نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
اعتکاف کا بیان

4. لیلتہ لقدر کا بیان

حدیث نمبر: 270
148- وبه قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فى رمضان فقال: ”إني أريت هذه الليلة حتى تلاحى رجلان فرفعت، فالتمسوها فى التاسعة والسابعة والخامسة.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو فرمایا: مجھے آج رات (لیلتہ القدر) دکھائی گئی تھی حتیٰ کہ دو آدمی جھگڑ پڑے تو اسے اٹھا لیا گیا لہٰذا اسے نویں، ساتویں اور پانچویں (راتوں)میں تلاش کرو۔
تخریج الحدیث: «148- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 320/1 ح 713، ك 19 ب 6 ح 13) التمهيد 200/2، الاستذكار:662، و أخرجه النسائي فى السنن الكبريٰ (3396) من حديث مالك به ورواه البخاري (2023) من حديث حميد الطويل حدثني أنس عن عبادة بن الصامت به و سنده صحيح.»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 270 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 270  
´لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہوتی ہے`
«. . . خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فى رمضان فقال: إني اريت هذه الليلة حتى تلاحى رجلان فرفعت، فالتمسوها فى التاسعة والسابعة والخامسة . . .»
. . . روایت ہے کہ رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو فرمایا: مجھے آج رات (لیلتہ القدر) دکھائی گئی تھی حتیٰ کہ دو آدمی جھگڑ پڑے تو اسے اٹھا لیا گیا لہٰذا اسے نویں، ساتویں اور پانچویں (راتوں)میں تلاش کرو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 270]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه النسائي فى السنن الكبريٰ 3396، من حديث مالك به ورواه البخاري 2023، من حديث حميد الطّويل: حدثني أنس عن عبادة بن الصامت به وسنده صحيح]

تفقه:
➊ لیلۃ القدر کے بارے میں راجح یہی ہے کہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہوتی ہے۔ یہ رات ہر رمضان میں ہوتی ہے۔
➋ مسلمانوں کا آپس میں جھگڑنا سخت نقصان کا باعث ہے اور دنیا وآخرت کے خسارے کا بھی امکان ہے اِلا یہ کہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دے۔
➌ حافظ ابن عبدالبر نے کہا: اس باب میں آثار اس پر دلالت کرتے ہیں کہ اس رات «ليلة القدر» کی کوئی خاص علامت نہیں ہوتی جس سے اس کی حقیقی معرفت کا یقین ہو جیسا کہ عوام کہتے ہیں۔ [التمهيد 2/212]
● لیکن یاد رہے کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ اس رات کے بعد والی صبح میں سورج اس طرح طلوع ہوتا ہے کہ اُس کی شعاعیں نہیں ہوتیں۔
➍ عوام میں جو مشہور ہے کہ لیلۃ القدر کو درخت سجدہ کرتے ہیں۔ وغیرہ، ان کی کوئی اصل صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 148   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمہ اللہ
الشیخ عبدالستار الحماد حفظ اللہ
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 49  
´شب قدر رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک پوشیدہ رات ہے `
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يُخْبِرُ بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ، فَتَلَاحَى رَجُلَانِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَقَالَ:" إِنِّي خَرَجْتُ لِأُخْبِرَكُمْ بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ، وَإِنَّهُ تَلَاحَى فُلَانٌ وَفُلَانٌ، فَرُفِعَتْ وَعَسَى أَنْ يَكُونَ خَيْرًا لَكُمُ، الْتَمِسُوهَا فِي السَّبْعِ وَالتِّسْعِ وَالْخَمْسِ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے سے نکلے، لوگوں کو شب قدر بتانا چاہتے تھے (وہ کون سی رات ہے) اتنے میں دو مسلمان آپس میں لڑ پڑے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں تو اس لیے باہر نکلا تھا کہ تم کو شب قدر بتلاؤں اور فلاں فلاں آدمی لڑ پڑے تو وہ میرے دل سے اٹھا لی گئی اور شاید اسی میں کچھ تمہاری بہتری ہو۔ (تو اب ایسا کرو کہ) شب قدر کو رمضان کی ستائیسویں، انتیسویں و پچیسویں رات میں ڈھونڈا کرو . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 49]

تشریح:
اس حدیث سے بھی حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود مرجیہ کی تردید کرتے ہوئے یہ بتلانا ہے کہ نیک اعمال سے ایمان بڑھتا ہے اور گناہوں سے گھٹتا ہے۔

شب قدر کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک پوشیدہ رات ہے اور وہ ہر سال ان تواریخ میں گھومتی رہتی ہے، جو لوگ شب قدر کو ستائیسویں شب کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں، ان کا خیال صحیح نہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ:
حدیث 45 میں اور اسی طرح بہت سی مرویات میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا نام بار بار آتا ہے لہٰذا ان کے مختصر حالات جاننے کے لیے یہ کافی ہے کہ آپ علم حدیث کے سب سے بڑے حافظ اور اساطین میں شمار ہیں، صاحب فتویٰ ائمہ کی جماعت میں بلند مرتبہ رکھتے تھے۔ علمی شوق میں سارا وقت صحبت نبوی میں گزارتے تھے دعائیں بھی ازدیاد علم ہی کی مانگتے تھے، نشر حدیث میں بھی اتنے ہی سرگرم تھے، مرویات کی تعداد 5374 تک پہنچی ہوئی ہے۔ جن میں 325 متفق علیہ ہیں، فقہ میں بھی کامل دستگاہ حاصل تھی۔ عربی کے علاوہ فارسی و عبرانی بھی جانتے تھے، مسائل توارۃ سے بھی پوری واقفیت تھی۔

