نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
نوافل و سنن کا بیان

6. بعض اوقات نفل نماز باجماعت پڑھنا جائز ہے

حدیث نمبر: 151
36- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى فى المسجد فصلى بصلاته ناس، ثم صلى من القابلة فكثر الناس، ثم اجتمعوا من الليلة الثالثة أو الرابعة فلم يخرج إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم. فلما أصبح قال: ”قد رأيت الذى صنعتم فلم يمنعني من الخروج إليكم إلا أني خشيت أن يفرض عليكم“ وذلك فى رمضان.
اور اسی (سند کے ساتھ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں (رات کی) نماز (تراویح) پڑھی تو (بعض) لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (آپ کے پیچھے) نماز پڑھی، پھر آنے والی رات جب آپ نے نماز پڑھی تو لوگ زیادہ ہو گئے، پھر تیسری یا چوتھی رات کو (بہت) لوگ اکٹھے ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس (نماز پڑھانے کے لیے) باہر تشریف نہ لائے، جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے (رات کو) جو کیا وہ میں نے دیکھا تھا لیکن میں صرف اس وجہ سے تمہارے پاس نہ آیا کیونکہ مجھے خوف ہو گیا تھا کہ یہ (قیام) تم پر فرض نہ ہو جائے۔ یہ واقعہ رمضان میں ہوا۔
تخریج الحدیث: «36- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 113/1 ح 246، ك 6، ب 1 ح 1) التمهيد 108/8، الاستذكار: 217، و أخرجه البخاري (1129) ومسلم (761) من حديث مالك به.»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 151 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 151  
´نفل نماز باجماعت پڑھنا`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى فى المسجد فصلى بصلاته ناس، ثم صلى من القابلة فكثر الناس، ثم اجتمعوا من الليلة الثالثة او الرابعة فلم يخرج إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم. فلما اصبح قال: قد رايت الذى صنعتم فلم يمنعني من الخروج إليكم إلا اني خشيت ان يفرض عليكم وذلك فى رمضان . . .»
. . .سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں (رات کی) نماز (تراویح) پڑھی تو (بعض) لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (آپ کے پیچھے) نماز پڑھی، پھر آنے والی رات جب آپ نے نماز پڑھی تو لوگ زیادہ ہو گئے، پھر تیسری یا چوتھی رات کو (بہت) لوگ اکٹھے ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس (نماز پڑھانے کے لیے) باہر تشریف نہ لائے، جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے (رات کو) جو کیا وہ میں نے دیکھا تھا لیکن میں صرف اس وجہ سے تمہارے پاس نہ آیا کیونکہ مجھے خوف ہو گیا تھا کہ یہ (قیام) تم پر فرض نہ ہو جائے۔ یہ واقعہ رمضان میں ہوا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 151]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1129، ومسلم 761، من حديث ما لك به]

