نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
جنازے کے مسائل


حدیث نمبر: 227
471- وبه: أن رجلا قال للنبي صلى الله عليه وسلم: إن أمي افتلتت نفسها وأراها لو تكلمت تصدقت، أفأتصدق عنها؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”نعم، فتصدق عنها.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میری ماں اچانک فوت ہو گئی ہیں اور میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو صدقہ کرتیں، کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! تو انہوں نے والدہ کی طرف سے صدقہ کر دیا۔
تخریج الحدیث: «471- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 760/2 ح 1528، ك 36 ب 41 ح 53) التمهيد 153/22، الاستذكار: 1457، و أخرجه البخاري (2760) من حديث مالك به، ومسلم (1004/51 بعد ح 1630) من حديث هشام بن عروة به وصححه ابن خزيمة (2500) وابن حبان (المموارد: 857)»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 227 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 227  
´عذاب قبر حق ہے`
«. . . 471- وبه: أن رجلا قال للنبي صلى الله عليه وسلم: إن أمي افتلتت نفسها وأراها لو تكلمت تصدقت، أفأتصدق عنها؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نعم، فتصدق عنها. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میری ماں اچانک فوت ہو گئی ہیں اور میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو صدقہ کرتیں، کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! تو انہوں نے والدہ کی طرف سے صدقہ کر دیا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 227]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2760، من حديث مالك، ومسلم 51/1004 بعد ح1630، من حديث هشام بن عروة به وصححه ابن خزيمه 2500، وابن حبان الموارد: 857]

تفقه:
➊ میت کی طرف سے صدقہ کرنا جائز ہے۔
➋ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وهو ينتفع بكل ما يصل إليه من كل مسلم۔ سواءً كان من أقاربه أو غيرهم كما ينتفع بصلاة المصلين عليه ودعائهم له عند قبره۔» اور اسے (میت کو) مسلمان کی طرف سے پہنچنے والی ہر چیز سے نفع پہنچتا ہے، رشتہ دار اور غیر رشتہ دار کی تفریق کے بغیر جیسا کہ جنازہ پڑھنے والوں اور قبر کے پاس دعا کرنے والوں کی وجہ سے اسے نفع پہنچتا ہے۔ [مجموع فتاويٰ ابن تيميه ج24 ص367]
معلوم ہوا کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ صرف قریبی رشتہ داروں یا اولاد کی طرف سے صدقے کا ثواب پہنچتا ہے، ان کا یہ قول صحیح نہیں ہے۔
➌ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بعض جہادی سفروں میں گئے تو مدینے میں ان کی والدہ فوت ہوگئیں۔ اس سے کہا گیا: وصیت کرجاؤ۔ اس نے کہا: کس کی وصیت کروں؟ مال تو سعد کا ہے۔ وہ سعد رضی اللہ عنہ کے آنے سے پہلے فوت ہو گئیں جب وہ تشریف لائے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اگر میں اس (والدہ) کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اسے فائدہ ہوگا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: فلاں فلاں باغ اس کی طرف سے صدقہ ہے۔ [الموطأ 2/760 ح1527، وهو صحيح، سنن النسائي: 3617 وصححه ابن خزيمه: 2500، وابن حبان، الموارد: 857]
➍ والدین کے ایسی خواہشات کی بھی تکمیل کرنی چاہئے جو وہ زبان پر نہ لاسکے ہوں۔
➎ صدقات کے نام پر عوام میں بہت سی بدعات کا رواج بھی ہوگیا ہے، مثلاً شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کے نام کی گیارہویں وغیرہ، ان بدعات سے بچنا چاہئے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 471   


حدیث نمبر: 228
495- وبه: أن يهودية جاءت تسألها، فقالت لها: أعاذك الله من عذاب القبر. فسألت عائشة رسول الله صلى الله عليه وسلم: أيعذب الناس فى قبورهم؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم عائذا بالله من ذلك، ثم ركب رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات غداة مركبا، فخسف بالشمس فرجع ضحى، فمر بين ظهراني الحجر، ثم قام يصلي وقام الناس وراءه فقام قياما طويلا، ثم ركع ركوعا طويلا، ثم رفع فقام قياما طويلا وهو دون القيام الأول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الأول، ثم رفع فسجد، ثم قام قياما طويلا وهو دون القيام الأول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الأول، ثم رفع فقام قياما طويلا وهو دون القيام الأول ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الأول، ثم رفع فسجد، ثم انصرف فقال ما شاء الله أن يقول، ثم أمرهم أن يتعوذوا من عذاب القبر.
اور اسی سند کے ساتھ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت ان سے مانگنے آئی تو کہا: اللہ تجھے عذاب قبر سے بچائے، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا لوگوں کو ان کی قبروں میں عذاب ہوتا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے اللہ کی پناہ۔، پھر ایک صبح آپ اپنی سواری پر سوار ہوئے، سورج کو گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر سے پہلے واپس آ کر حجروں کے پاس سے گزرے، پھر نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے اور لوگوں نے بھی آپ کے پیچھے نماز پڑھنی شروع کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت لمبا قیام کیا، پھر بہت لمبا رکوع کیا، پھر اٹھ کر (دوبارہ) لمبا قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھا پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا پھر (رکوع سے سر) اٹھایا تو سجدہ کیا۔ پھر (دوسرا) لمبا قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھا پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، پھر اٹھ کر لمبا قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھا پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا پھر (رکوع سے سر) اٹھایا تو سجدہ کیا پھر (نماز سے) فارغ ہوئے تو جو اللہ نے چاہا بیان کیا پھر لوگوں کو حکم دیا کہ وہ عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگیں۔
تخریج الحدیث: «495- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 187/1، 188 ح 447، ك 12 ب 1 ح 3) التمهيد 391/23، الاستذكار: 416، و أخرجه البخاري (1049، 1050) من حديث مالك به.»
Previous    1    2