خشیت ربانی کا یہ عالم تھا کہ احتساب قیامت کے ذکر پر چیخ مار کر بےہوش ہو جاتے تھے، ایک مرتبہ مخصوص طور پر یہ حدیث سنائی جس کے دوران میں کئی مرتبہ بےہوش ہوئے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ بروز قیامت سب سے پہلے عالم قرآن، شہید اور دولت مند فیصلہ کے لیے طلب ہوں گے، اول الذکر سے پوچھا جائے گا کہ میں نے تجھے علم قرآن عطا کیا، اس پر تو نے عمل بھی کیا؟ جواب دے گا شبانہ روز تلاوت کرتا رہتا تھا۔ فرمائے گا، جھوٹ بولتا ہے، تو اس لیے تلاوت کرتا تھا کہ قاری کا خطاب مل جائے، مل گیا۔ دولت مند سے سوال ہو گا کہ میں نے تجھے دولت مند بنا کر دوسروں کی دست نگری سے بے نیاز نہیں کیا تھا؟ اس کا بدلا کیا دیا؟ عرض کرے گا صلہ رحمی کرتا تھا، صدقہ دیتا تھا۔ ارشاد ہو گا، جھوٹ بولتا ہے مقصد تو یہ تھا کہ سخی مشہور ہو جائے، وہ ہو گیا۔ شہید سے سوال ہوگا۔ وہ کہے گا کہ الٰہ العالمین میں تو تیرے حکم جہاد ہی کے تحت لڑا، یہاں تک کہ تیری راہ میں مارا گیا۔ حکم ہو گا غلط ہے، تیری نیت تو یہ تھی کہ دنیا میں شجاع و جری مشہور ہو جائے، وہ مقصد حاصل ہو گیا۔ ہمارے لیے کیا کیا؟ یہ حدیث بیان کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے زانو پر ہاتھ مار کر ارشاد فرمایا کہ سب سے پہلے انہیں تینوں سے جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی۔ [ترمذی، ابواب الزہد]

شوق عبادت، گھر میں ایک بیوی اور ایک خادم تھا، تینوں باری باری تہائی تہائی شب مصروف عبادت رہتے تھے بعض اوقات پوری پوری راتیں نماز میں گزار دیتے۔ آغاز ماہ میں تین روزے التزام کے ساتھ رکھتے، ایک روز تکبیر کی آواز سن کر ایک صاحب نے پوچھا تو فرمایا کہ اللہ کا شکر ادا کر رہا ہوں کہ ایک دن تھا کہ میں برہ بنت غزوان کے پاس محض روٹی پر ملازم تھا، اس کے بعد وہ دن بھی اللہ نے دکھایا کہ وہ میرے عقد میں آ گئی۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بےحد محبت تھی، اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر سختی سے پابند تھے، اہل بیت اطہار سے والہانہ محبت رکھتے تھے اور جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھتے تو آبدیدہ ہو جاتے تھے۔ اطاعت والدین کا یہ کتنا شاندار مظاہرہ تھا کہ شوق عبادت کے باوجود محض ماں کی تنہائی کے خیال سے ان کی زندگی میں حج نہیں کیا۔ [مسلم، جلد: 2]

قابل فخر خصوصیت یہ ہے کہ ویسے تو آپ کے اخلاق بہت بلند تھے اور حق گوئی کے جوش میں بڑے سے بڑے شخص کو فوراً پیچھے روک دیتے تھے، چنانچہ جب مدینہ میں ہنڈی یا چک کا رواج ہوا ہے تو آپ نے مروان سے جا کر کہا کہ تو نے «ربا» حلال کر دیا، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اشیائے خوردنی کی بیع اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ بائع اسے ناپ تول نہ لے، اسی طرح اس کے یہاں تصاویر آویزاں دیکھ کر اسے ٹوکا اور اسے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ ایک دفعہ مروان کی موجودگی میں فرمایاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح فرمایا ہے کہ میری امت کی ہلاکت قریش کے لونڈوں کے ہاتھوں میں ہو گی۔

لیکن سب سے نمایاں چیز یہ تھی کہ منصب امارت پر پہنچ کر اپنے فقر کو نہ بھولے۔ یا تو یہ حالت تھی کہ روٹی کے لیے گھوڑے کے پیچھے دوڑتے، مسلسل فاقوں سے غش پہ غش آتے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ اصحاب صفہ میں تھے کسی سے سوال نہ کرتے، لکڑیاں جنگل سے کاٹ لاتے، اس سے بھی کام نہ چلتا، رہگزر پر بیٹھ جاتے کہ کوئی کھلانے کے لیے لے جائے یا یہ عالم ہوا کہ گورنری پر پہنچ گئے، سب کچھ حاصل ہو گیا، لیکن فقیرانہ سادگی برابر قائم رکھی، ویسے اچھے سے اچھا پہنا، کتاں کے بنے ہوئے کپڑے پہنے اور ایک سے ناک صاف کر کے کہا، واہ واہ! ابوہریرہ آج تو کتاں سے ناک صاف کرتے ہو، حالانکہ کل شدت فاقہ سے مسجد نبوی میں غش کھا کر گر پڑا کرتے تھے۔ شہر سے نکلتے تو سواری میں گدھا ہوتا، جس پر معمولی نمدہ کسا ہوتا۔ چھال کی رسی کی لگام ہوتی۔ جب سامنے کوئی آ جاتا تو مزاحاً خود کہتے، راستہ چھوڑو امیرکی سواری آ رہی ہے۔

