نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
سجدہ تلاوت و سہو کا بیان

1. اگر آدمی نماز میں بھول جائے تو کیا کرے

حدیث نمبر: 133
24- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إن أحدكم إذا قام يصلي جاءه الشيطان فلبس عليه حتى لا يدري كم صلى، فإذا وجد ذلك أحدكم فليسجد سجدتين وهو جالس.“
اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی آدمی نماز پڑھتا ہے تو اس کے پاس شیطان آ کر اس کی نماز کے بارے میں شک و شبہ ڈالتا ہے حتیٰ کہ اسے یہ پتا نہیں ہوتا کہ وہ کتنی نماز پڑھ چکا ہے۔ اگر تم میں سے کوئی شخص ایسی حالت پائے تو بیٹھے بیٹھے (آخری تشہد کے آخر میں) دو سجدے کرے۔
تخریج الحدیث: «24- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 100/1 ح 220، ك 4 ب 1 ح 1) التمهيد 89/7، الاستذكار: 193 و أخرجه البخاري (1232) ومسلم 389/2 بعد ح 569) من حديث مالك به.»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 133 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 133  
´اگر آدمی نماز میں بھول جائے تو کیا کرے`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن احدكم إذا قام يصلي جاءه الشيطان فلبس عليه حتى لا يدري كم صلى، فإذا وجد ذلك احدكم فليسجد سجدتين وهو جالس . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی آدمی نماز پڑھتا ہے تو اس کے پاس شیطان آ کر اس کی نماز کے بارے میں شک و شبہ ڈالتا ہے حتیٰ کہ اسے یہ پتا نہیں ہوتا کہ وہ کتنی نماز پڑھ چکا ہے۔ اگر تم میں سے کوئی شخص ایسی حالت پائے تو بیٹھے بیٹھے (آخری تشہد کے آخر میں) دو سجدے کرے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 133]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1232، و مسلم 389/82 بعدح 529، من حديث ما لك به]

تفقه:
➊ خنزب نامی شیطان کا یہ کام ہے کہ وہ نمازیوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔ [ديكهئے: صحيح مسلم 2203/68]
● غنیتہ الطالبین کی ایک موضوع (من گھڑت) روایت میں شیطان کے بارے میں حدیث کا لفظ آیا ہے جو کہ کتابت کی غلطی ہے۔
➋ نماز میں بھول چوک ہو جانے پر سجدہ سہو واجب و مسنون ہے۔
● رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
«لِكُلِّ سَهْوٍ سَجْدَتَانِ بَعْدَ مَا يُسَلِّمُ»
ہر سہو کے لئے سلام کے بعد دو سجدے ہیں۔ [سنن ابي داود: 1038، وسنده حسن]

تنبیہ:
دوسرے دلائل کو مدنظر رکھتے ہوئے سہو کے دو سجدے سلام سے پہلے بھی جائز ہیں اور سلام کے بعد بھی۔
➌ شیعوں کے امام ابن بابویہ القمی نے لکھا ہے:
«إن الغلاة والمفوضة لعنهم الله ينكرون سهو النبى صلى الله عليه وسلم.... وإنما أسهاه ليعلم أنه بشر مخلوق فلا يتخذ ربا معبودا دونه وليعلم الناس بسهوه حكم السهو»
اللہ تعالی کی غالیوں اور مفوضہ (رافضیوں) پر لعنت ہو، یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سہو (بھول) کا انکار کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اس لئے بھلایا تاکہ معلوم ہو جائے کہ آپ بشر مخلوق ہیں اور لوگ آپ کو رب معبود نہ بنا لیں، دوسرے یہ کہ لوگوں کو سہو کے احکام مسائل معلوم ہو جائیں۔ [من لايحضره و الفقيه ج 1ص 234]
➍ سجدہ سہو میں صرف ایک طرف سلام پھیرنا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
● فتاویٰ عالمگیری میں بغیر دلیل کے لکھا ہوا ہے:
صحیح مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف سلام پھیرے یہی جمہور کا مذہب ہے۔ [1125/1]
● جمہور کی طرف یہ انتساب واقعہ کے خلاف اور حوالے کے بغیر ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 24   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ
الشیخ عمر فاروق سعیدی حفظ اللہ
الشیخ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ
مولانا عطا اللہ ساجد حفظ اللہ
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ
شیخ الحدیث مولانا عبد العزیز علوی حفظ اللہ
مولانا داود راز رحمہ اللہ
الشیخ عبدالستار الحماد حفظ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 135  
´حدیث میں شک ہو تو اس کی تحقیق کرنا مسنون ہے`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من اثنتين، فقال له ذو اليدين: اقصرت الصلاة ام نسيت يا رسول الله؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اصدق ذو اليدين؟ فقال الناس: نعم. فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى اثنتين اخريين ثم سلم ثم كبر فسجد مثل سجوده او اطول، ثم رفع ثم كبر فسجد مثل سجوده او اطول، ثم رفع . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا تو (ایک صحابی) ذوالیدین رضی اللہ عنہ نے آپ سے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا نماز کم ہو گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (لوگوں سے) کہا: کیا ذوالیدین نے سچ کہا ہے؟ تو لوگوں نے کہا: جی ہاں! پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور (ظہر یا عصر کی) آخری دو رکعتیں پڑھائیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا، پھر تکبیر کہی تو اپنے سجدوں کی طرح یا اس سے طویل سجدہ کیا پھر (تکبیر کہہ کر) سر اٹھایا پھر تکبیر کہی تو اپنے سجدوں کی طرح یا اس سے طویل سجدہ کیا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 135]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1228، من حديث مالك به ورواه مسلم 573/97، من حديث أيوب السخياني به]

تفقه:
➊ اگر کوئی شخص نماز مکمل کرنے سے پہلے بھول کر سلام پھیر دے تو اسے چاہئے کہ اس نماز کو شمار کر کے باقی رکعتیں پڑھ کر آخر میں سجدہ سہو کرے۔ سجدہ سہو نماز کے سجدوں کے برابر یا طویل تر ہونا چاہئے۔
➋ بھول کر نماز میں کلام کرنے یا سلام پھیرنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔
➌ اگر کسی حدیث میں شک ہو تو اس کی تحقیق کرنا مسنون ہے اور صحیح ثابت ہونے کے بعد اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔
➍ انبیاء و رسل کو دنیاوی امور اور نماز وغیرہ میں سہو ہو سکتا ہے لیکن یاد رہے کہ تبلیغ دین، اخبارِ سابقہ اور حوالے بیان کرنے میں کبھی سہو نہیں ہو سکتا۔
➎ یقین کو شک کی بنیاد پر چھوڑنا جائز نہیں ہے۔
➏ اگر روایت میں مخالفت ہو اور تطبیق ممکن نہ ہو تو ایک کے مقابلے میں جماعت کی روایت ہی راجح ہے۔
➐ سجدہ سہو میں تکبیر مسنون ہے
➑ بعض الناس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ حدیث مضطرب ہے۔ اس دعوے کی تفصیلی ابطال کے لئے دیکھئے: [التمهيد 364/1]
➒ یہ کہنا کہ ذوالیدین رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں شہید ہو گئے تھے، غلط ہے کیونکہ غزوہ بدر میں تو ذوالشمالین رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تھے اور ذوالیدین (خرباق رضی اللہ عنہ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے کافی عرصہ بعد تک زندہ رہے ہیں۔
➓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے تھے ورنہ تحقیق کے لئے لوگوں سے کیوں سوال کرتے؟ نیز دیکھئے: [ح 156]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 128   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 136  
´سجدہ سہو سلام سے پہلے اور سلام کے بعد دونوں طرح جائز ہے`
«. . . فاتم رسول الله صلى الله عليه وسلم ما بقي من الصلاة ثم سجد سجدتين وهو جالس بعد السلام . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی رہ جانے والی نماز پوری کی پھر سلام کے بعد بیٹھے بیٹھے دو سجدے کئے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 136]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 573/99، من حديث ما لك به، و من رواية يحيى بن يحيي وجاء فى الأصل: حميد]

