نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
نوافل و سنن کا بیان

3. تحیتہ المسجد کا بیان

حدیث نمبر: 148
399- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا دخل أحدكم المسجد فليركع ركعتين قبل أن يجلس.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھے۔
تخریج الحدیث: «399- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 162/1 ح 387، ك 9 ب 18 ح 57) التمهيد 99/20، 100، الاستذكار: 357، و أخرجه البخاري (444) و مسلم (714) من حديث مالك به.»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 148 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 148  
´تحیتہ المسجد کا بیان`
«. . . 399- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا دخل أحدكم المسجد فليركع ركعتين قبل أن يجلس. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 148]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 444، ومسلم 714، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ مسجد میں داخل ہونے کے بعد بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھنا مستحب ہے۔
➋ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں داخل ہو کر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گئے۔ اس حدیث سے امام نسائی رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ دو رکعتیں پڑھے بغیر بیٹھنا جائز ہے۔ دیکھئے [سنن النسائي ج2 ص53-55 ح732 وسنده صحيح، وهو متفق عليه]
➌ عمر بن عبید اللہ بن معمر التمیمی دو رکعتیں پڑھے بغیر مسجد میں بیٹھ جاتے تھے تو اس پر ابوسلمہ بن عبد الرحمن بن عوف رحمہ اللہ اعتراض کرتے تھے۔ اس روایت کے آخر میں امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: «و ذالك حسن و ليس بواجب» اور یہ (دو رکعتیں پڑھنا) مستحب ہے اور واجب نہیں ہے۔ [المؤطا 162/1 ح 388 و سنده صحيح]
◄ ابوحفص عمر بن عبیداللہ بن معمر رحمہ اللہ کو حافظ ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے۔ حافظ ابن عساکر نے کہا: «أحد وجوه قريش وكرمائها، كان جوادًا ممدحًا وولي فتوحًا كثيرة وولي البصرة لعبدالله بن الزبير» [تاريخ دمشق 48/190]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 399   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ
الشیخ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ
مولانا عطا اللہ ساجد حفظ اللہ
محمد ابراہیم بن بشیر حفظ اللہ
شیخ الحدیث مولانا عبد العزیز علوی حفظ اللہ
الشیخ عبدالستار الحماد حفظ اللہ
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 731  
´مسجد میں بیٹھنے سے پہلے نماز پڑھنے کے حکم کا بیان۔`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہیئے کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت پڑھ لے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 731]
731 ۔ اردو حاشیہ:
➊ ان دو رکعتوں کی مشروعیت واضح ہے۔ اس نماز کو تحیۃ المسجد کہتے ہیں۔ چونکہ مسجد نماز کے لیے بنائی گئی ہے، لہٰذا مسجد میں آنے والا شخص سب سے پہلے نماز پڑھے۔ اوقات مکروہہ میں داخل ہو تو امام شافعی رحمہ اللہ پھر بھی دو رکعت پڑھنا جائز سمجھتے ہیں۔ وہ صلاۃ سبی (جس نماز کا کوئی خاص سبب ہو) کو اوقات مکروہہ میں جائز سمجھتے ہیں۔ مطلق نفل منع ہیں، محدثین کی اکثریت یہی رائے رکھتی ہے جب کہ علمائے احناف مطلق نہی کے پیش نظر ہر قسم کی نفل نماز کو ان اوقات میں منع سمجھتے ہیں۔ ظاہر الفاظ ان کی تائید کرتے ہیں مگر امام شافعی رحمہ اللہ کے قول پر عمل کرنے سے تمام احادیث قابل عمل ٹھہرتی ہیں اور مختلف روایات میں واقع تعارض اور اختلاف بھی ختم ہو جاتا ہے۔ واللہ أعلم۔
بیٹھنے سے پہلے اس کا مطلب یہ نہیں کہ بیٹھنے کے بعد نہ پڑھے بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ داخل ہوتے ہی پڑھے۔ چونکہ مقصد یہ ہے کہ مسجد میں آکر نماز پڑھے، لہٰذا کوئی ضروری نہیں کہ مخصوص نفل ہی پڑھے بلکہ فرض، سنت، نفل جو بھی پڑھ لے کر کفایت ہو جائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جماعت کے وقت مسجد میں تشریف لاتے تھے۔ کہیں منقول نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے الگ تحیۃ المسسجد پڑھے ہوں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 731   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 209  
´مساجد کا بیان`
سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی جب (بھی) مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت (نفل) ادا کر لے۔ (بخاری ومسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 209]
209 فوائد و مسائل:
➊ حدیث میں جن نوافل کے پڑھنے کا حکم ہے انھیں «تحية المسجد» کہتے ہیں۔
➋ بعض علماء کے نزدیک یہ واجب ہیں جبکہ جمہور علماء انہیں مستحب کہتے ہیں۔
➌ حدیث کے ظاہر الفاظ کو سامنے رکھتے ہوئے بعض علماء نے ان نوافل کو مکروہ اوقات میں پڑھنے کی بھی اجازت دی ہے لیکن بعض علماء اوقات ممنوعہ میں ممنوع کہتے ہیں۔
➍ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خطیب منبر پر خطبہ دے رہا ہو تب بھی مسجد میں داخل ہونے والا دو رکعت پڑھ کر بیٹھے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 209   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1013  
´مسجد میں داخل ہونے والا دو رکعت پڑھے بغیر نہ بیٹھے۔`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت پڑھ لے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1013]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس نماز کو تحیۃ المسجد کہا جاتا ہے۔

