہ میں بانٹنا ہے۔ رکاز ملنے کی صورت میں، اس میں سے صدقہ خیرات کرنے کی مقدار اس لیے زیادہ ہے کہ یہ مال بغیر کسی محنت کے حاصل ہوتا ہے۔ «والله اعلم»
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 502   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2497  
´کان کی زکاۃ کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جانور کا زخمی کرنا رائیگاں ہے، کنوئیں میں گر کر کوئی مر جائے تو وہ بھی رائیگاں ہے، کان میں کوئی دب کر مر جائے تو وہ بھی رائیگاں ہے ۱؎ اور جاہلیت کے دفینے میں پانچواں حصہ ہے ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2497]
اردو حاشہ:
(1) عجماء کے معنیٰ ہیں: گونگا۔ چونکہ جانور ہمارے لحاظ سے بے زبان ہیں، لہٰذا انھیں عجماء یا گونگے ہی کہا جاتا ہے۔ جانور مالک سے بھاگ جائے یا چرتے پھرتے کوئی نقصان کر دے، مثلاً کسی کو سینگ مار دے یا ٹانگ لگا دے یا کوئی اس سے گر پڑے اور زخم آجائے تو جانور کے مالک پر کوئی تاوان نہ ڈالا جائے گا کیونکہ جانور ان مسائل میں بے سمجھ ہیں اور مالک پاس نہیں، یا اگر ہو بھی تو اس کا کوئی قصور نہیں، البتہ اگر اس نقصان میں مالک کا کوئی دخل ہو، مثلاً اس نے خود جانور کو کسی کے پیچھے لگایا یا روکنے کی کوشش ہی نہیں کی یا عادی نقصان پہنچانے والا جانور قصداً کھلا چھوڑا (مثلاً: کاٹنے والا کتا یا کوئی درندہ رکھا اور کھلا چھوڑا) تو اس پر نقصان کا تاوان ڈالا جا سکتا ہے ہے۔ اسی طرح اگر جانور رات کو کھلا چھوڑ دے اور وہ کسی کی فصل پر چر جائے یا دن کے وقت اس کی موجودگی میں جانور کسی کی فصل چر جائے تو وہ نقصان بھی جانور کے مالک کے ذمے ہوگا۔
(2) کان یا کنواں کھودتے وقت یا اس میں کام کرتے وقت کوئی شخص کان یا کنواں گرنے سے زخمی ہو جائے یا مر جائے تو مالک پر کوئی تاوان نہ ہوگا۔ اسی طرح کوئی شخص کان یا کنویں میں گر کر زخمی ہو جائے یا مر جائے تو مالک سے کوئی تاوان وصول نہیں کیا جا سکتا الا یہ کہ اس کا کوئی جرم ثابت ہوا۔
(3) بعض کا کہنا ہے کہ مدفون خزانہ کسی سرکاری جگہ سے ملے تو بیت المال کو خمس ادا کیا جائے گا، باقی اس کو جسے ملا۔ اگر اپنی ذاتی جگہ سے ملا تو اس میں حکومت کا کوئی حصہ نہیں۔ لیکن راجح یہ ہے کہ جونسی بھی زمین ہو، مدفون خزانہ ملنے پر خمس ادا کیا جائے گا۔ حدیث میں کسی خاص زمین کا تعین نہیں۔ واللہ ‫‫‫أعلم
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2497   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4593  
´اگر بے زبان جانور کسی کو زخمی کر دے اور آدمی کان یا کنواں اپنی زمین میں کھدوائے اور اس میں کوئی مر جائے تو ان چیزوں میں تاوان لازم نہ ہو گا۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جانور کسی کو زخمی کر دے تو اس میں ہرجانہ نہیں ہے، کان میں ہلاک ہونے والے کا ہرجانہ نہیں ہے اور کنواں میں ہلاک ہو جانے والے کا ہرجانہ نہیں ہے ۱؎ اور رکاز میں پانچواں حصہ دینا ہو گا۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: جانور سے مراد وہ جانور ہے جو چھڑا کر بھاگ گیا ہو اور اس کے ساتھ کوئی نہ ہو اور دن ہو، رات نہ ہو۔ [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4593]
فوائد ومسائل:
1: جانور بے شعور اور ناسمجھ مخلوق ہے، اس کے کاٹ کھانے یا لات مار دینے میں اس مالک کا قصور نہیں، الا جب وہ اس کے قریب ہو اور اس کو ضبط رکھنے پر قادر ہو، یا یقین ہو کہ لوگوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور پھر بھی وہ اسے کھلا چھوڑ دے۔
امام ابو داودؒ کے قوم کا یہی مفہوم ہے۔

2: مزدور کو جب معلوم ہو کہ اس نے معدنی کان میں کام کرنا ہے۔
۔
۔
۔
۔
یا اسی طرح کسی اور جگہ پت چڑھنا ہے اور وہ اپنی رضا مندی سے کام کرے تو اتفاقی حادثہ کی وجہ سے مالک قصوروارنہیں ہو گا۔

3: اپنی زمین میں کسی نے کنواں کھودا اور کوئی اس میں جا گرے تو مالک کا کوئی قصور نہیں سمجھا جائے گا، بخلاف اس کے کہ کسی عام گزرگاہ پر کھودے یا پھر اس پر باڑا وغیرہ نہ لگائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4593   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4594  
´پھیل جانے والی آگ کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگ باطل ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4594]
فوائد ومسائل:
اگر کسی نے اپنی زمین یا گھر وغیرہ میں آگ جلائی اور پھر وہ پھیل گئی یا کوئی چنگاری اڑ کر دوسرے کا نقصان کر گئی تو آگ جلانے والا اس کا ذمہ دا ر نہ سمجھا جائے گا، الا یہ کوئی واضح قصور ہو مثلا اپنا کام کرکے اسے ویسے ہی چھوڑ دیا اور بھجایا یا دبایا نہ ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4594   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2676  
´جن چیزوں میں نہ دیت ہے نہ قصاص ان کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگ بیکار ہے، اور کنواں بیکار ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2676]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ہدر کے معنی رائیگاں ہونا، بیکار، لغو، بے فائدہ اور بے مقصد ہوجانا، اسی طرح رائیگاں کرنا، بے کار اور بے مقصد بنانا ہیں، یعنی یہ لازم اور متعدی دونوں معنوں میں مستعمل ہے۔
مویشی کے ہدر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کسی کا جانور چھوٹ کر بھاگ جائے اور اسی اثنامیں کسی کو زخمی کردے یا ہلاک کردے تو جانور کےمالک پر اس کی ذمے داری نہیں ہوگی۔
اس سے قصاص یا دیت کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔

(2)
معدنی چیزیں نکالنے کے لیے جو کان کھودی جاتی ہے، بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مزدور کان میں کام کررہا ہے کہ اوپر سے پتھرگرا ہی پیچھے سے پتھر گر کر راستہ بے ہو گیا جس کی وجہ سے وہ مزدور فوت ہو گیا اس صوورت میں کام کا مالک قاتل شمار نہیں ہوگا۔
اس پر قتل خطا والی دیت بھی لازم نہیں ہوگی۔

(3)
کنویں کے ہدر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص کنویں سے پانی نکالنے کی کوشش میں کنویں میں گرپڑے یا کوئی اور ایسا حادثہ پیش آ جائے تو کنویں کا مالک ذمے دار نہیں ہوگا۔

(4)
آگ ہدر ہونے کی یہ صورت ہے کہ ایک شخص نے اپنی کسی ضرورت سے آگ جلائی، ہوا سے اس کی چنگاریاں اڑکر کسی کی چیز پر پڑگئیں جن کو روکنا آگ جلانے والے کے بس میں نہ تھا۔
اس صورت میں آگ سے پہنچنے والے نقصان کی ذمے داری آگ جلانے والے پر نہیں ہوگی، اور اس سے تاوان نہیں لیا جائے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2676   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 642  
´جانوروں کا زخم رائیگاں ہے یعنی اس میں تاوان نہیں اور مدفون مال میں سے خمس (پانچواں حصہ) نکالا جائے گا​۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جانور کا زخم رائیگاں ہے ۱؎ یعنی معاف ہے، کان رائیگاں ہے اور کنواں رائیگاں ہے ۲؎ اور رکاز (دفینے) میں سے پانچواں حصہ دیا جائے گا ۳؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 642]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی جانور کسی کو زخمی کر دے تو جانور کے مالک پر اس زخم کی دیت نہ ہو گی۔

2؎:
یعنی کان یا کنویں میں گر کر کوئی ہلاک ہو جائے تو ان کے مالکوں پر اس کی دیت نہ ہو گی۔