تفقه:
➊ نماز میں بھول کر کلام کرنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔
➋ مختلف احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سجدہ سہو سلام سے پہلے اور سلام کے بعد دونوں طرح جائز ہے لیکن یاد رہے کہ بعض آل تقلید کا سجدہ سہو میں صرف ایک طرف سلام پھیرنا سنت سے ثابت نہیں ہے۔ سلام کے بعد تشہد پڑھ کر سلام پھیرنا بھی صحیح ہے اور مکمل تشہد کے بعد دو سجدے کر کے سلام پھیر دینا بھی صحیح ہے۔
➌ ذوالیدبن خرباق طلال رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں شہید نہیں ہوئے تھے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی زندہ رہے۔ بدر میں شہید ہونے والے ذوالشمالین رضی اللہ عنہ تھے۔
➍ نماز میں بھول کر باتیں کرنے کا یہ واقعہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور یہ ان کی موجودگی میں ہوا تھا جیسا کہ حدیث کے الفاظ «صلّي بنا» سے ثابت ہے۔
➎ بعض الناس کا اپنے تقلیدی مذہب کی اندھی حمایت میں اس حدیث کو مضطرب قرار دینا غلط ہے۔
➏ اس حدیث سے صحابہ کرام کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب میں کمال ادب و احترام ثابت ہوتا ہے۔
➐ نیز دیکھئے: [الموطأ حديث: 128، 489، البخاري 1228، ومسلم 573/97]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 156   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1225  
´آدمی اگر دو رکعت پر ہی بھول کر سلام پھیر دے اور گفتگو کر لے تو کیا کرے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو شام کی دونوں نمازوں (ظہر یا عصر) میں سے کوئی ایک نماز پڑھائی، لیکن میں بھول گیا (کہ آپ نے کون سی نماز پڑھائی تھی) تو آپ نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیر دیا، پھر آپ مسجد میں لگی ایک لکڑی کی جانب گئے، اور اس پر اپنا ہاتھ رکھا، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ گویا آپ غصہ میں ہیں، اور جلد باز لوگ مسجد کے دروازے سے نکل گئے، اور کہنے لگے: نماز کم کر دی گئی ہے، لوگوں میں ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم (بھی) تھے، لیکن وہ دونوں ڈرے کہ آپ سے اس سلسلہ میں پوچھیں، لوگوں میں ایک شخص تھے جن کے دونوں ہاتھ لمبے تھے، انہیں ذوالیدین (دو ہاتھوں والا) کہا جاتا تھا، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ بھول گئے ہیں یا نماز ہی کم کر دی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ تو میں بھولا ہوں، اور نہ نماز ہی کم کی گئی ہے، آپ نے (لوگوں سے) پوچھا: کیا ایسا ہی ہے جیسے ذوالیدین کہہ رہے ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا: جی ہاں، (ایسا ہی ہے) چنانچہ آپ (مصلے پر واپس آئے) اور وہ (دو رکعتیں) پڑھیں جنہیں آپ نے چھوڑ دیا تھا، پھر سلام پھیرا، پھر اللہ اکبر کہا اور اپنے سجدوں کے جیسا یا ان سے لمبا سجدہ کیا، پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا، اور اللہ اکبر کہا، اور اپنے سجدوں کی طرح یا ان سے لمبا سجدہ کیا، پھر اپنا سر اٹھایا پھر اللہ اکبر کہا۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1225]
1225۔ اردو حاشیہ:
میں بھول گیا یہ بھولنے والے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں یا ان کے شاگرد محمد بن سیرین رحمہ اللہ۔
غصے میں دراصل یہ آپ کی طبع لطیف پر نماز کے سہو کا اثر تھا جسے غصہ خیال کیا گیا۔
ڈرے رہے اللہ! اللہ! کیا کہنے آپ کے رعب کے کہ آپ کے بے تکلف اور قریب ترین دوست بلکہ یار غار بھی آپ سے ڈر رہے ہیں۔ دراصل وہ آپ کے مقام و مرتبہ سے کماحقہ آگاہ تھے۔ اس لیے دوستی اور بے تکلفی کے باوجود بھی آپ کے احترام کو ملحوظ رکھتے تھے۔ وہ جتنے زیادہ قریبی تھے اتنا ہی زیادہ آپ کے ادب و احترام کا خیال کرتے تھے۔
➍ حضرت ذوالیدین اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرنا جب کہ ابھی کچھ نماز باقی تھی، دلیل ہے کہ نماز کو مکمل سمجھ کر کلام یا کوئی اور عمل کرنا معاف ہے۔ نماز دہرانے کی ضرورت نہیں۔ آخر میں سجود سہو کافی ہیں۔ احناف ایسی صورت میں نماز نئے سرے سے پڑھنے کے قائل ہیں اور اس حدیث کو ابتدائی دور سے متعلق بتاتے ہیں جب کلام (نماز میں) منع تھا، حالانکہ اس حدیث کے راوی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں جو اس نماز میں مقتدی بھی تھے۔ اور ان کا اسلام 7ھ کا ہے جب کہ کلام کی حرمت تو بہت ابتدائی دور کی بات ہے۔
➎ انسان ہونے کے لحاظ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نسیان لاحق ہو سکتا ہے جس طرح دوسرے انسانی عوارض، مثلاً: بیماری وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے نہ بھولنے کی ضمانت قرآن مجید کے بارے میں دی ہے۔ ویسے وہاں بھی (الا ماشآء اللہ) کی صراحت ہے۔
➏ یہ سجدے آپ نے سلام کے بعد ادا کیے ہیں۔ گویا سجدۂ سہو سلام کے بعد بھی ہو سکتا ہے اور پہلے بھی۔ جس کی تفصیل ابتدائیہ میں گزر چکی ہے۔
➐ جب واقعہ ثقات کی ایک مجلس کا ہو اور عادتاً سبھی کا غافل ہونا محال ہو اور ان میں سے ایک ثقہ دوسروں کی نسبت کچھ زیادہ بیان کرے تو اس اکیلے کی بات قبول نہیں کرنی چاہیے جب تک کہ اس کی دیگر ہم نشین تصدیق نہ کر دیں۔
➑ اس حدیث سے استصحاب پر عمل کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ استصحاب کا مطلب ہے پہلے سے موجود حکم پر ثابت رہنا تاوقتیکہ کوئی نیا حکم آ جائے جو پہلے حکم کو تبدیل یا منسوخ کر دے۔ ذوالیدین نے اسی بنا پر سوال کیا، باوجود اس کے کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ایک شرعی حیثیت رکھتا ہے اور اصل عدم سہو ہے اور نسخ بھی ممکن تھا۔ باقی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جو خاموش رہے، وہ سابقہ حکم کے بارے میں متردد تھے کہ آیا وہ مسنوخ ہو گیا ہے یا کہ نہیں۔ اور جو صحابہ جلدی چلے گئے انہوں نے یقینی طور پر سمجھ لیا کہ پہلا حکم منسوخ ہو گیا ہے اور نماز کم ہو گئی ہے۔ اس سے احکام شرعیہ میں اجتہاد کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
➒ نماز میں کئی بار بھولنے کی وجہ سے متعدد دفعہ سجود سہو کرنے کی ضرورت نہیں، صرف ایک ہی دفعہ کافی ہیں۔ تفصیل کے لیے اسی کتاب کا ابتدائیہ ملاحظہ فرمائیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1225   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1228  
´آدمی اگر دو رکعت پر ہی بھول کر سلام پھیر دے اور گفتگو کر لے تو کیا کرے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ظہر دو رکعت پڑھائی، پھر آپ نے سلام پھیر دیا، تو لوگ کہنے لگے کہ نماز کم کر دی گئی ہے، تو آپ کھڑے ہوئے، اور دو رکعت مزید پڑھائی، پھر سلام پھیرا پھر دو سجدے کئے۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1228]
1228۔ اردو حاشیہ: پیچھے گزر چکا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھول گئے تھے کہ کون سی نماز تھی، ظہر یا عصر؟ اس لیے کہیں ظہر کہا:، کہیں عصر۔ مگر اس سے اصل مسئلے پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ دونوں نمازیں ایک جیسی ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1228   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1230  
´آدمی اگر دو رکعت پر ہی بھول کر سلام پھیر دے اور گفتگو کر لے تو کیا کرے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز میں) بھول گئے، تو آپ نے دو ہی رکعت پر سلام پھیر دیا، تو آپ سے ذوالشمالین نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا نماز کم کر دی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (لوگوں سے) پوچھا: کیا ذوالیدین سچ کہہ رہے ہیں؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں، (سچ کہہ رہے ہیں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، پھر آپ نے نماز پوری کی۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1230]
1230۔ اردو حاشیہ: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: روایات کے ظاہر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس واقعہ میں حاضر تھے جبکہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے اسے مجاز پر محمول کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس قول ہمیں نماز پڑھائی کا مطلب ہے کہ مسلمانوں کو نماز پڑھائی۔ ان کی اس توجیہ کی وجہ امام زہری رحمہ اللہ کا یہ قول ہے کہ صاحب قصہ ذوالشمالین بدر کے دن شہید ہو گئے تھے، لہٰذا یہ واقعہ غزوۂ بدر سے پہلے کا ہے جبکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ غزوۂ بدر کے پانچ سال بعد اسلام لائے۔ لیکن ائمہ حدیث کا اتفاق ہے کہ اس میں امام زہری رحمہ اللہ کو وہم ہوا ہے جیسا کہ ابن عبدالبر وغیرہ نے یہ قول نقل کیا ہے، وہ اسے ذوالشمالین کا قصہ قرار دیتے ہیں لیکن ذوالشمالین تو بدر کے دن شہید ہو گئے تھے، ان کا تعلق بنو خزاعہ سے تھا اور ان کا نام عمیر بن عبد عمرو تھا اور ذوالیدین بنو سلیم کے فرد تھے، ان کا نام خرباق تھا اور وہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لمبا عرصہ حیات رہے۔ صحیح مسلم میں ابوسلمہ کے واسطے سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کے الفاظ اس طرح ہیں: «فَقامَ رَجُلٌ مِن بَنِي سُلَيْمٍ» بنو سلیم کا ایک آدمی کھڑا ہوا۔ [صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 573] اور زہری کے واسطے سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے الفاظ ہیں: «فقام ذو الشِّمالينِ» ذوالشمالین کھڑا ہوا۔ حالانکہ وہ جنگ بدر میں شہید کر دیے گئے تھے۔ اسی وجہ سے انہوں نے اسے جنگ بدر سے پہلے کا واقعہ قرار دیا ہے۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ یہ دو واقعات ہیں: پہلا ذوالشمالین (عمیر بن عبد عمرو) اور دوسرا ذوالیدین (خرباق) کا۔ پہلے واقعے کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مرسل بیان کیا ہے اور دوسرے میں وہ خود حاضر تھے۔ جمع و تطبیق کی خاطر اس کا بھی احتمال ہے۔ اور اس کے متعلق ایک قول یہ بھی ہے کہ اس اشتباہ کی وجہ یہ ہے کہ آپ کبھی ذوالشمالین کو ذوالیدین کہہ لیتے تھے اور کبھی ذوالیدین کو ذوالشمالین کہہ لیتے تھے۔ لیکن اس قول کی بنیاد کمزور ہے، نیز امام طحاوی رحمہ اللہ کا اسے مجاز پر محمول کرنا درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے صریح الفاظ منقول ہیں: «بيْنا أنا أُصَلِّي مع النبيِّ صلی اللہ علیہ وسلم …………» ایک دفعہ میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی……… [صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 573] اور کبار محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ذوالشمالین رضی اللہ عنہ ذوالیدین رضی اللہ عنہ کے علاوہ دوسرے آدمی ہیں۔ اسی بات کی صراحت امام شافعی رحمہ اللہ نے اختلاف الحدیث میں کی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میرے نزدیک راجح یہی ہے کہ یہ ایک ہی واقعہ ہے اگرچہ الفاظ کے مختلف ہونے کی وجہ سے امام ابن خزیمہ وغیرہ کا رجحان تعدد واقعات کی طرف ہے کیونکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ نے دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرا، پھر مسجد میں ایک لکڑی کی طرف کھڑے ہو گئے اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ نے تین رکعتوں کے بعد سلام پھیرا، پھر آپ گھر چلے گئے۔ مزید دیکھیے: [فتح الباري: 3/126، 131، 132، تحت حدیث: 1227، 1229]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1230   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1231  
´آدمی اگر دو رکعت پر ہی بھول کر سلام پھیر دے اور گفتگو کر لے تو کیا کرے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ہم کو) ظہر یا عصر پڑھائی، تو آپ نے دو ہی رکعت میں سلام پھیر دیا، اور اٹھ کر جانے لگے، تو آپ سے ذوالشمالین بن عمرو نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا نماز کم کر دی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (لوگوں سے) پوچھا: ذوالیدین کیا کہہ رہے ہیں؟ لوگوں نے کہا: وہ سچ کہہ رہے ہیں، اللہ کے نبی! تو آپ نے ان دو رکعتوں کو جو باقی رہ گئی تھیں لوگوں کے ساتھ پورا کیا۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1231]
1231۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں دو غلطیاں ہیں۔ ایک تو ذوالشمالین بن عبد عمرو ہونا چاہیے، دوسرے اس ذوالشمالین کا ذکر راوی کی غلطی اور شذوذ ہے۔ یہ تو بدر میں شہید ہونے والے ذوالشمالین ہیں جو اس واقعے سے بہت پہلے کے ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1231   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1331  
´سجدہ سہو کے بعد سلام پھیرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا، پھر سہو کے دو سجدے بیٹھے بیٹھے کئے، پھر سلام پھیرا، راوی کہتے ہیں: اس کا ذکر ذوالیدین والی حدیث میں بھی ہے۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1331]
1331۔ اردو حاشیہ: دیکھیے ‘حدیث: 1225۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1331   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1030  
´غالب گمان کے مطابق رکعات پوری کرے اس کے قائلین کی دلیل کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو شیطان اس کے پاس آتا ہے اور اسے شبہے میں ڈال دیتا ہے، یہاں تک کہ اسے یاد نہیں رہ جاتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں؟ لہٰذا جب تم میں سے کسی کو ایسا محسوس ہو تو وہ بیٹھے بیٹھے دو سجدے کر لے۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح اسے ابن عیینہ، معمر اور لیث نے روایت کیا ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1030]
1030۔ اردو حاشیہ:
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث امام مالک، لیث اور ابن وہب وغیرہ کے نزدیک ایسے افراد کے لئے ہے جو وسوسے کے مریض ہوں۔ شک و شبہ ان سے کسی طرح دور ہوتا ہی نہ ہو اس قسم کے لوگ اپنے یقین کی بنیاد پر جب نماز مکمل کر لیں تو سجدے کر لیا کریں۔ [عون المعبود]
مذکورہ حدیث [1029] بھی بربنائے صحت اسی مفہوم پر محمول ہو گی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1030   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 263  
´سجود سہو وغیرہ کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد از دوپہر کی دو نمازوں (ظہر و عصر) میں سے ایک میں دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا اور مسجد کے سامنے رکھی ہوئی لکڑی کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے اور اپنے ہاتھ اس پر رکھ لئے۔ نمازیوں میں سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، یہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں بات کرنے سے ذرا خوفزدہ تھے۔ جلد باز لوگ مسجد سے نکل گئے تو لوگوں نے آپس میں سرگوشی کے انداز میں ایک دوسرے سے پوچھنا شروع کیا کہ کیا نماز میں کمی کر دی گئی ہے؟ ایک آدمی تھا جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (اس کے لمبے ہاتھوں کی وجہ سے) ذوالیدین کہہ کر بلاتے تھے، (اس) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ (آج) بھول گئے ہیں یا نماز کم کر دی گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز میں کمی کی گئی ہے۔ اس شخص نے پھر عرض کیا ہاں آپ ضرور بھول گئے ہیں۔ تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں (جو چھوٹ گئی تھیں) پڑھیں اور سلام پھیرا پھر «الله اكبر» کہہ کر معمول کے سجدوں کی طرح سجدہ کیا یا اس سے ذرا لمبا پھر سجدہ سے «الله اكبر» کہہ کر سر اوپر اٹھایا پھر «الله اكبر» کہہ کر (زمین پر) رکھا اور معمول کے سجدہ کی طرح یا ذرا اس سے طویل سجدہ کیا اور پھر «الله اكبر» کہہ کر اپنا سر اٹھایا۔ (بخاری و مسلم) یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ یہ عصر کی نماز تھی اور ابوداؤد میں مروی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا ذوالیدین نے ٹھیک کہا ہے؟ تو لوگوں نے سر ہلا کر اشاروں سے کہا ہاں! یہ اضافہ صحیحین میں بھی ہے لیکن ان میں «فقالوا» کے لفظ کے ساتھ مروی ہے (یعنی زبان سے انہوں نے کہا) اور مسلم ہی کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب تک اللہ کی جانب سے یقین نہ ہوا اس وقت سجدہ سہو نہیں کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 263»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الصلاة، باب تشبيك الأصابع في المسجد وغيره، حديث:482، والسهو، باب يكبر في سجدتي السهو، حديث:1229، ومسلم، المساجد، باب السهو في الصلاة، حديث:573، وأبوداود، الصلاة، حديث:1008، وهو حديث صحيح، وحديث:"ولم يسجد حتي يقَّنه الله تعاليٰ ذلك" أخرجه أبوداود، الصلاة، حديث:1012 وسنده ضعيف، فيه محمد بن كثير الصنعاني وهو ضعيف، ضعفه الجمهور من جهة سوء حفظه واختلط أيضًا.»
تشریح:
1. اس حدیث سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سہو سرزد ہوا ہے اور یہ نبوت کے منافی نہیں۔
2.اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ بھی انسان تھے۔
سہو وغیرہ ایک انسان سے ہی سرزد ہوتا ہے۔
جس طرح آپ نے فرمایا: «إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ أَنْسٰی کَمَا تَنْسَوْنَ فَإِذَا نَسِیتُ فَذَکِّرُونِي» (صحیح مسلم‘ المساجد‘ باب السھو في الصلاۃ والسجودلہ‘ حدیث:۵۷۲) نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ عالم الغیب نہ تھے اور نہ آپ نے کبھی عالم ما کان وما یکون ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
اگر آپ کو علم غیب ہوتا تو سہو نہ ہوتا اور پھر تصدیق کے لیے لوگوں سے دریافت نہ فرماتے کہ کیا ذوالیدین نے ٹھیک اور سچ کہا ہے؟ سہو کی تصدیق ہونے پر اسے تسلیم کر لیا۔
3. اگر غلطی سرزد ہو جانے پر کوئی اصلاح کرے تو اسے ثابت ہو جانے پر مان لینا چاہیے۔
4. اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سجدۂ سہو کرتے اور اٹھتے وقت اللہ اکبر کہنا چاہیے۔
5.اس حدیث سے سجدۂ سہو سلام سے پہلے ثابت ہے۔
6.یہ بھی معلوم ہوا کہ پہلا تشہد بھول جائے تو اس کی تلافی سہو کے دو سجدوں سے ہو جاتی ہے۔
7. اس حدیث میں تو صرف «صَلَّی النَّبِيُّ» ہے‘ مگر بعض روایات میں «صَلّٰی بِنَا» کے الفاظ منقول ہیں‘ یعنی ہمیں نماز پڑھائی۔
(صحیح البخاري‘ الصلاۃ‘ حدیث: ۴۸۲) اس صورت میں راوئ حدیث بھی ان نمازیوں میں شریک تھے‘ لہٰذا معلوم ہوا کہ یہ حدیث قرآن مجید کی آیت: ﴿ قُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ ﴾ سے منسوخ نہیں کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس آیت کے نزول سے چار پانچ سال بعد اسلام لائے ہیں۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی یہ گفتگو سہواً نہیں قصداً ہوئی ہے‘ لہٰذا سلام کے بعد اصلاح نماز کے لیے اتنی سی بات نماز کو باطل نہیں کرتی۔
8. مذکورہ حدیث کے آخری ٹکڑے «وَلَمْ یَسْجُدْ حَتّٰی یَقَّنَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی ذٰلِکَ» کی بابت علمائے محققین لکھتے ہیں کہ یہ ضعیف ہے۔
وضاحت: «حضرت خرباق بن عمرو سلمی رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ بنو سلیم سے ہونے کی وجہ سے سلمی کہلائے۔
سہیلی نے الروض الأنف میں لکھا ہے کہ انھوں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں وفات پائی۔
اور ابوعوانہ نے اپنی صحیح میں کہا ہے کہ انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مقام ذی خشب پر وفات پائی۔
اور بعض روایات میں ذوالیدین کی بجائے ذوالشمالین بھی وارد ہے۔
بعض کا خیال ہے کہ دونوں سے ایک ہی شخص مراد ہے جبکہ یہ وہم ہے۔
صحیح بات یہی ہے کہ یہ دو شخص تھے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ ذوالشمالین بدر میں شہید ہوئے ہیں اور یہ واقعہ بیان کرنے والے حضرت ابوہریرہ اور حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہم ہیں اور یہ دونوں غزوۂ خیبر کے سال اسلام لائے ہیں۔
اور انھوں نے ذوالیدین کا اس واقعہ میں ذکر کیا ہے۔
اور یہ اسی وقت ہی ہوسکتا ہے جب ذوالیدین کو اس وقت زندہ مانا جائے اور اسے ذوالشمالین سے الگ سمجھا جائے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 263   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1214  
´دوسری یا تیسری رکعت میں بھول کر سلام پھیر دے تو اس کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عشاء (یعنی زوال کے بعد کی دو نمازوں ظہر یا عصر) میں سے کوئی نماز دو ہی رکعت پڑھائی، پھر سلام پھیر دیا، پھر مسجد میں پڑی ہوئی ایک لکڑی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے، جلد باز لوگ تو یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ نماز کم ہو گئی، مقتدیوں میں ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے، لیکن وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ کہنے کی ہمت نہ کر سکے، لوگوں میں ذوالیدین نامی ایک لمبے ہاتھوں والے آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! کیا نماز کم ہو گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ آپ صلی ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1214]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
نماز باجماعت کے بعد اپنی جگہ سے اٹھ سکتے ہیں۔
اگرچہ مسجد میں دوسری جگہ بیٹھنے کا ارادہ ہو تاہم نماز کی جگہ بیٹھ رہنا ثواب کا باعث ہے۔
ایسے شخص کے لئے فرشتے دعایئں کرتے ہیں۔
دیکھئے: (سنن ابن ماجة، حدیث: 799)