تفقه:
➊ نماز تراویح سنت ہے واجب یا فرض نہیں ہے۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 759/174 و الموطأ رواية يحييٰ 113/1 ح 247]
➋ چونکہ اب فرضیت کا خوف زائل ہو گیا ہے لہذا نماز تراویح با جماعت افضل ہے۔ دیکھئے: [الموطأ حديث: 29، تفقه 1، البخاري 2009، ومسلم 759/173]
➌ اس پر اجماع ہے کہ نوافل (تراویح وغیرہ) میں نہ اذان ہے اور نہ اقامت۔ [التمهيد 108/8]
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر بہت زیادہ مہربان اور شفیق تھے۔
➎ علمائے کرام کا تراویح کی تعداد میں بہت اختلاف ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 113/8، وعمدة القاري للعيني 126/11، والحاوي للفتاوي 338/1، والفهم لما اشكل من تلخيص كتاب مسلم 389/2، وسنن الترمذي 806]
قرطبی (متوفی 656 ھ) نے کہا:
اور اکثر علماء نے کہا ہے کہ گیارہ رکعات پڑھنی چاہئے، انھوں نے اس مسئلے میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سابق سے استدلال کیا ہے۔ [المفهم:390/2]
➏ بیس تراویح پر اجماع کا دعویٰ باطل ہے۔ امام شافعی نے فرمایا: اگر رکعتیں کم اور قیام لمبا ہو تو بہتر ہے اور (یہ) مجھے زیادہ پسند ہے۔ [ملخصاً / مقريزي كي مختصر قيام اليل للمروزي ص202، 203، تعداد ركعات قيام رمضان كا جائزه ص 85]
➐ اس حدیث سے صحابہ کرام کا شوق عبادت ظاہر ہوتا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 36   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ
الشیخ عمر فاروق سعیدی حفظ اللہ
شیخ الحدیث مولانا عبد العزیز علوی حفظ اللہ
مولانا داود راز رحمہ اللہ
الشیخ عبدالستار الحماد حفظ اللہ
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1605  
´ماہ رمضان میں قیام اللیل (تہجد) کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی، آپ کی نماز کے ساتھ کچھ اور لوگوں نے بھی نماز پڑھی، پھر آپ نے آنے والی رات میں بھی نماز پڑھی اور لوگ بڑھ گئے تھے، پھر تیسری یا چوتھی رات میں لوگ جمع ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف نکلے ہی نہیں، پھر جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا: تم نے جو دلچسپی دکھائی اسے میں نے دیکھا، تو تمہاری طرف نکلنے سے مجھے صرف اس چیز نے روک دیا کہ میں ڈرا کہ کہیں وہ تمہارے اوپر فرض نہ کر دی جائے، یہ رمضان کا واقعہ تھا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1605]
1605۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ روایت تفصیلاً پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے فوائدومسائل حدیث نمبر: 1600
➋ مذکورہ روایت میں یہ ہے کہ تیسری یا چوتھی رات آپ تشریف نہ لائے جبکہ ایک صحیح روایت میں صراحت ہے کہ تین راتیں لوگوں نے آپ کی اقتدا میں نماز تراویح پڑھی اور آپ نے انہیں تینوں راتیں آٹھ رکعت اور وتر پڑھائے تھے۔ چوتھی رات آپ تشریف نہ لائے۔ دیکھیے: (مسند ابی یعلی بتحقیق شیختا ارشاد الحق الاثر، برقم: 1796، وقال الذھبی: اسنادہ وسط، و میزان الاعتدال: 3؍211، وصحیح ابن خزیمہ، رقم: 1070، وصحیح ابن حیان، رقم: 2451 فی مواضع)
➌ معلوم ہوا کہ لوگوں کا ذوق شوق اور نفل کام پر اصرار بھی فرضیت کا ایک سبب ہے جس طرح اور بھی بہت سے اسباب ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کا امر بھی ہو گیا تو وہ فرض ہو جائے گاور نہ باوجود مداومت اور اصرار کے نفل ہی رہے گا۔ ان الفاظ کا یہ مطلب نہیں کہ نفل پر مداومت نہیں کرنی چاہیے۔ خصوصاً اب جبکہ فرضیت کا امکان ہی نہیں تو کسی بھی نفل پر مداومت، اصرار اور پابندی میں کوئی حرج نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1605   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1373  
´ماہ رمضان میں قیام اللیل (تراویح) کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں نماز پڑھی تو آپ کے ساتھ کچھ اور لوگوں نے بھی پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلی رات کو بھی پڑھی تو لوگوں کی تعداد بڑھ گئی پھر تیسری رات کو بھی لوگ جمع ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے ہی نہیں، جب صبح ہوئی تو فرمایا: میں نے تمہارے عمل کو دیکھا، لیکن مجھے سوائے اس اندیشے کے کسی اور چیز نے نکلنے سے نہیں روکا کہ کہیں وہ تم پر فرض نہ کر دی جائے ۱؎ اور یہ بات رمضان کی ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب شهر رمضان /حدیث: 1373]
1373. اردو حاشیہ: فائدہ: صحیح بخاری میں تیسری رات بھی نماز پڑھنے کا ذکر ہے۔ دیکھئے [صحیح بخاری، الجمعة، حدیث:924]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1373   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1783  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری عشرے میں صرف تین دن مسجد میں تراویح کی جماعت کرائی ہے اور اس میں آٹھ رکعات تراویح اور تین وتر پڑھے ہیں۔
چونکہ ہر دن لوگوں کے شوق اوررغبت میں اضافہ ہوتا رہا اور ان کی تعداد بڑھتی رہی اس لیے آپﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا شوق ورغبت دیکھ کر یہ خطرہ محسوس فرمایا کہ کہیں اس شوق ورغبت کی بنا پر اللہ تعالیٰ تراویح کو لازم نہ ٹھہرا دے،
اس لیے آپﷺ نے جماعت موقوف فرما دی اس پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ پانچ فرائض پر اضافہ تو نہیں ہو سکتا تھا۔
کیونکہ پانچ نمازیں توروزانہ پڑھی جاتی ہیں اورتراویح کا تعلق صرف ماہ رمضان سے ہے۔
اس لیے اس کی فرضیت سے پانچ نمازوں میں اضافہ نہ ہوتا۔
رمضان تو صرف ایک ماہ ہی ہے اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے،
کہ تراویح نمازِ نفل ہی رہتی لیکن جس نے پڑھنی ہوتی اس کو جماعت کی پابندی لازماً کرنی پڑتی۔
اب آپﷺ کے بعد چونکہ وحی کا آنا بند ہو گیا ہے اور نیا حکم جاری نہیں ہو سکتا اس لیے جماعت کی صورت میں تراویح پڑھنے کی فرضیت کا خطرہ نہیں رہا،
اس لیے اب امت کے اکثرعلماء امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے اکثر اصحاب (ساتھی)
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ،
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور بعض مالکیہ کے نزدیک تراویح جماعت کےساتھ پڑھنا افضل ہے۔
کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور سے لے کر آج تک مسلمانوں کا اس پرعمل ہے۔
اور یہ مسلمانوں کا امتیاز اور شعار کی شکل اختیار کر گئی ہے لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ اوربعض شوافع رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس کا گھر میں انفرادی طور پر اہتمام کرنا افضل ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1783   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1784  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اگر انسان کے لیے کوئی چیز لازم اور فرض نہ ہو،
محض اس کو اس کا شوق اور رغبت دلائی جائے تو وہ اس کو اپنے لیے گراں اور مشکل نہیں سمجھتا لیکن فرضیت کی صورت میں پابندی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اس لیے شریعت میں نوافل کے مقابلہ میں فرائض کی تعداد کم ہے۔
اگر تراویح باجماعت کم ہو جاتی تو انسان اس کا پابند ہو جاتا اس لیے وہ اس میں گرانی اورمشقت سمجھتا اور اس سے عقیدت کے باجود کمزوری اور بے بسی کا اظہار کرتا،
جس کا آج ہم فرض نمازوں کی پابندی کی صورت میں مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ کتنے فیصد لوگ نماز باجماعت کا اہتمام اور پابندی کرتے ہیں۔
اس لیے آپﷺ نے فرمایا:
(فَتَعْجَزوا عنها)
تم اس کو گراں سمجھتے اور عاجزی وکمزوری کا اظہار کرتے۔
نوٹ:
یہاں ہندو پاک کے نسخوں میں باب ہے،
کہ شب قدر کے مندوب قیام کی تاکید اور ان کی دلیل جو کہتے ہیں کہ شب قدر ستائیسویں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1784   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1129  
1129. ام المومنین حضرت عائشہ‬ ؓ ہ‬ی سے مروی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز (تہجد) ادا کی تو لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر دوسری رات بھی آپ نے اسے مسجد میں ادا کیا تو لوگ زیادہ جمع ہو گئے۔ پھر تیسری یا چوتھی رات لوگ اس سے بھی زیادہ جمع ہو گئے لیکن رسول اللہ ﷺ ان کے پاس باہر تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا: میں تمہارے جذبات کو ملاحظہ کرتا رہا لیکن مجھے اس بات نے آپ لوگوں کے پاس آنے سے باز رکھا کہ مبادا نمازِ شب تم پر فرض ہو جائے۔ واضح رہے کہ یہ واقعہ رمضان میں پیش آیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1129]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے چند راتوں میں رمضان کی نفل نماز صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو جماعت سے پڑھائی بعد میں اس خیال سے کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے آپ نے جماعت کا اہتمام ترک فرمادیا۔
اس سے رمضان شریف میں نماز تراویح با جماعت کی مشروعیت ثابت ہوئی۔
آپ نے یہ نفل نماز گیارہ رکعات پڑھائی تھی۔
جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے۔
چنانچہ علامہ شوکانی ؒ فرماتے ہیں:
وأما العدد الثابت عنه صلی اللہ علیه وسلم في صلوته في رمضان فأخرج البخاري وغیرہ عن عائشة أنھا قالت ماکان النبي صلی اللہ علیه وسلم یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدی عشرة رکعة وأخرج ابن حبان في صحیحه من حدیث جابر أنه صلی اللہ علیه وسلم صلیٰ بھم ثمان رکعات ثم أوتر۔
(نیل الأوطار)
اور رمضان کی اس نماز میں آنحضرت ﷺ سے جو عدد صحیح سند کے ساتھ ثابت ہیں وہ یہ کہ حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے رمضان اور غیر رمضان میں اس نماز کو گیارہ رکعات سے زیادہ ادا نہیں فرمایا اور مسند ابن حبان میں بسند صحیح مزید وضاحت یہ موجود ہے کہ آپ نے آٹھ رکعتیں پڑھائیں پھر تین وتر پڑھائے۔
پس ثابت ہوا کہ آپ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو رمضان میں تراویح باجماعت گیارہ رکعات پڑھائی تھیں اور تراویح وتہجد میں یہی عدد مسنون ہے، باقی تفصیلات اپنے مقام پر آئیں گی۔
إن شاءاللہ تعالی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1129   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 924  
924. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ آدھی رات کے وقت گھر سے نکلے تو مسجد میں آ کر نماز پڑھی۔ کچھ لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ صبح کے وقت لوگ باتیں کرنے لگے تو دوسرے روز ان سے بھی زیادہ لوگ جمع ہو گئے اور انہوں نے بھی رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز ادا کی۔ صبح کو لوگوں نے ایک دوسرے سے بیان کیا تو تیسری رات ان سے بھی زیادہ لوگ اکٹھے ہو گئے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو لوگوں نے آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر جب چوتھی رات ہوئی تو لوگ اس قدر جمع ہوئے کہ مسجد میں گنجائش نہ رہی۔ رسول اللہ ﷺ نماز فجر کے لیے باہر تشریف لائے۔ جب فجر کی نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف توجہ فرمائی۔ تشہد، یعنی خطبہ پڑھتے ہوئے فرمایا: أمابعد! بےشک تمہارا اجتماع مجھ سے مخفی نہ تھا لیکن مجھے خوف ہوا کہ مبادا تم پر فرض ہو جائے تو پھر تم اس کے ادا کرنے سے عاجز ہو جاؤ گے۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:924]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث کئی جگہ آئی ہے یہاں اس مقصد کے تحت لائی گئی کہ آنحضرت ﷺ نے وعظ میں لفظ أما بعد استعمال فرمایا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 924   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:729  
729. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نماز تہجد اپنے حجرے میں پڑھا کرتے تھے۔ چونکہ حجرے کی دیواریں بہت چھوٹی تھیں، اس لیے لوگوں نے نبی ﷺ کی شخصیت کو دیکھ لیا اور کچھ لوگ نماز کی اقتدا کرنے کے لیے آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ پھر صبح کو انہوں نے دوسروں سے اس کا ذکر کیا۔ بعد ازاں دوسری رات نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو کچھ لوگ اس رات بھی آپ کی اقتدا میں کھڑے ہو گئے۔ یہ صورت حال دو یا تین راتوں تک رہی۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ بیٹھ رہے اور نماز کے لیے تشریف نہ لائے۔ اس کے بعد صبح کے وقت لوگوں نے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: مجھے اس بات کا ڈر ہوا کہ کہیں نماز شب تم پر فرض نہ کر دی جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:729]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ امام اور مقتدیوں کے درمیان دیوار یا راستہ حائل ہوتو بھی اقتدا صحیح ہے بشرطیکہ امام کی تکبیر خود سنے یا کوئی دوسرا سنادے۔
دور حاضر میں لاؤڈ سپیکر نے اس مشکل کو کافی حد تک آسان کردیا ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس موقف کی تائید میں احادیث وآثار پیش کیے ہیں۔
احناف نے مسجد اور صحراء کا فرق کرکے تکلف سے کام لیا ہے۔
(2)
حدیث میں جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ آپ کے گھر سے متعلق ہے کیونکہ اس میں حجرے کی دیواروں کا ذکر ہے، چنانچہ بعض روایات میں صراحت ہے کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے حجروں میں سے کسی ایک حجرے میں نماز شب پڑھا کرتے تھے، البتہ بعض شارحین نے اس سے مراد جائے اعتکاف لی ہے اور جدار سے مراد بوریوں کی دیوار لی ہے، جیسا کہ آئندہ روایات میں اس کا ذکر ہے۔
ہمارے نزدیک یہ دو الگ الگ واقعات ہیں، کیونکہ جدار سے مراد بوریوں کی دیوار ہو، یہ بہت بڑا مجاز ہے جس کی مثال کلام عرب میں نہیں ملتی۔
والله أعلم۔
چونکہ رسول اللہ ﷺ حجرے کے اندر نماز پڑھتے تھے اور لوگوں نے آپ کی اقتدا باہر کھڑے ہوکر کی، آپ کے اور لوگوں کے درمیان دیوار حائل تھی اسے برقرار رکھا گیا، لہٰذا ایسا کرنا جائز ہے۔
(فتح الباري: 278/2)
وهو المقصود.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 729   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:924  
924. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ آدھی رات کے وقت گھر سے نکلے تو مسجد میں آ کر نماز پڑھی۔ کچھ لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ صبح کے وقت لوگ باتیں کرنے لگے تو دوسرے روز ان سے بھی زیادہ لوگ جمع ہو گئے اور انہوں نے بھی رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز ادا کی۔ صبح کو لوگوں نے ایک دوسرے سے بیان کیا تو تیسری رات ان سے بھی زیادہ لوگ اکٹھے ہو گئے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو لوگوں نے آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر جب چوتھی رات ہوئی تو لوگ اس قدر جمع ہوئے کہ مسجد میں گنجائش نہ رہی۔ رسول اللہ ﷺ نماز فجر کے لیے باہر تشریف لائے۔ جب فجر کی نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف توجہ فرمائی۔ تشہد، یعنی خطبہ پڑھتے ہوئے فرمایا: أمابعد! بےشک تمہارا اجتماع مجھ سے مخفی نہ تھا لیکن مجھے خوف ہوا کہ مبادا تم پر فرض ہو جائے تو پھر تم اس کے ادا کرنے سے عاجز ہو جاؤ گے۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:924]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں أما بعد کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
امام بخاری ؒ نے صرف اسی مقصد کے پیش نظر اس حدیث کو بیان کیا ہے۔
اس حدیث کی مکمل تشریح کتاب التہجد میں بیان کریں گے۔
إن شاءاللہ نوٹ:
یونس بن یزید کی متابعت کو امام مسلم نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 520/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 924   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1129  
1129. ام المومنین حضرت عائشہ‬ ؓ ہ‬ی سے مروی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز (تہجد) ادا کی تو لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر دوسری رات بھی آپ نے اسے مسجد میں ادا کیا تو لوگ زیادہ جمع ہو گئے۔ پھر تیسری یا چوتھی رات لوگ اس سے بھی زیادہ جمع ہو گئے لیکن رسول اللہ ﷺ ان کے پاس باہر تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا: میں تمہارے جذبات کو ملاحظہ کرتا رہا لیکن مجھے اس بات نے آپ لوگوں کے پاس آنے سے باز رکھا کہ مبادا نمازِ شب تم پر فرض ہو جائے۔ واضح رہے کہ یہ واقعہ رمضان میں پیش آیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1129]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ کا خود تین رات نماز شب کا اہتمام کرنا اور لوگوں کا آپ کے ساتھ اسے ادا کرنا اس سے ترغیب ثابت ہوتی ہے، پھر فرض ہونے کے اندیشے کے پیش نظر باہر تشریف نہ لانا اس کے عدم وجوب کی دلیل ہے۔
امام بخاری ؒ اس سے یہی ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
(2)
اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نفل نماز کی جماعت صحیح ہے، لیکن اس کے لیے لوگوں کو دعوت دینا صحیح نہیں، البتہ نماز تراویح کا معاملہ اس سے الگ ہے، کیونکہ حضرت عمر ؓ نے، فرضیت کا اندیشہ، جس کے باعث نبی ؓ نے جماعت تراویح ترک کی تھی، ختم ہونے پر اپنے دور خلافت میں اس کی جماعت کا اہتمام سرکاری طور پر فرمایا تھا، کیونکہ اس وقت فرضیت کا اندیشہ نہیں رہا تھا۔
تراویح کے علاوہ دیگر نوافل تداعی کے بغیر جماعت سے پڑھے جا سکتے ہیں۔
تداعی کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں کو اس کے لیے اہتمام کے ساتھ دعوت دی جائے۔
ایسا کرنا صحیح نہیں۔
(3)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس نے شروع نماز میں امامت کی نیت نہیں کی، اس کی اقتدا میں نماز باجماعت ادا کی جا سکتی ہے۔
اگرچہ حافظ ابن حجر ؒ نے اسے محل نظر قرار دیا ہے، لیکن دیگر احادیث سے حافظ ابن حجر ؒ کا موقف محل نظر قرار پاتا ہے۔
جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے جبکہ انہوں نے اپنی خالہ حضرت میمونہ ؓ کے گھر رات گزاری تھی اور رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز شب میں شامل ہوئے تھے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1129   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2012  
2012. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (رمضان میں) ایک مرتبہ نصف شب کے وقت مسجد میں تشریف لے گئے تو وہاں نماز تراویح پڑھی۔ کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہو گئے۔ صبح ہوئی تو انھوں نے اس کا چرچا کیا، چنانچہ دوسری رات لوگ پہلے سے بھی زیادہ جمع ہوگئے اور آپ کے ہمراہ نماز (تراویح)پڑھی دوسری صبح کو اور زیادہ چرچا ہوا۔ پھرتیسری رات اس سے بھی زیادہ لوگ جمع ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے۔ نماز پڑھی اور لوگوں نے بھی آپ کی اقتدا میں نماز (تراویح) اداکی۔ جب چوتھی رات آئی تو اتنے لوگ جمع ہوئے کہ مسجد نمازیوں سے عاجز آگئی یہاں تک کہ صبح کی نماز کے لیے آپ باہر تشریف لائے۔ جب نماز فجر پڑھ لی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، خطبہ پڑھا پھر فرمایا: واقعہ یہ ہے کہ تمھارا موجود ہونا مجھ پر مخفی نہ تھالیکن مجھے اندیشہ ہوا کہ مبادا نماز شب فرض ہو جائے، پھر تم اسے ادانہ کر سکو۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2012]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے جو نماز تراویح کا باقاعدہ اہتمام کیا تھا وہ بے بنیاد نہ تھا۔
ان احادیث میں اس بنیاد کو بیان کیا گیا ہے جس پر حضرت عمر فاروق ؓ نے تراویح باجماعت ادا کرنے کی عمارت کھڑی کی۔
(2)
صحیح بخاری کی ایک روایت میں اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھائی، صحابہ نے بھی آپ کے ساتھ یہ نماز ادا کی۔
دوسری رات آپ نے یہ نماز پڑھائی تو نمازیوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی۔
تیسری یا چوتھی رات تو یہ تعداد ایک بڑے اجتماع کی صورت اختیار کر گئی۔
رسول اللہ ﷺ اس رات نماز پڑھانے کے لیے تشریف نہ لائے، صبح کے وقت آپ نے فرمایا:
جتنی بڑی تعداد میں تم لوگ جمع ہو گئے تھے میں نے اسے دیکھا لیکن یہ خدشہ میرے باہر آنے کے لیے رکاوٹ بنا رہا کہ مبادا نماز تم پر فرض ہو جائے۔
یہ رمضان کا واقعہ ہے۔
(صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1129)
اس رات رسول اللہ ﷺ نے کتنی رکعات پڑھائیں اسے حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں رمضان میں آٹھ رکعات اور وتر پڑھائے۔
آئندہ رات ہم مسجد میں جمع ہوئے اور ہمیں امید تھی کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائيں گے لیکن آپ مسجد میں نہ آئے، صبح کے وقت ہم رسول اللہ ﷺ کے ہاں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ہمیں آپ کے تشریف لانے کی امید تھی، آپ نے فرمایا:
میں نے یہ ناپسند کیا کہ تم پر وتر فرض ہو جائیں۔
(صحیح ابن خزیمة: 138/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2012   