3؎:
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رکاز (دفینہ) میں زکاۃ نہیں بلکہ خمس ہے،
اس کی حیثیت مال غنیمت کی سی ہے،
اس میں خمس واجب ہے جو بیت المال میں جمع کیا جائے گا اور باقی کا مالک وہ ہو گا جسے یہ دفینہ ملا ہے،
رہا معدن (کان) تووہ رکاز نہیں ہے اس لیے اس میں خمس نہیں ہو گا بلکہ اگر وہ نصاب کو پہنچ رہا ہے تو اس میں زکاۃ واجب ہو گی،
جمہور کی یہی رائے ہے،
حنفیہ کہتے ہیں رکاز معدن اور کنز دونوں کو عام ہے اس لیے وہ معدن میں بھی خمس کے قائل ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 642   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1377  
´چوپائے اگر کسی کو زخمی کر دیں تو اس کے زخم کے لغو ہونے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بےزبان (جانور) کا زخم رائیگاں ہے، کنویں اور کان میں گر کر کوئی مر جائے تو وہ بھی رائیگاں ہے ۱؎، اور جاہلیت کے دفینے میں پانچواں حصہ ہے۔‏‏‏‏ مؤلف نے اپنی سند سے بطریق «عن ابن شهاب عن سعيد بن المسيب وأبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1377]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1 ؎:
یعنی ان کے مالکوں سے دیت نہیں لی جائے گی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1377   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4465  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
العَجمَاءُ:
أَعجَم کا مونث ہے،
چوپایہ،
حیوان۔
(2)
جَراحٌ:
زخمی کرنا۔
(3)
جَرحٌ،
جُرحٌ:
زخم،
مقصد حیوان کا نقصان پہنچانا وہ زخم کی صورت میں ہو یا کسی اور طرح۔
(4)
جُبَارٌ:
رائیگاں ہے،
اس پر معاوضہ یا تاوان نہیں ہے،
الركاز:
جاہلیت کا دفینہ۔
فوائد ومسائل:
(1)
حیوان سے پہنچنے والا نقصان رائیگاں ہے،
حیوان اگر کسی کا نقصان کرتا ہے،
شخصی طور پر اس کو زخمی کرتا ہے یا اس کا مالی نقصان کرتا ہے،
اس کی دو صورتیں ہیں (1)
وہ حیوان گھر سے یا مالک سے بھاگ آیا ہے،
اس کے ساتھ کوئی نہیں ہے،
اس صورت میں اگر وہ کسی قسم کا نقصان کرتا ہے تو احناف کے نزدیک اس پر کسی قسم کا تاوان نہیں ہے،
دن کا وقت ہو یا رات کا لیکن فقہائے حجاز امام مالک،
امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک،
اگر وہ کسی کی کھیتی کا نقصان کرتا ہے تو اگر رات کا وقت ہے تو مالک پر تاوان پڑے گا،
اگر دن کا وقت ہے تو پھر تاوان نہیں ہے اور امام لیث کے نزدیک مالک کے ذمہ ہر حالت میں تاوان ہے۔
(المغني،
ج 12،
ص 541)