(2)
کسی کی بات کی تحقیق کرلینا اس پر عدم اعتماد کا اظہار نہیں ہوتا۔
بلکہ یقین میں اضافے کے لئے ہوتا ہے۔

(3)
اگر کوئی شخص اپنی کسی خاص جسمانی ساخت (مثلا چھوٹا قد یادبلاجسم وغیرہ)
کی وجہ سے کسی خاص نام سے مشہور ہوجائے تو اسے اس نام سے ذکر کرنا جائزہے۔
جیسے رسول اللہ ﷺنے اس صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ذوالیدین (ہاتھوں  والا)
كہہ کر یاد فرمایا کیونکہ اس کے ہاتھ لمبے تھے لیکن اس نام سے پکارنے سے تحقیر ظاہر ہو تو یہ نام نہ لیں بلکہ بہتر نام یے ذکر کریں)

(4)
سلا م کے بعد سجدہ سہو کیا جائے تو اس کے بعد دوبارہ سلام پھیرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1214   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1216  
´سلام سے پہلے سجدہ سہو کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان تم میں سے کسی کے پاس نماز کی حالت میں آتا ہے، اور انسان اور اس کے دل کے درمیان داخل ہو کر وسوسے ڈالتا ہے، یہاں تک کہ آدمی نہیں جان پاتا کہ اس نے زیادہ پڑھی یا کم پڑھی، جب ایسا ہو تو سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرے، پھر سلام پھیرے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1216]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
نماز سب سے اہم عبادت اور بندے کا اللہ سے تعلق قائم کرنے والا عمل ہے۔
اس لئے شیطان کی پوری کوشش ہوتی ہے۔
کہ وہ بندے کو ا س سے فائدہ نہ اٹھانے دے۔

(2)
خیالات کو نماز میں مرکوز کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
پھر بھی اگر توجہ نہ رہے تو جب خیال آئے پھر نماز کی طرف توجہ کرلے۔

(3)
نماز کے دوران میں خیالات کسی اور طرف متوجہ ہوجانے کی وجہ سے بعض اوقات نماز کی رکعات میں شک ہوجاتا ہے۔
اس صورت میں جب فیصلہ کرنا مشکل ہوجائے تو سجدہ سہوکرلینا چاہیے۔

(4)
سجدہ سہو سے بعض مسائل گزشتہ ابواب میں ذکر کیے جا چکے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1216   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1217  
´سلام سے پہلے سجدہ سہو کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک شیطان انسان اور اس کے دل کے درمیان داخل ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ نہیں جان پاتا کہ اس نے کتنی رکعت پڑھی؟ جب ایسا ہو تو سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1217]
اردو حاشہ:
مذکورہ بالا صورت میں سوچنا چاہیے کہ کتنی رکعتیں ہوئی ہیں۔
جس طرف دل زیادہ مائل ہو اسی کوصحیح تعداد سمجھ کرنماز پوری کرے۔
اور آخر میں سجدہ سہو کرے لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ کم تعداد کوصحیح سمجھ کر نماز پوری کرے اور آخر میں سجدہ سہو کرکے سلام پھیر لے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1217   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 394  
´سلام اور کلام کے بعد سجدہ سہو کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سہو کے دونوں سجدے سلام کے بعد کئے۔ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 394]
اردو حاشہ:
1؎:
سفیان ثوری،
اہل کوفہ اور ابو حنیفہ کا قول محض رائے پر مبنی ہے،
جب کہ آئمہ کرام مالک بن انس،
شافعی،
احمد بن حنبل اور بقول امام نووی سلف و خلف کے تمام جمہور علماء مذکور بالا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی صحیح حدیث کی بنیاد پر یہی فتویٰ دیتے اور اسی پر عمل کرتے ہیں،
کہ اگر کوئی بھول کر اپنی نماز میں ایک رکعت اضافہ کر بیٹھے تو اُس کی نماز نہ باطل ہو گی اور نہ ہی فاسد،
بلکہ سلام سے پہلے اگر یاد آ جائے تو سلام سے قبل سہو کے دو سجدے کر لے اور اگر سلام کے بعد یاد آئے تو بھی سہو کے دو سجدے کر لے،
یہی اُس کے لیے کا فی ہے،
اس لیے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایسا ہی کیا تھا اور آپ نے کوئی اور رکعت پڑھ کر اس نماز کو جُفت نہیں بنایا تھا۔
(دیکھئے:
تحفۃ الأحوذی: 1/304طبع ملتان)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 394   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 397  
´آدمی کو نماز پڑھتے وقت کمی یا زیادتی میں شک و شبہ ہو جائے تو کیا کرے؟`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کے پاس شیطان اس کی نماز میں آتا ہے اور اسے شبہ میں ڈال دیتا ہے، یہاں تک آدمی نہیں جان پاتا کہ اس نے کتنی رکعت پڑھی ہیں؟ چنانچہ تم میں سے کسی کو اگر اس قسم کا شبہ محسوس ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ بیٹھے بیٹھے سہو کے دو سجدے کر لے ۱؎۔ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 397]
اردو حاشہ:
1؎:
یقینی بات پر بنا کرنے کے بعد۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 397   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 399  
´غلطی سے ظہر یا عصر کی دو ہی رکعت میں سلام پھیر دینے والے کا حکم۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (ظہر یا عصر کی) دو رکعت پڑھ کر (مقتدیوں کی طرف) پلٹے تو ذوالیدین نے آپ سے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا نماز کم کر دی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا ذوالیدین سچ کہہ رہے ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا: ہاں (آپ نے دو ہی رکعت پڑھی ہیں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور آخری دونوں رکعتیں پڑھیں پھر سلام پھیرا، پھر اللہ اکبر کہا، پھر اپنے پہلے سجدہ کی طرح یا اس سے کچھ لمبا سجدہ کیا، پھر اللہ اکبر کہا اور سر اٹھایا، پ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 399]
اردو حاشہ:
1؎:
اس پر ان کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں،
صرف یہ کمزور دعوی ہے کہ یہ واقعہ نماز میں بات چیت ممنوع ہونے سے پہلے کا ہے،
کیونکہ ذوالیدین رضی اللہ کا انتقال غزوہ بدر میں ہو گیا تھا،
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ واقعہ کسی صحابی سے سن کر بیان کیا،
حالانکہ بدر میں ذوالشمالین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تھی نہ کہ ذوالیدین کی،
نیز ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے صاف صاف بیان کیا ہے کہ میں اس واقعہ میں تھا (جیسا کہ مسلم اور احمد کی روایت میں ہے) پس یہ واقعہ نماز میں بات چیت ممنوع ہونے کے بعد کا ہے۔