(2)
مسجد میں داخل ہوکر بیٹھنے سے پہلے اگر کوئی اور نماز مثلاً سنت یا فرض پڑھ لیں۔
تو تحیۃ المسجد بھی ادا ہوجاتی ہے۔
الگ سےپڑھنے کی ضرورت نہیں۔

(3)
بعض علماء مکروہ اوقات میں بھی تحیۃ المسجد پڑھنے کے قائل ہیں۔
ان کی دلیل حدیث کا عموم ہے۔
کہ جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو دو رکعت پڑھے۔
اس عموم میں کراہت کے اوقات بھی داخل ہیں۔
نبی کریم ﷺنے کسی وقت کا استثناء نہیں کیا۔
جب کہ دوسرے علماء اس عموم میں کراہت کے اوقات کوداخل نہیں کرتے۔
اس لئے ان کے نزدیک اوقات کراہت میں دیگر نفلی نمازوں کے علاوہ تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں پڑھنا بھی جائز نہیں۔
ایک تیسری رائے یہ ہےکہ پڑھنے کا جواز ہے لیکن بچنا بہتر ہے واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1013   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:425  
425- سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہو، تو وہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت (ٹحیۃ المسجد) ادا کرلے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:425]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مسجد کے آداب میں سے ہے کہ جب کوئی شخص مسجد میں جائے تو دورکعت نماز پڑھے بغیر نہ بیٹھے، اور یہ حکم وجوبی نہیں ہے، بلکہ استحباب پر محمول ہے، اس کی دلیل سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جو صحيح البخاری (2 / 636) میں ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تحیۃ المسجد ضروری نہیں ہے، اگر یہ ضروری ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کو تحیۃ المسجد پڑھنے کا ضرور حکم دیتے۔
نیل الاوطار (3 / 68) میں ہے کہ تحیۃ المسجد ادا کرنا سنت ہے، واجب نہیں ہے، جیسا کہ بعض کا خیال ہے، اس کے سنت ہونے پر امام نووی رحمہ اللہ نے اجماع نقل کیا ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے حدیث قتادہ پر تحیۃ المسجد کے نفلی نماز ہونے کا باب قائم کیا ہے۔ (صحیح مسلم: 1 / 248)
ابن بطال نے بھی کہا: ہے کہ ائمۃ الفتوی نے اس باب پراتفاق کیا ہے کہ صیغہ امر «فليركع ركعتين» استحباب پر محمول ہے۔ [فتـــح البــــــاري: 1/ 537]
نیز امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے واقعے سے استدلال کیا ہے کہ تحیۃ المسجد مستحب ہے، اس حدیث میں بھی ہے کہ میں مسجد میں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آؤ، تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا۔ [سـنـن الـنـسـائـي بـاب الـرخصة فى الجلوس فيه والخروج منه بغير صلاة: 54 حديث: 732]
تحیۃ المسجد کی تعریف: یہ دو رکعات نماز ہے، جس کو نمازی مسجد میں داخل ہوتے وقت ادا کرتا ہے، اور یہ نماز مسجد میں داخل ہونے والے ہر شخص کے حق میں بالاجماع سنت ہے۔ [فتح البــاري: 407/2]
تحیۃ المسجد کے متعلق چند اہم مسائل درج ذیل ہیں:
① مسجد حرام کا تحیۃ المسجد اہل علم کے نزدیک طواف ہے، امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «تحية الـمـسـجـد الـحـرام الطواف فى حق القادم أما المقيم فحكم المسجد الحرام وغيره فى ذلك سواء» باہر سے آنے والے کے لیے مسجد حرام کا تحیہ طواف ہے، جبکہ مقیم کے لیے مسجد حرام اور باقی مسجد سب کا ایک ہی حکم ہے۔ [فتح الباري: 2/ 412]
② نمازوں سے پہلے کی سنتیں اور نوافل تحیۃ المسجد سے کفایت کر جائیں گی، اس مسئلے کی توضیح کرتے ہوئے محدث زماں حافظ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں تحیۃ الوضو اور تحیۃ المسجد دونوں نماز میں مستقل نہیں ہیں۔ دوسری کسی فرض یا غیر فرض نماز کے ضمن میں بھی ادا ہو جاتی ہیں، بسا اوقات آدمی رکعات صرف دو پڑھتا ہے مگر وہ چار نمازوں کا کام دے جاتی ہے، مثلاً ایک شخص مسجد میں پہنچا، فجر کی اذان ہو رہی تھی، اس نے وضو کیا، پھر فجر کی دوسنتیں ادا کیں، پھر اس کے بعد دعا استخارہ پڑھی تو اس شخص نے دو رکعت سنت فجر ادا کی، مگر اس کے ضمن میں تین نمازیں اور ادا ہوں گئیں، ایک تحیۃ الوضو، دوسری تحیۃ المسجد، اور تیسری صلاۃ استخارہ، تو اس طرح یہ دو رکعات چار نمازوں کا کام دے رہی ہیں۔ [احكام ومسائل:164/2]