۔
صحیح بات یہ ہے،
اگر اس میں مالک کی کوتاہی کا دخل ہے تو تاوان ہے،
وگرنہ کسی حالت میں تاوان نہیں ہے۔
(2)
اگر مالک حیوان کے ساتھ ہے یا کوئی اس کے ساتھ ہے تو پھر اگر وہ کسی چیز کو روندتا ہے،
وہ مال ہو،
شخص ہو یا کھیتی تو سوار اس کا ذمہ دار ہے،
امام ابو حنیفہ،
امام شافعی اور امام احمد کا یہی نظریہ ہے،
لیکن امام مالک کے نزدیک اس پر تاوان نہیں ہے،
اگر حیوان،
عام راستہ پر جا رہا ہے اور اس کے ساتھ انسان موجود ہے اور جانور اپنے کسی عضو مثلا ٹانگ،
ہاتھ،
سر،
منہ سے کسی کو نقصان پہنچاتا ہے تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک وہ ضامن ہے،
اگر حیوان دولتی (ٹانگ)
مارتا ہے یا دم مارتا ہے تو ضامن نہیں ہے،
لیکن امام شافعی کے نزدیک ہر حالت میں،
حیوان کے ساتھ والا ضامن ہے،
حیوان کسی عضو سے بھی نقصان پہنچائے اور آج کل کی گاڑیوں کا ڈرائیور،
ہر حالت میں ضامن ہے،
اگر وہ غفلت اور بے پرواہی سے کام لیتا ہے،
لیکن اگر اس کی کوتاہی یا غفلت و بے پرواہی کا دخل نہیں ہے،
اچانک کوئی انسان یا حیوان آگے آ گیا ہے،
وہ اس کی کوشش کے باوجود،
نیچے آ گیا ہے تو وہ ذمہ دار نہیں ہے۔
البئر جُبار:
کنویں کا نقصان رائیگاں ہے،
اگر کنویں کے مالک کا اس نقصان میں دخل نہیں ہے کہ اس نے کنواں اپنی زمین میں کھودا ہے یا بے آباد جگہ میں کھودا ہے اور اس میں کوئی انسان یا حیوان گر جاتا ہے تو مالک اس کا ذمہ دار نہیں ہے،
لیکن اگر وہ راستہ میں کنواں کھودتا ہے یا کسی دوسرے کی جگہ میں کنواں کھودتا ہے،
یعنی اس کی زیادتی کا دخل ہے تو پھر وہ ذمہ دار ہے،
جمہور کا یہی موقف ہے،
احناف کا بھی یہی موقف ہے،
اس طرح اگر کسی نے کنواں کھودنے کا کسی کو ٹھیکہ دیا یا اس کے لیے مزدور رکھا اور اس سے کھودنے والے کو نقصان پہنچا تو مالک ذمہ دار نہیں ہے۔
المعدن جبار:
کوئی انسان اپنی زمین میں یا بے آباد جگہ میں کان کھودتا ہے اور کوئی شخص اس میں گر کر مر جاتا ہے یا زخمی ہو جاتا ہے تو اس کا مالک ذمہ دار نہیں ہے یا مالک،
کان کھودنے کے لیے مزدور رکھتا ہے اور ان کو تمام ضروری سازوسامان مہیا کر دیتا ہے یا یہ مزدور کی اپنی ذمہ داری ہے پھر کان سے مزدور کو کوئی نقصان پہنچتا ہے یا اس پر گر جاتی ہے تو مالک پر تاوان نہیں ہے،
ہاں تبرعا اس کو مزدور کا علاج معالجہ کروانا چاہیے۔
في الركاز الخمس:
جاہلیت کا دفینہ مل جانے کی صورت میں اس کا پانچواں حصہ بیت المال کو دیا جائے گا اور کان (معدن)
سے حاصل ہونے والی چیز پر چونکہ،
مالک کو محنت و مشقت اٹھانی پڑتی ہے اور مزدوری ادا کرنی ہوتی ہے،
اس لیے وہ رکاز کے حکم میں نہیں ہے،
ائمہ حجاز،
مالک،
شافعی اور احمد کا یہی موقف ہے،
لیکن احناف کے نزدیک رکاز کا اطلاق معدن (کان)
پر بھی ہوتا ہے،
اس لیے اس کا حکم بھی جاہلیت کے دفینہ والا ہے،
امام ثوری،
اوزاعی اور ابو عبید بن سلام کا بھی یہی موقف ہے اور لغتکی رو سے اس کی گنجائش موجود ہے،
لیکن شرعی طور پر یہ رکاز نہیں ہے،
لغوی معنی پر شرعی معنی کو ترجیح حاصل ہے۔
ہاں اس پر امام بخاری والا اعتراض صحیح ہے کہ ایک طرف تو معدن کو عام ائمہ کے برخلاف رکاز میں داخل کیا ہے اور دوسری طرف خمس کو ادائیگی سے بچنے کے لیے حیلے نکالے جاتے ہیں اور اس کو پورے مال پر قبضہ کرنے کا موقعہ دیا جاتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4465   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1499  
1499. حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جانور کا زخم معاف ہے، کنویں میں گر کر مرجانے میں کوئی معاوضہ نہیں اور کان کابھی یہی حکم ہے، یعنی اس میں گر کر مرنے والے کا خون معاف ہے، البتہ دفینہ ملنے پر پانچواں حصہ واجب ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1499]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ دفینہ جاہلیت میں پانچواں حصہ بیت المال کا ہے، کیونکہ اسے کافر کا مال قرار دیا گیا ہے جسے کوئی مجاہد حاصل کر لے، اس لیے غنیمت کے مال کے چار حصے مجاہدین میں تقسیم ہوتے ہیں اور ایک حصہ سرکاری طور پر رکھ لیا جاتا ہے، اسی طرح دفینہ جاہلیت کے چار حصے پانے والے کے ہیں اور پانچواں حصہ بیت المال میں جمع کرانا ہو گا۔
رکاز کے متعلق اور بھی تفصیلات ہیں، مثلا:
اس کا نصاب کیا ہے؟ قلیل یا کثیر میں کچھ فرق ہے یا نہیں؟ اس پر سال گزرنے کی شرط ہے یا نہیں؟ وہ سونے چاندی کے علاوہ دیگر اموال کو شامل ہے یا نہیں؟ اس کی شناخت کیا ہے؟ کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کے سکوں پر کسی بادشاہ کا نام یا اور کسی شناختی علامت کا ہونا ضروری ہے یا نہیں؟ اس کی شناخت کیا ہے؟ کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کے سکوں پر کسی بادشاہ کا نام یا اور کسی شناختی علامت کا ہونا ضروری ہے یا نہیں؟ یہ تمام تفصیلات دیگر کتب فقہ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
(2)
جب کوئی جانور منہ زور ہو کر کسی کو ہلاک کر دے یا نقصان پہنچائے تو مالک پر اس کا کوئی تاوان نہیں۔
اگر کسی نے کنواں جاری کیا، اس میں کوئی آدمی گر کر مر گیا تو جاری کرنے والا اس کا ضامن نہیں۔
کان میں اگر کوئی مزدور مر جائے تو کان کا مالک یا مزدوری پر لے جانے والا اس سے بری الذمہ ہے۔
(3)
امام بخاری نے اپنی صحیح میں متعدد مقامات پر "بعض الناس" کے عنوان سے کلام کیا ہے، اکثر مقامات پر ان حضرات پر تنقید مقصود ہے جنہوں نے حدیث نبوی کی کھلے بندوں مخالفت کی ہے، ایسے مقامات کی تعداد پچیس ہے جسے ہم ذیل میں درج کر رہے ہیں:
نمبر شمار اسم الكتاب رقم الباب رقم الحديث 1 الزكاة باب: 66 2 الهبة باب: 36 3 = باب: 37 4 الشهادات باب: 8 5 الوصايا باب: 8 6 الطلاق باب: 25 7 الأيمان والنذور باب: 21 8 الإكراه باب: 4 9 = باب: 7 10 الحيل باب: 3 6956 11 = = 6958 12 = = 6959 13 = باب: 4 6960 14 = = 6961 15 = باب: 9 16 = باب: 11 6968 17 = = 6970 18 = = 6971 19 = باب: 14 20 = = 6976 21 = = 6977 22 = = 6978 23 = باب: 15 6980 24 الأحكام = 25 = باب: 40 7195 یہ پہلا مقام ہے جہاں پر امام بخاری نے ایسے حضرات کا نوٹس لیا ہے جو ڈھٹائی کے ساتھ حدیث کی مخالفت کرتے ہیں، ہم اس کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔
والله المستعان (4)
امام بخاری ؒ کے نزدیک رکاز دور جاہلیت کے وہ مدفون خزانے ہیں جو پہلے لوگوں نے زمین میں چھپائے تھے اور رکاز کے مفہوم میں کان شامل نہیں، کیونکہ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے معدن اور رکاز کا واؤ عطف کے ساتھ الگ الگ ذکر فرمایا ہے۔
اگر دونوں کا مصداق ایک ہوتا تو حدیث کی عبارت بایں الفاظ ہوتی:
''المعدن جبار و فيه الخمس" معدن میں گر کر مرنے والے کا خون معاف ہے اور اس میں پانچواں حصہ ادا کرنا ہے جبکہ ایسا نہیں بلکہ رکاز کا معدن پر عطف ڈالا ہے جو مغایرت کا تقاضا کرتا ہے۔
علامہ عینی ؒ نے احناف کے موقف کا دفاع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وفيه الخمس اس لیے نہیں کہا کہ اس میں یہ شبہ پڑ سکتا تھا کہ ضمیر کا مرجع بئر ہے یا معدن۔
علامہ عینی کا یہ جواب بیت عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ہے کیونکہ بئر کا لفظ دور ہے اور معدن کا لفظ قریب ہے، قریب مرجع کو چھوڑ کر مرجع بعید کی طرف ضمیر کیسے لوٹ سکتی ہے؟ اس کے علاوہ لفظ بئر مونث سماعی ہے مذکر ضمیر مونث مرجع کی طرف کیسے لوٹ سکتی ہے؟ (رفع الالتباس عن بعض الناس، ص: 17)
احناف نے لغت کے بل بوتے پر یہ مفروضہ قائم کیا ہے کہ معدن اور رکاز ایک ہیں اور دونوں میں خمس ہے، حالانکہ اہل حجاز کے نزدیک رکاز مدفون خزانے کو کہا جاتا ہے جیسا کہ ابن اثیر لکھتے ہیں:
اہل حجاز کی لغت میں رکاز اس خزانے کو کہتے ہیں جو دور جاہلیت کے وقت سے زمین میں مدفون ہو، البتہ اہل عراق کی لغت میں معدن پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے لیکن حدیث میں اہل حجاز کی تائید ہے۔
(النھایة: 100/2)
امت کا تعامل بھی اسی موقف کا مؤید ہے جیسا کہ عمر بن عبدالعزیز ؒ کے متعلق امام بخاری ؒ نے بیان کیا ہے۔
امام بخاری نے لغوی اعتبار سے جو اعتراض ان حضرات پر کیا ہے وہ اپنی جگہ لاجواب ہے، اس سلسلے میں امام بخاری نے دوسرا اعتراض یہ کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ ایک طرف تو معدن میں خمس دینے کو ضروری قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف خمس معدن کے چھپانے کو بھی جائز کہتے ہیں جس سے وجوب کی نفی ہوتی ہے۔
یہ صریح تناقض ہے۔
اس کا دفاع علامہ عینی نے اس طرح کیا ہے کہ اگر معدن پانے والا محتاج اور فقیر ہو اور بیت المال سے اسے حصہ نہ ملنے کا ظن غالب ہو تو وہ بیت المال سے خمس چھپا کر اپنے آپ پر صرف کر سکتا ہے، جیسا کہ امام طحاوی نے نقل کیا ہے۔
(عمدةالقاري: 563/6)
یہ جواب کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ معدن کے چار حصوں سے اس کا فقر زائل نہیں ہو گا بلکہ پانچواں حصہ جو بیت المال کا حق ہے اس سے ہی محتاجی دور ہو گی، اس کے علاوہ امام طحاوی ؒ نے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ اگر اپنے گھر میں کوئی کان پا لیتا ہے تو اس میں خمس وغیرہ ادا کرنا ضروری نہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ امام طحاوی کی اس روایت کو نقل کر کے لکھتے ہیں کہ امام بخاری کا اعتراض اپنی جگہ پر قائم ہے کہ احناف کے ہاں تناقض پایا جاتا ہے۔
(فتح الباري: 460/3)
ربیعہ بن عبدالرحمٰن کئی لوگوں سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بلال بن حارث ؓ کو معادن قبلیہ الاٹ کی تھیں، ان معادن سے آج تک زکاۃ کے علاوہ اور کچھ نہیں وصول کیا جاتا۔
(سنن أبي داود، الخراج، حدیث: 3061)
اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ معادن کی برآمدات پر خمس نہیں بلکہ زکاۃ ہے۔
اگرچہ اس روایت میں انقطاع ہے، تاہم تائید کے لیے اس قسم کی روایت کو پیش کیا جا سکتا ہے۔
الغرض رکاز سے مراد زمانہ جاہلیت کا زمین میں مدفون خزانہ ہے جو کسی محنت و مشقت کے بغیر حاصل ہوا ہو اور اس میں سے پانچواں حصہ بیت المال کے لیے وصول کیا جاتا ہے جبکہ معدنیات میں زکاۃ ہے اور ان دونوں میں نمایاں فرق ہے جیسا کہ حدیث مذکور اس کی واضح دلیل ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1499   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2355  
2355. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کان میں کوئی حادثہ ہو جائے تو کوئی معاوضہ نہیں، اسی طرح کنویں کی وجہ سے پہنچنے والے نقصان اور جانور سے پہنچنے والی تکلیف پر بھی کوئی تاوان نہیں ہوگا۔ اور زمین کے دفینے سے پانچواں حصہ دینا ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2355]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک شخص نے اپنی زمین میں کنواں کھودا تاکہ وہ خود اور دوسرے لوگ اس سے مستفید ہوں، اگر کسی کی بکری اس میں گر کر مر جاتی ہے تو کنویں کا مالک اس کا ضامن نہیں ہو گا بشرطیکہ اس کی سازش کو اس میں کوئی دخل نہ ہو۔
اگر ثابت ہو جائے کہ اس نے دانستہ کوتاہی کا ارتکاب کیا ہے تو اس کے خلاف کاروائی ہو سکتی ہے۔
اسی طرح کان میں انسان اور مویشی بھی مر سکتے ہیں، اس پر بھی کوئی تاوان یا انتقام نہیں، نیز جانور اگر کسی کو سینگ مارتا ہے تو اس نقصان کی کوئی تلافی نہیں ہو گی۔
(2)
جب کنویں میں گرنے والے کے خون کا ذمہ دار مالک نہیں ہے کیونکہ اس میں مداخلت کرنے کا کسی کو حق نہیں تھا تو پانی کے متعلق بھی یہی ضابطہ ہو گا کہ اس میں بھی کسی کو مداخلت کرنے کا حق نہیں۔
جب پانی اس کی ضروریات ہی پوری کرتا ہے تو دوسروں کی ضروریات پر اسے صرف کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا، البتہ جب کوئی مجبور اور لاچار ہو تو اس پر خرچ کرنا ضروری ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2355   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6912  
6912. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حیوانات کا کسی کو زخمی کرنا قابل معافی ہے۔ کنویں میں گر کر مرجانے پر کوئی دیت نہیں۔ کان میں دب کر مرنے پر کوئی تاوان نہیں۔ اور مدفون خزانہ ملنے پر پانچواں حصہ دینا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6912]
حدیث حاشیہ:
(1)
اگر کوئی بے آباد کنویں میں گر کر مرجائے تو اس میں کوئی دیت نہیں ہوگی، اسی طرح اگر کسی نے اپنی ملکیت یا بے آباد جگہ میں کنواں کھودا، اس میں کوئی انسان یا چوپایہ گر کر مرگیا تو کنویں کے مالک پر کوئی تاوان نہیں ہوگا۔
اگر کسی نے کنواں کھودنے کے لیے مزدور رکھا، اس پر دیواریں گریں اور وہ ہلاک ہو گیا تو اس میں بھی کوئی تاوان نہیں ہوگا۔
تاہم اگر کسی نے دھوکے سے کسی کو کنویں میں گرایا یا عام راستے میں کنواں کھودا یا کسی غیر کی زمین میں کنواں بنایا، وہاں اگر کوئی گر کرمر جائے تو کنویں والے پر تاوان ہوگا۔
(2)
معدنیات کی کانوں کا بھی یہی مسئلہ ہوگا، ان میں دب کر اگر کوئی مر جاتا ہے یا ان میں کوئی مزدور ہلاک ہو جاتا ہے تو مالک پر کوئی تاوان نہیں ہوگا بلکہ ہر بے جان چیز کا یہی حال ہے، مثلاً:
اگر کوئی انسان پھسل کر دیوار سے ٹکرایا اور مر گیا تو دیوار والا برئ الذمہ ہے۔
اگر کوئی کھجور پر چڑھا اور گر کر مرگیا تو مالک پر کوئی جرمانہ نہیں ہوگا۔
(فتح الباري: 318/12، 319)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6912   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6913  
6913. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: جانور کسی کو زخمی کرے تو اس کی کچھ دیت نہیں۔ اسی طرح کان میں کام کرنے سے کوئی نقصان پہینچے یا کنویں میں گرنے سے کوئی نقصان آئے تو اس میں بھی کوئی تاوان نہیں۔ اگر کہیں سے مدفون خزانہ آئے تو اس میں پانچواں حصہ بحق سرکار لیا جائے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6913]
حدیث حاشیہ:
(1)
حیوانات کے نقصان کا تاوان حسب ذیل طریقے سے ہوگا:
٭اگر کسی کا جانور اچانک کھل گیا اور کسی کا کھیت چر گیا تو نقصان کا تاوان جانور کے مالک سے نہیں لیا جائے گا۔
٭ اگر اس نے قصداً کھولا یا اس کو کھل جانے کا علم ہوا لیکن اس نے باندھنے کی کوشش نہیں کی یا چرواہا ساتھ تھا مگر اس کے باوجود کھیت چر گیا تو مالک سے تاوان لیا جائے گا۔
٭کوئی شخص اپنے جانور عام راستے سے لے جا رہا تھا، اس دوران میں جانوروں نے کسی کا کھیت کچل دیا یا اس میں بیٹھنے سے بہت سے پودے ضائع ہو گئے تو مالک کو نقصان کا تاوان دینا ہوگا۔
٭اگر لات چلانے، پیر جھاڑنے یا دم ہلانے سے کوئی نقصان ہوا تو اس صورت میں تاوان نہیں لیا جائے گا کیونکہ یہ جانور کی فطرت ہے، اس سے جانور کو روکا نہیں جا سکتا۔
٭اگر کوئی جانور لوگوں کو سینگ مارتا ہے یا کسی نے کتا پالا جولوگوں کو کاٹتا ہے، اسے تنبیہ کی گئی کہ اپنے جانور یا کتے کو قابو کرو، اس نے سستی سے کام لیا تو اس صورت میں جانور کے مارنے یا کتے کے کاٹنے سے نقصان کا تاوان دینا پڑے گا۔
٭ بکریوں کے دو چرواہے ہیں ایک آگے اور دوسرا پیچھے، اس صورت میں جو نقصان ہوگا وہ دونوں سے لیا جائے گا۔
(2)
بے جان سواریوں، مثلاً:
سائیکل، موٹر سائیکل، بس، ویگن، ریل اور ہوائی جہاز کا حکم بھی مندرجہ بالا صورتوں کے مطابق ہوگا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6913   