2؎:
یہ بات مبنی بر دلیل نہیں ہے اگر بات ایسی ہی تھی تو آپ ﷺ نے اس وقت اس کی وضاحت کیوں نہیں فرما دی،
اصولیین کے یہاں یہ مسلمہ اصول ہے کہ شارع علیہ السلام (نبی اکرم ﷺ) کے لیے یہ جائز نہیں تھا کہ کسی بات کو بتانے کی ضرورت ہو اور آپ نہ بتائیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 399   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1290  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالیدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب میں فرمایا:
(كُلُّ ذٰلِكَ لَمْ يَكُنْ)
دونوں کام ہی نہیں ہوئے اور بخاری میں آیا ہے:
(لَمْ أنسِ وَلَمْ تُقْصَر)
نہ نماز کم ہوئی ہے اور نہ ہی میں بھولا ہوں اس لیے ذوالیدین نے کہا:
(قَدْ كاَنَ بَعْضُ ذٰلِكَ)
کچھ تو ہوچکا ہے اس سے اس قاعدہ کی تائید ہوتی ہے کہ اگر کُلُّ کا لفظ کَانَ منفی سے پہلے آئے تو ہرہر فرد کی نفی ہوتی ہے۔
اور بعد میں آئے (كُلُّ ذٰلِكَ لَمْ يَكُنْ)
تو مجموعہ یعنی سب کی نفی ہوتی ہے۔
یعنی دونوں کام نہیں ہوئے ایک ہوا ہے۔
اورآپﷺ کا فرمانا کہ کوئی کام نہیں ہوا۔
نہ نماز کم ہوئی اور نہ میں بھولا ہوں۔
اپنے نقطہ نظر سے ہے کیونکہ آپﷺ کا تصور یہی تھا میں نے نماز چار رکعت ہی پڑھائی ہے اس لیے اگر کوئی انسان اپنے تصور کی رو سے صحیح سمجھتے ہوئے واقعہ کے خلاف کہہ دے تو اس کو جھوٹا قرار نہیں دیا جائے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1290   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 714  
714. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (چار رکعت والی نماز میں) دو رکعت پڑھ کر علیحدہ ہو گئے۔ آپ سے ذوالیدین ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا نماز کم ہو گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ اللہ کے رسول ﷺ نے لوگوں سے پوچھا: ’‘کیا ذوالیدین سچ کہتا ہے؟ لوگوں نے ہاں میں جواب دیا تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہو گئے اور دو رکعات مزید پڑھ لیں، پھر سلام پھیرا، اس کے بعد تکبیر کہہ کر سجدے میں چلے گئے۔ یہ سجدے پہلے سجدوں کی طرح تھے یا ان سے کچھ طویل تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:714]
حدیث حاشیہ:
یہ باب لاکر امام بخاری ؒ نے شافعیہ کا رد کیا ہے جو کہتے ہیں کہ امام مقتدیوں کی بات نہ سنے، بعض نے کہا کہ امام بخاری ؒ کی غرض یہ ہے کہ اس مسئلہ میں اختلاف اس حالت میں ہے جب امام کو خود شک ہو، لیکن اگر امام کو ایک امر کا یقین ہو تو بالاتفاق مقتدیوں کی بات نہ سننا چاہیے۔
ذو الیدین کا اصلی نام خرباق تھا۔
ان کے دونوں ہاتھ لمبے لمبے تھے اس لیے لوگ ان کو ذو الیدین کہنے لگے۔
اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ درجہ یقین حاصل کرنے کے لیے اور لوگوں سے بھی شہادت لی جا سکتی ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ امر حق کا اظہار ایک ادنٰی آدمی بھی کرسکتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 714   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1228  
1228. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دیا تو آپ سے حضرت ذوالیدین ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا نماز کم ہو گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے (حاضرین سے) پوچھا: ذوالیدین نے صحیح کہا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: جی ہاں۔ تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور مزید دو رکعتیں ادا کیں پھر سلام پھیرا۔ اس کے بعد اللہ أکبر کہا اور پہلے دو سجدوں کی طرح یا اس سے طویل سجدے کیے، پھر اپنا سر مبارک اٹھایا۔ سلمہ بن علقمہ کہتے ہیں: میں نے محمد بن سیرین سے پوچھا: کیا سجدہ سہو کے بعد تشہد ہے؟ انہوں نے فرمایا: حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی اس حدیث میں اس کا ذکر نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1228]
حدیث حاشیہ:
دوسرے مقام پر حضرت امام بخاى ؒ نے دوسرا طریق ذکر کیا ہے۔
جس میں دوسرا سجدہ بھی مذکور ہے، لیکن تشہد مذکورنہیں تو معلوم ہوا کہ سجدہ سہو کے بعد تشہد نہیں ہے۔
چنانچہ محمد بن سیرین سے محفوظ ہے اور جس حدیث میں تشہد مذکور ہے اس کو بیہقی اور ابن عبد الرؤف اور ابن عبد البر وغیرہ نے ضعیف کہا ہے۔
(خلاصہ فتح البارى)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1228   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1232  
1232. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو شیطان آ کر اس کی نماز کو خلط ملط کر دیتا ہے حتی کہ وہ (نمازی) نہیں جانتا اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں۔ جب تم میں سے کوئی ایسی حالت سے دوچار ہو تو بیٹھے بیٹھے دو سہو کے سجدے کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1232]
حدیث حاشیہ:
یعنی نفل نماز میں بھی فرض کی طرح سجدہ سہو کرنا چاہیے یا نہیں۔
پھر ابن عباس ؓ کے فعل اور حدیث مذکور سے ثابت کیا کہ سجدہ سہو کرنا چاہیے اس میں ان پر رد ہے جو اس بارے میں فرض اور نفل نمازوں کا امتیاز کرتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1232   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6051  
6051. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ہمیں ظہر کی دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیر دیا اس کے بعد مسجد کے صحن میں ایک لکڑی کا سہارا لے کر کھڑے ہو گئے اور اس پر اپنا دست مبارک رکھ لیا۔ حاضرین میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر بن خطاب ؓ بھی موجود تھے وہ آپ کی ہیبت کی وجہ سے کچھ نہ کہہ سکے۔ جلد باز لوگ مسجد سے باہر نکل کر چہ مگوئیاں کرنے لگے کہ شاید نماز کم کر دی گئی ہے؟ حاضرین میں ایک آدمی تھا جسے نبی ﷺ ذوالیدین (لمبے ہاتھوں والا) کہا کرتے تھے۔ اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! نہ تو میں بھولا ہوں اور نہ نماز ہی کم ہوئی ہے۔ صحابہ کرام‬ ؓ ن‬ے کہا: اللہ کے رسول! آپ بھول گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ذوالیدین نے صحیح کہا ہے۔ چنانچہ آپ کھڑے ہوئے دو رکعتیں پڑھیں اور سلام پھیرا۔ پھر آپ نے اللہ أکبر کہا اور نماز کے سجدے کی طرح سجدہ کیا بلکہ اس سے بھی لمبا سجدہ کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6051]
حدیث حاشیہ:
بس اس کے بعد قعدہ نہیں کیا نہ دوسرا سلام پھیرا جیسا کہ بعض کیا کرتے ہیں اس حدیث سے یہ بھی نکلتا ہے کہ بھولے سے اگر نماز میں بات کرلے یہ سمجھ کر نماز پوری ہو گئی تو نماز فاسد نہیں ہوتی مگر بعض لوگ اس کے بھی خلاف کرتے ہیں۔
حدیث میں ایک شخص کو لمبے ہاتھوں والا کہا گیا سو ایسا ذکر جائز ہے بشر طیکہ اس کی تحقیر کرنا مقصود نہ ہو اگر کہے کہ ذوالیدین حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے زیادہ بہادر ہو گیا یہ کیونکر ہو سکتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ذوالیدین ایک عامی آدمی تھا ایسے لوگ بے تکلفی برت جاتے ہیں لیکن مقرب لوگ بہت ڈرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ اللہ سے ڈرتے اور سب سے زیادہ عبادت کرنے والے اور بڑی محنت اٹھانے والے تھے (صلی اللہ علیہ وسلم)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6051   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7250  
7250. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے دو رکعت پر سلام پھیر دیا تو ذوالیدین ؓ نے آپ سے پوچھا: اللہ کے رسول! نماز کم کر دی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ آپ نےفرمایا: کیا ذوالیدین صحیح کہتے ہیں؟ صحابہ نے کہا: جی ہاں۔ پھر رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور آخری دو رکعات ادا کیں پھر اسلام پھیرا اس کے بعد اللہ اکبر کہا اور سجدہ کیا عام نماز کے سجدے جیسا یا اس سے طویل پھر آپ نے سر اٹھایا اور پھر تکبیر کہی اور نماز کے سجدے جیسا سجدہ کیا، پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7250]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ آپ نے ذوالیدین اکیلے شخص کی خبر کو قابل عمل جان کر منظور کر لیا اور تصدیق مزید کے لیے دوسرے لوگوں سے بھی دریافت فرما لیا۔
اگر ایک شخص کی خبر قابل عمل نہ ہوتی تو آپ ذوالییدین کے کہنے پر کچھ خیال ہی نہ فرماتے‘ اس سے خبر واحد کی دوسروں سے تصدیق کر لینا بھی ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7250   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:482  
482. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں زوال کے بعد کی نمازوں میں سے کوئی نماز پڑھائی اور دو رکعت پڑھا کر سلام پھیر دیا۔ اس کے بعد مسجد میں گاڑھی ہوئی ایک لکڑی کی طرف گئے اور اس پر ٹیک لگا لی، گویا آپ ناراض ہوں اور اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ لیا اور اپنی انگلیوں کو ایک دوسری میں داخل فرمایا اور اپنا دایاں رخسار بائیں ہتھیلی کی پشت پر رکھ لیا۔ جلد باز لوگ تو مسجد کے دروازوں سے نکل گئے اور مسجد میں حاضر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا: کیا نماز کم ہو گئی ہے؟ ان لوگوں میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ بھی موجود تھے، مگر ان دونوں نے آپ سے گفتگو کرنے سے ہیبت محسوس کی۔ ایک شخص جس کے ہاتھ کچھ لمبے تھے اور اسے ذوالیدین کہا جاتا تھا، کہنے لگا: اللہ کے رسول! کیا آپ بھول گئے ہیں یا نماز کم ہو گئی ہے؟ آپ نے فرمایا: نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز ہی کم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:482]
حدیث حاشیہ:

پہلی حدیث میں واقد اپنے والد محمد بن زید سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے عبداللہ بن عمر یا عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی انگلیوں کو انگلیوں میں ڈالا۔
اس روایت میں یہ شک تھا کہ ابن عمر ؓ سے بیان کی گئی ہے یا عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے؟امام بخاری ؒ نے اس شک کو دور کرنے کے لیے نیز تشبیک کی وجہ بتانے کے لیے دوسری روایت بیان کی کہ عاصم بن محمد نے یہ روایت اپنے والد محمد بن زید سے سنی، لیکن وہ اسے یاد نہ رہی، پھران کی بھائی واقد بن محمد نے ٹھیک ٹھیک طریقے پر محمد بن زید ہی سے روایت بیان کی کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ نے کہا:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اے عبداللہ! اس وقت تمہاری کیا حالت ہوگی جب تم ایسے لوگوں کے درمیان رہ جاؤ گے جو کوڑے کرکٹ اور بھوسے کی طرح ہوں گے؟ اس روایت سے شک دور ہوگیا کہ اسے بیان کرنے والے عبداللہ بن عمرؓ نہیں بلکہ عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ ہیں۔
پھر تشبیک کی وجہ بھی معلوم ہوگئی کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مضمون سمجھانے کے لیے تمثیل کے طور پر انگلیوں کوانگلیوں میں ڈالا۔
چنانچہ یہ روایت امام حمیدی ؒ کی کتاب الجمع بین الصحیحین میں بایں اضافہ نقل ہوئی ہے کہ ان ردی اور بے کار لوگوں کا حال یہ ہوگا کہ ان کے عہد وپیمان اور ان کی امانتیں تباہ ہوچکی ہوں گی اور وہ اس طرح ہوگئے ہوں گے، پھر آپ نےاس طرح کی وضاحت کے لیے اپنی انگلیوں کوقینچی بنایا۔
(فتح الباری: 732/1)

