نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
جمعہ کے مسائل

3. جمعہ کی نماز کے لئے غسل کرنا مستحب ہے

حدیث نمبر: 212
204- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا جاء أحدكم الجمعة فليغتسل.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ (کی نماز) کے لئے آئے تو وہ غسل کر ے۔
تخریج الحدیث: «204- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 102/1 ح 227، ك 5 ب 1 ح 5) التمهيد 144/1، و أخرجه البخاري (877) من حديث مالك ومسلم (844) من حديث نافع به.»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 212 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 212  
´جمعہ کی نماز کے لئے غسل کرنا مستحب ہے`
«. . . وبه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا جاء احدكم الجمعة فليغتسل. . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ (کی نماز) کے لئے آئے تو وہ غسل کرے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 212]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 877، من حديث مالك و مسلم 844، من حديث نافع به]
تفقہ:
➊ اس حدیث اور دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن غسل کرنا ضروری (واجب) ہے لیکن بعض احادیث سے ثابت ہے کہ یہ غسل ضروری نہیں بلکہ سنت و مستحب ہے۔
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من توضأ فبھا ونعمت ومن اغتسل فذلك أفضل۔» جس نے وضو کیا تو اچھا کیا اور جس نے غسل کیا تو یہ افضل ہے۔ [صحيح ابن خزيمه: 1757، وسنده حسن، سنن ابي داؤد: 354، والحسن البصري صرح بالسماع عند الطّوسي فى مختصر الاحكام 3/10 ح467/334 وسنده حسن]
◈ حسن بصری کی سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کتاب سے روایت کی وجہ سے حسن ہوتی ہے چاہے سماع کی تصریح ہو یا نہ ہو اور اس روایت میں تو انہوں نے سماع کی تصریح کردی ہے۔ «والحمدلله»
➋ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: غسل جنابت کی طرح جمعہ کے دن غسل کرنا بھی ہر نوجوان پر واجب ہے۔ [الموطأ 1/101 ح224، وسنده صحيح]
◈ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جمعہ کے دن غسل سنت میں سے ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 2/96 ح5020 وسنده صحيح، البزار فى كشف الاستار: 627]
◈ امام شعبی نے فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن وضو کرے تو اچھا ہے اور جو غسل کرے تو افضل ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 2/96، 97 ح5023 وسنده صحيح]
➌ مجاہد تابعی نے فرمایا: جمعہ کے دن جو شخص طلوع فجر کے بعد غسل کرے تو یہ اس کے لئے غسل جمعہ کی طرف سے کافی ہے۔ [ابن ابي شيبه 2/99 ح5041 وسنده صحيح]
➍ نظافت کی ترغیب اور اجتماعات میں شرکت کے وقت نظافت کا خاص اہتمام کرنا چاہئے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 204   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ
محمد ابراہیم بن بشیر حفظ اللہ
شیخ الحدیث مولانا عبد العزیز علوی حفظ اللہ
مولانا داود راز رحمہ اللہ
الشیخ عبدالستار الحماد حفظ اللہ
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1377  
´جمعہ کے دن غسل کرنے کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی جمعہ (کی نماز) کے لیے آئے تو اسے چاہیئے کہ غسل کر لے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1377]
1377۔ اردو حاشیہ:
➊ غسل کے وجوب کی بحث سابقہ حدیث کے تحت گزر چکی ہے۔
➋ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعے کا غسل جمعۃ المبارک کو آتے وقت کرنا چاہیے، نہ کہ بہت پہلے کیونکہ غسل کا مقصد میل کچیل اور پسینے کی صفائی ہے، اگر بہت پہلے غسل کر لیا جائے تو میل کچیل پھر جمع ہو سکتا ہے اور پسینہ بھی آ سکتا ہے۔ اجتماع میں بدبو پھیلنے کا امکان ہے، لہٰذا غسل جمعۃ المبارک کے لیے آتے وقت کرنا چاہیے، یعنی اس غسل کے ساتھ جمعہ پڑھنا چاہیے۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ یہ جمعے کے دن کا غسل ہے، اس لیے کسی وقت بھی کیا جا سکتا ہے مگر جمعے سے پہلے پہلے۔ اہل ظاہر تو جمعے کے بعد بھی غسل کو کافی سمجھتے ہیں۔ مگر علت و سبب یا دیگر احادیث پر غور کیا جائے تو یہ موقف محل نظر لگتا ہے۔ واللہ أعلم۔
➌ غسل جمعہ، غسل جنابت کی طرح ہونا چاہیے۔ غسل جنابت کی تفصیل پیچھے متعلقہ باب میں گزر چکی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1377   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1408  