حدیث نمبر: 152
115- وبه: عن أنس أن جدته مليكة دعت رسول الله صلى الله عليه وسلم لطعام صنعته له فأكل منه، ثم قال: ”قوموا فلأصلي لكم.“ قال أنس: فقمت إلى حصير لنا قد اسود من طول ما لبث، فنضحته بماء، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم وصففت أنا واليتيم وراءه والعجوز من ورائنا، فصلى لنا ركعتين ثم انصرف.
اور اسی سند کے ساتھ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی دادی سیدہ ملیکہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھانا تیار کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کھایا پھر فرمایا: اٹھو! میں تمہیں نماز پڑھا دوں انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اٹھ کر اپنی چٹائی کے پاس گیا جو طویل عرصے تک پڑی رہنے کی وجہ سے سیاہ ہو چکی تھی، میں نے اس پر پانی چھڑکا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے، ایک یتیم اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بنا لی اور بڑھیا ہمارے پیچھے (علیحدہ صف میں) تھیں، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو (نفل) رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیر دیا۔
تخریج الحدیث: «115- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 153/1 ح 359، ك 9 ب 9 ح 31) التمهيد 263/1، الاستذكار: 329، و أخرجه البخاري (860) ومسلم (658) من حديث مالك به.»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 152 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 152  
´عورتوں اور مردوں کا اکٹھے ایک صف میں کھڑا ہونا جائز نہیں ہے`
«. . . فنضحته بماء، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم وصففت انا واليتيم وراءه والعجوز من ورائنا، فصلى لنا ركعتين ثم انصرف . . .»
. . . میں نے اس پر پانی چھڑکا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے، ایک یتیم اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بنا لی اور بڑھیا ہمارے پیچھے (علیحدہ صف میں) تھیں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 152]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 860، ومسلم 658، من حديث مالك به]