بڑے مہمان نواز اور سیر چشم تھے، اللہ تعالیٰ آج کسی کو معمولی فارغ البالی بھی عطا کرتا ہے تو غرور سے حالت اور ہو جاتی ہے مگر اللہ نے آپ کو زمین سے اٹھاکر عرش پر بٹھا دیا، لیکن سادگی کا وہی عالم رہا۔ (رضی اللہ عنہ)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 49   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6049  
6049. حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں کو لیلۃ القدر کی بشارت دینے کے لیے گھر سے نکلے۔ اس دوران میں مسلمانوں کے دو آدمی کسی بات پر جھگڑنے لگے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: میں اس لیے گھر سے نکلا تھا کہ تمہیں شب قدر کی بشارت دوں لیکن فلاں فلاں جھگڑنے لگے اس لیے وہ اٹھالی گئی۔ ممکن ہے کہ یہی تمہارے لیے اچھا ہو۔ اب تم اسے 29۔ 27، 25 رمضان کی راتوں میں تلاش کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6049]
حدیث حاشیہ:
ان کے علاوہ دیگر طاق راتوں میں کبھی کبھی لیلۃ القدر کا امکان ہو سکتا ہے جیسا کہ دوسری روایات میں آیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6049   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 49  
49. حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ شب قدر بتانے کے لیے (اپنے حجرے سے) نکلے۔ اتنے میں دو مسلمان آپس میں جھگڑ پڑے۔ آپ نے فرمایا: میں تو اس لیے باہر نکلا تھا کہ تمہیں شب قدر بتاؤں، مگر فلاں فلاں آدمی جھگڑ پڑے، اس لیے وہ (میرے دل سے) اٹھا لی گئی اور شاید یہی تمہارے حق میں مفید ہو۔ اب تم شب قدر کو رمضان کی ستائیسویں، انتیسویں اور پچیسویں رات میں تلاش کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:49]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے بھی حضرت امام بخاری  کا مقصود مرجیہ کی تردید کرتے ہوئے یہ بتلانا ہے کہ نیک اعمال سے ایمان بڑھتا ہے اور گناہوں سے گھٹتا ہے۔
شب قدر کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا:
وہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک پوشیدہ رات ہے اور وہ ہرسال ان تواریخ میں گھومتی رہتی ہے، جو لوگ شب قدر کو ستائیسویں شب کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں، ان کا خیال صحیح نہیں۔
حضرت ابوہریرہ ؓ:
حدیث 45 میں اور اسی طرح بہت سی مرویات میں حضرت ابوہریرہ ؓ کا نام باربار آتا ہے لہٰذا ان کے مختصر حالات جاننے کے لیے یہ کافی ہے کہ آپ علم حدیث کے سب سے بڑے حافظ اور اساطین میں شمار ہیں، صاحب فتویٰ ائمہ کی جماعت میں بلند مرتبہ رکھتے تھے۔
علمی شوق میں سارا وقت صحبت نبویﷺ میں گزارتے تھے دعائیں بھی ازدیاد علم ہی کی مانگتے تھے، نشرحدیث میں بھی اتنے ہی سرگرم تھے، مرویات کی تعداد5374 تک پہنچی ہوئی ہے۔
جن میں 325 متفق علیہ ہیں، فقہ میں بھی کامل دستگاہ حاصل تھی۔
عربی کے علاوہ فارسی وعبرانی بھی جانتے تھے، مسائل توارۃ سے بھی پوری واقفیت تھی۔
خشیت ربانی کایہ عالم تھا کہ احتساب قیامت کے ذکر پر چیخ مارکر بے ہوش ہوجاتے تھے، ایک مرتبہ مخصوص طور پر یہ حدیث سنائی جس کے دوران میں کئی مرتبہ بے ہوش ہوئے۔
حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا:
بروز قیامت سب سے پہلے عالم قرآن، شہید اور دولت مند فیصلہ کے لیے طلب ہوں گے، اول الذکر سے پوچھا جائے گا کہ میں نے تجھے علم قرآن عطا کیا، اس پر تونے عمل بھی کیا؟ جواب دے گا شبانہ روز تلاوت کرتا رہتا تھا۔
فرمائے گا، جھوٹ بولتا ہے، تواس لیے تلاوت کرتا تھا کہ قاری کا خطاب مل جائے، مل گیا۔
دولت مند سے سوال ہوگا کہ میں نے تجھے دولت مند بنا کر دوسروں کی دست نگری سے بے نیاز نہیں کیا تھا؟ اس کا بدلا کیا دیا؟ عرض کرے گا صلہ رحمی کرتا تھا، صدقہ دیتا تھا۔
ارشادہوگا، جھوٹ بولتا ہے مقصد تو یہ تھا کہ سخی مشہور ہوجائے، وہ ہوگیا۔
شہید سے سوال ہوگا۔
وہ کہے گا کہ الٰہ العالمین میں توتیرے حکم جہاد ہی کے تحت لڑا، یہاں تک کہ تیری راہ میں مارا گیا۔
حکم ہوگا غلط ہے، تیری نیت تو یہ تھی کہ دنیا میں شجاع وجری مشہور ہو جائے، وہ مقصد حاصل ہوگیا۔
ہمارے لیے کیا کیا؟ یہ حدیث بیان کرکے حضور ﷺنے میرے زانو پر ہاتھ مارکر ارشاد فرمایا:
سب سے پہلے انہیں تینوں سے جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی۔
(ترمذی، ابواب الزہد)