حدیث نمبر: 291
366- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إياكم والظن، فإن الظن أكذب الحديث، ولا تحسسوا، ولا تجسسوا، ولا تنافسوا، ولا تحاسدوا، ولا تباغضوا، ولا تدابروا، وكونوا عباد الله إخوانا.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے، ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ رہو اور جاسوسی نہ کرو، دنیا کے لئے ایک دوسرے سے نہ جھگڑو اور حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور باہم عداوت رکھتے ہو ئے ایک دوسرے سے منہ نہ موڑو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ۔
تخریج الحدیث: «366- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 907/2، 908 ح 1749، ك 47 ب 4 ح 15) التمهيد 19/18، الاستذكار: 1681، و أخرجه البخاري (6066) و مسلم (2563) من حديث مالك به.»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 291 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 291  
´دفینے سے پانچواں حصہ دینا ضروری ہے`
«. . . 366- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إياكم والظن، فإن الظن أكذب الحديث، ولا تحسسوا، ولا تجسسوا، ولا تنافسوا، ولا تحاسدوا، ولا تباغضوا، ولا تدابروا، وكونوا عباد الله إخوانا. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے، ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ رہو اور جاسوسی نہ کرو، دنیا کے لئے ایک دوسرے سے نہ جھگڑو اور حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور باہم عداوت رکھتے ہو ئے ایک دوسرے سے منہ نہ موڑو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 291]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 6066، ومسلم 2563، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ ہر صحیح العقیدہ مسلمان بھائی کے بارے میں حسنِ ظن رکھنا چاہئے اِلا یہ کہ وہ مجہول ہو، یاد رہے کہ مجہول کی روایت مردود ہوتی ہے۔
➋ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں چاہے عربی ہوں یا عجمی، پنجابی، سندھی ہوں یا پٹھان بلوچی وغیرہ۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ألا لا فضل لعربي علٰی عجمي ولا لعجمي علٰی عربي، ولا لأحمر علٰی أسود ولا لأسود علٰی أحمر إلا بالتقویٰ» سن لو! کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، اور کسی سرخ کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی سرخ پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے سوائے تقویٰ کے۔ [مسند أحمد 411/5 ح23885 وسنده صحيح]
➌ اگر کوئی شرعی عذر ہو تو غیبت بھی جائز ہے جیسا کہ فاسق اور بدعتی کے متعلق لوگوں کو متنبہ کرنا تاکہ وہ اس کے شر سے بچ جائیں۔ اسی طرح مسلمانوں اور مسلمان حکومتوں کی حفاظت کے لئے کفار کی جاسوسی کا بھی یہی حکم ہے۔
➍ حدیثِ مذکور میں تمام احکامات صحیح العقیدہ مسلمان بھائیوں کے بارے میں ہیں۔ رہے کفار، منافقین اور مبتدعین وغیرہم تو اُن سے شرعی بغض رکھنا واجب ہے۔
➎ یہ حدیث سورۃ الحجرات کی آیت نمبر12، 13، کی بہترین تشریح ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 366   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ محمد حسین میمن حفظ اللہ
حافظ عبداللہ شمیم حفظ اللہ
الشیخ عبدالسلام بن محمد حفظ اللہ
الشیخ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ
الشیخ عمر فاروق سعیدی حفظ اللہ
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ
محمد ابراہیم بن بشیر حفظ اللہ
شیخ الحدیث مولانا عبد العزیز علوی حفظ اللہ
مولانا داود راز رحمہ اللہ
الشیخ عبدالستار الحماد حفظ اللہ
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6724  
´فرائض کا علم سیکھنا`
«. . . وَقَالَ عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ تَعَلَّمُوا قَبْلَ الظَّانِّينَ يَعْنِي الَّذِينَ يَتَكَلَّمُونَ بِالظَّنِّ . . .»
. . . عقبہ بن عامر نے کہا کہ دین کا علم سیکھو اس سے پہلے کہ اٹکل پچو کرنے والے پیدا ہوں [صحيح البخاري/كتاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ: Q6724]