تفقہ:
➊ امام کے پیچھے پہلے مردوں کی اور بعد میں عورتوں کی صفیں ہونی چاہئیں۔
➋ اگر اگلی صف میں مرد نہ ہوں تو بچوں کا کھڑا ہونا جائز ہے بلکہ اس حدیث سے اس کا مسنون ہونا ثابت ہے۔
➌ عورتوں اور مردوں کا اکٹھے ایک صف میں کھڑا ہونا جائز نہیں ہے۔
➍ اگر شرعی عذر نہ ہو تو ولیمے کے علاوہ دوسری دعوتیں قبول کرنا بھی مسنون ہے۔
➎ جب دو مقتدی اور ایک امام ہو تو امام صف سے آگے علیحدہ کھڑا ہو گا۔
➏ بوڑھی سے مراد دادی ملیکہ یا ام سلیم رضی اللہ عنہا ہیں۔ واللہ اعلم
➐ اس حدیث اور دیگر احادیث سے ثابت ہے کہ اگر صف کے پیچھے اکیلی عورت نماز پڑھے گی تو اس کی نماز ہو جائے گی لیکن اگر اکیلا مرد صف کے پیچھے نماز پڑھے گا تو اس کی نماز نہیں ہو گی اور اس پر نماز کا اعادہ فرض ہے۔
➑ اس میں کوئی اختلاف نہیں یعنی اجماع ہے کہ اگر دو مرد اور ایک عورت ہوں تو مرد امام کے دائیں طرف ہوگا اور عورت پیچھے اکیلی ہوگی۔ یہ حدیث چونکہ نفلی نماز (چاشت) کے بارے میں ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ کبھی کبھار نوافل کی جماعت جائز ہے۔
➒ عام طور پر گھروں میں بچھے ہوئے قالین یا چٹائی وغیرہ پر نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ بشرطیکہ وہ پاک ہوں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 115   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ محمد حسین میمن حفظ اللہ
الشیخ غلام مصطفےٰ ظہیر حفظ اللہ
الشیخ عمر فاروق سعیدی حفظ اللہ
الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ
محمد ابراہیم بن بشیر حفظ اللہ
شیخ الحدیث مولانا عبد العزیز علوی حفظ اللہ
مولانا داود راز رحمہ اللہ
الشیخ عبدالستار الحماد حفظ اللہ
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 380  
´بوریئے پر نماز پڑھنا`
«. . . وَصَلَّى جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَبُو سَعِيدٍ فِي السَّفِينَةِ قَائِمًا، وَقَالَ الْحَسَنُ: قَائِمًا مَا لَمْ تَشُقَّ عَلَى أَصْحَابِكَ تَدُورُ مَعَهَا وَإِلَّا فَقَاعِدًا . . .»
. . . اور جابر اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما نے کشتی میں کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور امام حسن رحمہ اللہ نے کہا کشتی میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ جب تک کہ اس سے تیرے ساتھیوں کو تکلیف نہ ہو اور کشتی کے رخ کے ساتھ تو بھی گھومتا جا ورنہ بیٹھ کر پڑھ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ: Q380]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
◈ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وجه ادخال الصلاة فى السفينة فى ترجمة الصلاة على الحصير أنهما اشتر كافى ان الصلاة عليهما صلاة على غير الارض لئلا يتخيل ان مباشرة المصلي للارض شرط» [المتواري على ابواب البخاري، ص85]
ترجمہ: یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے جو باب قائم فرمایا کہ بوریئے پر نماز پڑھنے اور حدیث پیش کی کشتی پر نماز پڑھنے کی۔ دراصل یہ دونوں مشترک ہیں نماز کے ایک مسئلے پر کہ زمین کے علاوہ کسی اور چیز پر سجدہ کیا جائے تو درست ہے تاکہ یہ خیال نہ رہے کہ نمازی کے لیے زمین کا ہونا شرط ہے۔

◈ امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اس لیے پیش کیا کہ مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت کے ضعف کی طرف اشارہ مقصود ہے جس میں یہ الفاظ ہیں:
«عن شريح بن هاني» انہوں نے امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بوریئے پر نماز پڑھتے تھے؟ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِيْنَ حَصِيْرًا» تو امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بوریئے پر نماز نہیں پڑھتے تھے۔ امام قسطلانی کے مطابق مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ضعیف ہے یزید بن المقدام کی وجہ سے۔ [ارشاد الساري، ج1، ص405]
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا کہ نماز بوریے پر پڑھنا اور ساتھ میں اثر نقل فرمایا کہ کشتی پر نماز پڑھنا، امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ کشتی زمین نہیں ہے تو اس پر بھی نماز درست ہو گی اور مزید دلیل کے طور پر انس رضی اللہ عنہ والی حدیث پیش کی۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اثر اور ترجمۃ الباب میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«الاستدلال بأثر جابر بأنها اشتركا فى ان الصلاة عليهما غيرالصلاة على الأرض» [فتح الباري: 489/1]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 158   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 727  
´عورت اکیلی ایک صف کا حکم رکھتی ہے`
«. . . عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" صَلَّيْتُ أَنَا وَيَتِيمٌ فِي بَيْتِنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأُمِّي أُمُّ سُلَيْمٍ خَلْفَنَا . . .»
. . . انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے انہوں نے بتلایا کہ میں نے اور ایک یتیم لڑکے (ضمیرہ بن ابی ضمیرہ) نے جو ہمارے گھر میں موجود تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی اور میری والدہ ام سلیم ہمارے پیچھے تھیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ: 727]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ اشارہ بیان فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ام سلیم رضی اللہ عنہا نے تنہا نماز پڑھی اگر عورت کی نماز تنہا باطل ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قطعاً ان کو اجازت مرحمت نہ فرماتے لہٰذا ان کو اجازت دی تو واضح ہوا کہ عورت اکیلی پوری صف کا حکم رکھتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں یہ واضح الفاظ موجود ہیں کہ جس کو امام ابن عبد اللہ رحمہ اللہ نے مرفوعا ذکر فرمایا امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ! «المراة وحدها صف» [فتح الباري ج2 ص280] اکیلی عورت صف کا حکم رکھتی ہے