عبادت سے عشق تھا، گھر میں ایک بیوی اور ایک خادم تھا، تینوں باری باری تہائی تہائی شب مصروف عبادت رہتے تھے بعض اوقات پوری پوری راتیں نماز میں گذار دیتے۔
آغاز ماہ میں تین روزے التزام کے ساتھ رکھتے، ایک روز تکبیر کی آواز سن کر ایک صاحب نے پوچھا توفرمایا کہ خدا کا شکر ادا کررہاہوں کہ ایک دن تھا کہ میں برہ بنت غزوان کے پاس محض روٹی پر ملازم تھا، اس کے بعد وہ دن بھی اللہ نے دکھایا کہ وہ میرے عقد میں آگئی۔
حضور ﷺ سے بے حد محبت تھی، اسوۂ رسول ﷺ پر سختی سے پابند تھے، اہل بیت اطہار سے والہانہ محبت رکھتے تھے اور جب حضرت حسن ؓ کو دیکھتے توآبدیدہ ہوجاتے تھے۔
اطاعت والدین کا یہ کتنا شان دار مظاہرہ تھا کہ شوق عبادت کے باوجود محض ماں کی تنہائی کے خیال سے ان کی زندگی میں حج نہیں کیا۔
(مسلم، جلد: 2)
قابل فخر خصوصیت یہ ہے کہ ویسے تو آپ کے اخلاق بہت بلند تھے اور حق گوئی کے جوش میں بڑے سے بڑے شخص کو فوراً پیچھے روک دیتے تھے، چنانچہ جب مدینہ میں ہنڈی یا چک کا رواج ہوا ہے تو آپ نے مروان سے جاکر کہا کہ تونے ربا حلال کردیا، کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے:
اشیائے خوردنی کی بیع اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ بائع اسے ناپ تول نہ لے، اسی طرح اس کے یہاں تصاویر آویزاں دیکھ کر اسے ٹوکا اور اسے سرتسلیم خم کرنا پڑا۔
ایک دفعہ مروان کی موجودگی میں فرمایا:
حضور ﷺ نے صحیح فرمایا ہے:
میری امت کی ہلاکت قریش کے لونڈوں کے ہاتھوں میں ہوگی۔
لیکن سب سے نمایاں چیز یہ تھی کہ منصب امارت پر پہنچ کر اپنے فقر کو نہ بھولے۔
یاتویہ حالت تھی کہ روٹی کے لیے گھوڑے کے پیچھے دوڑتے، مسلسل فاقوں سے غش پہ غش آتے، حضور ﷺ کے سواکوئی پوچھنے والا نہ تھا۔
اصحاب صفہ میں تھے کسی سے سوال نہ کرتے، لکڑیاں جنگل سے کاٹ لاتے، اس سے بھی کام نہ چلتا، رہ گزر پر بیٹھ جاتے کہ کوئی کھلانے کے لیے لے جائے یایہ عالم ہوا کہ گورنری پر پہنچ گئے، سب کچھ حاصل ہوگیا، لیکن فقیرانہ سادگی برابر قائم رکھی، ویسے اچھے سے اچھا پہنا، کتاں کے بنے ہوئے کپڑے پہنے اور ایک سے ناک صاف کرکے کہا، واہ واہ! ابوہریرہؓ آج تو کتاں سے ناک صاف کرتے ہو، حالانکہ کل شدت فاقہ سے مسجد نبوی میں غش کھاکر گر پڑا کرتے تھے۔
شہر سے نکلتے توسواری میں گدھا ہوتا، جس پر معمولی نمدہ کسا ہوتا۔
چھال کی رسی کی لگام ہوتی۔
جب سامنے کوئی آ جاتا تو مزاحا خود کہتے، راستہ چھوڑو امیرکی سواری آرہی ہے۔
بڑے مہمان نواز اور سیرچشم تھے، اللہ تعالیٰ آج کسی کو معمولی فارغ البالی بھی عطا کرتا ہے توغرور سے حالت اور ہوجاتی ہے مگر خدا نے آپ کو زمین سے اٹھاکر عرش پر بٹھادیا، لیکن سادگی کا وہی عالم رہا۔
(رضی اللہ عنہ)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 49   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:49  
49. حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ شب قدر بتانے کے لیے (اپنے حجرے سے) نکلے۔ اتنے میں دو مسلمان آپس میں جھگڑ پڑے۔ آپ نے فرمایا: میں تو اس لیے باہر نکلا تھا کہ تمہیں شب قدر بتاؤں، مگر فلاں فلاں آدمی جھگڑ پڑے، اس لیے وہ (میرے دل سے) اٹھا لی گئی اور شاید یہی تمہارے حق میں مفید ہو۔ اب تم شب قدر کو رمضان کی ستائیسویں، انتیسویں اور پچیسویں رات میں تلاش کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:49]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کا تعلق عنوان کے پہلے حصے سے ہے کیونکہ لڑائی کے موقع پر عموماً آوازیں بلند ہوجاتی ہیں اور ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں رفع صوت پر حبط اعمال کا خطرہ قرآن کریم سے ثابت ہے۔
(الحجرات: 49: 2)
پہلے تو لڑائی جھگڑا خود ہی ایک مذموم فعل ہے۔
پھر اگر یہ فعل مسجد میں ہوتو اس کی شناعت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
پھر یہ واقعہ خود مسجد نبوی میں پیش آیا جہاں ایک نماز پڑھنے سے ایک ہزار نماز کا ثواب ملتا ہے، مزید برآں وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔
یہ تمام چیزیں ایک بُرائی کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہیں۔
ایسی صورت حال کے پیش نظر تو حبط اعمال کا خطرہ ہی خطرہ ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک سے اس کی تعیین کا علم محو کردینے میں امت کے لیے یہ تنبیہ ہے کہ یہ بھی احباط ہی کی ایک قسم ہے، لہذا ہمیں حبط کے تمام اسباب سے اجتناب کرنا چاہیے۔