بعض روایات میں تشبیک کی ممانعت ہے۔
حضرت کعب بن عجرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جب تم میں سے کوئی وضو کرتا ہے اور اسے اچھی طرح بناتا ہے،پھر مسجد کی طرف جانے کی نیت لے کر گھر سے نکلتاہے تو وہ اپنی انگلیوں میں انگلیاں نہ ڈالے کیونکہ وہ نماز ہی میں ہے۔
(جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 386)
ابن ابی شیبہ میں مزید وضاحت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے توتشبیک نہ کرے کیونکہ یہ عمل شیطان کے اثر سے ہوتا ہے۔
لیکن اس کی سند میں ضعیف اور مجہول راوی ہیں۔
امام بخاری ؒ نے یہ عنوان اس لیے قائم کیا ہے کہ جن روایات میں تشبیک کی ممانعت ہے۔
ان کی صحت محل نظر ہے یا وہ ممانعت حالت نماز پر محمول ہے، نیز اگر کسی صحیح مقصد کے پیش نظر کبھی ایسا کرلیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
جیسا کہ پہلی حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک مقصد کی وضاحت کے لیے تشبیک فرمائی۔
امام بخاری ؒ نے ابو موسیٰ اشعری ؓ کی روایت سے ثابت کیا کہ ایسا کرنا مطلق طور پر جائز ہے۔
پھر حدیث ابوہریرہ ؓ سے ثابت فرمایا کہ مسجد میں ایسا عمل کیا جاسکتا ہے۔
اس بنا پر ابن منیر نے کہا ہے کہ ان احادیث میں کوئی تعارض نہیں، کیونکہ منع کی روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ فضول اور بے کار طور پر ایسا کرنا منع ہے، اگر کسی حکمت کے پیش نظر ایسا کیا جائے تو جائز ہے، مثلاً:
اپنے مدعا کی وضاحت کے لیے جیسا کہ عبداللہ بن عمرو ؓ کی حدیث میں ہے، یا تفہیم کے لیے تمثیل کے طور پر معنویات کو محسوسات میں تبدیل کرنے کے لیے ایسا کیاجائے۔
جیسا کہ ابوموسیٰ اشعری ؓ کی روایت میں ہے کہ آپ نے مسلمانوں کو باہم شیر وشکر رہنے کے متعلق بیان فرمایا، پھر ہاتھوں کو قینچی بناکر بتایا کہ مسلمان باہمی طور پر ایسےملے جلے رہتے ہیں جس طرح عمارت کے پتھر ایک دوسرے کو اٹھائے رہتے ہیں، یاگہرے غور وخوض کی وجہ سے بے ساختہ ایسا ہوجائے۔
جیسا کہ ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں ہے ایسے حالات میں تشبیک کی ممانعت نہیں ہے۔
نوٹ:
۔
حدیث ابوہریرہ ؓ سےمتعلق دیگر مباحث اپنے مقام پر آئیں گے۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 482   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:714  
714. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (چار رکعت والی نماز میں) دو رکعت پڑھ کر علیحدہ ہو گئے۔ آپ سے ذوالیدین ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا نماز کم ہو گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ اللہ کے رسول ﷺ نے لوگوں سے پوچھا: ’‘کیا ذوالیدین سچ کہتا ہے؟ لوگوں نے ہاں میں جواب دیا تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہو گئے اور دو رکعات مزید پڑھ لیں، پھر سلام پھیرا، اس کے بعد تکبیر کہہ کر سجدے میں چلے گئے۔ یہ سجدے پہلے سجدوں کی طرح تھے یا ان سے کچھ طویل تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:714]
حدیث حاشیہ:
فقہی نکتۂ نظر سے یہاں شک وسہو کے لیے باب قائم کرنے کا موقع نہیں، کیونکہ اس کے لیے سہو کا باب الگ آئندہ آئے گا۔
امام بخاری ؒ نے اس لیے یہاں ذکر کیا کہ امام اور مقتدی کے مسائل چل رہے ہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ نے علامہ ابن منیر ؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس مسئلے میں محل اختلاف اس صورت میں ہے جب امام کو بھی شک ہو۔
اس کے برعکس اگر امام کو اپنے فعل پر یقین ہوتو پھر کسی مقتدی کے قول کا اعتبار نہیں ہوگا۔
(فتح الباري: 266/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 714   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:715  
715. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے (ایک دفعہ) ظہر کی نماز دو رکعت پڑھ دی۔ آپ سے کہا گیا کہ آپ نے دو رکعات پڑھی ہیں۔ اس کے بعد آپ نے دو رکعت اور پڑھ لیں، پھر سلام پھیر کر دو سجدے (سہو) کیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:715]
حدیث حاشیہ:
مسائل سہو آئندہ کتاب السهو میں بیان ہوں گے۔
بإذن الله تعالیٰ
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 715   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1227  
1227. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ہمیں ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو ذوالیدین نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا نماز میں کمی کر دی گئی ہے؟ نبی ﷺ نے اپنے اصحاب سے دریافت کیا: آیا ذوالیدین صحیح کہتا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: ہاں (صحیح کہتا ہے)۔ اس کے بعد آپ نے دو رکعتیں مزید پڑھیں، پھر دو سجدے کیے۔ (راوی حدیث) سعد بن ابراہیم کہتے ہیں: میں نے عروہ بن زبیر ؓ کو دیکھا، انہوں نے نماز مغرب کی دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا، پھر گفتگو بھی کی، اس کے بعد بقیہ نماز ادا کی اور دو سجدے کیے اور فرمایا کہ نبی ﷺ نے بھی ایسے کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1227]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ اگر کسی نے نماز ظہر یا عصر شروع کی، لیکن نادانستہ طور پر دوسری یا تیسری رکعت پر سلام پھیر دیا تو اس کی تلافی بایں طور ہو سکتی ہے کہ فوراً یاد آنے پر بقیہ نماز ادا کرے اور نماز کے سجدے کی طرح یا اس سے بھی طویل دو سجدے بطور سہو کرے۔
لیکن اس سلسلے میں جو روایت پیش کی ہے اس میں دوسری یا تیسری رکعت پر سلام پھیرنے کا ذکر نہیں ہوتا، تاہم دیگر روایات میں اس کی تفصیل ہے، چنانچہ صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دوسری رکعت کے بعد سلام پھیر دیا تھا۔
(حدیث: 1228)
اسی طرح صحیح مسلم میں حضرت عمران بن حصین ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ نماز عصر میں تیسری رکعت پر سلام پھیر دیا تھا۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1293(574)
نماز جیسے یا اس سے بھی طویل دو سجدے کرنے کا ذکر بھی صحیح بخاری میں ہے۔
(صحیح البخاري، السھو، حدیث: 1228) (2)
سجدۂ سہو سلام سے پہلے ہو یا بعد میں، اس میں اختلاف ہے۔
ہم یہاں شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ کی تحقیق نقل کرتے ہیں۔
وہ فرماتے ہیں:
سلام سے پہلے سجدۂ سہو کرنے کے دو مقام ہیں:
٭ جب نماز میں کسی قسم کی کمی ہو جائے، جیسا کہ عبداللہ ابن بحینہ ؓ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ سہواً درمیانی تشہد چھوڑ دیا تھا تو آپ نے سلام سے پہلے دو سجدے کیے۔
یہ حدیث:
(1224)
پہلے گزر چکی ہے۔
٭ جب دوران نماز میں تعداد رکعات کے متعلق شک پڑ جائے اور کسی ایک جانب رجحان نہ ہو سکے تو یقین پر بنیاد رکھتے ہوئے نماز کو مکمل کیا جائے، پھر سلام سے پہلے سہو کے دو سجدے کیے جائیں۔
جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1272(671)
اسی طرح سلام کے بعد سجدۂ سہو کرنے کے بھی دو مقام ہیں:
٭ اگر نماز میں کسی قسم کا اضافہ ہو جائے تو سلام کے بعد دو سجدے کیے جائیں، پھر دوبارہ سلام پھیرا جائے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی حدیث میں ہے۔
(صحیح البخاري، السھو، حدیث: 1226)
اس حدیث کے مطابق حکم عام ہے قطع نظر اس کے کہ نماز میں اضافے کا علم دوران نماز میں ہو یا سلام کے بعد۔
چونکہ نماز ظہر کی پانچ رکعت پڑھنے پر سجدۂ سہو کیا گیا ہے اور حدیث میں اس کی وضاحت نہیں کہ آپ کو سلام کے بعد اضافے کا علم ہوا تھا، اس لیے آپ نے سلام کے بعد دو سجدے کیے ہیں۔
اس بنا پر مطلق طور پر اضافے کی صورت میں سلام کے بعد سجدۂ سہو کرنا مناسب ہے۔
٭ اگر دوران نماز تعداد رکعات کے متعلق شک پڑ جائے اور کوشش و تحری سے ایک جانب رجحان ہو جائے تو اس صورت میں بھی سلام کے بعد ہی سجدۂ سہو کرنا ہو گا، جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک پڑ جائے تو وہ درستی کی کوشش کرتے ہوئے اپنی نماز مکمل کرے، پھر سلام پھیر کر آخر میں دو سجدے کرے۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 401) (3)
اگر نماز میں دو سہو ہو جائیں ایک کا تقاضا سلام سے پہلے کا ہو اور دوسرے کا تقاضا سلام کے بعد کا تو سلام سے پہلے ہی دو سجدے کیے جائیں، مثلاً:
ایک شخص نماز ظہر پڑھتے ہوئے اپنے خیال کے مطابق دوسری رکعت کے بعد، جو در حقیقت تیسری تھی، تشہد بیٹھ گیا۔
تشہد سے کھڑا ہوا تو اسے یاد آیا کہ وہ دو رکعتوں کے بعد تشہد بھول گیا تھا اور دوسری کی بجائے تیسری کے بعد اس نے تشہد کیا ہے جو کہ زائد ہے اور اب اس کی چوتھی رکعت ہے تو وہ اپنی یہ رکعت مکمل کر کے سجدۂ سہو کر کے سلام پھیر دے۔
اس صورت میں تشہد اول ترک کرنے کی وجہ سے سلام سے پہلے سجدۂ سہو ہے اور تیسری رکعت میں جلوس کا اضافہ کرنے کی وجہ سے سلام کے بعد سہو ہے، لیکن سلام سے پہلے سجدۂ سہو کو ترجیح دی جائے گی۔
(سجودالسھو للشیخ محمد بن صالح العثیمین)
الغرض سجدۂ سہو سلام سے پہلے یا بعد دونوں طرح جائز ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے دونوں طرح ثابت ہے، البتہ افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ ان سجدوں کے جو اسباب سلام سے پہلے کسی فعل کے ساتھ مقید ہوں، وہاں سلام سے پہلے سجدے کیے جائیں اور جہاں سلام کے بعد مقید ہوں وہاں سلام کے بعد کیے جائیں اور جن اسباب کی ان دونوں میں سے کسی کے ساتھ بھی قید نہ ہو ان میں زیادتی اور نقصان کو دیکھے بغیر نمازی کو سلام سے پہلے اور بعد میں سجدے کرنے کا اختیار ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1227   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1228  
1228. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دیا تو آپ سے حضرت ذوالیدین ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا نماز کم ہو گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے (حاضرین سے) پوچھا: ذوالیدین نے صحیح کہا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: جی ہاں۔ تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور مزید دو رکعتیں ادا کیں پھر سلام پھیرا۔ اس کے بعد اللہ أکبر کہا اور پہلے دو سجدوں کی طرح یا اس سے طویل سجدے کیے، پھر اپنا سر مبارک اٹھایا۔ سلمہ بن علقمہ کہتے ہیں: میں نے محمد بن سیرین سے پوچھا: کیا سجدہ سہو کے بعد تشہد ہے؟ انہوں نے فرمایا: حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی اس حدیث میں اس کا ذکر نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1228]
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ آگے بڑھے اور بقیہ نماز ادا کی، پھر سلام پھیرا، اس کے بعد الله أكبر کہا اور سابقہ سجدوں کی طرح یا اس سے طویل سجدہ کیا، پھر اپنا سر مبارک اٹھایا اور اللہ أکبر کہا، پھر اللہ أکبر کہتے ہوئے سجدہ کیا اس کے بعد اپنا سر مبارک اٹھایا۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے بعض اوقات سوال کیا جاتا کہ پھر آپ نے سلام پھیرا؟ تو فرماتے کہ مجھے عمران بن حصین ؓ کی طرف سے خبر دی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے بعد سلام پھیرا۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 482)
چنانچہ صحیح مسلم کی حضرت عمران بن حصین ؓ سے مروی حدیث میں صرف سلام پھیرنے کا ذکر ہے تشہد پڑھنے کا ذکر نہیں۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1293(574)
لیکن اشعث بن عبدالملک کی روایت میں تشہد پڑھنے کا ذکر ہے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1039)
لیکن محدثین نے اس روایت میں تشہد پڑھنے کے ذکر کو شاذ قرار دیا ہے اور اس روایت کو محفوظ قرار دیا ہے جس میں صرف سلام پھیرنے کا ذکر ہے۔
(فتح الباري: 128/3)
اسی طرح حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے مروی حدیث میں تشہد پڑھنے کا ذکر ہے۔
(السنن الکبرٰی للبیھقي: 355/2)
اور حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ایک حدیث میں بھی تشہد پڑھنے کا ذکر ہے۔
(مسندأحمد: 428/8)
لیکن حافظ ابن حجر ؒ نے ان دونوں روایات کو ضعیف قرار دیا ہے۔
(فتح الباري: 129/3)
صحیح روایات میں سجدۂ سہو کے بعد تشہد پڑھے بغیر سلام پھیرنے کا ذکر ہے، لہذا اسی کو اختیار کرنا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1228   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1232  
1232. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو شیطان آ کر اس کی نماز کو خلط ملط کر دیتا ہے حتی کہ وہ (نمازی) نہیں جانتا اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں۔ جب تم میں سے کوئی ایسی حالت سے دوچار ہو تو بیٹھے بیٹھے دو سہو کے سجدے کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1232]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ حدیث میں لفظ صلاۃ مطلق ہے جو ہر قسم کی نماز پر مشتمل ہے، خواہ فرض ہو یا نفل۔
اس بنا پر ہر قسم کی نماز میں بھول چوک ہونے پر سجدۂ سہو کرنا ہو گا۔
لیکن دوسرے حضرات کہتے ہیں کہ یہ محض اشتراک لفظی ہے، کیونکہ فرض اور نوافل کی شرائط میں واضح فرق ہے، نیز حدیث کے سابقہ طریق میں اذان اور تکبیر کا ذکر ہے اور فرض نماز کے لیے ہی اس قسم کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
لیکن راجح موقف یہی ہے کہ ہر قسم کی نماز میں سجدۂ سہو کرنا چاہیے، کیونکہ اس کے اسباب و مقاصد تو ہر قسم کی نماز میں ہوتے ہیں۔
(فتح الباري: 136/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1232   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6051  
6051. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ہمیں ظہر کی دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیر دیا اس کے بعد مسجد کے صحن میں ایک لکڑی کا سہارا لے کر کھڑے ہو گئے اور اس پر اپنا دست مبارک رکھ لیا۔ حاضرین میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر بن خطاب ؓ بھی موجود تھے وہ آپ کی ہیبت کی وجہ سے کچھ نہ کہہ سکے۔ جلد باز لوگ مسجد سے باہر نکل کر چہ مگوئیاں کرنے لگے کہ شاید نماز کم کر دی گئی ہے؟ حاضرین میں ایک آدمی تھا جسے نبی ﷺ ذوالیدین (لمبے ہاتھوں والا) کہا کرتے تھے۔ اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! نہ تو میں بھولا ہوں اور نہ نماز ہی کم ہوئی ہے۔ صحابہ کرام‬ ؓ ن‬ے کہا: اللہ کے رسول! آپ بھول گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ذوالیدین نے صحیح کہا ہے۔ چنانچہ آپ کھڑے ہوئے دو رکعتیں پڑھیں اور سلام پھیرا۔ پھر آپ نے اللہ أکبر کہا اور نماز کے سجدے کی طرح سجدہ کیا بلکہ اس سے بھی لمبا سجدہ کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6051]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی میں کوئی اضافی صفت ہو تو اس کا ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس کی توہین یا عیب جوئی مقصود نہ ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لمبے ہاتھوں والے کو ذوالیدین کہا اگرچہ کچھ اہل علم اس معاملے میں تشدد کرتے ہیں اور ایسے اوصاف بیان کرنے کو ناجائز کہتے ہیں، چنانچہ حسن بصری رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ وہ حمید "الطّویل" کو غیبت میں شمار کرتے تھے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک عورت آئی تو انھوں نے ہاتھ کے اشارے سے اس کے پست قد کو بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تونے اس کی غیبت کی ہے۔
(مسند أحمد: 136/6)
لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ اگر ایسا اشارہ یا کنایہ اس کی شناخت کے لیے ہو تو جائز ہے اور اگر شناخت کے بجائے اس کی توہین وتحقیر مقصود ہوتو جائز نہیں۔
واللہ أعلم (فتح الباري: 575/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6051   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7250  
7250. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے دو رکعت پر سلام پھیر دیا تو ذوالیدین ؓ نے آپ سے پوچھا: اللہ کے رسول! نماز کم کر دی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ آپ نےفرمایا: کیا ذوالیدین صحیح کہتے ہیں؟ صحابہ نے کہا: جی ہاں۔ پھر رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور آخری دو رکعات ادا کیں پھر اسلام پھیرا اس کے بعد اللہ اکبر کہا اور سجدہ کیا عام نماز کے سجدے جیسا یا اس سے طویل پھر آپ نے سر اٹھایا اور پھر تکبیر کہی اور نماز کے سجدے جیسا سجدہ کیا، پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7250]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالیدین کی خبر واحد کو تسلیم کیا۔
مزید تسلی کے لیے دوسروں سے دریافت فرمایا:
اگر ایک شخص کی خبر قابل عمل نہ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالیدین کی بات کو خاطر میں نہ لاتے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خبر واحد کی دوسروں سے تصدیق کر لینا بھی درست ہے۔
واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالیدین کی خبر کو رد نہیں کیا بلکہ توثیق کے لیے دوسرے سے پوچھا کیونکہ وہ بیان کرنے میں اکیلا تھا ممکن تھا کہ وہ اس میں غلطی کر گیا ہو۔
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی توثیق فرمائی اور بنیادی طور پر اسی کی بات کو قابل عمل ٹھہرایا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7250   