◈ علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مطابقة الترجمة فى قوله وأمي -ام سليم- خلفنا لانها وقفت خلفهم وحدها، فصارت فى حكم الصف» [عمدة القاري ج5 ص387]
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یوں ہے کہ انس رضی اللہ عنہ کا کہنا میری والدہ ام سلیم ہمارے پیچھے (اکیلی صف میں کھڑی تھیں) لہٰذا ان کا اکیلا صف میں کھڑا ہونا مکمل صف کا حکم رکھتا ہے۔

◈ صاحب اوجز المسالک رقمطراز ہیں:
ابن رشید فرماتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ کا قصد (ترجمۃ الباب سے یہ) ہے کہ (عورت کا اکیلے صف کا حکم رکھنا) یہ عمومی قاعدے سے مستثنیٰ ہے، جس میں یہ ہے اس کی نماز نہیں جو صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھتا ہے۔ یعنی یہ حکم صرف مردوں کے لیے۔ [الابواب والتراجم, ج2 ص879]

◈ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لا خلاف فى أن سنة النساء القيام خلف الرجال ولا يجوز لهن القيام معهم فى الصف» [الاستذكار، ج6، ص155]
اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عورتوں کا قیام (یعنی صف بنانا) مردوں کے پیچھے ہے اور یہ جائز نہیں کہ خواتین ان کے ساتھ قیام میں کھڑی رہیں (لہٰذا اس سبب کی بناء پر خواتین کا اکیلے صف میں کھڑا ہونا مکمل صف کا حکم رکھتا ہے)۔‏‏‏‏
لہٰذا یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت معلوم ہوتی ہے کہ عورت کا تنہا صف میں کھڑے رہنا درست ہے جبکہ مرد کو صف کے پیچھے اکیلا کھڑا رہنا باطل ہے جبکہ صف میں جگہ ہو۔

فائدہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک سے یہ مسئلہ عیاں ہوا کہ اکیلی عورت صف کا حکم رکھتی ہے جبکہ اکیلا مرد پوری صف کا حکم نہیں رکھتا براں بریں اس مسئلہ پر متعدد احادیث و آثار کتب احادیث میں موجود ہیں: سیدنا وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ کی حدیث میں واضح ہے کہ: «ان رسول الله صلى الله عليه وسلم راى رجلا خلف الصف وحده فامره ان يعيد الصلاة .» [ابوداؤد كتاب الصلاة رقم الحديث 682]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ صف کے پیچھے اکیلا ہی نماز پڑھ رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز دوہرانے کا حکم دیا۔

◈ امام ترمذی رحمہ اللہ اور امام بغوی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن امام ابن حبان رحمہ اللہ علامہ أحمد شاکر اور شیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ علیہم نے اسے صحیح قرار دیا ہے، [تحقيق المشكاة 345/1، ارواءالغليل 222/2]
مندرجہ بالا حدیث سے واضح ہوا کہ اکیلے مرد کی نماز صف کے پیچھے درست نہیں۔

◈ فضیلۃ الشیخ غازی عزیز حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ (وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ کی حدیث کا) حکم اس صورت میں نافذ ہو گا کہ جب آخری صف میں نماز کے شامل ہونے کی گنجائش باقی ہو اور وہ اس کی استطاعت بھی رکھتا ہو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو نماز دہرانے کا حکم اس لیے فرمایا تھا کہ اس نے تساہل سے کام لیا تھا حالانکہ وہ صف میں داخل ہو کر شگاف کو پُر کرنے اور دوسرے نمازیوں کے ساتھ صف بندی کا ذمہ دار تھا۔ لہٰذا وہ شخص جس کو صف میں جگہ نہ ملی تو وہ اپنی وجہ سے پوری صف کو خراب نہ کرے گا بلکہ وہ معذور شمار ہو گا اور وہ اکیلا صف کے پیچھے ہی کھڑا ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی شان ہے: «لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا» [البقرة: 286]
اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا
لہٰذا ان شاء اللہ اس کی نماز معذوری کی وجہ سے درست ہو گی۔

◈ ابن رشد القرطبی رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر علماء کا اختلاف ذکر فرمایا ہے۔ آپ کہتے ہیں: «واختلفوا اذا صلى انسان خلف الصف وحده فالجمهور على ان صلوته تجزي وقال احمد و ابوثور و جماعة صلاته فاسدة .» [هداية المجتهد: 108/1]
اگر کوئی صف کے پیچھے نماز پڑھے تو اس بارے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے، جمہور علماء کا قول ہے کہ اس کی نماز جائز ہے، لیکن امام احمد، ابوثور اور ایک جماعت کا قول ہے کہ اس کی نماز فاسد ہے۔
یہاں اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ علامہ ابن رشد جب جمہور کا لفظ استعمال کریں تو اس سے مراد امام مالک شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہم مراد ہوتی ہے۔ [ديكهئے بداية المجتهد 1/51]

جو علماء صف کے پیچھے اکیلے کی نماز کے جواز یا عدم جواز کے قائل ہیں ان کی فہرست کچھ یوں ہے . امام بغوی، ابن قدامہ، حافظ ابن حجر، شمس الحق عظیم آبادی اور عبدالرحمن مبارک پوری رحمہم اللہ علیہم اجمعین کی تصریحات کے مطابق یوں ہے۔ امام أحمد، امام اسحاق بن راہویہ، حکم، ابن المنذر، بعض محدثین شافعیہ، ابن خزیمہ، نخعی، حسن بن صالح اور اہل کوفہ کی ایک جماعت مثلاً حماد بن ابی سلیمان، ابن ابی لیلی اور وکیع وغیرھم رحمہ اللہ علیہم عدم جواز کے قائل ہیں جبکہ حسن بصری، امام اوزاعی، امام مالک، سفیان ثوری، ابن مبارک، امام شافعی رحمہ اللہ علیہم اور اہل رائے یعنی حنفی حضرات کا قول اس کے جواز کا ہے۔
تفصیل کے لئے مراجعت کی جائے۔ [شرح السنة للبغوي 378/3، المغني لابن قدامه 42/2، عون المعبود 254/1، فتح الباري 247/2، تحفة الاحوذي 22/2]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 185   

  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 727  
´صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز`
«. . . صَلَّيْتُ أَنَا وَيَتِيمٌ فِي بَيْتِنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأُمِّي أُمُّ سُلَيْمٍ خَلْفَنَا . . .»
. . . میں نے اور ایک یتیم لڑکے (ضمیرہ بن ابی ضمیرہ) نے جو ہمارے گھر میں موجود تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی اور میری والدہ ام سلیم ہمارے پیچھے تھیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ: 727]

فوائد و مسائل:
اگر امام کی اقتدا میں نماز پڑھی جا رہی ہو تو صف کے پیچھے اکیلے مرد کی کوئی بھی نماز کسی بھی صورت میں نہیں ہوتی۔
مجوزین کے مزعومہ دلائل کا منصفانہ تجزیہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز ہو جاتی ہے لیکن جیسا کہ امام ابن حزم رحمہ اللہ کا کلام ہے، کتاب و سنت یا اجماع امت میں سے کوئی بھی دلیل ان کا ساتھ نہیں دیتی۔ اپنے باطل مذہب کو ثابت کرنے کے لیے جو دلائل وہ پیش کرتے ہیں، ان کا منصفانہ تجزیہ پیش خدمت ہے:
دلیل نمبر 1:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
«صليت أنا ويتيم فى بيتنا خلف النبى صلى الله عليه وسلم، وأمي أم سليم حلفنا .»
میں اور ایک لڑکے نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں اپنے گھر میں نماز ادا کی۔ میری والدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا ہمارے پیچھے (کھڑی نماز ادا کر رہی) تھیں۔ [صحيح البخاري: ۰727 صحيح مسلم: 658]
تجزیہ:
اس حدیث سے صف کے پیچھے اکیلے کھڑے مرد کی نماز کا جواز ثابت نہیں ہوتا کیونکہ یہ اجازت عورت کے ساتھ خاص ہے۔
◈ امام بخاری رحمہ اللہ کی تبویب ملاحظہ ہو، وہ فرماتے ہیں:
«باب: المرأة وحدها تكون صفا.» اس بات کا بیان کہ عورت اکیلی بھی ہو تو صف شمار ہوتی ہے۔