اس حدیث کا عنوان کے دوسرے حصے سے بھی تعلق ہوسکتا ہے کیونکہ اس میں باہمی جنگ وجدال پر اصرار سے اجتناب کا امر تھا۔
اس حدیث میں تقاتل(باہم لڑائی)
کی خرابی اور اس کا انجام بتایا گیا ہے کہ اس خصومت کی نحوست سے شب قدر کی تعیین جیسی عظیم دولت سے ہمیں محروم کردیاگیا اگرچہ اس میں یہ حکمت تھی کہ اس کی تلاش میں لوگ زیادہ عبادت کریں۔
عنوان کے آخری حصے سے اس حدیث کی مناسبت بایں طور پر بھی بیان کی گئی ہےکہ باہمی جنگ وجدال بسا اوقات گالی گلوچ تک پہنچا دیتا ہے جو فسق ہے جورفتہ رفتہ ایمان کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لیلۃ القدر رمضان المبارک کی آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات ہے اور وہ ہرسال انھی تاریخوں میں آتی ہے۔
جو لوگ اس کو ستائیسویں رات کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں، ان کا خیال درست نہیں ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 49   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2023  
2023. حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ ہمیں شب قدر کی خبردینے کے لیے تشریف لارہے تھے کہ دو مسلمان آپس میں جھگڑا کرنے لگے۔ آپ نے فرمایا: میں تمھیں شب قدر بتانے کے لیے باہر آیا تھا لیکن فلاں فلاں جھگڑ پڑے تو اس کی معرفت کو اٹھا لیا گیا اور امید ہے کہ تمھارے حق میں یہی بہتر ہوگا لہٰذا اب تم اسے نویں، ساتویں اور پانچویں رات میں تلاش کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2023]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے مذکورہ حدیث کی تشریح کی ہے کیونکہ حدیث کے الفاظ ہیں:
لوگوں کے جھگڑنے کی وجہ سے اسے اٹھا لیا گیا۔
حالانکہ شب قدر کو نہیں بلکہ اس کی تعیین اور معرفت کو اٹھا لیا گیا ہے۔
اس کا قرینہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے بعد اسے آخری عشرے کی مخصوص راتوں میں تلاش کرنے کا حکم دیا ہے۔
اگر اس کی ذات اور وجود کو اٹھا لیا گیا ہوتا تو اسے مخصوص راتوں میں تلاش کرنا چہ معنی دارد؟ (2)
محدثین نے امام بخاری ؒ کے اس قسم کے تراجم اور عناویں کو شارحہ قرار دیا ہے۔
اس کی معرفت اور پہچان کا اٹھایا جانا ہمارے لیے اس لیے بہتر ہے کہ اس اخفا کی وجہ سے کم از کم آخری عشرے کی عبادت ہوتی رہے گی۔
(3)
علمائے حدیث نے احادیث کی روشنی میں شب قدر کی کچھ علامات ذکر کی ہیں، چند ایک حسب ذیل ہیں:
٭ شب قدر کی صبح کو سورج بلند ہونے تک اس کی شعاع نہیں ہوتی وہ تھالی کی مانند ہوتا ہے۔
(صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث: 1785(762)
٭ اس میں جب چاند طلوع ہوتا ہے تو بڑے تھال کے کنارے کی طرح معلوم ہوتا ہے۔
(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2779(1170)
٭ وہ رات بڑی معتدل ہوتی ہے، اس میں گرمی ہوتی ہے نہ سردی، اس صبح کا سورج اس طرح طلوع ہوتا ہے کہ اس کی سرخی مدہم ہوتی ہے۔
(صحیح ابن خزیمة: 331/3)
٭ حافظ ابن حجر ؒ نے ابن ابی شیبہ کے حوالے سے لکھا ہے:
اس رات ہلکی ہلکی ہوا چلتی ہے اور بارش بھی ہوتی ہے، نیز اس رات شیاطین کو شہاب ثابت نہیں مارے جاتے کیونکہ اس رات اتنے فرشتے زمین پر اترتے ہیں کہ شیاطین ان سے دبک جاتے ہیں۔
(فتح الباري: 330/4، ومسندأحمد: 340/4)
٭ حافظ ابن حجر ؒ نے طبری کے حوالے سے لکھا ہے:
اس رات ایک گھڑی ایسی بھی آتی ہے کہ تمام درخت سجدہ ریز ہو جاتے ہیں اور امام بیہقی کے حوالے سے لکھا ہے:
اس رات نمکین پانی میٹھا ہو جاتا ہے لیکن ان روایات کی استنادی حیثیت انتہائی کمزور ہے۔
(فتح الباري: 330/4) (4)
اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ شب قدر کی معرفت کا اٹھ جانا لوگوں کے جھگڑنے کی وجہ سے ہوا لیکن صحیح مسلم کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مجھے شب قدر دکھائی جا رہی تھی کہ اچانک مجھے اہل خانہ نے بیدار کر دیا تو میں اسے بھول گیا۔
(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2768(1166)
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نسیان کا سبب اہل خانہ کا آپ کو بیدار کر دینا تھا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے کہ متعدد دفعہ ایسا ہوا ہو یا ایک ہی واقعے میں دو دفعہ نسیان ہو گیا ہو۔
(فتح الباري: 340/4)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2023   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6049  
6049. حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں کو لیلۃ القدر کی بشارت دینے کے لیے گھر سے نکلے۔ اس دوران میں مسلمانوں کے دو آدمی کسی بات پر جھگڑنے لگے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: میں اس لیے گھر سے نکلا تھا کہ تمہیں شب قدر کی بشارت دوں لیکن فلاں فلاں جھگڑنے لگے اس لیے وہ اٹھالی گئی۔ ممکن ہے کہ یہی تمہارے لیے اچھا ہو۔ اب تم اسے 29۔ 27، 25 رمضان کی راتوں میں تلاش کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6049]
حدیث حاشیہ:
(1)
مسلمانوں میں سے جھگڑنے والے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن ابی حدرد رضی اللہ عنہ تھے، (فتح الباري: 574/10)
ان کا جھگڑا قرض لینے دینے کے متعلق تھا۔
شاید لڑتے وقت گالی گلوچ تک نوبت پہنچ گئی ہو۔
اس کی نحوست سے شب قدر کی تعیین کو اٹھا لیا گیا، شب قدر کو نہیں اٹھایا گیا تھا۔
(2)
بہرحال لڑائی جھگڑا اور گالی گلوچ اس قدر باعث نحوست ہے کہ انسان ان کی وجہ سے بڑی سے بڑی سعادت سے محروم ہو سکتا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے گالی گلوچ کی نحوست بیان کرنے کے لیے یہ حدیث بیان کی ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6049   