«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ، وَلَا تَحَسَّسُوا، وَلَا تَجَسَّسُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَدَابَرُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بدگمانی سے بچتے رہو، کیونکہ گمان (بدظنی) سب سے جھوٹی بات ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کی برائی کی تلاش میں نہ لگے رہو نہ ایک دوسرے سے بغض رکھو اور نہ پیٹھ پیچھے کسی کی برائی کرو، بلکہ اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو۔ [صحيح البخاري/كتاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ: 6724]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6724 باب: «بَابُ تَعْلِيمِ الْفَرَائِضِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب تعلیم الفرائض پر مبنی ہے، جبکہ تحت الباب گمان کرنے کی ممانعت پر حدیث وارد کی ہے، لہذا حدیث سے علم الفرائض کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
ابن المنیر رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«و انما خص البخاري قول عقبة بالفرائض لأنها أدخل فيه من غيرها لأن الفرائض الغالب عليها التعبد و انحسام وجوه الرأي و الخوض فيها بالظن لا انضباط له.» (2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے عقبہ کے قول کو کتاب الفرائض کے ساتھ اس وجہ سے خاص کیا کہ یہ دیگر کی نسبت اس میں ادخل ہے، کیوں کہ فرائض کا غالب حصہ مبنی بر تعبد اور وجوہ رائے کا انحسام (یعنی انقطاع) ہے، اس میں ظن کو بروئے کار لینا کسی ضابطہ کے تحت نہیں، بخلاف دیگر ابواب علم کے کہ ان میں رائے کی گنجائش موجود ہے اور غالبا ان میں انضباط ممکن ہے۔
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«و قيل وجه المناسبة أن فيه إشارة إلى أن النهي عن العمل بالظن يتضمن الحث على العمل بالعلم و ذالك فرع تعلمه و علم الفرائض يوخذ غالبًا بطريق العلم كما تقدم تقريره.» (1)
بعض نے کہا کہ باب سے حدیث کی مناسبت یہ ہے کہ اس میں عمل یا ظن سے نہی کی طرف اشارہ مقصود ہے، جو عمل بالعلم پر ترغیب کو متضمن ہے، اور یہ اس کے تعلم کی فرع ہے، اکثر علم الفرائض کا ماخوذ بطریق العلم ہی ہے، جیسا کہ اس کی تقریر گزری۔
علامہ کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حدیث کے جملہ «و كونوا عباد الله اخوانا» سے تعلیم فرائض ماخوذ ہے، تاکہ أخ وارث دیگر سے معلوم ہو۔(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«و قد ورد فى الحث على تعلم الفرائض حديث ليس على شرط المصنف أخرجه أحمد و الترمذي و النسائي و صححه الحاكم من حديث ابن مسعود رفعه تعلموا الفرائض و علموها الناس فإني امرؤ مقبوض، و أن العلم سيقبض حتى يختلف الاثنان فى الفريضة فلا يجدان من يفصل بينهما.» (3)
فرائض کی تعلیم کی ترغیب کے بارے میں حدیث بھی وارد ہے جو مصنف کی شرط پر نہیں ہے، اسے احمد، ترمذی، نسائی، حاکم نے حکم صحت کے ساتھ سیدنا ابن مسعور رضی اللہ عنہ سے مرفوعا نقل فرمائی ہے، یعنی علم الفرائض کو سیکھ لو اور لوگوں کو اس کی تعلیم دو کہ میں دنیا سے اٹھ جانے والا ہوں اور علم بھی اٹھا لیا جائے گا، حتی کہ دو آدمی کسی فریضہ کے بارے میں اختلاف کرتے ہوں گے اور کوئی ان کے درمیان فیصلہ کرنے والا نہ ہو گا۔
محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ مندرجہ بالا حدیث جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مسند احمد وغیرہ کے حوالے سے نقل فرمائی، اس کے بارے میں لکھتے ہیں:
«قلت: و لعل المصنف أشار إلى هذا الحديث.» (4)
میں کہتا ہوں کہ ممکن ہے امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی حدیث کی طرف (ترجمۃ الباب کے ذریعے) اشارہ فرمایا ہو۔
علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
یہ کہا گیا ہے کہ ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت نہیں ہے . . . . . یقینا دوسری حدیث تعلیم الفرائض پر موجود ہے مگر امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر نہیں تھی اسی لیے ذکر نہیں فرمایا۔(1)
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ نے بھی یہی مناسبت باب اور حدیث میں دی ہے۔(2)
ان تمام تفصیلات سے یہ بات واضح ہوئی کہ ترجمۃ الباب کا حدیث سے دو طریقوں سے مناسبت ہے، پہلی بات جسے علامہ کرمانی رحمہ اللہ نے ذکر فرمائی ہے کہ حدیث کے متن میں یہ الفاظ موجود ہیں: «كونوا عباد الله اخوانا»، لہذا ان کے تحت بھائی بھائی بن کر رہنے میں علم فرائض کے نکتے کی نشاندہی ہے، اور دیگر شارحین کے مطابق امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جسے ترمذی، احمد اور نسائی وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ یہ حقیر اور ناچیز بندہ اللہ تعالی کی رحمت اور اسی کی عنایت سے کہتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب جس حدیث کو پیش کیا ہے اس مکمل حدیث کا تعلق ترجمۃ الباب کے ساتھ وابستہ ہے کیونکہ علم فرائض کا تعلق سوشل معاملات کے ساتھ ہے اور ان معاملات میں بدگمانی سے بچنا، حسد و کینہ سے اجتناب کرنا اور بغض سے دور رہنا انتہائی ضروری ہے، جب یہ امراض دل میں نہیں ہوں گے تو انسان اچھے طریقے سے دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کر پائے گا، مثلا اگر آپ غور کریں سورہ البقرہ میں اللہ تعالی نے مرنے والے کے مال کے بارے میں اور اس کی وصیت کے بارے میں تفصیلی احکامات نازل فرمائے ہیں، ان آیات میں جس کا ذکر البقرۃ کی آیت (180) سے (182) تک ہے ان دو آیات میں کس قدر احتیاط اور اللہ کے خوف کی ترغیب ہے، کیوں آیت میں وصیت کی تبدیلی پر عتاب ہے اور اس تبدیلی سے بچنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ مرنے والے کی وصیت کو ہر دہ شخص تبدیل کر سکتا ہے جو خائن ہو، بدگمان ہو، بغض و عناد رکھنے والا ہو، حسد اور کینہ پرور ہو، لہذا امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑے ہی باریک اور دقیق انداز سے علم فرائض کے باب کو ثابت کرنے کے لیے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث پیش کی ہے، تاکہ علم فرائض سیکھنے والا اپنے نفس کا تزکیہ کرے اور ان امراض قلب سے بچنے کی پوری کوشش کرے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 244   

  حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 6  
´حسد اور پیٹھ پیچھے برائی کی ممانعت`
«. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ، إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ، إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ، وَلا تَنَاجَشُوا، وَلا تَحَاسَدُوا، وَلا تَنَافَسُوا، وَلا تَبَاغَضُوا، وَلا تَدَابَرُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا " . . . .»
. .۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدگمانی سے بچتے رہو، بدگمانی سے بچتے رہو، کیونکہ بدگمانی کی باتیں اکثر جھوٹی ہوتی ہیں، اور (بغیر نیت خرید کے) کسی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ بڑھاؤ، اور آپس میں حسد نہ کرو، اور نہ نفسانیت سے ایک دوسرے سے آگے بڑھو، اور آپس میں دشمنی پیدا نہ کرو، اور کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو، بلکہ سب اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔ . . . [صحيفه همام بن منبه: 6]

شرح الحدیث:
مذکورہ حدیث میں چند ایسی ممنوع اشیاء کا ذکر ہے جو باہم مسلمانوں میں نفرت اور عداوت کا باعث بنتی ہیں۔ اور یہ ایسی معاشرتی برائیاں ہیں جو ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں، اس حدیث پاک میں چند اخلاقی امور کی تلقین کی جا رہی ہے جو اصلاح معاشرہ کے لیے بے حد ضروری ہیں۔

بدگمانی سے بچو:
بدگمانی، دوسرے کے متعلق جھوٹا وہم ہے، اور جو جھوٹ ہی کی ایک قسم ہے:
«فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيْثِ»
پس بدگمانی کی اکثر باتیں جھوٹی ہوتی ہیں۔
امام بغوى رحمة الله عليه فرماتے ہیں:
«إِيَاكُمْ وَالظَّنَّ» کا معنی برے گمان سے بچو، ایسا گمان جس میں دوسرے شخص کے ہر کام میں بدنیتی نظر آتی ہے، جس کے نتیجے میں دو افراد کے درمیان برادرانہ تعلقات خراب ہو جاتے ہیں۔ وہ گمان مراد نہیں جن کا انسان مالک ہی نہیں، دل میں خودبخود پیدا ہو جاتے ہیں، اسی لیے فرمایا:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ» [الحجرات: 12]
اے ایمان والو! بہت ساری بدگمانی کی باتوں سے پرہیز کرو، بے شک بعض بدگمانی گناه ہیں۔
مذکورہ آیت میں مطلق گمان کو گناہ نہیں گردانا گیا بلکہ بعض گمان کو گناہ کہا گیا ہے، اور وہ برا گمان ہے۔ اور وہ گمان جو گناہ نہیں وہ کسی کے متعلق حسن ظن رکھنا ہے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِنَّ حُسْنَ الظَنِّ مِنْ حُسْنِ الْعِبَادَة»
احمد شاکر نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے۔ [مسند احمد، رقم: 7943 - سنن ابو داؤد، كتاب الأدب، رقم: 4993]
یقیناً اچھا گمان بہترین عبادت سے ہے۔
مزید برآں علامہ بغوی رحمة الله عليه فرماتے ہیں:
سفیان ثوری رحمة الله عليه کا کہنا ہے کہ گمان دو طرح کا ہے:
➊ انسان کسی کے متعلق برا گمان رکھے، اور اس کو آگے بیان بھی کرے، تو ایسے گمان پر گناہ ہے۔
➋ اس سے مراد وہ گمان ہے جس کو انسان آگے بیان نہ کرے، ایسے گمان پر گناہ نہیں ہے۔
[شرح السنة: 110/13]
زجاج رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ:
بدکرداروں اور فاسقوں کے ظاہری اعمال سے جو کچھ ظاہر ہوتا ہے، ان کے بارے میں ویسا ہی (برا گمان) رکھنے میں کوئی حرج نہیں، اور جس مسلمان کا ظاہر اچھا ہے، اس کے بارے میں بدگمانی جائز نہیں۔ اور جس کا ظاہر خراب ہو، اس کے بارے میں بدگمانی رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

کسی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ بڑھاؤ:
مراد یہ ہے کہ ایک چیز کا خریدنا منظور نہ ہو، لیکن دوسرے کو دھوکا دینے کے لیے جھوٹ سے اس چیز کی قیمت بڑھائے، اسی طرح کوئی شخص کسی شے کا بھاؤ کر رہا ہو تو تم اس میں دخل اندازی مت کرو۔ دھوکا دینے کے لیے جھوٹ سے بھاؤ بڑھانے والا گنہگار ہے۔

