نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
جنازے کے مسائل


حدیث نمبر: 236
396- وعن عبد ربه بن سعيد عن أبى سلمة بن عبد الرحمن أنه سأل عبد الله ابن عباس وأبا هريرة عن المتوفى عنها زوجها وهى حامل، فقال ابن عباس: آخر الأجلين. وقال أبو هريرة: إذا ولدت فقد حلت. فدخل أبو سلمة بن عبد الرحمن على أم سلمة زوج النبى صلى الله عليه وسلم فسألها عن ذلك، فقالت: ولدت سبيعة الأسلمية بعد وفاة زوجها بنصف شهر، فخطبها رجلان أحدهما شاب والآخر كهل، فحطت إلى الشاب. فقال الكهل: لم تحلل، وكان أهلها غيبا، فرجا إذا جاء أهلها أن يؤثروه بها، فجاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ”قد حللت فانكحي من شئت.“
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے اس حاملہ عورت کے بارے میں پوچھا: جس کا خاوند فوت ہو جائے تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: دونوں عدتوں (وضع حمل اور چار مہینے دس دن) میں سے جو بعد میں ختم ہو اسے اختیار کرے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جب بچے کو جنم دے گی تو حلال ہو جائے گی۔ پھر ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے تو ان سے اس بارے میں پوچھا: تو انہوں نے فرمایا: سبیعہ الاسلمیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں اپنے شوہر کی وفات کے پندرہ دن بعد بچہ پیدا ہوا تو دو آدمیوں نے انہیں شادی کا بیغام بھیجا، ایک نوجوان تھا اور دوسرا بوڑھا تھا تو وہ نوجوان کی طرف مائل ہوئیں۔ پھر بوڑھے نے کہا: اس کی عدت ختم نہیں ہوئی۔ سبیعہ کے گھر والے (اس وقت) غیر حاضر تھے اور بوڑھے کو یہ امید تھی کہ جب اس کے گھر والے آئیں گے تو وہ اسے اس نوجوان پر ترجیح دیں گے۔ پھر وہ (سبیعہ رضی اللہ عنہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تیری عدت ختم ہو گئی ہے لہٰذا تو جس سے چاہے نکاح کر لے۔
تخریج الحدیث: «396- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 589/2 ح 1686، ك 29 ب 30 ح 83) التمهيد 33/20، الاستذكار: 1286، و أخرجه النسائي (191/6، 192 ح 3540) من حديث ابن القاسم عن مالك به.»

حدیث نمبر: 237
407- مالك عن سعد بن إسحاق بن كعب بن عجرة عن عمته زينب بنت كعب بن عجرة أن الفريعة بنت مالك بن سنان وهى أخت أبى سعيد الخدري أخبرتها أنها جاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم تسأله أن ترجع إلى أهلها فى بني خدرة، فإن زوجها خرج فى طلب أعبد له أبقوا، حتى إذا كانوا بطرف القدوم لحقهم فقتلوه. قالت: فسألت رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أرجع إلى أهلي بني خدرة، فإن زوجي لم يتركني فى مسكن يملكه ولا نفقة. قالت: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”نعم“ قالت: فخرجت حتى إذا كنت فى الحجرة أو فى المسجد دعاني أو أمر بي فدعيت له، فقال: ”كيف قلت؟“ قالت: فرددت عليه القصة التى ذكرت له من شأن زوجي، فقال: ”امكثي فى بيتك حتى يبلغ الكتاب أجله“ قالت: فاعتددت فيه أربعة أشهر وعشرا. قالت: فلما كان عثمان بن عفان أرسل إلى فسألني عن ذلك فأخبرته، فاتبعه وقضى به.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی بہن فریعہ بنت مالک بن سنان رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ پوچھنے کے لئے آئیں کہ کیا وہ بنو خدرہ میں اپنے گھر والوں کے پاس جا سکتی ہیں کیونکہ ان کے خاوند اپنے بھاگے ہوئے غلاموں کی تلاش میں نکلے اور جب قدوم کے مقام پر ان کے پاس پہنچ گئے تو ان غلاموں نے انہیں قتل کر دیا۔ فریعہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا میں بنو خدرہ میں اپنے گھر والوں کے پاس جا سکتی ہوں کیونکہ میرے خاوند نے میرے لئے اپنی ملکیت میں نہ کوئی گھر چھوڑا ہے اور نہ نان نفقہ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، پھر میں وہاں سے نکل کر حجرے یا مسجد تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوایا یا بلوانے کا حکم دیا پھر فرمایا: تو نے کیسے کہا تھا؟ میں نے اپنے خاوند کے بارے میں سارا قصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیان کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے گھر میں ہی ٹھہری رہو حتیٰ کہ عدت پوری ہو جائے۔ تو میں نے وہاں چار مہینے دس دن عدت گزاری پھر جب سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے مجھے بلایا اور اس بارے میں پوچھا: تو میں نے آپ کو بتا دیا اور انہوں نے اسی کے مطابق فیصلہ کیا۔
تخریج الحدیث: «407- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 591/2 ح 1290، ك 29 ب 31 ح 87 وقال سعيد بن اسحاق/والصواب: سعد بن اسحاق) التمهيد 27/21، الاستذكار: 1209، و أخرجه أبوداود (2300) و الترمذي (1204، وقال: ”حسن صحيح“) من حديث مالك به و صححه ابن حبان (الاحسان: 4278/4292)، وفي رواية يحيي بن يحيي:”يملكه“.»
Previous    1    2