اسی طرح اگر کوئی فرض نماز کا وقت ہو جانے کی وجہ سے فرض نماز کے ساتھ تحیۃ المسجد سے کفایت کرنا چا ہے، تو اس کو یہی کافی ہو جائے گی۔
③ اس حدیث میں عموم ہے، اس میں امام اور مقتدی سب شامل ہیں، جب بھی امام یا مقتدی مسجد میں بیٹھنے کا ارادہ کرے تو پہلے تحیۃ المسجد ادا کرے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 425   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1655  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
مسجد کو اللہ تعالیٰ سے خصوصی نسبت ہے جس کی بنا پر اسے بیت اللہ (اللہ کا گھر)
کا نام دیا جاتا ہے اس لیے اس کے حقوق اور اس میں داخلے کے آداب اور اس کی تعظیم و تکریم کا یہ بھی تقاضا ہے کہ انسان اس میں بیٹھنے سے پہلے دو رکعت ادا کرے یہ گویا بارگاہ الٰہی کی سلامی ہے اس لیے اس کو تَحِیَّةُ الْمَسْجِدِ کا نام دیا جاتا ہے جمہور آئمہ کے نزدیک چونکہ یہ عمل مسجد کے ادب و تعظیم کے تقاضا سے ہے اس لیے استحبابی عمل ہے لیکن ظاہریہ کے نزدیک یہ فرض ہے واضح رہے کہ مسجد میں داخل ہونے کے بعد فرض سنت یا نفل نماز پڑھ لینے سے تَحِیَّةُ الْمَسْجِد کا حق ادا ہو جاتا ہے کیونکہ اس سے مقصود مسجد کی تعظیم و تکریم ہے جو حاصل ہو گئی ہے۔
(2)
اوقات نھی میں سببی نماز پڑھنے کے بارے میں اختلاف ہے،
امام ابو حنیفہ،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
اور ایک قول کی رو سے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اوقات نھی میں کسی نماز کو سببی ہو یا غیر سببی جائز نہیں سمجھتے۔
لیکن امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ایک قول کی رو سے جسے حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اختیار کیا ہے،
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سببی نماز کو اوقات نھی میں جائز قرار دیتے ہیں کیونکہ:
(إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ)
عام ہے اور نھی کا تعلق مطلق نماز سے ہے یعنی جس کا سبب نہ ہو اس لیے صبح اور عصر کی نماز امام کے ساتھ دوبارہ پڑھنا جائز ہے عصر کے بعد نماز جنازہ پڑھنا اور طواف کی رکعات پڑھنا جائز ہے،
جس سے ثابت ہوتا ہے اوقات نھی میں سببی نماز پڑھنا صحیح ہے لیکن بلا ضرورت سبب پیدا نہیں کرنا چاہیے۔
(3)
مسجد میں داخلہ کے آداب و حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ انسان با وضو ہو کر داخل ہوتا کہ بیٹھنے سے پہلے تَحِیَّةُ الْمَسْجِد پڑھ سکے۔
تَحِیَّةُ الْمَسْجِد بیٹھنے سے پہلے اگر بھول کر بیٹھ جائے تو کھڑا ہو کر پڑھ لے۔
(4)
جب سورج طلوع ہو رہا ہو یا زوال ہو رہا ہو یا سورج غروب ہو رہا ہو تو پھر طلوع اور غروب اور استوا کا انتظار کرنا چاہیے کیونکہ ان اوقات کے بارے میں خصوصی طور پر نہی وارد ہے۔
(5)
مسجد حرام کا تَحِیَّةُ الطَّوَاف ہے اگر کسی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو تو پھر کم ازکم دو رکعتیں ہی پڑھ لے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1655   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:444  
444. حضرت ابوقتادہ سلمی ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے قبل دو رکعت ضرور پرھے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:444]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کا پس منظر اس طرح ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد میں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:
"تجھے بیٹھنے سے قبل دورکعت پڑھنے میں کیا رکاوٹ تھی؟"عرض کیا:
میں نے آپ کو اور دیگرلوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا،اس بناپر میں بھی بیٹھ گیا۔
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دورکعت ضرور پڑھے۔
(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین حدیث 1654(714)
مصنف ابن ابی شیبہ(245/2)
میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
"مساجد کو ان کا حق دو۔
"عرض کیا گیا:
ان کاحق کیا ہے؟ آپ نےفرمایا:
"بیٹھنے سے پہلے دورکعت ادا کرنا۔
"(فتح الباری 696/1۔
)


حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ائمہ فتویٰ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مذکورہ روایت میں امر نبوی استحباب پر محمول ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ مسجد میں لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے جارہا تھا تو آ پ نے اس سے فرمایا:
"بیٹھ جا،تو نےدوسروں کو اذیت پہنچائی ہے۔
"آپ نے اسے تحیۃ المسجد پڑھنے کا حکم نہیں دیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ امرنبوی وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر کوئی دورکعت پڑھنے سے قبل بیٹھ جائے تو اس کی تلافی ضروری نہیں کیونکہ ان کا وقت فوت ہوگیا ہے۔
لیکن صحیح موقف یہ ہے کہ بیٹھنے سے تحیۃ المسجد فوت نہیں ہوجاتا کیونکہ ایک دفعہ حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد میں داخل ہوئے تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تم نے دورکعت نماز پڑھ لی ہے؟"عرض کیا:
نہیں۔
آپ نے فرمایا:
"کھڑے ہوجاؤ اور دورکعت نماز پڑھو۔
"اس حدیث پر امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:
"تحیۃ المسجد،ادائیگی سے قبل بیٹھ جانے سے فوت نہیں ہوتا۔
"محب طبری نے کہا کہ بیٹھنے سے پہلے ادا کرنا وقت ِ فضیلت ہے اور بیٹھنے کے بعد اداکرنا وقت جواز۔
بعض نے یہ کہا ہے کہ بیٹھنے سے پہلے ادا کا وقت ہے اور اس کے بعد وقت قضا۔
(فتح الباری 696/1۔
)