تم حسد نہ کرو:
حسد انسانی فطرت کا جزو لا ینفك ہے، حسد کا معنی یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے پاس کوئی چیز یا نعمت دیکھے اور تمنا کرے کہ یہ چیز میرے پاس ہو، اور اس شخص (جس کے پاس وہ نعمت ہے) سے زائل اور ختم ہو جائے، جبکہ بعض لوگ یہ چاہتے ہیں کہ وہ نعمت ہمیں اگرچہ حاصل نہ ہو لیکن وہ شخص بھی اس نعمت سے محروم ہو جائے۔ اس قسم کا حسد کرنے والے زیادہ خبیث اور بدکردار ہوتے ہیں۔ یاد رہے! اس حدیث میں حسد سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ حسد حرام ہے۔
الله تعالیٰ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو بالعموم تمام مخلوقات کے شر سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی ہے، اور کچھ برائیوں سے بالخصوص پناہ مانگنے کی نصیحت فرمائی ہے، ان میں سے حسد بھی ہے۔ جیسا کہ سورة الفلق میں ہے:
«وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ .......»
اے نبی! کہہ دیجئے: کہ میں حاسد کے حسد سے تیری پناہ چاہتا ہوں، جب وہ اپنا حسد ظاہر کرتا ہے۔
تاکہ محسور کو نقصان نہ پہنچائے، بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ حاسد کے مفہوم میں وہ آدمی بھی داخل ہے جس کی نظر لگ جاتی ہے، اس لیے کہ جو آدمی حاسد، بدطینت اور خبیث النفس ہوتا ہے اسی کی نظر برئی ہوتی ہے۔
عمر بن عبد العزیز رحمة الله عليه فرماتے ہیں:
میں نے حاسد سے زیادہ کسی ظالم کو مظلوم کے مشابہ نہیں دیکھا، حسد کے سبب ظالم ہوتا ہے، لیکن نعمت سے محرومی کے سبب مظلوم معلوم ہوتا ہے۔ [تيسير الرحمن، ص: 1783]
حسد کے حرام ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ الله نے جسے کچھ بھی دیا ہے بغیر حکمت کے نہیں دیا، وہ خواہ اس کا فضل و کرم سہی، خواہ اس آدمی کی محنت کا صلہ ہو، دینے والا تو بہرحال الله خالق کل اور مختار کل ہے، تو نعمت پر اعتراض دراصل الله کے فضل و کرم پر اعتراض ہے، جبکہ مخلوق کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے خالق پر اعتراض کرے وہ ہر چیز پر قادر ہے، جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ جب انسان کسی سے حسد کرتا ہے تو اپنے بھائی کے نقصان کے در پے ہوتا ہے، پھر غیبت، جھوٹ وغیرہ جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ جس کا وہ مرتکب ہوتا ہے۔

رشک کرو:
لیکن رشک کرنا جائز و درست ہے، رشک یعنی دوسرے کو جو نعمت الله نے دی ہے، اس کی آرزو کرنا یہ درست ہے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا حسد إلا على اثنتين: رجل آتاه الله الكتاب وقام به آناء الليل، ورجل اعطاه الله مالا فهو يتصدق به آناء الليل والنهار» [صحيح بخاري، كتاب فضائل القرآن، رقم: 5025]
رشک تو دو ہی آدمیوں پر ہو سکتا ہے، ایک تو اس پر جسے الله نے قرآن مجید کا علم دیا اور وہ اس کے ساتھ رات کی گھڑیوں میں کھڑا ہو کر نماز پڑھتا رہا۔ اور دوسرا آدمی وہ جسے الله تعالیٰ نے مال دیا اور وہ اسے محتاجوں پر رات دن خیرات کرتا رہا۔

تم نفسانیت سے ایک دوسرے سے آگے مت بڑھو:
طبرانی رحمة الله عليه اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
تم ایک دوسرے کی رِیس کرتے ہوئے، ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر دنیا کا مال و دولت حاصل کرنے کی کوشش نہ کرو۔ بلکہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر نیکی کے کام کرنے کی کوشش کرو۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: «فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْن» [المطففون: 26] انہی (نیکی کے) کاموں میں رغبت کرنے والوں کو رغبت کرنی چاہیے۔
گویا یہاں منافست کا معنی رشک کرنا ہے، اور بعض لوگ اس کا معنی حسد کرتے ہیں، وہ درست نہیں۔

تم ایک دوسرے سے دشمنی پیدا نہ کرو، بغض نہ رکھو۔
بغض محبت کی ضد ہے، لہذا ایک دوسرے سے بغض رکھنے کے بجائے ایک دوسرے سے محبت رکھنی چاہیے، کیونکہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:
«إِنَّمَا الْمُؤمِنُوْنَ إِخْوَةٌ» [الحجرات:10]
بےشک مومنین آپس میں بھائی ہیں۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ میں بھی اسلامی اخوت کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے، عبدالله بن عمر رضی الله عنہما سے مروی ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«المسلم اخو المسلم لا يظلمه ولا يسلمه» [صحيح بخاري، كتاب المظالم، رقم: 2442]
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے رسوا کرے۔
اور سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«إن المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضا، وشبك اصابعه» [صحيح بخاري، كتاب الصلوة، رقم: 481]
بے شک مومن مومن کے لیے عمارت کی مانند ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو طاقت پہنچاتا ہے۔ اور آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیا۔
اور اگر یہ بغض دین کی خاطر ہو، «أَلْحُبُّ لِلّهِ وَالْبُغْضُ فِي للّه» کے پیش نظر تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ قرآن مجید میں کفار سے بغض رکھنے کا حکم ہے، اور ان سے دوستی اور محبت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا:
«لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّـهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّـهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّـهِ الْمَصِيرُ» [آل عمران: 28]
اہل ایمان، مومنون کو چھوڑ کر کافروں کو ہرگز دوست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے گا تو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں الایہ کہ تم ان کافروں کے شر سے بچنا چاہو اور اللہ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
امام بخاری رحمه الله نے سیدنا ابو الدردا رضی الله عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ:
«إنا لنكشر فى وجوه اقوام وإن قلوبنا لتلعنهم» [صحيح بخاري، كتاب الادب، قبل حديث، رقم: 6131 تعليقا]
ہم بعض لوگوں کے سامنے مسکرا دیتے ہیں، لیکن ہمارے دل انہیں لعنت کر رہے ہوتے ہیں۔

تم ایک دوسرے سے قطع تعلقی نہ کرو:
اس حدیث میں ایک دوسرے سے قطع تعلقی کرنے، پشت پھیر لینے، منہ موڑ لینے اور بے رخی اختیار کرنے سے بھی منع کر دیا گیا ہے۔ ایک صحیح مسلم کی روایت میں «لَا تَقَاطَعُوْا» کے الفاظ بھی ہیں کہ ایک دوسرے سے تعلق نہ توڑو، غصہ انسانی فطرت کا حصہ ہے، اگر کسی دوست پر غصہ آ ہی جائے تو اسلام نے انسانی نفسیات کا لحاظ رکھتے ہوئے تین دن تک اسے جائز رکھا ہے، تین دنوں سے زیادہ روٹھے رہنا اور ایک دوسرے سے گفتگو نہ کرنا، یہ نفرت و حقارت کا سبب بن سکتا ہے اس صورتحال سے بچنے کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:
«لا يحل لرجل ان يهجر اخاه فوق ثلاث ليال، يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا، وخيرهما الذى يبدا بالسلام» [صحيح بخاري، كتاب الادب، رقم: 6077]
کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع کلامی کرے (بائیکاٹ کرے) دونوں آپس میں ملتے ہیں، ایک اس طرف منہ پھیر لیتا ہے اور دوسرا دوسری طرف رخ پھیر لیتا ہے۔ ان میں سے بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔

تم سب الله کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو:
اس حدیث کے آخر میں بھائی بھائی بن کر رہنے کا حکم فرمایا ہے، تاکہ مسلمان آپس میں اکھٹے اور مضبوط رہیں۔ کیونکہ تم سب مسلمان ایک ہی برادری کے افراد ہو، مسلمان جہاں کہیں بھی ہو دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر کچھ حقوق ہیں جو اخوت اسلامی کے تقاضے بھی ہیں کہ دوسرے پر ظلم نہ کرے، ضرورت کے وقت اس کا ساتھ نہ چھوڑے، اس کو نفرت کی نگاہ سے نہ دیکھے اور اس سے دروغ گوئی نہ کرے وغیرہ، ویسے تو ہر قول رسول ہی ایسا ہے کہ اسے ہر وقت یاد رکھا جائے مگر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا یہ مقدس وعظ ایسا ہے جو ہر وقت یاد رکھا جائے، اور اس پر عمل کیا جائے تو یقینا امت کا بیڑا پار ہو سکے گا۔ الله عظیم و برتر سب کو ایسی ہمت اور طاقت عطا کرے۔ «آمين يا رب العالمين!»
   صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 82   

   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1284  
بدگمانی سے بچو
«وعن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏إياكم والظن فإن الظن اكذب الحديث . متفق عليه»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گمان سے بچو کیونکہ گمان سب سے جھوٹی بات ہے۔ متفق عليه۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1284]
تخریج:
[بخاري 6066]،
[مسلم، البر والصلة / 38]،
[تحفة الاشراف 172/10]
صحیح بخاری میں پوری حدیث اس طرح ہے:
«ولا تحسسوا ولا تجسسوا ولا تناجشوا ولا تحاسدوا ولا تباغضوا ولا تدابروا وكونوا عباد الله إخوانا»
اور نہ ٹوہ لگاؤ، نہ جاسوسی کرو، نہ دھوکے سے (خرید و فروخت میں) بولی بڑھاؤ، نہ ایک دوسرے پر حسد کرو، نہ ایک دوسرے سے دل میں کینہ رکھو اور نہ ایک دوسرے سے قطع تعلق کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ۔