´امام کا اپنے خطبہ میں جمعہ کے دن کے غسل کی ترغیب دلانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے کھڑے فرمایا: جو شخص تم میں سے جمعہ کے لیے آئے تو چاہیئے کہ وہ غسل کر لے۔‏‏‏‏ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: میں کسی کو نہیں جانتا جس نے اس سند پر لیث کی متابعت کی ہو سوائے ابن جریج کے، اور زہری کے دیگر تلامذہ «عن عبداللہ بن عبداللہ بن عمر» کے بدلے «سالم بن عبداللہ عن أبيه» کہتے ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1408]
1408۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ روایت امام زہری سے بیان کرنے والے بہت سے راوی ہیں، جیسے ابراہیم بن نشیط، محمد بن ولید زبیدی، سفیان بن عینیہ اور ابن جریج۔ یہ سب امام زہری کا استاد حضرت سالم بن عبداللہ بن عمر بتاتے ہیں۔ صرف حضرت لیث اور ابن جریج نے ان کا استاد عبداللہ بن عبداللہ بن عمر بتایا ہے۔ دیگر شاگردان کی طرح ابن جریج امام زہری کا استاد سالم بھی بتاتے ہیں۔ اس طرح وہ جمہور تلامذہ کی موافقت بھی کرتے ہیں۔ غرضیکہ مذکورہ کلام سے امام نسائی رحمہ اللہ امام لیث کی، جن پر ابن جریج نے بھی ان کی موافقت کی ہے، روایت کی تضعیف نہیں فرما رہے، بلکہ ان کا مقصد صرف ذکر اختلاف ہے کیونکہ امام لیث رحمہ اللہ ثقہ اور ثبت (انتہائی قابل اعتماد) ہیں۔ گویا یہ اختلاف ثقہ راوی کی زیادتی کے قبیل سے ہے جو کہ محدثین کے نزدیک سبب ضعف میں سے نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ یہ روایت میں امام زہری کے دو شیخ ہیں، سالم اور عبداللہ بن عبداللہ۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں دونوں شیوخ کے واسطے سے روایت نقل کی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: [ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 242/16] الحاصل: یہاں کثرت رواۃ کی بنا پر ترجیح نہیں بلکہ تطبیق ہی درست ہے۔ واللہ أعلم۔
➋ جمعے کے دن غسل کی بحث کے لیے دیکھیے، حدیث: 1376، 1377 اور اسی کتاب کا ابتدائیہ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1408   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 492  
´جمعہ کے دن کے غسل کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جو جمعہ کی نماز کے لیے آئے اسے چاہیئے کہ (پہلے) غسل کر لے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجمعة/حدیث: 492]
اردو حاشہ:
1؎:
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء نے جمعہ کے دن کے غسل کو واجب قرار دیا ہے،
اور جو وجوب کے قائل نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہاں امر تاکید کے لیے ہے اس سے مراد وجوب اختیاری (استحباب) ہے جیسے آدمی اپنے ساتھی سے کہے تیرا حق مجھ پر واجب ہے یعنی مؤکد ہے،
نہ کہ ایسا وجوب جس کے ترک پر سزا اورعقوبت ہو۔
(اس تاویل کی وجہ حدیث رقم 497 ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 492   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 494  
´جمعہ کے دن کے غسل کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ جمعہ کے روز خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران صحابہ میں سے ایک شخص ۱؎ (مسجد میں) داخل ہوئے، تو عمر رضی الله عنہ نے پوچھا: یہ کون سا وقت (آنے کا) ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے صرف اتنی دیر کی کہ اذان سنی اور بس وضو کر کے آ گیا ہوں، اس پر عمر رضی الله عنہ نے کہا: تم نے صرف (وضو ہی پر اکتفا کیا) حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کا حکم دیا ہے؟ [سنن ترمذي/كتاب الجمعة/حدیث: 494]
اردو حاشہ:
1؎:
اس سے مراد عثمان رضی اللہ عنہ ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 494   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:622  
622-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:622]
فائدہ:
اس حدیث میں جمعہ کے دن غسل کرنے کا حکم دیا گیا ہے،اس سے فرضیت مراد نہیں ہے، بلکہ دیگر احادیث کی وجہ سے یہ استحباب پر محمول ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 622   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1955  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یہ حاضر ہونے والے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے مصروفیت کی بنا پر وقت کا احساس نہ ہو سکا جب گھر پہنچے تو اس وقت اذان ہوگئی اور وہ وضو کر کے مسجد میں حاضر ہو گئے۔
غسل کے متعلق انھوں نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اعتراض کا کوئی عذر پیش نہیں کیا،
اس کا یہ مطلب نہیں کہ انھوں نے غسل نہیں کیا تھا کیونکہ صحیح مسلم میں حمران سے روایت کہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوئی دن نہیں گزرتا تھا جس میں غسل نہ کرتے ہوں،
عذر نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ جمعہ کو جاتے وقت غسل نہ کر سکے تھے جو کہ افضل تھا۔
(فتح الباری،