واللہ اعلم۔

اوقات ممنوع میں سببی نماز ادا کی جاسکتی ہے لیکن مطلق نوافل ادا کرنے پر پابندی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران خطبہ میں آکر بیٹھنے والے شخص کو دورکعت ادا کرنے کا حکم دیاتھا۔
(صحیح البخاری الجمعۃ حدیث 930۔
)

حالانکہ خطبے کو خاموشی سے سننے کا حکم ہے۔
دراصل اوقات ممنوعہ میں ادائیگی نماز کے متعلق احناف اور شوافع کا اختلاف ہے۔
احناف اور روایت نہی کے عموم کے پیش نظر کہتے ہیں کہ ان اوقات میں تحیۃ المسجد کی بھی اجازت نہیں لیکن شوافع اس نہی کو عموم پر محمول نہیں کرتے بلکہ ان کے نزدیک امر نبوی کے عموم کے پیش نظر اوقات ممنوعہ میں بھی تحیۃ المسجد ادا کرنا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ جن نمازوں اور نوافل کے اسباب معلوم ہیں۔
ان کے متعلق کوئی ممنوعہ میں بھی تحیۃ المسجد ادا کرنا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ جن نمازوں اور نوافل کے اسباب معلوم ہیں۔
ان کے متعلق کوئی ممنوعہ وقت نہیں۔
تحیۃ المسجد کا سبب مسجد میں داخل ہونا ہے،لہذا اس سبب کے ہوتے ہوئے کسی وقت کی پابندی یا قید نہیں۔
(فتح الباری 696/1۔
)

مختصر یہ ہے کہ اگر کوئی تحیۃ المسجد پڑھے بغیر بیٹھ جائے تو اس سے تحیۃ المسجد ساقط نہیں ہوگا بلکہ اٹھ کر اسے ادا کرنا ہوگا اور اس کی ادائیگی کے لیے کوئی وقت ممنوع نہیں کیونکہ اس کا تعلق سببی نماز سے ہے۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع 1. كيفية صلاة التطوع (العبادات)
2. تحية المسجد (العبادات)
موضوعات 1. نفلی نماز کی کیفیت (عبادات)
2. تحیۃ المسجد (عبادات)
Topics 1. Nature of optional prayer (Prayers/Ibadaat)
2. Prayer for entering mosque (Prayers/Ibadaat)
Sharing Link:
https:
//www.mohaddis.com/View/Sahi-
Bukhari/T8/444 تراجم الحديث المذكور المختلفة موجودہ حدیث کے دیگر تراجم × ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
٣. شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد راز (مکتبہ قدوسیہ)
5. Dr. Muhammad Muhsin Khan (Darussalam)
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوقتادہ سلمی ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے قبل دو رکعت ضرور پرھے۔
" حدیث حاشیہ:

اس حدیث کا پس منظر اس طرح ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد میں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:
"تجھے بیٹھنے سے قبل دورکعت پڑھنے میں کیا رکاوٹ تھی؟"عرض کیا:
میں نے آپ کو اور دیگرلوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا،اس بناپر میں بھی بیٹھ گیا۔
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دورکعت ضرور پڑھے۔
(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین حدیث 1654(714)
مصنف ابن ابی شیبہ(245/2)
میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
"مساجد کو ان کا حق دو۔
"عرض کیا گیا:
ان کاحق کیا ہے؟ آپ نےفرمایا:
"بیٹھنے سے پہلے دورکعت ادا کرنا۔
"(فتح الباری 696/1۔
)


حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ائمہ فتویٰ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مذکورہ روایت میں امر نبوی استحباب پر محمول ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ مسجد میں لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے جارہا تھا تو آ پ نے اس سے فرمایا:
"بیٹھ جا،تو نےدوسروں کو اذیت پہنچائی ہے۔
"آپ نے اسے تحیۃ المسجد پڑھنے کا حکم نہیں دیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ امرنبوی وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر کوئی دورکعت پڑھنے سے قبل بیٹھ جائے تو اس کی تلافی ضروری نہیں کیونکہ ان کا وقت فوت ہوگیا ہے۔
لیکن صحیح موقف یہ ہے کہ بیٹھنے سے تحیۃ المسجد فوت نہیں ہوجاتا کیونکہ ایک دفعہ حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد میں داخل ہوئے تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تم نے دورکعت نماز پڑھ لی ہے؟"عرض کیا:
نہیں۔
آپ نے فرمایا:
"کھڑے ہوجاؤ اور دورکعت نماز پڑھو۔
"اس حدیث پر امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:
"تحیۃ المسجد،ادائیگی سے قبل بیٹھ جانے سے فوت نہیں ہوتا۔
"محب طبری نے کہا کہ بیٹھنے سے پہلے ادا کرنا وقت ِ فضیلت ہے اور بیٹھنے کے بعد اداکرنا وقت جواز۔
بعض نے یہ کہا ہے کہ بیٹھنے سے پہلے ادا کا وقت ہے اور اس کے بعد وقت قضا۔
(فتح الباری 696/1۔
)

واللہ اعلم۔

اوقات ممنوع میں سببی نماز ادا کی جاسکتی ہے لیکن مطلق نوافل ادا کرنے پر پابندی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران خطبہ میں آکر بیٹھنے والے شخص کو دورکعت ادا کرنے کا حکم دیاتھا۔
(صحیح البخاری الجمعۃ حدیث 930۔
)

حالانکہ خطبے کو خاموشی سے سننے کا حکم ہے۔
دراصل اوقات ممنوعہ میں ادائیگی نماز کے متعلق احناف اور شوافع کا اختلاف ہے۔
احناف اور روایت نہی کے عموم کے پیش نظر کہتے ہیں کہ ان اوقات میں تحیۃ المسجد کی بھی اجازت نہیں لیکن شوافع اس نہی کو عموم پر محمول نہیں کرتے بلکہ ان کے نزدیک امر نبوی کے عموم کے پیش نظر اوقات ممنوعہ میں بھی تحیۃ المسجد ادا کرنا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ جن نمازوں اور نوافل کے اسباب معلوم ہیں۔
ان کے متعلق کوئی ممنوعہ میں بھی تحیۃ المسجد ادا کرنا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ جن نمازوں اور نوافل کے اسباب معلوم ہیں۔
ان کے متعلق کوئی ممنوعہ وقت نہیں۔
تحیۃ المسجد کا سبب مسجد میں داخل ہونا ہے،لہذا اس سبب کے ہوتے ہوئے کسی وقت کی پابندی یا قید نہیں۔
(فتح الباری 696/1۔
)