فوائد:
➊ قرطبی نے فرمایا کہ اس جگہ ظن سے مراد ایسی تہمت ہے جس کا کوئی سبب نہ ہو مثلا ایک آدمی کے بدکار یا شرابی ہونے کا خیال دل میں جما لینا حالانکہ اس سے ایسی کوئی بات سرزد نہیں ہوئی کہ اسے ایسا سمجھا جائے۔ اس لئے اس کے ساتھ ہی فرمایا «ولا تجسسوا» جاسوسی مت کرو۔ کیونکہ جب کسی شخص کے برے ہونے کا خیال دل میں جگہ پکڑ لیتا ہے حالانکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہوتی تو آدمی وہ بات ثابت کرنے کے لئے جاسوسی کرتا ہے ٹوہ لگاتا ہے کان لگاتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرما دیا۔ یہ حدیث اس آیت سے بہت ملتی جلتی ہے۔
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا» [49-الحجرات:12]
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو بہت گمان سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں اور نہ جاسوسی کرو اور نہ تم میں سے بعض دوسرے کی غیبت کرے۔
آیت میں مسلمان کی عزت کو محفوظ رکھنے کی بہت ہی زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ چنانچہ پہلے تو کسی بھی مسلم بھائی کے معاملے میں خواہ مخواہ کے گمان سے منع فرمایا جس کا کوئی باعث اور کوئی سبب نہ ہو اگر گمان کرنے والا کہے کہ میں اس گمان کی تحقیق کے لئے جستجو کرتا ہوں تو اسے کہا گیا «وَلَا تَجَسَّسُوا» جاسوسی مت کرو۔ اگر وہ کہے جاسوسی کے بغیر ہی مجھے یہ بات ثابت ہو گئی ہے تو کہا: گیا «وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا» ایک دوسرے کی غیبت (دوسرے بھائی کی عدم موجودگی میں وہ بات جو اسے ناپسند ہو خواہ اس میں وہ موجود ہی ہو) مت کرو۔ [فتح الباري]
➋ ظن کی دو حالتیں ہیں۔ ایک ظن غالب جو کسی دلیل یا مضبوط علامت کے ساتھ قوی ہو جائے اس پر عمل کرنا درست ہے شریعت کے اکثر احکام اسی پر مبنی ہیں اور دنیا کے تقریبا تمام کام اسی پر چلتے ہیں۔ مثلا عدالتوں کے فیصلے گواہوں کی گواہی باہمی تجارت، ٹیلی فون اور خطوط کے ذریعے اطلاعات اور خبر واحد کے راویوں کی روایت وغیرہ ان سب چیزوں میں غور و فکر جانچ پڑتال اور پوری کوشش سے حاصل ہونے والا علم بھی ظن غالب ہے اور اس پر عمل واجب ہے اسے ظن اس لئے کہتے ہیں کہ اس کی جانب مخالف کا ادنیٰ سا امکان رہتا ہے مثلاً ہو سکتا ہے گواہ کی گواہی درست نہ ہو، اطلاع دینے والا جھوٹ بول رہا ہو۔ راوی کو غلطی لگی ہو وغیرہ لیکن اس امکان کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ اگر اس امکان پر جائیں تو دنیا کا کوئی کام ہو ہی نہ سکے۔ اس لئے اپنی پوری کوشش کے بعد دلائل سے جو علم حاصل ہو ظن غالب ہونے کے باوجود اس پر عمل واجب ہے۔
دوسرا ظن وہ ہے جو دل میں آ جاتا ہے مگر اس کی کوئی دلیل نہیں ہوتی، دلیل نہ ہونے کی وجہ سے دل میں اس کے ہونے یا نہ ہونے کی بات برابر ہوتی ہے اسے شک بھی کہتے ہیں یا اس کے ہونے کا امکان اس کے نہ ہونے سے بھی کم ہوتا ہے۔ یہ وہم کہلاتا ہے۔ ان کی یہ صورتیں مذموم ہیں اور ان سے اجتناب واجب ہے۔ «إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ» بے شک بعض گمان گناه ہیں سے یہی مراد ہے اور «إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا» [يونس: 36] بے شک گمان حق کے مقابلہ میں کچھ فائدہ نہیں دیتا اور «وَمَا تَهْوَى الْأَنفُسُ» [النجم: 23] یہ لوگ صرف اپنے گمان کی اور اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں میں اسی ظن کا ذکر ہے۔
➌ جیسا کہ اوپر گزرا حدیث میں ایسے ظن (گمان) سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے جو بے دلیل ہو مثلاٍ ایک آدمی جو ظاہر میں صالح ہے اس کے عیوب پر اللہ کی طرف سے پردہ پڑا ہوا ہے عام مشاہدہ میں وہ عفیف اور امانتدار ہے اس کی بد دیانتی یا گناہ گار ہونے کی کوئی دلیل یا علامت نہیں اس کے متعلق بدگمانی کرنا حرام ہے۔ ہاں اگر گمان کرنے کی کوئی واقعی دلیل یا علامت موجود ہو تو اس وقت گمان منع نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہر گمان سے منع نہیں فرمایا۔ بلکہ فرمایا: «اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ» زیادہ گمان سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں فرمایا: «ما يجوز من الظن» جو گمان جائز ہیں۔ اور اس میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث ذکر کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ما اظن فلانا وفلانا يعرفان من ديننا شيئا» میں فلاں اور فلاں کے متعلق گمان نہیں کرتا کہ وہ ہمارے دین میں سے کچھ بھی جانتے ہیں۔ لیث نے فرمایا: یہ دونوں آدمی منافق تھے۔ انتھی۔ اس جائز گمان سے وہ گمان مراد ہے جس کی علامات اور دلیلیں واضح ہوں۔
➍ اگر دل میں کسی شخص کے برا ہونے کا خیال آئے مگر آدمی اسے اپنے دل میں جگہ نہ دے نہ ہی اس کا پیچھا کرے نہ اس کی غیبت کرے تو اس میں کوئی گناہ نہیں۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ان الله تجاوز لامتي عما حدثت به انفسها ما لم تعمل او تكلم به» [مسلم/ الإيمان 332]
اللہ تعالیٰ نے میری امت کو وہ باتیں معاف کر دی ہیں جو وہ اپنے دل سے کریں جب تک ان پر عمل نہ کریں یا زبان پر لائیں۔
➎ بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے کیونکہ جب کوئی شخص کسی کے متعلق بدگمانی کرتا ہے تو وہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ وہ شخص ایسا ایسا ہے چونکہ حقیقت میں وہ شخص ایسا نہیں ہوتا اس لئے اس کے اس فیصلے کو جھوٹ کہا گیا اور بدترین اس لئے کہ اس نے بغیر کسی قرینے یا سب کے محض نفس اور شیطان کے کہنے پر اسے برا قرار دے لیا۔ جب کہ اس کے برے ہونے کی سرے سے کوئی بنیاد ہی نہیں۔