حدیث نمبر: 134
81- مالك عن ابن شهاب عن عبد الرحمن الأعرج عن عبد الله بن بحينة أنه قال: صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين ثم قام فلم يجلس فقام الناس معه. فلما قضى صلاته وانتظرنا تسليمه كبر، فسجد سجدتين وهو جالس قبل السلام، ثم سلم.
سیدنا عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے (اور تشہد کے لئے) نہ بیٹھے تو لوگ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کی اور ہم آپ کے سلام کا انتظار کرنے لگے تو آپ نے تکبیر کہی اور دو سجدے سلام سے پہلے بیٹھے ہوئے کئے پھر آپ نے سلام پھیرا ۔
تخریج الحدیث: «81- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 96/1 ح 214، ك 3 ب 17 ح 65) التمهيد 183/10، الاستذكار: 184،185، و أخرجه البخاري (1224) ومسلم (570) من حديث مالك به.»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 134 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 134  
´نمازی پہلے تشہد میں سہواً کھڑا ہو جائے تو اسے بیٹھنا نہیں چاہئے`
«. . . عن عبد الله بن بحينة انه قال: صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين ثم قام فلم يجلس فقام الناس معه. فلما قضى صلاته وانتظرنا تسليمه كبر، فسجد سجدتين وهو جالس قبل السلام، ثم سلم . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے (اور تشہد کے لئے) نہ بیٹھے تو لوگ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کی اور ہم آپ کے سلام کا انتظار کرنے لگے تو آپ نے تکبیر کہی اور دو سجدے سلام سے پہلے بیٹھے ہوئے کئے پھر آپ نے سلام پھیرا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 134]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1224، و مسلم 570، من حديث مالك به]

