نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
نماز کے متفرق مسائل

1. دن و رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں

حدیث نمبر: 185
267- مالك عن عمه أبى سهيل بن مالك عن أبيه أنه سمع طلحة بن عبيد الله يقول: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من أهل نجد، ثائر الرأس، يسمع دوي صوته ولا يفقه ما يقول، حتى دنا من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا هو يسأل عن الإسلام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”خمس صلوات فى اليوم والليلة“، فقال: هل على غيرهن؟ قال: ”لا، إلا أن تطوع“ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”وصيام رمضان“، قال: هل على غيره؟ قال: ”لا، إلا أن تطوع“، قال: وذكر له رسول الله صلى الله عليه وسلم الزكاة، فقال: هل على غيرها؟ قال: ”لا، إلا أن تطوع“، قال: فأدبر الرجل وهو يقول: والله لا أزيد على هذا ولا أنقص منه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”أفلح إن صدق.“
سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نجد والوں میں سے ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے، اس کی آواز کی گنگناہٹ سنائی دیتی لیکن اس کی بات سمجھ نہیں آ رہی تھی، حتیٰ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آ گیا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ وہ اسلام کے بارے میں کچھ پوچھ رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دن اور رات میں پانچ نمازیں (فرض ہیں)۔ اس نے کہا: کیا ان (پانچوں) کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی نماز فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں اِلا یہ کہ تم اپنی مرضی سے نوافل پڑھو۔، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور رمضان کے روزے (فرض ہیں)۔ اس نے کہا: کیا ان کے علاوہ بھی کوئی روزے مجھ پر فرض ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں اِلا یہ کہ تم اپنی مرضی سے نفلی روزے رکھو۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کا ذکر کیا، اس نے پوچھا: کیا اس (زکوٰۃ) کے علاوہ اور بھی مجھ پر کچھ فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں الا یہ کہ تم اپنی مرضی سے نفلی صدقے دو۔، پھر وہ آدمی یہ کہتے ہوئے پیٹھ پھیر کر روانہ ہوا: اللہ کی قسم! میں ان پر نہ زیادتی کروں گا اور نہ کمی کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اس نے سچ کہا ہے تو کامیاب ہو گیا۔
تخریج الحدیث: «267- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 175/1 ح 425، ك 9 ب 25 ح 94) التمهيد 157/16، 158، الاستذكار: 395، و أخرجه البخاري (56) مسلم (11) من حديث مالك به.»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 185 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 185  
´دن و رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں`
«. . . 267- مالك عن عمه أبى سهيل بن مالك عن أبيه أنه سمع طلحة بن عبيد الله يقول: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من أهل نجد، ثائر الرأس، يسمع دوي صوته ولا يفقه ما يقول، حتى دنا من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا هو يسأل عن الإسلام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خمس صلوات فى اليوم والليلة، فقال: هل على غيرهن؟ قال: لا، إلا أن تطوع قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: وصيام رمضان، قال: هل على غيره؟ قال: لا، إلا أن تطوع، قال: وذكر له رسول الله صلى الله عليه وسلم الزكاة، فقال: هل على غيرها؟ قال: لا، إلا أن تطوع، قال: فأدبر الرجل وهو يقول: والله لا أزيد على هذا ولا أنقص منه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أفلح إن صدق. . . .»
. . . سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نجد والوں میں سے ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے، اس کی آواز کی گنگناہٹ سنائی دیتی لیکن اس کی بات سمجھ نہیں آ رہی تھی، حتیٰ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آ گیا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ وہ اسلام کے بارے میں کچھ پوچھ رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دن اور رات میں پانچ نمازیں (فرض ہیں)۔ اس نے کہا: کیا ان (پانچوں) کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی نماز فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں اِلا یہ کہ تم اپنی مرضی سے نوافل پڑھو۔، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور رمضان کے روزے (فرض ہیں)۔ اس نے کہا: کیا ان کے علاوہ بھی کوئی روزے مجھ پر فرض ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں اِلا یہ کہ تم اپنی مرضی سے نفلی روزے رکھو۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کا ذکر کیا، اس نے پوچھا: کیا اس (زکوٰۃ) کے علاوہ اور بھی مجھ پر کچھ فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں الا یہ کہ تم اپنی مرضی سے نفلی صدقے دو۔، پھر وہ آدمی یہ کہتے ہوئے پیٹھ پھیر کر روانہ ہوا: اللہ کی قسم! میں ان پر نہ زیادتی کروں گا اور نہ کمی کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اس نے سچ کہا ہے تو کامیاب ہو گیا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 185]

تخریج الحدیث: [واخراجه البخاري 56، ومسلم 11، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کامیابی کا دارومدار عقائد کے بعد اعمال اور فرائض کی ادائیگی پر ہے تاہم سنن ونوافل کو بھی نہیں چھوڑنا چاہئے کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔ جب فرائض میں کمی ہوگی تو سنن ونوافل کام آئیں گے۔
➋ اہلِ نجد میں سے آدمی کون تھا؟ حدیث میں اس کی صراحت نہیں ہے۔ ابن بطال وابن العجمی وغیرہما کا خیال ہے کہ وہ ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ [شرح ابن بطال 1/97 والتوضيح لمبهمات الجامع الصحيح لابن العجمي، قلمي ص13،]
اور یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے۔ دیکھئے تفقہ: 6
➌ اسلام فرائض واعمال کا نام ہے معلوم ہوا کہ مرجئه کا عقیدہ باطل ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اعمال ایمان سے خارج ہیں۔
➍ اس حدیث میں حج کا ذکر نہیں ہے جب کہ دوسری احادیث سے حج کا فرض ہونا ثابت ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ اگر ایک دلیل میں کوئی مسئلہ مذکور نہیں اور دوسری دلیل میں مسئلہ مذکور ہے تو اسی کا اعتبار ہوگا، اس حالت میں عدمِ ذکر کو عدمِ شئی کی دلیل نہیں بنایا جائے گا۔
بعض علماء نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ وتر واجب نہیں بلکہ سنت موکدہ ہے۔ اس کی تائید سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے درج ذیل قول سے بھی ہوتی ہے:
«ليس الوتر بحتم كالصلوة ولكنه سنة فلا تدعوه»
وتر (فرض) نماز کی طرح ضروری (واجب) نہیں ہے، لیکن یہ سنت ہے اسے نہ چھوڑو۔ [مسند أحمد 1/107 ح842 وسنده حسن،]
ایک شخص ابومحمد نامی نے کہا: کہ وتر واجب ہے تو سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ (بدری صحابی) نے فرمایا: کذب ابومحمد ابومحمد نے جھوٹ (غلط) کہا ہے۔ [سنن ابي داؤد: 1420، وسنده حسن، مؤطا امام مالك 123/1، وصحيحه ابن حبان، الموارد 252، 253]
➏ عربی زبان میں بلند وسخت جگہ کو نَجد اور پست اور نچلی زمین کو غَور کہتے ہیں۔ دیکھئے القاموس الوحید [ص 1611، 1189]
عرب کے علاقے یں بہت سے نجد ہیں۔ مثلاً نجدبرق، نجدخال، نجد عفر، نجد کبکب اور نجد مریع [ديكهئے معجم البلدان 262/5،]
تہامہ سے عراق کی زمین تک نجد ہے۔ [لسان العرب 413/3،]
جن احادیث میں قرن الشیطان، زلزلوں اور فتنوں والے نجد کا ذکر ہے، ان سے مراد نجد العراق ہے دیکھئے [اكمل البيان فى شرح حديث نجد قرن الشيطان] (از حکیم محمد اشرف سندھو) اور فتنوں کی سرزمین نجد یا عراق (از رضاءاللہ عبدالکریم)