حدیث 878)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1955   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 878  
878. حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر ؓ جمعہ کے دن کھڑے ہو کر خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک نبی ﷺ کے صحابہ کرام اور مہاجرین اولین میں سے ایک صاحب آئے حضرت عمر ؓ نے آواز دی کہ یہ کون سا آنے کا وقت ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں ایک ضرورت کی وجہ سے مصروف ہو گیا۔ ابھی اپنے گھر واپس نہیں جا سکا تھا کہ اذان کی آواز سن لی تو صرف وضو کر سکا ہوں۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: (ایک لیٹ آئے ہو اور پھر) صرف وضو کر کے آئے ہو؟ حالانکہ آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ غسل کا حکم دیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:878]
حدیث حاشیہ:
یعنی حضرت عمر ؓ نے انہیں تاخیرمیں آنے پر ٹوکا۔
آپ نے عذر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں غسل بھی نہ کر سکا بلکہ صرف وضوکر کے چلا آیا ہوں۔
اس پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ گویا آپ نے صرف دیر میں آنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک دوسری فضیلت غسل کو بھی چھوڑ آئے ہیں۔
اس موقع پر قابل غور بات یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ان سے غسل کے لیے پھر نہیں کہا، ورنہ اگر جمعہ کے دن غسل فرض یا واجب ہوتا تو حضرت عمر کو ضرور کہنا چاہیے تھااور یہی وجہ تھی کہ دوسرے بزرگ صحابی جن کا نام دوسری روایتوں میں حضرت عثمان ؓ آتا ہے، نے بھی غسل کو ضروری نہ سمجھ کر صرف وضو پر اکتفا کیا تھا۔
ہم اس سے پہلے بھی جمعہ کے دن غسل پر ایک نوٹ لکھ آئے ہیں۔
حضرت عمر ؓ کے طرز عمل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خطبہ کے دوران امام امر ونہی کر سکتا ہے۔
لیکن عام لوگوں کو اس کی اجازت نہیں ہے بلکہ انہیں خاموشی اور اطمینان کے ساتھ خطبہ سننا چاہیے۔
(تفہیم البخاری)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 878   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 919  
919. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا، جبکہ آپ منبر پر خطبہ دے رہے تھے: جو شخص جمعہ کے لیے آئے وہ غسل ضرور کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:919]
حدیث حاشیہ:
(اس حدیث سے منبر ثابت ہوا)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 919   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:877  
877. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز جمعہ کے لیے آئے تو اسے چاہئے کہ غسل کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:877]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کے اس عنوان سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن غسل کرنا ضروری نہیں بلکہ مستحب و افضل ہے۔
جیسا کہ علماء کے ایک گروہ کی یہی رائے ہے۔
ان کا استدلال ان روایات سے ہے جن میں اس سبب کی وضاحت کی گئی ہے جس کی وجہ سے جمعہ کے دن غسل کا حکم دیا گیا تھا، چنانچہ روایت میں ہے کہ لوگ اس وقت محنت مزدوری کرتے تھے۔
جب جمعے کا وقت ہوتا تو اسی حالت میں جمعہ کے لیے چلے آتے اور ان کے کپڑوں سے پسینے وغیرہ کی ناگوار بو آتی تھی جس سے دوسروں کو تکلیف ہوتی تھی۔
اس بات کی شکایت جب رسول اللہ ﷺ سے کی گئی تو آپ نے فرمایا:
جو تم میں سے جمعہ کے لیے آئے اسے چاہیے کہ غسل کرے۔
(فتح الباري: 481/7٫2)
صحیح بخاری کی ایک روایت ہے کہ حضرت عمرو نے ایک دن حضرت عائشہ ؓ سے جمعہ کے دن غسل کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:
لوگ گزر اوقات کے لیے محنت مزدوری کرتے تھے، جب جمعہ کے لیے آتے تو اسی حالت میں چلے آتے۔
انہیں کہا گیا:
بہتر ہے کہ تم غسل کر کے آؤ۔
(صحیح البخاري، الجمعة، حدیث: 903)
ایک روایت میں ہے کہ ان کے کپڑوں سے ناگوار بو آنے کی وجہ سے انہیں غسل کا حکم دیا گیا، (صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2071)
تاہم دوسرے علماء وجوب غسل کے قائل ہیں جس کی تفصیل آگے آئے گی۔
(2)
بعض حضرات نے امام بخاری ؒ پر اعتراض کیا ہے کہ مذکورہ حدیث کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ عنوان تھا کہ آیا عورتیں اور بچے جمعہ کے لیے حاضر ہوں؟ جبکہ اس حدیث میں ان کے حاضر ہونے یا نہ ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
اس کا بایں طور جواب دیا گیا ہے کہ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ عورتوں اور بچوں کو جمعہ کے لیے حاضر ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ آئندہ حدیث (879)