   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 160   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1284  
´برے اخلاق و عادات سے ڈرانے اور خوف دلانے کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی بہت بڑا جھوٹ ہے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1284»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب لايخطب علي خبطة أخيه حتي ينكح أو يدع، حديث:5143، ومسلم، البر والصلة، باب تحريم الظن والتجسس...،حديث:2563.»
تشریح:
ظن کو سب سے بڑا جھوٹ اس لیے کہا گیا ہے کہ انسان اپنے دل ہی دل میں گمان و ظن کی پرورش کرتا رہتا ہے‘ پھر اسے زبان پر لاتا ہے۔
جھوٹ کی بنیاد کوئی نہیں ہوتی جب کہ برے گمان والا اپنے دل میں ایک بنیاد قائم کرتا ہے اور سامعین پر اس کا جھوٹا ہونا مخفی رہ جاتا ہے‘ چنانچہ عام جھوٹوں کی طرح اس کا پتہ نہیں چل سکتا‘ لہٰذا یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے‘ اس لیے علماء نے اسے تہمت قرار دیا ہے۔
اور تہمت لگانا بہت بڑا گناہ ہے۔
گویا ظن کا دوسرا نام تہمت ہے اور تہمت کبیرہ گناہ ہے۔
اس لیے اس سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ جس معاشرے میں بدگمانی پرورش پائے گی وہاں حسن ظن نام کی کوئی چیز ترقی نہیں کر سکتی اور نہ اس معاشرے کے افراد کے درمیان اعتماد کی فضا ہی پیدا ہو سکتی ہے بلکہ ایک دوسرے کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جائے گا۔
بہرحال یہ معاشرے کی تعمیر و ترقی کی علامت نہیں بلکہ زوال و تخریب کی نشانی ہے۔
صالح معاشرے میں بدگمانی کے جراثیم کو پھولنے پھلنے نہیں دینا چاہیے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1284   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4917  
´بدظنی اور بدگمانی کی ممانعت۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ظن و گمان کے پیچھے پڑنے سے بچو یا بدگمانی سے بچو، اس لیے کہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے، نہ ٹوہ میں پڑو اور نہ جاسوسی کرو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4917]
فوائد ومسائل:
ظن کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے، ظن بمعنی گمان، ظن بمعنی علم و یقین۔
لیکن یہاں طن سےے مراد وہ غلط اور برے گمان ہیں جو کسی سے متعلق دل میں جگہ پا جاتے ہیں اور فی الواقع ان کی کوئی دلیل نہیں ہوتی اور شریعت اس کی تائید نہیں کرتی۔
ظن کی بحث کے لیے مولانا محمد اسماعیل سلفی ؒ کی کتاب حجیت حدیث ایک اہم اور قابلِ مطالعہ کتاب ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4917   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1988  
´بدگمانی کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدگمانی سے بچو، اس لیے کہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1988]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
اسی حدیث میں بدگمانی سے بچنے کی سخت تاکید ہے،
کیوں کہ یہ جھوٹ کی بدترین قسم ہے اس لیے عام حالات میں ہرمسلمان کی بابت اچھا خیال رکھنا ضروری ہے سوائے اس کے کہ کوئی واضح ثبوت اس کے برعکس موجود ہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1988   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1117  
1117- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: تم بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔‏‏‏‏ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1117]
فائدہ:
اس حدیث میں برے گمان سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے، یادر ہے کہ گمان کی دو قسمیں ہیں:
SR پہلی قسم: ER
جو کچھ سوچا وہ بول دیا اور یہ جھوٹ ہے لیکن تحقیق کی غرض سے اور گمان کو درست کرنے کی نیت سے بولنا گناہ اور جھوٹ نہیں ہے۔
SR دوسری قسم: ER
کسی کے متعلق کوئی برا گمان بنالیا اور اس کو اپنے اندر ہی چھپا لیا، یہ گمان جھوٹ اور گناہ تصور نہیں ہوگا، بلکہ گمان پیدا ہو رہا تھا، تو آدمی اس کے شر سے محفوظ رہا اور اس کو اپنے اندر ہی پی گیا۔
بدگمانی کو جھوٹ کہا گیا ہے کیونکہ یہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے، جھوٹی بات سے بدگمانی بڑا جھوٹ ہے۔ ہمیں بدگمانی سے اپنے دل ودماغ کو بالکل صاف رکھنا چاہیے، دوسرے کے بارے میں بدگمانی سے بچنا چاہیے، اور جب دولوگوں کے درمیان بدگمانی پیدا ہو جائے تو سارا کام خراب ہو جا تا ہے، اور شیطان اتفاق و اتحاد کو بدگمانی کی آڑ میں ہی ختم کر دیتا ہے، بدگمانی ہزاروں برائیوں کی جڑ ہے کسی بھی معاملے میں بدگمانی نہیں کرنی چاہیے۔ نیز دیکھیں [تحفته الاحوذي - 120-121/12]
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1115   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6536  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
اياكم واظلن:
بدگمانی سے بچو،
بلاوجہ اور بلا سبب کسی کے کام کو بدنیتی پر محمول کرنا،
یا اس کے بارے میں برا خیال دل میں بٹھا لینا،
اس کی طرف غلط قول یا فعل منسوب کرنا،
کیونکہ یہ سب سے جھوٹا وہم اور خیال ہے،
جو دل میں ابھرتا ہے،
کیونکہ بدگمانی کے نتیجہ میں ہی انسان دوسروں کی کمزوریوں کی ٹوہ میں رہتا ہے اور جاسوسوں کی طرح رازدارانہ طریقے سے دوسروں کے عیوب و نقائص معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے،
ایک دوسرے پر رفعت حاصل کرنے اور بڑھنے کی کوشش کرتا ہے اور بعد والے نقائص اور کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں۔
(2)
لاتحسوا:
کرید نہ کرو،
ٹوہ نہ لگاؤ،
یہ حاسہ سے ہے،
حواس استعمال نہ کرو۔
(3)
ولاتجسسوا:
جس سے ہے،
ہاتھ سے جائزہ لینا،
مقصد ہے لوگوں کے عیوب و نقائص جاننے کی جستجو نہ کرو اور بقول بعض تحس کا معنی ہے،
دوسروں کی باتیں سننے کی کوشش کرنا اور تجسس ہے عیوب کی ٹوہ لگانا،
یا باطنی امور جاننے کی کوشش کرنا تجسس ہے اور حواس ظاہرہ سے معلوم کرنے کی کوشش کرنا،
تجسس ہے یعنی یہ اس صورت میں ہے،
جب کسی دنیوی یا دینی مصلحت اس کی متقاضی نہ ہو کہ اس سے دوسروں کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچ رہا ہو۔
(4)
لاتنافسوا:
دنیوی مال و دولت میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی بے جا حرص و آرزو میں مبتلا نہ ہو،
کیونکہ خیرات اور نیکیوں میں مسابقت اور تنافس مطلوب ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6536   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6066  
6066. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بد گمانی سے بچو کیونکہ بد گمانی کی باتیں اکثر جھوٹی ہوتی ہیں۔ لوگوں کے عیب نہ ڈھونڈ اور ان کی ٹوہ میں نہ لگے رہو، کسی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ بڑھاؤ باہم حسد نہ کرو، آپس میں رقابت نہ رکھو اور نہ ایک دوسرے سے پیٹھ ہی پھیرو (بلکہ) اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6066]
حدیث حاشیہ:
نجش یہ ہے کہ ایک چیز کا خرید نامنظور نہ ہو لیکن دوسرے کو دھوکا دینے کے لئے جھوٹ سے اس کی قیمت بڑھا ئے، اسی طرح کوئی بھائی کسی شے کا بھاؤ کر رہا ہے تو تم اس میں دخل اندازی مت کرو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6066   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6064  
6064. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اپنے آپ کو بد گمانی سے بچاؤ کیونکہ بد گمانی کی باتیں اکثر جھوٹی ہوتی ہیں ایک دوسرے کے عیوب کی جستجو نہ کرو اور نہ کسی کی جاسوسی ہی کرو۔ آپس میں حسد نہ کرو۔ ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو اور نہ باہم بغض ہی رکھو۔ اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6064]
حدیث حاشیہ:
اللہ پاک ہر مسلمان کو اس ارشاد نبوی پر عمل کی توفیق بخشے آمین۔
تحسسوا اور تجسسو ہر دو میں ایک تا حذف ہو گئی ہے، خطابی نے اس کا مطلب بتایا کہ لوگوں کے عیوب کی تلاش نہ کرو، تحسسو کا مادہ حاسہ ہے مطلق تلاش کے لئے بھی یہ مستعمل ہے جیسے آیت سورۃ یوسف میں حضرت یعقوب کا قول نقل ہوا ہے، اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ يُوسُفَ وَأَخِيهِ (یوسف: 87)
جاؤ یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو۔
ظن سے بدگمانی مراد ہے یعنی بغیرتحقیق کئے دل میں بد گمانی بٹھا لینا یہ سچے مسلمان کا شیوہ نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6064   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6724  
6724. حضرت ابو ہریرہ روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: گمان سے اجتناب کرو کیونکہ بدظنی انتہائی جھوٹی بات ہوتی ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ رہو (ایک دوسرے کی برائی کی تلاش نہ کرو) اور نہ ایک دوسرے سے بغض ہی رکھو، نیز پیٹھ پیچھے کسی دوسرے کی برائی بیان نہ کرو، اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن کر رہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6724]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے اس طرح پر ہے کہ جب آدمی کو قرآن و حدیث کا علم نہ ہوگا تو اپنے گمان سے فیصلہ کرے گا حکم دے گا اس میں علم فرائض بھی آگیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6724   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6066  
6066. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بد گمانی سے بچو کیونکہ بد گمانی کی باتیں اکثر جھوٹی ہوتی ہیں۔ لوگوں کے عیب نہ ڈھونڈ اور ان کی ٹوہ میں نہ لگے رہو، کسی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ بڑھاؤ باہم حسد نہ کرو، آپس میں رقابت نہ رکھو اور نہ ایک دوسرے سے پیٹھ ہی پھیرو (بلکہ) اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6066]
حدیث حاشیہ:
(1)
لفظ ظن عربی زبان میں کئی معنی دیتا ہے۔
اس کے ایک معنی گمان کرنا اور دوسرے معنی علم ویقین بھی ہیں لیکن حدیث میں ظن سے مراد وہ غلط اور برے گمان ہیں جو کسی کے متعلق دل میں جگہ پا جاتے ہیں، حالانکہ ان کی کوئی دلیل نہیں ہوتی۔
شریعت میں ایسے گمانوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے متعلق حسن ظن رکھنے کا حکم ہے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی لایا گیا اور بتایا گیا کہ یہ فلاں آدمی ہے اور اس کی ڈاڑھی سے شراب کے قطرے ٹپک رہے ہیں تو انھوں نے فرمایا:
ہمیں ٹوہ لگانے سے منع کیا گیا ہے۔
ہاں، اگر کوئی بات واضح ہو تو ہم اس کا ضرور مواخذہ کریں گے۔
(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 4890) (2)
بہرحال بدگمانی اور تجسس سے کئی معاشرتی بیماریاں جنم لیتی ہیں اور معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے، لہٰذا ہر مسلمان کو ان سے بچنا چاہیے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6066   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6724  
6724. حضرت ابو ہریرہ روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: گمان سے اجتناب کرو کیونکہ بدظنی انتہائی جھوٹی بات ہوتی ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ رہو (ایک دوسرے کی برائی کی تلاش نہ کرو) اور نہ ایک دوسرے سے بغض ہی رکھو، نیز پیٹھ پیچھے کسی دوسرے کی برائی بیان نہ کرو، اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن کر رہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6724]
حدیث حاشیہ:
(1)
جس وقت علم اور علماء نہیں رہیں گے تو جہالت عام ہو گی۔
اس وقت گفتگو کا دارومدار صرف ظن و تخمین پر ہو گا۔
ایسے لوگوں کی زبانوں پر جھوٹ جلدی جاری ہوتا ہے۔
جب کسی کو قرآن و حدیث کا علم نہیں ہو گا تو اپنے گمان کے فیصلے کرے گا، اس طرح علم فرائض بھی ان کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ کو علم فرائض کے متعلق اپنے معیار کی کوئی حدیث نہ مل سکی، اس لیے مذکورہ حدیث سے تعلیم فرائض کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فرائض کا علم سیکھو اور سکھاؤ کیونکہ میں جلد ہی دنیا سے رخصت ہونے والا ہوں اور وہ وقت آنے والا ہے کہ علم دنیا سے اٹھ جائے گا، اس حد تک کہ دو آدمی ترکے کے متعلق جھگڑا کریں گے، لیکن صحیح فیصلہ کرنے والا انہیں نہیں ملے گا۔
(المستدرك للحاکم: 333/4)
ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
علم فرائض حاصل کرو کیونکہ یہ نصف علم ہے اور یہ پہلا علم ہو گا جو میری امت کے سینوں سے چھین لیا جائے گا۔
(سنن ابن ماجة، الفرائض، حدیث: 2719)
علم فرائض کو نصف علم اس لیے کہا گیا ہے کہ انسان کی دو حالتیں ہوتی ہیں:
حالت حیات اور حالت موت، اس علم کا تعلق حالت موت سے ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6724