مختصر یہ ہے کہ اگر کوئی تحیۃ المسجد پڑھے بغیر بیٹھ جائے تو اس سے تحیۃ المسجد ساقط نہیں ہوگا بلکہ اٹھ کر اسے ادا کرنا ہوگا اور اس کی ادائیگی کے لیے کوئی وقت ممنوع نہیں کیونکہ اس کا تعلق سببی نماز سے ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا انھوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے عامر بن عبداللہ بن زبیر سے یہ خبر پہنچائی، انھوں نے عمرو بن سلیم زرقی کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے ابوقتادہ سلمی ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے۔
حدیث حاشیہ:
مسجد میں آنے والا پہلے دورکعت نفل پڑھے، پھر بیٹھے۔
چاہے کوئی بھی وقت ہو اورچاہے امام جمعہ کا خطبہ ہی کیوں نہ پڑھ رہا ہو۔
جامع ترمذی میں جابربن عبداللہ سے مروی ہے کہ بینما النبی صلی اللہ علیہ وسلم یخطب یوم الجمعۃ اذ جاءرجل فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اصلیت قال لا قال قم فارکع قال ابوعیسی وہذاالحدیث حسن صحیح اخرجہ الجماعۃ وفی روایۃ اذجاءاحدکم یوم الجمعۃ والامام یخطب فلیرکع رکعتین ولیتجوز فیہما رواہ احمد ومسلم وابوداؤد وفی روایۃ اذا جاءاحدکم یوم الجمعۃ وقد خرج الامام فلیصل رکعتین متفق علیہ کذا فی المنتقیٰ (تحفۃ الاحوذی، ج 1، ص: 363)
یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ سنا رہے تھے کہ اچانک ایک آدمی آیا اور بیٹھ گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دورکعت پڑھ کر بیٹھو اوران دورکعتوں کو ہلکاکرکے پڑھو۔
ایک روایت میں فرمایاکہ جب بھی کوئی تم میں سے مسجد میں آئے اورامام خطبہ پڑھ رہا ہو چاہئیے کہ بیٹھنے سے پہلے دو ہلکی رکعت پڑھ لے۔
حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
والعمل علی ہذا عند بعض اہل العلم وبہ یقول الشافعی واحمدو اسحاق وقال بعضہم اذا دخل والامام یخطب فانہ یجلس ولایصلی وہو قول سفیان الثوری واہل الکوفۃ والقول الاول اصح یعنی بعض اہل علم اورامام شافعی اورامام احمد اور اسحاق کا یہی فتویٰ ہے۔
مگر بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس حالت میں نماز نہ پڑھے بلکہ یوں ہی بیٹھ جائے۔
سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور اہل کوفہ کا بھی یہی قول ہے۔
مگرپہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے اورمنع کرنے والوں کا قول صحیح نہیں ہے۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح مسلم میں فرماتے ہیں کہ ان احادیث صریحہ کی بناپر فقہائے محدثین اورامام شافعی وغیرہم کا یہی فتویٰ ہے کہ خواہ امام خطبہ ہی کیوں نہ پڑھ رہا ہو۔
مگر مناسب ہے کہ مسجد میں آنے والا دورکعت تحیۃ المسجد پڑھ کر بیٹھے اور مستحب ہے کہ ان میں تخفیف کرے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس آنے والے شخص کو جمعہ کے خطبہ کے دوران دورکعت پڑھنے کا حکم فرمایا تھا اس کا نام سلیک تھا۔
موجودہ دورمیں بعض لوگوں کی عادت ہوگئی ہے کہ مسجد میں آتے ہی پہلے بیٹھ جاتے ہیں پھر کھڑے ہوکر نماز پڑھتے ہیں جب کہ یہ سنت کے خلاف ہے۔
سنت یہ ہے کہ مسجد میں بیٹھنے سے پہلے دورکعتیں پڑھے، پھر بیٹھے۔
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Qatada Al-
Aslami (RA)
:
Allah's Apostle (ﷺ) said, "If anyone of you enters a mosque, he should pray two Rakat before sitting." حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
مسجد میں آنے والا پہلے دورکعت نفل پڑھے، پھر بیٹھے۔
چاہے کوئی بھی وقت ہو اورچاہے امام جمعہ کا خطبہ ہی کیوں نہ پڑھ رہا ہو۔
جامع ترمذی میں جابربن عبداللہ سے مروی ہے کہ بینما النبی صلی اللہ علیہ وسلم یخطب یوم الجمعۃ اذ جاءرجل فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اصلیت قال لا قال قم فارکع قال ابوعیسی وہذاالحدیث حسن صحیح اخرجہ الجماعۃ وفی روایۃ اذجاءاحدکم یوم الجمعۃ والامام یخطب فلیرکع رکعتین ولیتجوز فیہما رواہ احمد ومسلم وابوداؤد وفی روایۃ اذا جاءاحدکم یوم الجمعۃ وقد خرج الامام فلیصل رکعتین متفق علیہ کذا فی المنتقیٰ (تحفۃ الاحوذی، ج 1، ص: 363)
یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ سنا رہے تھے کہ اچانک ایک آدمی آیا اور بیٹھ گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دورکعت پڑھ کر بیٹھو اوران دورکعتوں کو ہلکاکرکے پڑھو۔