میں ہے کہ جمعہ کے دن غسل کرنا بالغ افراد کے لیے ہے جبکہ بچے اس حکم سے مستثنیٰ ہیں تو انہیں جمعہ میں شریک ہونا بھی ضروری نہیں بلکہ انہوں نے اس طریقے سے ایک حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں اس امر کی وضاحت ہے کہ عورتوں اور بچوں پر جمعہ میں حاضر ہونا ضروری نہیں۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1067)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 877   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:878  
878. حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر ؓ جمعہ کے دن کھڑے ہو کر خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک نبی ﷺ کے صحابہ کرام اور مہاجرین اولین میں سے ایک صاحب آئے حضرت عمر ؓ نے آواز دی کہ یہ کون سا آنے کا وقت ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں ایک ضرورت کی وجہ سے مصروف ہو گیا۔ ابھی اپنے گھر واپس نہیں جا سکا تھا کہ اذان کی آواز سن لی تو صرف وضو کر سکا ہوں۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: (ایک لیٹ آئے ہو اور پھر) صرف وضو کر کے آئے ہو؟ حالانکہ آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ غسل کا حکم دیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:878]
حدیث حاشیہ:
(1)
دیر سے آنے والے حضرت عثمان ؓ تھے۔
(2)
اس روایت سے مذکورہ دونوں قسم کے علماء نے استدلال کیا ہے جو وجوبِ غسل کے قائل ہیں، وہ کہتے ہیں کہ چونکہ صحابۂ کا عام رجحان وجوب غسل کا تھا، اس لیے حضرت عمر ؓ نے صرف وضو کر کے آنے پر تعجب کا اظہار کیا اور حدیث رسول بیان فرمائی جس میں غسل کرنے کا حکم ہے اور امر (حکم)
عام طور پر وجوب ہی کے لیے ہوتا ہے۔
عدم وجوب کے قائلین کہتے ہیں کہ اگر غسل واجب ہوتا تو حضرت عمر ؓ، حضرت عثمان ؓ کو غسل کرنے کا حکم دیتے، صرف تعجب کا اظہار کرنے اور حدیث رسول بیان کرنے پر اکتفا نہ کرتے۔
اس سے معلوم ہوا کہ یہاں غسل کا حکم وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے۔
انہوں نے دیگر احادیث سے بھی استدلال کیا ہے، جیسے حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جمعہ کے دن جس نے وضو کیا اس نے اچھا اور بہتر کیا اور جس نے غسل کیا تو غسل افضل اور بہترین ہے۔
(سنن أبي داود، الطہارة، حدیث: 354)
امام ترمذی ؒ اس حدیث کے بعد لکھتے ہیں کہ صحابہ اور ان کے بعد آنے والے اہل علم کا اس پر عمل ہے۔
انہوں نے جمعہ کے دن غسل کو پسند تو کیا ہے لیکن اس رائے کا اظہار بھی کیا ہے کہ جمعہ کے دن وضو، غسل سے کفایت کر جاتا ہے۔
(جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 497)
آغاز میں جمعہ کے دن وجوب غسل کا سبب یہ تھا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم مشکل حالات کی بنا پر موسم گرما میں بھی ادنیٰ لباس پہنے ہوتے تھے۔
انہی کپڑوں میں محنت مزدوری کرتے تھے۔
جب وہ مسجد میں آتے تو ان کے پسینے کی بو پھیل جاتی جس سے نمازی اور فرشتے سخت تکلیف محسوس کرتے ہیں، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا کہ تم اس دن غسل کر لیا کرو۔
ایسے حالات میں ان علماء کے نزدیک اب بھی غسل کرنا واقعی ضروری ہے لیکن عام حالات میں ان کے نزدیک غسل جمعہ سنت مؤکدہ اور مستحب ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 878   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:919  
919. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا، جبکہ آپ منبر پر خطبہ دے رہے تھے: جو شخص جمعہ کے لیے آئے وہ غسل ضرور کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:919]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ روایت جمعہ کے دن غسل کے بیان میں گزر چکی ہے۔
(2)
اس مقام پر امام بخارى ؒ کا مقصود صرف منبر پر خطبے کا اثبات کرنا ہے۔
(3)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ منبر پر حاضرین کو احکام دین کی تعلیم دینی چاہیے۔
(فتح الباري: 515/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 919   


حدیث نمبر: 213
271- مالك عن صفوان بن سليم عن عطاء بن يسار عن أبى سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”غسل يوم الجمعة واجب على كل محتلم.“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بالغ پر غسل جمعہ واجب ہے۔
تخریج الحدیث: «271- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 102/1 ح 226، ك 5 ب 5 ح 4) التمهيد 211/16، الاستذكار: 196، و أخرجه البخاري (879) مسلم (846) من حديث مالك به.»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 213 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 213  
´جمعہ کی نماز کے لئے غسل کرنا مستحب ہے`
«. . . 271- مالك عن صفوان بن سليم عن عطاء بن يسار عن أبى سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: غسل يوم الجمعة واجب على كل محتلم. . . .»
. . . سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بالغ پر غسل جمعہ واجب ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 213]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 879، ومسلم 846، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ راجح یہی ہے کہ غسلِ جمعہ سنت ہے جیسا کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے لہٰذا یہاں واجب کا لفظ اپنے وجوبی معنی میں نہیں ہے۔
➋ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: ح204
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 271   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ
الشیخ عمر فاروق سعیدی حفظ اللہ
الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ
مولانا عطا اللہ ساجد حفظ اللہ
محمد ابراہیم بن بشیر حفظ اللہ
شیخ الحدیث مولانا عبد العزیز علوی حفظ اللہ
مولانا داود راز رحمہ اللہ
الشیخ عبدالستار الحماد حفظ اللہ
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 100  
´جمعہ کے روز غسل کرنا`
«. . . وعن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه: ان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: ‏‏‏‏غسل يوم الجمعة واجب على كل محتلم . . .»
. . . سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جمعہ کے روز غسل کرنا ہر بالغ پر واجب ہے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 100]

لغوی تشریح:
«مُـحْتَلِمٍ» بالغ کو کہتے ہیں۔

فائدہ:
یہ حدیث ان لوگوں کی دلیل ہے جو یوم جمعہ کے غسل کو واجب قرار دیتے ہیں کیونکہ اس میں واجب کا لفظ صراحتاً آیا ہے۔ لیکن جہاں تک جمہور کا تعلق ہے وہ اسے مسنون قرار دیتے ہیں اور اس میں وجوب کے حکم کو تاکید کے لیے سمجھتے ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 100   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 341  
´جمعہ کے دن غسل کرنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جمعہ کے دن کا غسل ہر بالغ (مسلمان) پر واجب ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 341]
341۔ اردو حاشیہ:
عورتیں بھی اس کی پابند ہیں، کسی بھی مسلمان بالغ مرد و عورت کو بغیر معقول عذر کے اس بارے میں غفلت نہیں کرنی چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 341   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1376  
´جمعہ کے دن مسواک کرنے کے حکم کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جمعہ کے دن ہر بالغ شخص پر غسل کرنا واجب ہے، مسواک کرنا بھی، اور خوشبو جس پروہ قادر ہو لگانا بھی ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1376]
1376۔ اردو حاشیہ:
واجب ہے اس روایت اور حدیث نمبر 1377، 1378 اور 1379 کے بموجب اہل علم کا ایک طبقہ جمعے کے دن غسل کے واجب ہونے کا قائل ہے جب کہ ایک بڑا طبقہ اس کے وجوب کا قائل نہیں لیکن پہلے طبقے کے اہل علم کی رائے نصوص صریحہ کے قریب تر ہے۔ واللہ أعلم۔ جیسا کہ تفصیل ابتدائیے میں گزر چکی ہے۔
➋ مسواک عام حالت میں بھی مؤکد چیز ہے، جمعۃ المبارک کے لیے تو خصوصاً، خوشبو لگانا تو مؤکد بھی نہیں صرف مستحب ہے۔
➌ عورتوں کی خوشبو (جس میں رنگ ہو) مردوں کے لیے جائز نہیں مگر مجبوری کی حالت میں گنجائش ہے، مثلاً: شادی کے موقع پر یا جمعۃ المبارک کے لیے۔
➍ صفائی ایمان کا حصہ ہے۔ اسلام نے نظافت پر بہت زور دیا ہے۔ ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا جسم، لباس اور مکان وغیرہ صاف ستھرا رکھے اور اگر کسی ایسی جگہ جائے جہاں لوگ اکٹھے ہوں تو بالخصوص صفائی کا اہتمام کرے اور حسب استطاعت خوشبو وغیرہ کا استعمال کرے تاکہ لوگ اذیت محسوس نہ کریں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1376   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1089  
´جمعہ کے دن غسل کرنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جمعہ کے دن کا غسل ہر بالغ پر واجب ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1089]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