اگر مرد بھی اکیلا صف شمار ہو سکتا ہے تو اس تبویب کا کیا مطلب ہوا؟ نیز مرد و عورت دونوں پر نماز باجماعت کے لیے امام کے پیچھے صف بنانا ضروری ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: «سؤوا صفوفكم، فإن تسوية الصفوف من إقامة الصلاة» صفوں کو درست کرو کیونکہ صفوں کی درستی نماز کے قیام کا حصہ ہے۔ [صحيح البخاري:723، صحيح مسلم: 433]

اب اکیلی عورت کا صف ہونا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح فرمان کی وجہ سے جائز ہو گیا جبکہ اکیلے مرد کی صف نہ ہونے پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین واضح ہیں۔ لہٰذا اکیلے مرد کی صف کے جواز پر کوئی دلیل نہیں۔ یوں اس حدیث سے مرد کے لیے اجازت ثابت نہیں ہوتی۔

◈ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں:
«أن تقوم خلف الصف وحدها، جاز صلاة المصلي خلف الصف وحده، وهذا الاحتجاج عندي غلط، لأن سنة المرأة أن تقوم خلف الصف وحدها إذا لم تكن معها امرأة أخرى، وغير جائز لها أن تقوم بحذاء الإمام ولا فى الصف مع الرجال، والمأموم من الرجال إن كان واحدا، فسنته أن يقوم عن يمين إمامه، وإن كانوا جماعة قاموا فى صف خلف الإمام حتى يكمل الصفك الأول، ولم يجز للرجل أن يقوم خلف الإمام والمأموم واحد، ولا خلاف بين أهل العلم أن هذا الفعل لو فعله فاعل، فقام خلف إمام، ومأموم قد قام عن يمينه، خلاف سنة النبى صلى الله عليه وسلم.»
سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا والی روایت کو اپنی دلیل بنانے والوں کو کہنا ہے کہ جب عورت کے لیے صف کے پیچھے اکیلے کھڑے ہونا جائز ہے تو مرد کے لیے بھی ایسا جائز ہے۔ لیکن یہ بات میرے نزدیک غلط ہے کیونکہ عورت کے لیے طریقہ کار یہ ہے کہ جب وہ اکیلی ہو تو صف کے پیچھے کھڑی ہو، اس کا امام کے برابر کھڑا ہونا ممنوع ہے، اسی طرح وہ مردوں کی صف میں بھی کھڑی نہیں ہو سکتی، جبکہ مرد مقتدی جب اکیلا ہو تو وہ امام کے دائیں جانب کھڑا ہو گا اور اگر مقتدی ایک سے زیادہ ہوں تو امام کے پیچھے صف میں کھڑے ہوں گے، حتی کہ پہلی صف مکمل ہو جائے۔ اکیلا مقتدی ہو تو اس کے لیے امام کے پیچھے کھڑا ہونا جائز نہیں۔ اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ اگر امام کے دائیں جانب مقتدی کھڑا ہو تو بعد میں آنے والے کا پچھلی صف میں اکیلے کھڑا ہونا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے۔ [صحیح ابن خزیمة:3 / 30]