ایک روایت میں فرمایاکہ جب بھی کوئی تم میں سے مسجد میں آئے اورامام خطبہ پڑھ رہا ہو چاہئیے کہ بیٹھنے سے پہلے دو ہلکی رکعت پڑھ لے۔
حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
والعمل علی ہذا عند بعض اہل العلم وبہ یقول الشافعی واحمدو اسحاق وقال بعضہم اذا دخل والامام یخطب فانہ یجلس ولایصلی وہو قول سفیان الثوری واہل الکوفۃ والقول الاول اصح یعنی بعض اہل علم اورامام شافعی اورامام احمد اور اسحاق کا یہی فتویٰ ہے۔
مگر بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس حالت میں نماز نہ پڑھے بلکہ یوں ہی بیٹھ جائے۔
سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور اہل کوفہ کا بھی یہی قول ہے۔
مگرپہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے اورمنع کرنے والوں کا قول صحیح نہیں ہے۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح مسلم میں فرماتے ہیں کہ ان احادیث صریحہ کی بناپر فقہائے محدثین اورامام شافعی وغیرہم کا یہی فتویٰ ہے کہ خواہ امام خطبہ ہی کیوں نہ پڑھ رہا ہو۔
مگر مناسب ہے کہ مسجد میں آنے والا دورکعت تحیۃ المسجد پڑھ کر بیٹھے اور مستحب ہے کہ ان میں تخفیف کرے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس آنے والے شخص کو جمعہ کے خطبہ کے دوران دورکعت پڑھنے کا حکم فرمایا تھا اس کا نام سلیک تھا۔
موجودہ دورمیں بعض لوگوں کی عادت ہوگئی ہے کہ مسجد میں آتے ہی پہلے بیٹھ جاتے ہیں پھر کھڑے ہوکر نماز پڑھتے ہیں جب کہ یہ سنت کے خلاف ہے۔
سنت یہ ہے کہ مسجد میں بیٹھنے سے پہلے دورکعتیں پڑھے، پھر بیٹھے۔
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر)
١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم450٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
444٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
425٤. ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
444٥. ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
433٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
440٧. ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
444٨. ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
444١٠.ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
444 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة تمہید باب × تمہید کتاب × (صلاۃ)
کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔
)

"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔
"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔
)

"وہی ہے(اللہ)
جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔
"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے۔
چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔
دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔
صلاۃ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو)
اور طہارت ترابیہ(مسح)
سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔
طہارت،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:
ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔
نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔
چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔
قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت،منبر،چٹائی،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔
نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔
اس کی اہمیت وفضیلت،عین قبلہ،جہت قبلہ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔
چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد،حفاظت مسجد،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔
پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔
آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔
ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔
دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔
ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔
اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔
اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔
ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔
آمین۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 444