واجب سے مر اد افضل اور بہتر ہے کیونکہ دوسری احادیث سے غسل نہ کرنے کی اجازت ظاہر ہوتی ہے۔
جیسے کہ اگلے باب میں حدیثیں آرہی ہیں۔

(2)
جمعے کی ادایئگی بالغ مردوں پر فرض ہے۔
بچوں اور عورتوں پر نہیں۔

(3)
بچے اورعورتیں اگر جمعے کی نماز کی ادایئگی کےلئے آنا چاہیں تو ان کے لئے غسل کرنا ضروری نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1089   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:127  
127- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کوئی بھی شخص نماز میں شیطان کے لیے کوئی حصہ مقرر ہرگز نہ کرے۔ وہ یہ نہ سمجھے کہ اس پر یہ بات لازم ہے کہ وہ (نماز سے فارغ ہونے کے بعد) صرف دائیں طرف سے ہی اٹھ سکتا ہے، کیونکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کئی مرتبہ بائیں طرف سے اٹھتے ہوئے دیکھا ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:127]
فائدہ:
امام نماز کا سلام پھیرنے کے بعد دونوں طرف سے ہی پھر سکتا ہے، دائیں طرف سے یا بائیں طرف سے، اس حدیث میں بائیں طرف پھرنے کا ذکر ہے، لیکن دوسری احادیث میں دائیں طرف پھرنے کا ذکر بھی ہے۔ (صحیح مسلم: 708) جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، انہوں نے اسی طرح اس کو بیان کر دیا۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 127   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1957  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث کا ظاہری مفہوم یہی ہے کہ جمعہ کے احترام و عظمت کے لیے غسل کرنا ضروری ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1957   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 858  
858. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جمعہ کے دن غسل کرنا ہر بالغ کے لیے ضروری ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:858]
حدیث حاشیہ:
تشریح:
معلوم ہوا کہ غسل واجب اس وقت ہوتا ہے جب کہ بچے بالغ ہو جائیں وہ بھی بصورت احتلام غسل واجب ہوگا اور غسل جمعہ کے متعلق حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ لوگوں کے پاس شروع اسلام میں کپڑے بہت کم تھے اس لیے کام کرنے میں پسینہ سے کپڑوں میں بد بو پیداہو جاتی تھی اور اسی لیے اس وقت جمعہ کے دن غسل کرنا واجب تھا پھر جب اللہ تعالی نے مسلمانوں کو فراخی دی تو یہ وجوب باقی نہیں رہا اب ابھی ایسے لوگوں پر غسل ضروری ہے جن کے پسینے کی بدبو سے لوگ تکلیف محسوس کریں۔
غسل صرف بالغ پر واجب ہوتا ہے اسی کو بیان کرنے کے لیے حضرت امام بخاری ؒ یہ حدیث یہاں لائے ہیں۔
امام مالک ؒ کے نزدیک جمعہ کا غسل واجب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 858   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2665  
2665. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، وہ اس حدیث کو نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ہراحتلام والے(بالغ) پر جمعے کے دن غسل واجب ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2665]
حدیث حاشیہ:
یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ شرعی واجبات انسان پر اس کے بالغ ہونے ہی پر نافذ ہوتے ہیں۔
شہادت بھی ایک شرعی امر ہے۔
جس کے لیے بالغ ہونا ضروری ہے۔
بلوغت کی آخر حد پندرہ سال ہے۔
جیسا کہ پچھلی روایت میں مذکور ہوا۔
اس سے امام بخاری نے یہ بھی نکالا کہ احتلام ہونے سے مرد جوان ہوجاتا ہے گو اس کی عمر پندرہ سال کو نہ پہنچی ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2665   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:879  
879. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر بالغ پر جمعے کے دن غسل کرنا واجب ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:879]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچوں پر غسل جمعہ واجب نہیں، اس بنا پر انہیں جمعہ کے لیے مسجد میں آنا بھی ضروری نہیں۔