حدیث نمبر: 271
210- وبه: أن رجالا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أروا ليلة القدر فى المنام فى السبع الأواخر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”إني أرى رؤياكم قد تواطأت فى السبع الأواخر، فمن كان متحريها فليتحرها فى السبع الأواخر.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے بعض لوگوں نے خواب میں دیکھا کہ لیلتہ القدر (رمضان کے) آخری سات دنوں میں ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے  خواب لگاتار ایک دوسرے کے موافق ہیں کہ آخری سات دنوں میں لیلتہ القدر ہے، پس جو شخص اسے تلاش کرنا چاہے تو آخری سات دنوں میں تلاش کرے۔ 
تخریج الحدیث: «210- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 321/1 ح 714، ك 19 ب 6 ح 14) الاستذكار:663، و أخرجه البخاري (2015) ومسلم (1165) من حديث مالك به»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 271 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 271  
´لیلتہ لقدر کا بیان`
«. . . 210- وبه: أن رجالا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أروا ليلة القدر فى المنام فى السبع الأواخر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إني أرى رؤياكم قد تواطأت فى السبع الأواخر، فمن كان متحريها فليتحرها فى السبع الأواخر . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے بعض لوگوں نے خواب میں دیکھا کہ لیلتہ القدر (رمضان کے) آخری سات دنوں میں ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے خواب لگاتار ایک دوسرے کے موافق ہیں کہ آخری سات دنوں میں لیلتہ القدر ہے، پس جو شخص اسے تلاش کرنا چاہے تو آخری سات دنوں میں تلاش کرے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 271]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2015، ومسلم 1165، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہوتی ہے۔
➋ مختلف افراد کا ایک جیسے لگاتار خواب دیکھنا آسمانی اشارے یا بشارت میں سے ہے بشرطیکہ یہ کسی نص صریح کے خلاف نہ ہوں۔
➌ مومن کا خواب نبوت کے چالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔
➍ خوابوں کے لئے دیکھئے: [ح121، 127، 375]
➎ لیلۃ القدر کے لئے دیکھئے: [ح148، 283]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 210   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ
الشیخ عمر فاروق سعیدی حفظ اللہ
محمد ابراہیم بن بشیر حفظ اللہ
مولانا داود راز رحمہ اللہ
الشیخ عبدالستار الحماد حفظ اللہ
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 575  
´اعتکاف اور قیام رمضان کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کچھ مردوں کو آخری ہفتہ میں شب قدر دکھائی گئی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہاری خواب کو دیکھتا ہوں جو آخری ہفتہ میں موافق آیا ہے۔ اگر کوئی اس کو تلاش کرنے والا ہو تو وہ آخری ہفتہ میں اسے تلاش کرے۔ (بخاری ومسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 575]
575 لغوی تشریح:
«اُرُوا» «اِراءَةٌ» سے ماخوذ صیغہ مجمہول ہے۔
«فِي السَّبَع الَّاوَاخِرِ» اس سے آخری سات دن مراد ہیں جن کی ابتدا تئیس کی رات سے ہوتی ہے۔
«اُرَي» یہ صیغہ مجہول جو «اَظُنُّ» کے معنی میں ہے اور «اَظُنُّ» صیغہ معلوم ہے۔ اس کے معنی ظن و گمان کے ہیں کہ میں گمان کرتا ہوں۔
«تَوَاطَاَتْ» کے معنی موافقت کے ہیں۔
«مُتَحرَّبَهَا» جو اس کا طالب ہو۔ یہ «اَلتَّحَرَي» سے ماخوذ ہے جس کے معنی مطلوب کو حاصل کرنے میں کوشش اور جستجو کرنا ہیں۔ ٭
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 575   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1385  
´شب قدر کا رمضان کی آخری سات راتوں میں ہونے کی روایت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شب قدر کو اخیر کی سات راتوں میں تلاش کرو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب شهر رمضان /حدیث: 1385]
1385. اردو حاشیہ: ا س میں بھی اجمال ہے۔ آخری سات راتوں میں طاق اورجفت دونوں ہی شامل ہیں۔ اگرصرف طاق راتیں مراد لی جایئں۔ تو سترہویں رات سے شمار کرنا ہوگا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1385   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1387  
´شب قدر سارے رمضان میں ہے اس کے قائلین کی دلیل کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شب قدر کے متعلق پوچھا گیا اور میں (اس گفتگو کو) سن رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ پورے رمضان میں کسی بھی رات ہو سکتی ہے ۱؎۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: سفیان اور شعبہ نے یہ حدیث ابواسحاق کے واسطے سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما پر موقوفًا روایت کی ہے اور ان دونوں نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً نہیں نقل کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب شهر رمضان /حدیث: 1387]
1387. اردو حاشیہ: لیلۃ القدر کے رمضان المبارک میں ہونے میں تو کوئی اختلاف نہیں۔ علاوہ ازیں دلائل کی رو سے راحج بات یہ ہے کہ یہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے۔ اور ان میں سے بھی بعض کے نذدیک 27 ویں شب کا امکان زیادہ ہے۔ واللہ اعلم۔ باقی رہی یہ روایت جس میں سارے رمضان میں ہونے کی صراحت ہے۔ اس کے مرفوع ہونے میں اختلاف ہے۔ جیسا کہ خود امام ابودائود ؒ نے بھی وضاحت کی ہے۔ شیخ البانی ؒ نے بھی اسی موئقف کو تسلیم کیا ہے۔ اسی طرح حدیث 1384 بھی ضعیف ہے۔ جس میں سترھویں رات میں بھی ہونے کا امکان موجود ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1387   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:647  
647-سالم اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں حاضر ہوا اس نے عرض کی: میں نے شب قدر کو خواب میں دیکھا ہے کہ وہ فلاں فلاں رات ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں یہ دیکھ رہاہوں کہ تم لوگوں کے خواب ایک جیسے ہیں، تو تم آخری عشر ے میں طارق راتوں میں اسے تلاش کرو۔ (راوی کو شک ہے شاہد یہ الفاظ ہیں) باقی رہ جانے والی سات راتوں میں تلاش کرو۔ سفیان کہتے ہیں: روایت میں یہ شک میری طرف سے ہے، زہری کی طرف سے نہیں ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:647]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ شیطان انسان کا بہت بڑا دشمن ہے، یہاں تک کہ کھانے اور پینے میں میں بھی شیطان انسان کو بائیں ہاتھ سے کھانے اور پینے پر اکساتا ہے، اکثر مسلمان غفلت کی بنا پر شیطان کے پیروکار بنے بیٹھے ہیں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 650   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1158  