◈ امام ابن حزم رحمہ اللہ (384-456 ھ) اس بارے میں فرماتے ہیں:
«وهذا لا حجة لهم فيه، لأن هذا حكم النساء خلف الرجال، وإلا فعليهن من إقامة الصفوف إذا كثرن ما على الرجال لعموم الأمر بذلك، ولا يجوز أن يترك حديث مصلى المرأة المذكورة لحديث وابصة، ولا حديث وابصة لحديث مصلي المرأة.»
اس حدیث میں ان لوگوں کے لیے کوئی دلیل نہیں کیونکہ اس میں تو مردوں کے پیچھے (اکیلی) عورتوں کا خاص حکم بیان ہوا ہے، ورنہ جب وہ زیادہ ہوں تو عام حکم کی بنا پر ان کے لیے بھی صفوں کا قیام فرض ہو گا۔ یہ کسی طرح بھی جائز نہیں کہ عورت کی نماز کے بارے میں مذکورہ حدیث کی وجہ سے سیدنا وابصہ کی حدیث کو چھوڑ دیا جائے یا حدیث وابصہ کی بنا پر عورت کی نماز والی حدیث کو چھوڑ دیا جائے۔ [المحلي لابن حزم: 57/4]
معلوم ہوا کہ اس حدیث سے صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 40، حدیث/صفحہ نمبر: 40   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 612  
´جب تین آدمی نماز پڑھ رہے ہوں تو کس طرح کھڑے ہوں؟`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان کی دادی ملیکہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے پر بلایا، جو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تیار کیا تھا، تو آپ نے اس میں سے کھایا پھر فرمایا: تم لوگ کھڑے ہو جاؤ تاکہ میں تمہیں نماز پڑھاؤں۔‏‏‏‏ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو میں اپنی ایک چٹائی کی طرف بڑھا، جو عرصے سے پڑے پڑے کالی ہو گئی تھی تو اس پر میں نے پانی چھڑکا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر کھڑے ہوئے، میں نے اور ایک یتیم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف باندھی اور بوڑھی عورت (ملیکہ) ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں تو آپ نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر واپس ہوئے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 612]
612۔ اردو حاشیہ:
تین مرد ہوں تو امام آگے اور باقی دو اس کے پیچھے صف بنایئں اور عورت کی علیحدہ صف ہو گی خواہ اکیلی ہی ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 612   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 738  
´چٹائی پر نماز پڑھنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ ان کے پاس تشریف لا کر ان کے گھر میں نماز پڑھ دیں تاکہ وہ اسی کو اپنی نماز گاہ بنا لیں ۱؎، چنانچہ آپ ان کے ہاں تشریف لائے، تو انہوں نے چٹائی لی اور اس پر پانی چھڑکا، پھر آپ نے اس پر نماز پڑھی، اور آپ کے ساتھ گھر والوں نے بھی نماز پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 738]
738 ۔ اردو حاشیہ:
➊ تبرک کی بحث پیچھے گزر چکی ہے۔ (دیکھیے، حدیث: 702)
حصیر کھجور کی چٹائی کو کہتے ہیں۔ اس پر پانی ڈالنا صفائی یا نرم کرنے کے لیے تھا۔
➌ باب کا مقصد یہ ہے کہ زمین پر نماز پڑھنا ضروری نہیں اور نہ ماتھے کو مٹی کا لگنا ہی شرط ہے جیسا کہ بعض صوفیوں کا خیال ہے بلکہ کسی بھی مطمئن اور پاک چیز پر نماز پڑھی جا سکتی ہے، وہ کپڑا ہو یا لکڑی، پتے ہوں یا چمڑا جیسا کہ آئنندہ روایات سے بھی ثابت ہوتا ہے۔
➍ سورۂ بنی اسرائیل، آیت: 8 میں جواللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ حَصِيرًا»
اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے قید خانہ بنایا ہے۔ اس میں حصیر سے مراد قید خانہ ہے نہ کہ وہ چٹائی جو نماز کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ گویا اس حدیث سے ان لوگوں کی تردید بھی ہوتی ہے جو چٹائی وغیرہ کو نماز کے لیے مکروہ سمجھتے ہیں۔ مزید برپں یہ کہ ممکن ہے امام صاحب اس قسم کی روایات سے جن میں چٹائی پر نماز پڑھنے کی مشروعیت ہے، اس روایت کے ضعف یا شذوذ کی طرف اشارہ کر رہے ہوں جس میں اس کے استعمال کی نفی ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [ذخیرۃ العقبیٰ، شرح سنن النسائي: 272/9]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 738   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 802  
´جب تین مرد اور ایک عورت ہو تو کیسے صف بندی کی جائے؟`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی دادی ملیکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے پر مدعو کیا جسے انہوں نے آپ کے لیے تیار کیا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کچھ کھایا، پھر فرمایا: اٹھو تاکہ میں تمہیں نماز پڑھاؤں، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو میں اٹھ کر اپنی ایک چٹائی کی طرف بڑھا جو کافی دنوں سے پڑی رہنے کی وجہ سے کالی ہو گئی تھی، میں نے اس پر پانی چھڑکا، اور اسے آپ کے پاس لا کر بچھایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اور میں نے اور ایک یتیم نے آپ کے پیچھے صف باندھی، اور بڑھیا ہمارے پیچھے تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی پھر واپس تشریف لے گئے۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 802]
802 ۔ اردو حاشیہ: چونکہ عورت مردوں کے برابر کھڑی ہو کر باجماعت نماز نہیں پڑھ سکتی خواہ وہ اس کے محرم ہی ہوں اس لیے دادی محترمہ حضرت ملیکہ رضی اللہ عنہا الگ کھڑی ہوئیں۔ عورت کے لیے اکیلے کھڑے ہونے کی ممانعت منقول نہیں ہے لہٰذا کوئی حرج نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 802   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 870  
´صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر آئے تو میں نے اور ایک یتیم نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی، اور ام سلیم رضی اللہ عنہا نے ہمارے پیچھے تنہا نماز پڑھی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 870]
870 ۔ اردو حاشیہ: اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر عورت ایک ہو تو وہ مردوں کے ساتھ کھڑی نہیں ہو گی بلکہ اکیلی کھڑی ہو کر جماعت کے ساتھ نماز پڑھے گی، لیکن اگر مرد صف کے پیچھے اکیلا ہو تو اس کے لیے نہی موجود ہے، الایہ کہ کوئی عذر ہوکیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھتے دیکھا تو اسے نماز لوٹانے کا حکم دیا اور فرمایا: صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز نہیں ہوتی۔ یہ روایت کتب حدیث میں موجود ہے اور حسن درجے کی ہے۔ دیکھیے: [سنن أبي داؤد، الصلاة، حدیث: 682، ومسند أحمد: 4؍23]
اس لیے امام احمد، اسحاق اور دیگر محدثین رحم اللہ علیہم نے صف کے پیچھے اکیلے کی نماز کو ناجائز اور قابل اعادہ قرار دیا ہے، بشرطیکہ وہ اگلی صف میں جگہ ہونے کے باوجود اکیلا کھڑا ہوا ہو جب کہ دیگر حضرات اسے جائز سمجھتے ہیں مگر یہ قول بلا دلیل ہے۔ صف کے پیچھے اکیلا آدمی کیا کرے؟ اس سوال کا جواب بالکل واضح ہے کہ اگر صف میں کھڑے ہونے کی جگہ نہیں ہے اور دوسرا نمازی بھی ساتھ کھڑا ہونے والا نہیں ہے تو پھر اکیلا شخص ہی صف کے پیچھے کھڑا ہو جائے۔ اس کی نماز ان شاء اللہ درست ہو گی۔ اگلی صف سے نمازی کھینچ کر اپنے ساتھ ملانے والی روایت ضعیف ہے، اس لیے اگلی صف سے آدمی نہیں کھینچنا چاہیے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے۔ واللہ أعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [مجموع الفتاویٰ: 23؍396]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 870   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1228  
1228- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں اور یتیم لڑکا ہمارے گھر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوئے جبکہ میری والدہ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1228]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ گھر میں نفل نماز کی جماعت کروانا درست ہے، اور بچہ امام کے پیچھے پہلی صف میں کھڑا ہوسکتا ہے، جب پہلی صف نامکمل ہو، اور عورت صف میں اکیلی بھی کھڑی ہوسکتی ہے، یہ بات یاد رہے کہ اگر بچہ شوق سے جلدی مسجد میں آ جاتا ہے اور پہلی صف میں امام کے پیچھے کے علاوہ کسی اور جگہ پر کھڑا ہو جائے تو اس کو پہلی صف سے اٹھا کر پچھلی صفوں میں کر دینا درست نہیں ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1226   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1499  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
مِنْ طُوْلِ مَالُبِسَ:
کثرت استعمال کی بنا پر یہاں لباس استعمال کے معنی میں ہے،
یعنی کافی دیر سے وہ چٹائی بچھی ہوئی تھی،
اس لیے گردوغبار پڑنے سے سیاہ ہو چکی تھی۔
فوائد ومسائل:
(1)
کسی صاحب علم و فضل کے لیے کھانا تیار کرنا اور اس کے لیے اس کو اپنے گھر بلانا درست ہے۔
(2)
کسی مقصد کے لیے نماز کے اوقات کے سوا بغیر گھروالوں کے مطالبہ کے ان کے گھر میں نفل نماز باجماعت ادا کرنا درست ہے اور گھر میں بچوں اور عورتوں کو نماز کا طریقہ سکھانے کے لیے باجماعت کرانا صحیح ہے۔
(3)
اگر امام کے ساتھ دو مقتدی ہوں تو وہ پیچھے کھڑے ہوں گے اور عورت بچوں کی صف میں بھی کھڑی نہیں ہو سکتی۔
(4)
زمین پر کوئی پاک چیز بچھا کر اس پر نماز پڑھی جا سکتی ہے مٹی پر نماز پڑھنا لازم نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1499   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 727  
727. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے اور ہمارے گھر میں رہنے والے ایک یتیم لڑکے نے نبی ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی۔ میری والدہ ام سلیم ہم سب کے پیچھے تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:727]
حدیث حاشیہ:
یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے کیوں کہ ام سلیم اکیلی تھیں مگر لڑکوں کے پیچھے اکیلی صف میں کھڑی ہوئیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 727   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 860  
860. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ان کی دادی حضرت ملیکہ‬ ؓ ن‬ے ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کو کھانے کے لیے بلایا جو انہوں نے آپ کے لیے تیار کیا تھا، جب آپ کھانے سے فارغ ہو گئے تو فرمایا: اٹھو میں تمہیں نماز پڑھاؤں۔ چنانچہ میں ایک چٹائی لینے کے لیے اٹھا جو دیر تک پڑے رہنے کی وجہ سے سیاہ ہو چکی تھی۔ میں نے اس پر پانی چھڑکا تو رسول اللہ ﷺ اس پر نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ یتیم بچہ میرے ساتھ اور بڑھیا ہمارے پیچھے تھی۔ آپ نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:860]
حدیث حاشیہ:
یہاں حضرت امام بخاری ؒ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یتیم کے لفظ سے بچپن سمجھ میں آتا ہے کیوں کہ بالغ کو یتیم نہیں کہتے گویا ایک بچہ جماعت میں شریک ہوا اور نبی کریم ﷺ نے اس پر نا پسندیدگی کا اظہار نہیں فرمایا۔
اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ دن کو نفل نماز ایسے مواقع پر جماعت سے بھی پڑھی جا سکتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مکان پر نفل وغیرہ نمازوں کے لیے کوئی جگہ مخصوص کر لینا بھی درست ہے۔
صحیح یہی ہے کہ حضرت ام ملیکہ اسحاق کی دادی ہیں:
جزم به جماعة وصححه النووي۔
بعض لوگوں نے ان کو انس کی دادی قرار دیاہے، ابن حجر کا یہی قول ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 860   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 380  
380. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ان کی دادی حضرت مُلیکہ‬ ؓ ن‬ے رسول اللہ ﷺ کو کھانے کے لیے دعوت دی جو انھوں نے آپ کے لیے تیار کیا تھا۔ آپ نے اس سے کچھ تناول فرمایا، پھر فرمانے لگے: کھڑے ہو جاؤ میں تمہیں نماز پڑھاؤں۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے ایک چٹائی کو اٹھایا جو کثرت استعمال کی وجہ سے سیاہ ہو گئی تھی، اسے پانی سے دھویا۔ پھر رسول اللہ ﷺ اس پر کھڑے ہو گئے۔ میں نے اور ایک چھوٹے بچے نے آپ کے پیچھے صف بنائی اور بڑھیا ہمارے پیچھے کھڑی ہو گئی۔ اس طرح رسول اللہ ﷺ نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی۔ فراغت کے بعد آپ واپس تشریف لے گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:380]
حدیث حاشیہ:
بعض لوگوں نے ملیکہ کو حضرت انس ؓ کی دادی بتلایا ہے۔
ملیکہ بنت مالک بن عدی ؓ انس کی ماں کی والدہ ہیں۔
انس کی ماں کا نام ام سلیم اور ان کی ماں کا نام ملیکہ ہے۔
أوالضمیر في جدته یعود علی أنس نفسه وبه جزم ابن سعد (قسطلاني)
یہاں بھی حضرت امام ؒ ان لوگوں کی تردید کررہے ہیں جو سجدہ کے لیے صرف مٹی ہی کو بطور شرط خیال کرتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 380   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:380  
380. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ان کی دادی حضرت مُلیکہ‬ ؓ ن‬ے رسول اللہ ﷺ کو کھانے کے لیے دعوت دی جو انھوں نے آپ کے لیے تیار کیا تھا۔ آپ نے اس سے کچھ تناول فرمایا، پھر فرمانے لگے: کھڑے ہو جاؤ میں تمہیں نماز پڑھاؤں۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے ایک چٹائی کو اٹھایا جو کثرت استعمال کی وجہ سے سیاہ ہو گئی تھی، اسے پانی سے دھویا۔ پھر رسول اللہ ﷺ اس پر کھڑے ہو گئے۔ میں نے اور ایک چھوٹے بچے نے آپ کے پیچھے صف بنائی اور بڑھیا ہمارے پیچھے کھڑی ہو گئی۔ اس طرح رسول اللہ ﷺ نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی۔ فراغت کے بعد آپ واپس تشریف لے گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:380]
حدیث حاشیہ:

ابن بطال کی رائے کے مطابق اگر مصلی بقدر قامت انسان ہو تو اسے حصیر کہتے ہیں اس سے کم ہو تو اسے خمرہ کہا جاتا ہے۔
مزید لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ وہ ان تمام افعال پر عنوانات قائم کرتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہوں اس مقام پرالصلاة علی الحصیراس کے بعد الصلاة علی الخمرة اور الصلاة علی الفراش اسی نوعیت کے ہیں۔
اس بات پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ چھوٹی یا بڑی چٹائی پر نماز ادا کرنا جائز ہے۔
البتہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے متعلق بعض روایات ملتی ہیں کہ ان کے لیے مٹی لائی جاتی۔
اسے چٹائی پر رکھا جاتا، پھر آپ اس پر سجدہ کرتے، حضرت ابراہیم نخعی ؒ کےمتعلق بھی مروی ہے کہ وہ بھی زمین پر سجدہ کرنے کو پسند کرتے تھے۔
اگر یہ روایات صحیح ہیں تو یہ ان حضرات کے انتہائی عجز و انکسار اور تواضع پر محمول کی جائی گی۔
یہ مطلب نہیں کہ وہ چٹائی پر نماز ادا کرنے کو درست خیال نہیں کرتے تھے، کیونکہ جب رسول اللہ ﷺ سے چٹائی پر نماز پڑھنا ثابت ہے تو اس کے جواز میں کیا شبہ ہو سکتا ہے جب کہ آپ سے زیادہ تواضع اور خشوع بھی کسی میں نہیں ہو سکتا، بلکہ سعید بن مسیب ؒ نے تو چٹائی پر نماز ادا کرنے کو سنت قراردیا ہے۔
(شرح ابن بطال: 43/2)

شریح بن ہانی ؒ نے حضرت عائشہ ؓ سے سوال کیا کہ آیا رسول اللہ ﷺ چٹائی پر نماز پڑھا کرتے تھے جبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے چٹائی بنایا ہے؟اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ چٹائی پر نماز نہیں پڑھتے تھے امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں اس حدیث کے ضعف کی طرف اشارہ فرمایا ہے اگر مذکورہ روایت صحیح ہے تو شاذ ہونے کی وجہ سے قابل حجت نہیں کیونکہ اس سے زیادہ قوی روایات اس کے معارض ہیں جیسا کہ حضرت انس ؓ کی روایت جسے امام بخاری ؒ نے بیان فرمایا ہے بلکہ خود حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے جیسا کہ آئے گا کہ نبی ﷺ کی ایک چٹائی تھی جسے آپ بچھا کر بیٹھتے تھے اور بوقت ضرورت اس پر نماز ادا کرتے۔
(فتح الباري: 636/1)
3اس کے علاوہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چٹائی پر نماز ادا کرتے دیکھاہے۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 159 (519)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 380   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:727  
727. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے اور ہمارے گھر میں رہنے والے ایک یتیم لڑکے نے نبی ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی۔ میری والدہ ام سلیم ہم سب کے پیچھے تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:727]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے جو عنوان قائم کیا ہے وہ دراصل ایک مرفوع حدیث کے الفاظ ہیں۔
جیسے امام ابن عبدالبرؒ نے روایت کیا ہے اکیلی عورت، مستقل صف کا حکم رکھتی ہے۔
بعض فقہاء کا خیال ہے کہ اگر نماز کے لیے صرف امام اور ایک عورت ہو تو عورت کو امام کی دائیں جانب کھڑا ہونا چاہیے۔
امام بخاری ؒ نے اس موقف کی تردید کی ہے کہ ایسے حالات میں عورت کو اکیلے کھڑا ہونا چاہیے، کیونکہ پیش کردہ حدیث میں حضرت ام سلیم ؓ اکیلی کھڑی ہوئی تھیں۔
اسی طرح اگر مقتدی دو ہوں تو انھیں امام کے پیچھے صف بنانا ہو گی، جبکہ بعض اہل کوفہ کا موقف ہے کہ ایک امام کی دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب ہو گا۔
ان کی دلیل حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا عمل ہے کہ انھوں نے ایک دفعہ جماعت کراتے وقت حضرت علقمہ کو دائیں جانب اور حضرت اسود کو اپنی بائیں جانب کھڑا کیا تھا۔
اس کا جواب امام ابن سیرین نے دیا ہےکہ انھوں نے ایسا جگہ کی تنگی کی وجہ سے کیا تھا۔
عام حالات میں ایسا کرنا صحیح نہیں، جیسا کہ حدیث بالا میں وضاحت ہے۔
(فتح الباري: 275/2) (2)
عورت چونکہ مرد کے لیے باعث فتنہ ہے، اس لیے اسے نماز باجماعت کے وقت مردوں کے ساتھ، یعنی ان کے برابر کھڑا ہونے کی اجازت نہیں۔
اگر وہ مخالفت کرتے ہوئے ان کے برابر کھڑی ہوجائے تو اسے گناہ تو ضرور ہوگا، لیکن اس کی نماز ہوجائے گی۔
احناف کے نزدیک اگر نماز میں عورت، مرد کے برابر آگئی تو مرد کی نماز باطل ہوجائے گی، البتہ عورت کی نماز درست ہے۔
ان کی دلیل حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا قول ہے:
جب انھیں اللہ تعالیٰ نے مؤخر رکھا ہے تو تم بھی انھیں ہر معاملہ میں مؤخر رکھو۔
احناف کی یہ ایک ایسی دلیل ہے جس کا بودا پن واضح ہے۔
ایک طرف مرد کی نماز کو باطل اور عورت کی نماز کو درست کہتے ہیں، حالانکہ برابر آنے کا فعل عورت کا ہے اور حکم کی مخالفت کرنے والی بھی عورت ہے جبکہ اس سےملتے جلتے مسئلے میں ابطال صلاۃ کا حکم نہیں لگاتے، مثلاً:
کیونکہ حدیث میں غصب کردہ کپڑوں میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے، اگر کوئی اس کے خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسے کپڑوں میں نماز پڑھ لے تو گناہ گار ہونے کے باوجود احناف کے نزدیک بھی اس کی نماز ہوجائے گی۔
(فتح الباري: 275/2) (3)
بعض شارحین کا خیال ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے ذریعے سے ایک حدیث کے عموم کو خاص کیا ہے جس کے الفاظ ہیں:
صف کے پیچھے اکیلے کی نماز نہیں ہوتی۔
اس حدیث کے عموم سے ایک استثنائی صورت کو الگ کیا گیا ہے کہ یہ حدیث صرف مردوں کے لیے ہے عورتوں کے لیے نہیں۔
اکیلی عورت مردوں کے پیچھے نماز پڑھ سکتی ہے۔
(فتح الباري: 276/2)
والله أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 727