یہ حدیث وجوب غسل پر واضح ہے لیکن عدم وجوب کے قائلین کہتے ہیں کہ اس حدیث میں وجوب کے لفظ سے مقصود صرف تاکید اور ترغیب ہے، یعنی اس حد تک تاکید ہے گویا واجب کی طرح ہے۔
(عمدة القاري: 15/5) (2)
حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ اس حدیث سے غسل جمعہ کی فرضیت کے متعلق دلیل لی گئی ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ، حضرت عمار بن یاسر ؓ اور امام ابن منذر سے غسل جمعہ کا وجوب ہی نقل کیا گیا ہے۔
امام ابن حزم نے حضرت عمر ؓ اور دیگر کئی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے جمعہ کے لیے غسل کرنے کے وجوب کو بیان کیا، پھر اس کے متعلق متعدد آثار بھی نقل کیا ہیں، مثلاً:
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ فرماتے ہیں:
میں نہیں سمجھتا کہ کوئی مسلمان غسل جمعہ چھوڑ دے گا۔
امام شافعی ؒ نے اس حدیث کی وضاحت بایں طور کی ہے کہ حدیث میں آنے والے لفظ "واجب" میں دو احتمال ہیں:
ایک یہ کہ غسل جمعہ ضروری ہے۔
اس کے بغیر نماز جمعہ کے لیے طہارت نامکمل ہے۔
دوسرا احتمال یہ ہے کہ نظافت و صفائی اخلاق کے پیش نظر جمعہ کے لیے غسل کا اہتمام مستحب مؤکد ہے، فرض نہیں۔
امام شافعی نے حضرت عمر اور حضرت عثمان ؓ کے واقعہ سے استدلال کیا ہے کہ حضرت عثمان نے نماز کے لیے غسل کا اہتمام نہیں کیا اور حضرت عمر ؓ نے بھی انہیں دوبارہ غسل کے متعلق نہیں کہا۔
یہ قرینہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان حضرات کے نزدیک بھی غسل کا حکم اختیاری ہے۔
(فتح الباري: 455/2)
بلکہ دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا ان دونوں کی موافقت کرنا بھی اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ نماز جمعہ کے صحیح ہونے کے لیے غسل جمعہ شرط نہیں۔
بہرحال اس مسئلے میں دونوں ہی رائیں پائی جاتی ہیں۔
عدم وجوب کے قائلین بھی اسے سنت مؤکدہ اور وجوب ہی کے قریب سمجھتے ہیں۔
اس بنا پر دونوں موقف ایک دوسرے کے قریب ہی ہیں۔
بنا بریں وجوب کا موقف ہی راجح، مدلل اور احوط ہے۔
واللہ أعلم۔
(3)
علامہ خطابی نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ نماز جمعہ غسل کے بغیر بھی ہو جاتی ہے۔
(فتح الباري: 466/2)
امت کے بڑے بڑے ائمہ اور نامور علماء غسل جمعہ کے عدم وجوب پر متفق ہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ نے مذکورہ حدیث کی وضاحت میں لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ سے جمعہ کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا کہ غسل جمعہ واجب نہیں، البتہ زیادہ طہارت اور پاکیزگی غسل ہی میں ہے لیکن جو غسل نہیں کرتا اس پر کوئی حرج نہیں، کیونکہ اس پر واجب نہیں ہے۔
دراصل غسل جمعہ کی ابتدا اس وجہ سے ہوئی تھی کہ لوگ محنت مزدوری کر کے گزر اوقات کرتے تھے، اون سے تیار کردہ موٹے موٹے کپڑے پہنتے تھے اور اس وقت مسجد بھی تنگ تھی جب رسول اللہ ﷺ نے دیکھا کہ ان لوگوں کو ایک دوسرے سے تکلیف پہنچ رہی ہے اور پسینے کی وجہ سے بو محسوس ہو رہی ہے تو آپ نے انہیں غسل کا حکم دیا اور خوشبو وغیرہ کے استعمال کی بھی ہدایت فرمائی۔
حضرت ابن عباس ؓ نے مزید فرمایا کہ اس کے بعد وہ وقت جاتا رہا، لوگ مال دار ہو گئے محنت مزدوری کے محتاج نہ رہے، کپڑے بھی اون کے علاوہ دوسرے استعمال کرنے لگے، مسجد بھی وسیع ہو گئی اور پسینہ وغیرہ کی تکلیف بھی جاتی رہی اس بنا پر سبب کے ختم ہونے سے اس کا وجوب بھی ختم ہو گیا۔
(فتح الباري: 467/2)
اس سے معلوم ہوا کہ غسل کے واجب ہونے کی تاکید جمعہ کے بڑے اجتماع کے پیش نظر ہے کہ کسی کو اذیت نہ ہو اور یہ تاکید حالات کے پیش نظر وجوب تک بھی پہنچ سکتی ہے جبکہ پسینے کی وجہ سے ماحول بدبودار ہو رہا ہو، البتہ عام حالات میں صرف استحباب ہے جیسا کہ امت کے اکثر علماء نے اس موقف کو اختیار کیا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 879   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:880  
880. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان پر گواہ ہوں کہ جمعہ کے دن ہر بالغ آدمی پر غسل کرنا واجب ہے اور یہ کہ وہ مسواک کرے اور اگر خوشبو میسر ہو تو اسے بھی استعمال میں لائے۔ راوی حدیث عمرو بن سلیم کہتے ہیں کہ غسل کے متعلق اس کے واجب ہونے کی میں گواہی دیتا ہوں لیکن مسواک کرنے اور خوشبو لگانے کے متعلق اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ واجب ہے یا نہیں؟ البتہ حدیث میں اسی طرح ہے۔ ابوعبداللہ امام بخاری ؓ کہتے ہیں کہ وہ (ابوبکر بن منکدر) محمد بن منکدر کے بھائی ہیں اور اس ابوبکر کا نام معلوم نہیں ہو سکا۔ ان سے بکیر بن اشج، سعید بن ابی ہلال اور متعدد لوگوں نے روایت لی ہے۔ اور محمد بن منکدر کی کنیت ابوبکر اور ابوعبداللہ تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:880]
حدیث حاشیہ:
(1)
جمعہ کے دن خوشبو استعمال کرنے کے متعلق صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں اختلاف تھا۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ اس کے متعلق وجوب کے قائل تھے جیسا کہ سفیان بن عیینہ نے اپنی جامع میں ان کے متعلق بیان کیا ہے لیکن ائمۂ اربعہ اور اصحاب ظواہر میں اب اس کے متعلق کوئی اختلاف نہیں۔
سب استحباب کے قائل ہیں۔
اس کے متعلق تاکید ہے۔
بعض روایات میں ہے کہ جمعہ کے دن خوشبو استعمال کرو اگرچہ عورت ہی کی کیوں نہ ہو، حالانکہ مردوں کے لیے عورتوں کی خوشبو استعمال کرنا ناپسندیدہ عمل ہے لیکن اس کے باوجود جمعہ کے دن اگر خوشبو نہ مل سکے تو بامر مجبوری کاروائی کے طور پر عورت کی خوشبو استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
(فتح الباري: 2/ 467۔
468)
(2)
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
یہ عید کا دن ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے مقرر کیا ہے، لہٰذا تم میں سے جو شخص جمعہ کے لیے آئے وہ غسل کر کے آئے اور اگر خوشبو میسر ہو تو اسے استعمال کرے اس کے علاوہ مسواک کرنے کا بھی اہتمام کرے۔
(السنن الکبریٰ للبیھقي: 243/3)
حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جو جمعہ کے دن غسل کرے اور اگر اس کے پاس خوشبو موجود ہو تو اسے استعمال کرے، اپنے بہترین کپڑے زیب تن کرے، اطمینان کے ساتھ مسجد میں آئے، پھر اگر موقع ملے تو نفل پڑھ لے، حاضرین میں سے کسی کو تکلیف نہ دے، پھر جب امام صاحب تشریف لائیں تو خاموش رہے تاآنکہ نماز ادا کر لے تو اس کا یہ سارا عمل اس جمعہ سے آئندہ جمعہ تک گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔
(مسند أحمد: 420/5) (3)
حدیث کے آخر میں امام بخاری ؒ نے وضاحت کی ہے کہ روایت میں ابوبکر نامی راوی محمد بن منکدر کے بھائی ہیں۔
ان کے نام کی صراحت کہیں سے دستیاب نہیں ہو سکی بلکہ ان کی کنیت ہی ان کا نام ہے۔
مختصر یہ ہے کہ ان دونوں بھائیوں کی کنیت ابوبکر ہے لیکن ان کے مابین فرق ہے کہ ایک کے متعلق نام کی صراحت ہے جبکہ دوسرے کی کنیت ہی اس کا نام ہے، نیز ایک بھائی محمد بن منکدر کی ایک دوسری کنیت ابو عبداللہ بھی مشہور ہے۔
الغرض ابوبکر بن منکدر بھی معروف آدمی ہیں۔
ان سے متعدد راویوں نے روایت لی ہے۔
(عمدة القاري: 16/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 880   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2665  
2665. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، وہ اس حدیث کو نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ہراحتلام والے(بالغ) پر جمعے کے دن غسل واجب ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2665]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ احتلام شروع ہونے سے بچہ بالغ ہو جاتا ہے، لہذا اس پر شرعی احکام واجب ہوں گے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں جمعے کے دن غسل کا حکم بیان ہوا ہے۔
کیونکہ شرعی احکام انسان کے بالغ ہونے پر ہی نافذ ہوتے ہیں۔
(2)
گواہی دینا بھی ایک شرعی امر ہے جس کے لیے بالغ ہونا ضروری ہے۔
اس کی حد پندرہ سال کی عمر ہے جیسا کہ پہلی حدیث میں بیان ہوا ہے یا احتلام بالغ ہونے کی علامت ہے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
احتلام ہونے کی عمر میں مرد جوان ہو جاتا ہے اگرچہ اس کی عمر پندرہ برس نہ ہو۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2665