1158. اس کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر ؓ رات کو نمازِ تہجد پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے۔ نبی ﷺ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اپنے خواب بیان کیا کرتے تھے، انہوں نے بیان کیا کہ آخری عشرے کی ساتویں رات لیلۃ القدر ہے۔ نبی ﷺ نے اس کے متعلق فرمایا: تمہارے خواب لیلۃ القدر کے متعلق اس پر متفق ہیں کہ وہ رمضان کے آخری عشرے میں ہے، لہذا اگر کوئی شب قدر کو تلاش کرنا چاہے تو وہ رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1158]
حدیث حاشیہ:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کتاب الصیام میں باب تحری لیلۃ القدر کے تحت میں فرماتے ہیں:
في ھذہ الترجمة إشارة إلی رجحان کون لیلة القدر منحصرة في رمضان ثم في العشر الأخیر منه ثم في أوتارہ لا في لیلة منھا بعینھا وھذا ھو الذي یدل علیه مجموع الأخبار الواردة فیھا۔
(فتح)
یعنی لیلۃ القدر رمضان میں منحصر ہے اور وہ آخری عشرہ کی کسی ایک طاق رات میں ہوتی ہے جملہ احادیث جو اس باب میں وارد ہوئی ہیں ان سب سے یہی ثابت ہوتا ہے۔
باقی تفصیل کتاب الصیام میں آئےگی۔
طاق راتوں سے 21, 23, 25, 27, 29 کی راتیں مراد ہیں۔
ان میں سے وہ کسی رات کے ساتھ خاص نہیں ہے۔
احادیث سے یہی ثابت ہوا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1158   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2015  
2015. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے چند صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو دوران خواب میں رمضان کی آخری سات راتوں میں شب قدر دکھائی گئی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تمھارےسب کے خواب آخری سات راتوں پر متفق ہوگئے ہیں۔ اس لیے جو اس کو تلاش کرنا چاہے وہ آخری ساتھ راتوں میں تلاش کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2015]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے تحت حافظ صاحب ؒ فرماتے ہیں:
و في هذا الحدیث دلالة علی عظم قدر الرؤیاء و جواز الاستناد إلیها في الاستدلال علی الأمور الوجودیة بشرط أن لا یخالف القواعد الشرعیة۔
(فتح)
یعنی اس حدیث سے خوابوں کی قدر و منزلت ظاہر ہوتی ہے اور یہ بھی کہ ان میں امور وجودیہ کے لیے استناد کے جواز کی دلیل ہے بشرطیکہ وہ شرعی قواعد کے خلاف نہ ہو، فی الواقع مطابق حدیث دیگر مومن کا خواب نبوت کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔
قرآن مجید کی آیت شریفہ ألا إِن أولیاءَ اللہ الخ میں بشریٰ سے مراد نیک خواب بھی ہیں، جو وہ خود دیکھے یا اس کے لیے دوسرے لوگ دیکھیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2015   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1158  
1158. اس کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر ؓ رات کو نمازِ تہجد پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے۔ نبی ﷺ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اپنے خواب بیان کیا کرتے تھے، انہوں نے بیان کیا کہ آخری عشرے کی ساتویں رات لیلۃ القدر ہے۔ نبی ﷺ نے اس کے متعلق فرمایا: تمہارے خواب لیلۃ القدر کے متعلق اس پر متفق ہیں کہ وہ رمضان کے آخری عشرے میں ہے، لہذا اگر کوئی شب قدر کو تلاش کرنا چاہے تو وہ رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1158]
حدیث حاشیہ:
(1)
دراصل ایک ہی حدیث کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔
مقصود صرف عبداللہ بن عمر ؓ کے متعلق نماز تہجد کے التزام کو بیان کرنا ہے۔
(2)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے متعلق تہجد پڑھنے کا ذکر آپ کے شاگرد حضرت نافع نے کیا ہے جبکہ اس سے قبل آپ کے بیٹے حضرت سالم نے بھی اس قسم کا ذکر کیا تھا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1158   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2015  
2015. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے چند صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو دوران خواب میں رمضان کی آخری سات راتوں میں شب قدر دکھائی گئی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تمھارےسب کے خواب آخری سات راتوں پر متفق ہوگئے ہیں۔ اس لیے جو اس کو تلاش کرنا چاہے وہ آخری ساتھ راتوں میں تلاش کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2015]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے خواب آخری عشرے پر متفق ہیں، اس لیے اگر کوئی شب قدر کو تلاش کرنا چاہے تو وہ آخری عشرے میں اسے تلاش کرے۔
(صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1158) (2)
حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں شب قدر کے متعلق دو گروہوں نے خواب دیکھے۔
ایک گروہ کا خواب تھا کہ وہ آخری سات راتوں میں ہے اور دوسرے گروہ کا خواب تھا کہ وہ آخری عشرے میں ہے۔
اس کی تفصیل صحیح بخاری میں موجود ہے۔
(صحیح البخاري، التعبیر، حدیث: 6991)
آپ نے پہلے تو آخری عشرے میں شب قدر کا خواب دیکھنے والوں سے فرمایا:
تمہارا سب کا اتفاق ہے آخرے عشرے پر ہے، لہذا تم شب قدر اسی عشرے میں تلاش کرو۔
بلکہ ایک روایت کے مطابق آپ نے آخری عشرے کی طاق راتوں میں انہیں تلاش کرنے کا حکم دیا۔
(صحیح البخاري، فضل لیلةالقدر، حدیث: 2017)
پھر آپ نے دیکھا کہ آخری سات راتوں پر دونوں گروہوں کا اتفاق ہے تو آپ نے جزم کے ساتھ آخری سات راتوں میں اسے تلاش کرنے کے متعلق کہا جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی مذکور روایت میں ہے۔
پھر آخری سات راتوں کے متعلق بھی اختلاف ہے۔
ظاہر حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعداد چوبیسویں رات سے شروع ہو گی تو اس میں اکیسویں اور تئیسویں رات شامل نہیں ہو گی جبکہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ بائیس سے شروع ہو کر اٹھائیس تک سات راتیں مراد ہیں، اس صورت میں انتیسویں رات اس میں شامل نہیں ہو گی۔
ہمارے نزدیک فیصلہ کن صحیح مسلم کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اسے آخری عشرے میں تلاش کرو۔
اگر کسی وجہ سے کمزور یا مغلوب ہو جاؤ تو باقی سات راتوں میں اسے تلاش کر کے غلبہ حاصل کرو۔
(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2765(1165)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری سات راتوں سے مراد تئیس سے شروع کر کے آخر تک ہیں۔
(فتح الباري: 325/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2015   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6991  
6991. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں کو خواب میں شب قدر سات آخری تاریخوں میں دکھائی گئی جبکہ کچھ لوگوں کو دکھائی گئی کہ وہ آخری دس تاریخوں میں ہوگی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: تم اسے آخری سات تاریخوں میں تلاش کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6991]
حدیث حاشیہ:

ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میں دیکھتا ہوں کہ تمہارے خواب آخری سات راتوں پرمتفق ہیں، لہذا تم اسے آخری سات راتوں میں تلاش کرو۔
(صحیح البخاري، فضل لیلة القدر، حدیث: 2015)
لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حسب عادت ظاہر طریقے کے بجائے مخفی طریقے سے مسئلہ ثابت کیا ہے، یعنی چند لوگوں نے دیکھا کہ آخری دس تاریخوں میں ہے اور کچھ لوگوں کو آخری سات تاریخوں میں دکھائی گئی تو کم از کم آخری سات پرتمام کا اتفاق ثابت ہوتا ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتفاقی معاملہ اختیار کرنے کا حکم دیا۔
(فتح الباري: 475/12)

اس سلسلے میں بھی انسان کو ہوشیار رہنا چاہیے کیونکہ 400 ہجری میں جب فتنہ مہدی اٹھا تو اس فتنے کی بنیاد بھی خوابوں کا توارد، یعنی مختلف علاقوں کے رہنے والے مختلف لوگوں کو ایک جیسے خواب آنا تھا۔
ایک آدمی یمن سے آتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں نے محمد بن عبداللہ قحطانی کو مہدی کی شکل میں دیکھا ہے۔
دوسرا مصری ہے اور وہ بھی یہی کہتا ہے۔
تیسرا نائجیری بھی اس طرح کا خواب بیان کرتا ہے۔
اس طرح وہ تحریک اٹھی اور وہ لوگ بیت اللہ میں جا گھسے، پھر ہوا جو ہوا۔
یہ ہماراچشم دید واقعہ ہے۔
کیونکہ راقم الحروف ان دنوں شرط الجیاد میں بحیثیت مترجم تعینات تھا۔

بہرحال انسان کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق ہر لحاظ سے، ہرجگہ اور ہر حال میں مضبوط رکھنا چاہیے۔
ان خوابوں پر کسی چیز کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔
اگرچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خواب پر ایک جماعت کا اتفاق کر لینا اس کے سچے اور صحیح ہونے کی دلیل ہے۔
(فتح الباري: 475/12)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6991   

1    2    Next