حدیثِ ہٰذا میں جس نجدی کا ذکر ہے وہ جلیل القدر صحابی (ضمام بن ثعلبہ) رضی اللہ عنہ ہیں جیسا کہ اوپر گزرا ہے (نمبر2) نیز دیکھئے [الاصابة ص627 ت4342]
➐ جن احادیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ادھر سے شیطان کا سینگ نکلے گا اور ادھر سے فتنے وزلزلے ہوں گے۔ ان سے مراد عراق والا نجد ہے۔ مسند أحمد میں آیا ہے کہ (سیدنا) ابن عمر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عراق کی طرف اشارہ کررہے تھے اور فرمارہے تھے: «ها، ان الفنته ها هنا، ان الفتنه ها هنا۔ ثلاث مرات۔ من حيث يطلع قرن الشيطان۔» خبردار، فتنہ ادھر سے ہے، خبردار فتنہ ادھر سے ہے۔ آپ نے یہ بات تین دفعہ فرمائی۔ جہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔ [مسند أحمد 2/143 ح6302 وسنده صحيح،
ایک اور روایت میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شام اور یمن کے بارے میں کئی دفعہ برکت کی دعا فرمائی۔ کہا گیا: اور عراق کے بارے میں (دعا فرمائیں)؟ تو آپ نے فرمایا: « [إن] بھا الزلازل والفتن وبھا یطلع قرن الشیطان۔» وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔ [المعجم الكبير للطبراني 12/384 ح13422، وسنده حسن]
عراق کے لفظ کے ساتھ اسی طرح کی روایت ابونعیم الاصبہانی کی کتاب «حلية الاولياء» میں بھی موجود ہے۔ [ج6 ص133، وسنده حسن]
سیدنا سالم بن عبداللہ بن عمر رحمہ اللہ نے عراقیوں سے کہا: اے عراق والو! ہم تم سے کسی چھوٹی چیز کے بارے میں نہیں پوچھتے تو بڑی چیز کے بارے میں کس طرح پوچھ سکتے ہیں؟ میں نے اپنے ابا عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: فتنہ ادھر سے آئے گا۔ آپ نے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔ جہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا اور تم ایک دوسرے کو قئل کروگے۔۔۔ [صحيح مسلم: 50/2905، دارالسلام: 7297]
معلوم ہوا کہ نجد میں شیطان کا سینگ نکلنے سے مراد عراق والا نجد ہے لہٰذا بعض اہلِ بدعت کا نجد سے نجدِ حجاز یا نجدِ ریاض مراد لینا غلط ہے۔ ➑ نیز دیکھئے ح363
➒ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے تھے وگرنہ آپ یہ نہ فرماتے: «أَفْلَحَ إِنْ صَدَقَ» ۔ تفكر جدًا۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 267   


حدیث نمبر: 186
503- وبه: عن محمد بن يحيى بن حبان عن ابن محيريز أن رجلا من بني كنانة يدعى المخدجي سمع رجلا فى الشام يدعى أبا محمد يقول: إن الوتر واجب قال المخدجي: فرحت إلى عبادة ابن الصامت فاعترضت له وهو رائح إلى المسجد فأخبرته بالذي قال أبو محمد فقال عبادة: كذب أبو محمد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: خمس صلوات كتبهن الله على العباد فمن جاء بهن لم يضيع منهن شيئيا استخفافا بحقهن كان له عهد عند الله أن يدخله الجنة ومن لم يأت بهن استخفافا بحقهن فليس له عند الله عهد إن شاء عذبه وإن شاء أدخله الجنة.
ابن محیریز رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ بنوکنانہ کے ایک آدمی مخدجی نے شام میں، ابومحمد کو کہتے ہوئے سنا کہ وتر واجب ہے۔ مخدجی نے کہا: کہ پھر میں سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ کے پاس گیا۔ جب میں ان کے آمنے سامنے آیا تو وہ مسجد کو جا رہے تھے، پھر میں نے انہیں ابومحمد والی بات بتائی تو عبادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابومحمد نے غلط کہا ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں، پس جو شخص (قیامت کے دن) انہیں لے کر آئے گا، اس نے ان کے حق کا استخفاف کرتے ہوئے ان میں سے کچھ بھی ضائع نہیں کیا ہو گا تو اللہ کا اس کے ساتھ وعدہ ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ اور جو شخص ان کے حق کا استخفاف کرتے ہوئے انہیں لے کر نہیں آئے گا تو اس کے ساتھ اللہ کا کوئی وعدہ نہیں ہے۔ اگر چاہے تو عذاب دے اور اگر چاہے تو جنت میں داخل کر دے۔
تخریج الحدیث: «503- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 123/1 ح 267، ك 7 ب 3 ح 14) التمهيد 288/23، الاستذكار: 283، و أخرجه أبوداود (1420) و النسائي (230/1 ح 462) من حديث مالك به وصححه ابن حبان (موارد الظمآن: 252، 253) وله شاهد عند ابي داؤد (325) والحديث به صحيح.»