تفقه
➊ مخلوقات میں سے کوئی بھی وہم اور نسیان سے محفوظ نہیں ہے سوائے اس کے جسے اللہ محفوظ رکھے۔
➋ اگر نمازی پہلے تشہد میں سہواً کھڑا ہو جائے تو اسے بیٹھنا نہیں چاہئے بلکہ نماز مکمل کر کے آخر میں سجدہ سہو یعنی دو سجدے سلام سے پہلے یا بعد میں کر لینے چاہئیں۔ اگر کوئی شخص ایسی حالت میں کھڑا ہو جانے کے بعد بیٹھ جائے تو جمہور علماء کے نزدیک اس کی نماز فاسد نہیں ہوتی۔ دیکھئے: [التمهيد 10/185]
➌ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے تو تیسری رکعت میں (تشہد کے بغیر) کھڑے ہو گئے۔ لوگوں نے سبحان اللہ کہا: تو آپ نہیں بیٹھے بلکہ لوگوں کو کھڑے ہونے کا اشارہ کیا پھر نماز پڑھ کر (آخر میں) دو سجدے کئے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 34/2 ح4493 و سنده صحيح]
اس مفہوم کی مفصل روایت سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے بھی ثابت ہے۔ دیکھئے: [المستدرك 1/325 ح1214]، [والاوسط لابن المنذر 3/288 وسنده صحيح]
➍ سجدہ سہو میں ایک طرف سلام پھیرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہے۔
➎ اگر امام نماز میں بھول جائے اور بعد میں سجدہ سہو بھی بھول جائے تو حکم بن عتیبہ کے نزدیک مقتدیوں کو سجدہ سہو کرنا چاہئیے اور حماد بن ابی سلیمان کے نزدیک ان پر سجدہ سہو نہیں ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 2/39 ح4525 وسنده صحيح]
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث صحيح بخاري [1226]، صحيح مسلم [572] سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر امام سجدہ سہو بھول جائے تو سلام پھیرنے کے بعد بھی وہ دو سجدے (لوگوں کے ساتھ) کر لے۔
➏ اس پر علماء کا اجماع ہے کہ نماز میں رکوع، سجود، قیام اور آخری جلسہ فرض ہے۔ [التمهيد 10/189] لہٰذا ان میں سے جو رہ گیا تو رکعت رہ گئی، اس رکعت کا اعادہ کرنا پڑے گا۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 81   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ
الشیخ عمر فاروق سعیدی حفظ اللہ
الشیخ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ
مولانا عطا اللہ ساجد حفظ اللہ
محمد ابراہیم بن بشیر حفظ اللہ
شیخ الحدیث مولانا عبد العزیز علوی حفظ اللہ
مولانا داود راز رحمہ اللہ
الشیخ عبدالستار الحماد حفظ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 137  
´اگر آدمی نماز میں بھول جائے تو کیا کرے`
«. . . 489- وعن يحيى بن سعيد عن عبد الرحمن الأعرج عن عبد الله بن بحينة أنه قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قام من اثنتين من الظهر لم يجلس فيهما، فلما قضى صلاته سجد سجدتين ثم سلم بعد ذلك. . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی دو رکعتوں کے بعد (تشہد میں) بیٹھے بغیر کھڑے ہو گئے۔ جب نماز مکمل ہوئی تو دو سجدے کئے پھر ان کے بعد سلام پھیرا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 137]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1225، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ اگر نماز میں بھول جائیں تو دو سجدے کئے جاتے ہیں جنھیں سجدہ سہو بھی کہا جاتا ہے۔
➋ سجدۂ سہو دونوں طرف سلام پھیرنے سے پہلے بھی جائز ہے اور بعد میں بھی۔ نیز دیکھئے: [الموطأ ح128، 156،البخاري 1228، مسلم 573/97]
➌ بعض لوگ تشہد پڑھ کر صرف ایک طرف سلام پھیرتے ہیں، یہ ثابت نہیں ہے۔
➍ شیعوں کے ایک مشہور امام ابن بابویہ القمی (متوفی 381ھ) لکھتے ہیں: «إن الغلاة والمفوضة لعنهم الله ينكرون سهو النبى صلّى الله عليه وآله وسلم يقولون لو جاز أن يسهو عليه السلام فى الصلاة جاز أن يسهو فى التبليغ لأن الصلوة عليه فريضة كما أن التبليغ عليه فريضة وهذا لا يلزمنا۔۔۔ وليس سهو النبى صلّى الله عليه وآله وسلم كسهونا لأن سهوه من الله عزوجل وإنما أسهاه ليعلم أنه بشر مخلوق فلا يتخذ ربًا معبودًا دونه وليعلم الناس يسهوه حكم السهو متي سهوا وسهونا عن الشيطان۔۔۔»
اللہ غالیوں اور مفوضہ پر لعنت کرے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سہو کا انکار کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اگر آپ علیہ السلام سے نماز میں سہو ہونا جائز ہے تو تبلیغ میں سہو ہونا بھی جائز ہے کیونکہ آپ پر جس طرح تبلیغ فرض ہے اُسی طرح نماز بھی فرض ہے۔ اور یہ ہمیں لازم نہیں آتا۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سہو ہماری سہو کی طرح نہیں ہے کیونکہ آپ کا بھولنا تو اللہ عزوجل کی طرف سے ہے اور اس نے آپ کو صرف اس لئے بھلایا گیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ آپ بشر، مخلوق ہیں تاکہ آپ کو اللہ کے علاوہ رب معبود نہ بنا لیا جائے اور لوگوں کو جب سہو ہو تو آپ کے سہو سے سہو کا حکم معلوم ہو جائے اور ہمارا بھولنا شیطان کی طرف سے ہے۔۔۔ [من لا يحضره الفقيه ج1 ص234]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 489   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1179  
´پہلا تشہد بھول کر چھوڑ دینے کا بیان۔`
ابن بحینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، تو دوسری رکعت میں کھڑے ہو گئے، لوگوں نے سبحان اللہ کہا، لیکن آپ نے نماز جاری رکھی، اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو دو سجدہ کیا، پھر سلام پھیرا۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1179]
1179۔ اردو حاشیہ:
➊ اس واقعے سے جمہور علماء نے استدلال کیا ہے کہ پہلا تشہد فرض نہیں۔ اگر فرض ہوتا تو صحابہ کے توجہ دلانے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوٹ آتے مگر آپ کا آگے جاری رہنا اور آخر میں سجدۂ سہو کرنا دلیل ہے کہ یہ فرض نہیں، جبکہ بعض علمائے محققین کے نزدیک پہلا تشہد بھی واجب ہے۔ ہاں اگر بھول کر رہ جائے تو اس واجب کی سجودِ سہو سے تلافی ہو سکتی ہے جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے ظاہر ہوتا ہے، نیز سنن ابوداود میں اس کا حکم منقول ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیئی الصلاۃ کو فرمایا تھا: «جلَستَ في وَسَطِ الصَّلاةِ فاطمَئنَّ وافتَرِشْ فَخِذَكَ اليُسرى، ثمَّ تَشهَّدْ……» جب تم نماز کے دوران میں بیٹھو تو اطمینان سے بیٹھو اور اپنی بائیں ران بچھا لو، پھر تشہد پڑھو…… [سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 860] اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ثم إذا قمتَ فمثلُ ذلكَ حتى تفرغَ من صلاتِك» پھر جب کھڑے ہو تو پہلے کی طرح کرو حتیٰ کہ اپنی نماز سے فارغ ہو جاؤ۔ ائمہ میں سے امام لیث، اسحاق بن راہویہ، مشہور قول کے مطابق امام احمد بھی اسی کے قائل ہیں۔ امام شافعی کا ایک قول بھی یہی ہے، اور احناف سے بھی وجوب کی ایک روایت ملتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [فتح الباري: 310/2، تحت حدیث: 829، و ذخیرة العقبیٰ، شرح سنن النسائي: 144، 143/11]
➋ اگر کوئی رکن رہ جائے، مثلاً: رکوع تو واپس لوٹنا ضروری ہے یا آخر میں پوری رکعت دہرانی پڑے گی۔ البتہ یہ اس وقت ہے جب بھول کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اگر کوئی بھول کر سیدھا کھڑا ہو جائے اور اسے یاد آ جائے تو واپس نہ لوٹے بلکہ آخر میں سہو کے دو سجدے کر لے، پھر سلام پھیرے اور اگر ابھی تھوڑا سا اٹھا تھا، یعنی بیٹھنے کے قریب تھا، ابھی ٹانگیں سیدھی نہیں ہوئی تھیں کہ یاد آگیا تو بیٹھ جائے اور تشہد پڑھے۔ سجدۂ سہو کی ضرورت نہیں، البتہ اگر آخری تشہد بھول کر کھڑا ہو جائے تو جب بھی یاد آئے، واپس لوٹے اور آخر میں سجدۂ سہو کرے۔
➌ اس میں احناف کا رد ہے جو کہ ایک سلام کے بعد سجدۂ سہو کرتے ہیں۔
➍ مقتدی بھی امام کے ساتھ سجدۂ سہو کرے گا اگرچہ مقتدی کو سہو نہ ہوا ہو، صرف امام ہی کو ہوا ہو۔
➎ سجدۂ سہو کے بعد تشہد نہیں۔ (سجود سہو کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب السہو کا ابتدائیہ)
➏ بتقاضائے بشریت انبیاء علیہم السلام کو بھی سہو اور نسیان لاحق ہوا ہے لیکن وحی کے پہنچانے میں قطعا نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1179   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1224  
´جو شخص دو رکعت کے بعد بھول کر کھڑا ہو جائے اور تشہد نہ پڑھے وہ کیا کرے؟`
عبداللہ ابن بحینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں کھڑے ہو گئے حالانکہ آپ کو تشہد کے لیے بیٹھنا چاہیئے تھا، تو آپ نے سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے دو سجدے کئے۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1224]
1224۔ اردو حاشیہ: مذکورہ احادیث میں سجود و سہو سلام سے پہلے کرنے کا ذکر ہے لیکن اہل علم کا اس مسئلے کی بابت دیگر احادیث میں مختلف طریقے بیان ہونے کی وجہ سے اختلاف ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے اس مسئلے کے متعلق اہل علم کے آٹھ اقوال نقل کیے ہیں جس کی تفصیل اسی کتاب کے ابتدائیے میں گزر چکی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1224   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1034  
´دو رکعت پر بغیر تشہد پڑھے اٹھ جائے تو کیا سجدہ سہو کرے؟`
عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو دو رکعت پڑھائی، پھر کھڑے ہو گئے اور قعدہ (تشھد) نہیں کیا تو لوگ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے، پھر جب آپ نے اپنی نماز پوری کر لی اور ہم سلام پھیرنے کے انتظار میں رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے الله أكبر کہہ کر دو سجدے کئے پھر سلام پھیرا۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1034]
1034۔ اردو حاشیہ:
➊ مقتدیوں پر امام کی اقتداء واجب ہے، خواہ وہ بھو ل رہا ہو۔ امام کو متنبہ کرنا ان کا شرعی حق ہے۔
➋ درمیانی تشہد رہ جائے تو سجدہ سہو سے اس کی تلافی ہو جاتی ہے۔
➌ راوی حدیث حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے والد کا نام مالک اور بحینہ ان کی والدہ کا نام ہے۔ اس لئے محدث جب ان کا پورا نام عبدا للہ بن مالک بن بحینہ لکھتے ہیں تو ابن بحینہ کے شروع میں ہمزہ ضرور لکھتے ہیں تاکہ معلوم رہے کہ یہ عبداللہ کی صفت ہے نہ کہ مالک کی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1034   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 262  
´سجود سہو وغیرہ کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نماز ظہر پڑھائی تو دو رکعت ادا کر کے تشہد میں نہ بیٹھے اور سیدھے کھڑے ہو گئے اور مقتدی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی کھڑے ہو گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کر لی تو لوگ سلام پھیرنے کے انتظار میں تھے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھے ہی «الله اكبر» کہا اور سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا۔
اسے ساتوں یعنی احمد، بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ البتہ یہ الفاظ بخاری کے ہیں اور مسلم کی روایت میں ہے کہ بیٹھے ہوئے ہر سجدہ کے لیے «الله اكبر» کہتے تھے اور لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ سہو کیا۔ دو رکعت کے بعد تشہد میں بیٹھنا بھول گئے تھے، اس کی تلافی کے لیے دو سجدے کیے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 262»
تخریج:
«أخرجه البخاري، السهو، باب ما جاء في السهو إذا قام من ركعتي الفريضة، حديث:1224، ومسلم، المساجد، باب السهو في الصلاة والسجود له، حديث:570، وأبوداود، الصلاة، حديث:1034، والترمذي، الصلاة، حديث:391، والنسائي، السهو، حديث:1223، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1206، 1207، وأحمد:5 /345، 346.»
تشریح:
1. عربی میں بھول کے لیے دو الفاظ مستعمل ہیں: ایک سہو اور دوسرا نسیان۔
پہلے کا اطلاق عموماً افعال کے لیے ہوتا ہے اور دوسرے کا معلومات کے لیے۔
اس کے باوجود کبھی کبھی یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے ہم معنی بھی آجاتے ہیں۔
علماء میں سے شاید ایک بھی ایسا نہیں ہے جو نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نسیان کا قائل ہو۔
یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بھی ابلاغ احکام الٰہی اور شریعت کے پہنچانے میں نسیان لاحق نہیں ہوا اور لاحق ہونے کا امکان بھی نہیں‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنْسٰٓی﴾ (الأعلیٰ ۸۷:۶) باقی جہاں تک سہو کا معاملہ ہے‘ اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ آپ سے سہو کا امکان ہے اور عملاً ہوا بھی ہے۔
متعدد صحیح احادیث اس بارے میں کتب احادیث میں موجود ہیں اور بہت سے واقعات عملی طور پر اس کا ثبوت ہیں۔
ائمۂ اربعہ رحمہم اللہ بھی سہو کو نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ثابت سمجھتے ہیں۔
غالباً آج تک کسی نے بھی اس پر اعتراض نہیں کیا بلکہ اس میں تو بہت سی حکمتیں ہیں جنھیں صاحب علم و بصیرت لوگ ہی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
2. دوسرا مسئلہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ اگر کسی نمازی کو تشہد اول بھول جائے تو اس نقصان کی تلافی سجدۂ سہو سے ہو جاتی ہے۔
سجدۂ سہو قبل از سلام کیا جائے یا بعد از سلام؟ احادیث سے آپ کا عمل دونوں طرح ثابت ہے۔
زندگی بھر ایک لگے بندھے طریقے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ثابت نہیں ہوتا کہ بس فلاں طریقے پر ساری عمر عمل فرماتے رہے‘ البتہ جب ائمہ رحمہم اللہ کا دور آیا اور تقلید شخصی پر عمل شروع ہوا تو ائمۂ کرام کے مقلدین نے اپنے اپنے دائرے میں صورتیں معین کرلیں۔
3.ایک رائے یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس جس مقام پر جو طرز عمل اختیار فرمایا وہاں اسی طرح عمل کیا جائے۔
مگر باقی مواقع پر جس طرح تحقیق سے ثابت ہوا ہو اس پر عمل کرے۔
4.امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار (۳ /۱۲۲. ۱۲۸) میں اس طرز عمل کو بہتر قرار دیا ہے کہ نماز میں کمی واقع ہو جانے کی صورت میں سجدۂ سہو سلام پھیرنے سے پہلے کیا جانا چاہیے اور اگر زیادتی واقع ہو جائے تو سلام پھیرنے کے بعد کیا جائے‘ البتہ ایک طرف سلام پھیر کر سجدہ کرنا‘ پھر تشہد وغیرہ پڑھ کر سلام پھیرنا‘ صحیح احادیث کی روشنی میں نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 262   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1206  
´جو شخص بھول سے دو رکعت پڑھ کر کھڑا ہو جائے تو اس کے حکم کا بیان۔`
ابن بحینہ (عبداللہ بن مالک) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز پڑھائی، میرا خیال ہے کہ وہ ظہر کی نماز تھی، جب آپ دوسری رکعت میں تھے تو تشہد کیے بغیر (تیسری رکعت کے لیے) کھڑے ہو گئے، پھر جب آپ آخری تشہد میں بیٹھے تو سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کئے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1206]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
درمیانی تشہد بھولے سے رہ جائے تو آخر میں سجدہ سہو کرلینا چاہیے۔

(2)
سجدہ سہو سلام سے پہلے بھی جائز ہے۔
اور سلام کے بعد بھی دیکھئے: (حدیث 1213)

(3)
سہو کے دو سجدے ہوتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1206   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1207  
´جو شخص بھول سے دو رکعت پڑھ کر کھڑا ہو جائے تو اس کے حکم کا بیان۔`
عبدالرحمٰن اعرج سے روایت ہے کہ ابن بحینہ رضی اللہ عنہ نے ان کو خبر دی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی دوسری رکعت پڑھ کر (تیسری رکعت کے لیے) کھڑے ہو گئے، اور تشہد بھول گئے، یہاں تک کہ جب آپ نماز سے فارغ ہو گئے، اور صرف سلام پھیرنا باقی رہ گیا، تو سہو کے دو سجدے کئے، اور سلام پھیرا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1207]
اردو حاشہ:
اس روایت سے پہلی حدیث میں مذکورشک دور ہوگیا۔
اور معلوم ہوگیا کہ وہ نماز عصر کی نہیں ظہر کی تھی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1207   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:927  
927- سیدنا ابن بحینہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک نما ز پڑھائی میرا خیال ہے کہ وہ عصر کی نماز تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعات ادا کرنے کے بعد کھڑے ہوگئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے نہیں، تو نماز کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے سے پہلے دو مرتبہ سجدہ سہوکرلیا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:927]
فائدہ:
اس حدیث میں سجد سہو کا ذکر ہے، اگر کوئی شخص التحیات بیٹھنا بھول جائے تو اس کی وجہ سے سجدۂ سہو کر لے بعض اہل علم التحیات نہ بیٹھنے کی وجہ سے رکعات دہرانے کا کہتے ہیں، جو کہ غلط ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 927   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1269  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

عبداللہ بن بحینہ کے بارے میں بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ بحینہ عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا باپ ہے،
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ان کی والدہ (ماں)
کا نام ہے باپ کا نام مالک ہے۔

اگرانسان درمیانی تشہد بھول جائے اور قیام کے قریب یاد آئے تو وہ واپس نہیں آئےگا بلکہ اس کی جگہ سلام سے پہلے دو سجدے کرے گا۔
اگر بیٹھنے کے قریب ہے تو واپس آ جائے گا اور سجدہ سہو نہیں کرے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1269   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1270  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

متفق علیہ (بخاری ومسلم)
روایت کی روسے عبداللہ بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبدالمطلب کی اولاد کے حلیف تھے اور سیرت وتاریخ کے ماہرین کے نزدیک مطلب بن عبدمناف کی اولاد کے حلیف تھے۔

امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک پہلا تشہد،
رکوع وسجود یا قیام کی طرح نماز کا رکن یا فرض نہیں ہے،
اس لیے اس کی جگہ سجود سہو کفایت کریں گے،
لیکن رکن کی جگہ یہ کافی نہیں ہوں گے۔
لیکن امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور کچھ حضرات کے نزدیک پہلا تشہد بھی ضروری ہے لیکن اس کی جگہ،
اس حدیث کی رو سے سجود سہو کفایت کریں گے اور ان کے لیے تکبیر کہنی ہو گی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1270   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 830  
830. حضرت عبداللہ بن مالک ابن بحینہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک دن نماز ظہر پڑھائی۔ آپ کھڑے ہو گئے، حالانکہ آپ کے ذمے بیٹھنا تھا۔ پھر نماز کے آخر میں بیٹھے بیٹھے آپ نے دو سجدے کیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:830]
حدیث حاشیہ:
یعنی تشہد نہیں پڑھا۔
حدیث میں علیه الجلوس کے لفظ بتلاتے ہیں کہ آپ کو بیٹھنا چاہیے تھا مگرآپ بھول گئے جلوس سے تشہد مراد ہے۔
ترجمہ سے باب کی مطابقت ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 830   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1225  
1225. حضرت عبداللہ ابن بحینہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نماز ظہر کی دو رکعتوں میں بیٹھے بغیر ہی کھڑے ہو گئے۔ جب آپ اپنی نماز پوری کرنے کے قریب تھے تو دو سجدے کیے۔ اس کے بعد آپ نے سلام پھیرا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1225]
حدیث حاشیہ:
اس میں ان پر رد ہے جو کہتے ہیں کہ سہو کے سب سجدے سلام کے بعد ہیں۔
(فتح الباري)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1225   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6670  
6670. حضرت عبداللہ ابن بحینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک مرتبہ نماز پڑھائی اور پہلی دو رکعتوں کے بعد بیٹھنے سے پہلے ہی کھڑے ہو گئے اور نماز پڑھاتے رہے۔ پھر جب آپ نے اپنی نماز پوری کر لی تو لوگوں نے آپ کے سلام کا انتظار کیا لیکن آپ ﷺ نے اللہ اکبر کہا اور سلام پھیرنے سے پہلے سجدہ کیا، پھر سر مبارک اٹھایا اور اللہ اکبر کہا، اور سجدہ کیا پھر سجدے سے اپنا سر اٹھایا اور سلام پھیر دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6670]
حدیث حاشیہ:
نماز میں ایسی مذکورہ بھول چوک کا کفارہ سجدہ سہو کرنا ہے۔
اس حدیث میں سجدہ سہو ادا کرنے کی وہی ترکیب بیان ہوئی ہے جواہل حدیث کا معمول ہے اوراسی کو ترجیح حاصل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6670   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 829  
829. حضرت عبداللہ ابن بحینہ ؓ۔۔ جو قبیلہ ازدشنوءہ سے ہیں اور بنو عبدمناف کے حلیف، نیز نبی ﷺ کے اصحاب سے تھے۔۔ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک دن انہیں نماز ظہر پڑھائی اور پہلی دو رکعات کے بعد بیٹھنے کے بجاے کھڑے ہو گئے۔ لوگ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے جب آپ اپنی نماز پوری کر چکے تو لوگ انتظار میں تھے کہ اب سلام پھیریں گے آپ نے بیٹھے ہی بیٹھے اللہ أکبر کہا، سلام سے پہلے دو سجدے کیے پھر سلام پھیرا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:829]
حدیث حاشیہ:
علامہ شوکانی ؒ نے اس مسئلہ پر یوں باب منعقد فرمایا ہے:
باب الأمر بالتشھد الأول وسقوطه بالسھو۔
یعنی تشہد اول کے لیے حکم ہے اور وہ بھول سے رہ جائے تو سجدہ سہو سے ساقط ہو جاتا ہے۔
حدیث ابن مسعود ؓ میں جو لفظ ''فقولا التحیات'' وارد ہوئے ہیں اس پر علامہ فرماتے ہیں:
فیه دلیل لمن قال بوجوب التشھد الأوسط وھو أحمد في المشھود عینه واللیث وإسحاق وھو قول الشافعي وإلیه ذھب داود أبو ثور ورواہ النووي عن جمھور المحدثین۔
یعنی اس میں ان حضرات کی دلیل ہے جو درمیانی تشہد کو واجب کہتے ہیں امام احمد سے بھی یہی منقول ہے اور دیگر ائمہ مذکورین سے بھی بلکہ امام نووی رحمہ اللہ نے اسے جمہور محدثین کرام رحمہ اللہ سے نقل فرمایاہے۔
حدیث مذکور سے امام بخاری ؒ نے یہی ثابت فرمایا ہے کہ تشہد اول اگر فرض ہوتا تو آپ اسے ضرور لوٹاتے مگر یہ ایسا ہے کہ اگر رہ جائے تو سجدہ سہو سے اس کی تلافی ہو جاتی ہے۔
روایت میں عبداللہ بن بحینہ کے حلیف ہونے کا ذکر ہے عہد جاہلیت میں اگر کوئی شخص یا قبیلہ کسی دوسرے سے یہ عہد کر لیتا کہ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا، تمہارے دوست کا دوست اور دشمن کا دشمن تو اسے اس قوم کا حلیف کہا جاتا تھا صحابی مذکور بنی عبد مناف کے حلیف تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 829   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:829  
829. حضرت عبداللہ ابن بحینہ ؓ۔۔ جو قبیلہ ازدشنوءہ سے ہیں اور بنو عبدمناف کے حلیف، نیز نبی ﷺ کے اصحاب سے تھے۔۔ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک دن انہیں نماز ظہر پڑھائی اور پہلی دو رکعات کے بعد بیٹھنے کے بجاے کھڑے ہو گئے۔ لوگ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے جب آپ اپنی نماز پوری کر چکے تو لوگ انتظار میں تھے کہ اب سلام پھیریں گے آپ نے بیٹھے ہی بیٹھے اللہ أکبر کہا، سلام سے پہلے دو سجدے کیے پھر سلام پھیرا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:829]
حدیث حاشیہ:
(1)
نماز میں جو ضروری امور ہیں ان کی دو اقسام ہیں:
ایک وہ ہیں جن کی تلافی سجدۂ سہو سے ہو سکتی ہے اور دوسرے وہ جن کی بجا آوری ضروری ہوتی ہے۔
اگر وہ رہ جائیں تو ان کی تلافی سجدۂ سہو سے نہیں ہو سکتی۔
پہلا تشہد ایک ایسا امر ہے کہ اگر رہ جائے تو اس کی تلافی سجدۂ سہو سے ممکن ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ لوگوں نے ترک تشہد پر سبحان اللہ بھی کہا لیکن آپ اسے ادا کرنے کے لیے دوبارہ نہیں بیٹھے بلکہ نماز کے آخر میں سجدۂ سہو سے اس کی تلافی فرمائی ہے۔
اگر فرض، یعنی رکن ہوتا تو اسی وقت بیٹھ جاتے اور اسے بجا لاتے۔
امام شوکانی ؒ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:
تشہد اول کے لیے حکم ہے، اگر وہ بھول کی وجہ سے رہ جائے تو سجدۂ سہو سے ساقط ہو جاتا ہے۔
تشہد اول کے ضروری ہونے کے لیے اسی روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ کے ذمے بیٹھنا تھا۔
(صحیح البخاري، السھو، حدیث: 1230) (3)
حافظ ابن حجر ؒ نے علامہ ابن رشید کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب احادیث میں لفظ جلوس، کسی قید کے بغیر استعمال ہو تو اس سے مراد جلوس تشہد ہوتا ہے۔
اسی سے حدیث کی عنوان مذکور سے مطابقت ظاہر ہوتی ہے۔
(فتح الباري: 402/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 829   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:830  
830. حضرت عبداللہ بن مالک ابن بحینہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک دن نماز ظہر پڑھائی۔ آپ کھڑے ہو گئے، حالانکہ آپ کے ذمے بیٹھنا تھا۔ پھر نماز کے آخر میں بیٹھے بیٹھے آپ نے دو سجدے کیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:830]
حدیث حاشیہ:
پہلے باب سے گمان ہو سکتا ہے کہ شاید تشہد اول کی کوئی حیثیت ہی نہیں، اس لیے امام بخاری ؒ نے تنبیہ فرمائی کہ پہلا تشہد اگرچہ اس قدر لازم نہیں کہ اس کے ترک پر اعادہ ضروری ہو، تاہم اس کی یہ حیثیت ضرور ہے کہ اگر رہ جائے تو اس پر سجدۂ سہو ہے جیسا کہ حدیث بالا سے ظاہر ہوتا ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ علامہ کرمانی ؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس سے پہلا باب اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ پہلا تشہد واجب نہیں اور یہ عنوان اس کی مشروعیت بیان کرنے کے لیے، قطع نظر اس کے کہ وہ واجب ہے یا مستحب۔
(فتح الباري: 402/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 830   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1225  
1225. حضرت عبداللہ ابن بحینہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نماز ظہر کی دو رکعتوں میں بیٹھے بغیر ہی کھڑے ہو گئے۔ جب آپ اپنی نماز پوری کرنے کے قریب تھے تو دو سجدے کیے۔ اس کے بعد آپ نے سلام پھیرا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1225]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احادیث میں رسول اللہ ﷺ کے دوران نماز میں بھولنے کا بیان ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ لوگوں نے سبحان اللہ کہا لیکن آپ اپنی نماز میں جاری رہے۔
(سنن النسائي، التطبیق، حدیث: 1179)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے دونوں سجدوں میں جاتے وقت اور اٹھتے وقت اللہ أکبر کہا۔
(صحیح البخاري، السھو، حدیث: 1230، و فتح الباري: 121/3)
اس سے معلوم ہوا کہ سجدۂ سہو میں تکبیر بآواز بلند اور درمیانی فاصلہ ہے، نیز پتہ چلا کہ امام کے ساتھ مقتدی بھی سجدہ کریں گے، اگرچہ وہ بھولنے میں امام کے شریک نہ بھی ہوں۔
(فتح الباري: 121/3، 122) (2)
امام بخاری ؒ کے نزدیک تشہد اول واجب نہیں، چنانچہ انہوں نے مذکورہ حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
تشہد اول غیر واجب ہے۔
آپ کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ تشہد اول بھول گئے اور کھڑے ہو گئے۔
لوگوں نے سبحان اللہ کہا، لیکن آپ نہ بیٹھے۔
اگر واجب ہوتا تو آپ دوبارہ بیٹھ کر اس کی تلافی کرتے۔
آپ نے صرف سجدۂ سہو پر اکتفا کیا۔
بہرحال اس روایت سے سجدۂ سہو کے ایک سبب کا پتہ چلتا ہے کہ نمازی جب اپنی نماز میں کسی کمی کا مرتکب ہو تو اس کی تلافی سجدۂ سہو سے ہو گی، چنانچہ دیار عرب کے مشہور عالم دین شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ نے اس موضوع پر ایک رسالہ لکھا ہے۔
اس میں فرماتے ہیں کہ سجدۂ سہو کے تین اسباب ہیں:
٭ نماز میں کسی قسم کا اضافہ۔
٭ دوران نماز کسی قسم کی کمی۔
٭ نماز میں شک و شبہ پڑ جانا۔
مذکورہ حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے تشہد چھوڑ دینے کی وجہ سے سجدۂ سہو کیا تھا، گویا نماز میں کمی کر دی تھی۔
ہم مذکورہ رسالے سے دوران نماز میں کمی کی بنا پر سجدۂ سہو کے مسائل بیان کرتے ہیں۔
اگر نماز میں کوئی رکن رہ جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر تکبیر تحریمہ ہی رہ گئی، خواہ دانستہ یا بھول کر تو سرے سے نماز نہیں ہو گی کیونکہ تکبیر تحریمہ نماز کا ایک ایسا بنیادی رکن ہے جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
اگر تکبیر تحریمہ کے علاوہ کوئی رکن دانستہ چھوڑ دیا جائے تو بھی نماز باطل ہے کیونکہ جان بوجھ کر کسی رکن کو چھوڑ دینا نماز کو خود ہی باطل کر دینا ہے۔
اگر نادانستہ طور پر تکبیر تحریمہ کے علاوہ کسی رکن کو چھوڑ دیا جائے تو اس کی دو صورتیں ہیں:
٭ اگر نمازی اگلی رکعت میں متروکہ رکن تک پہنچ چکا ہے اور اسے یاد نہیں آتا تو اس صورت میں پہلی رکعت باطل ہو جائے گی، دوسری رکعت خودبخود اس کے قائم مقام ہو گی، مثلاً:
ایک نمازی پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ بھول گیا اور اسے دوسری رکعت میں دو سجدوں کے درمیان بیٹھے ہوئے یاد آیا کہ میں نے پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ نہیں کیا تھا، چونکہ وہ رکن متروک تک پہنچ چکا ہے اور اس کی پہلی رکعت اس کی ادائیگی کے بغیر پڑھی گئی ہے، لہذا پہلی رکعت باطل ہو گی اور دوسری رکعت اس کے قائم مقام ہو گی۔
اس طرح وہ اپنی نماز کو پورا کرے اور سلام پھیر دے، پھر سجدۂ سہو کر کے دوبارہ سلام پھیرے۔
٭ اگر دوسری رکعت میں متروکہ رکن تک پہنچنے سے پہلے پہلے اسے یاد آ گیا کہ میری پہلی رکعت میں دوسرا سجدہ رہ گیا ہے تو فورا اٹھ کر متروکہ رکن ادا کرے۔
اس کے بعد بقیہ نماز پوری کرے، مثلاً:
ایک نمازی پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ اور اس سے قبل بیٹھنا بھول گیا اور اسے دوسری رکعت کے رکوع سے کھڑے ہونے کے بعد یاد آیا کہ میری پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ رہ گیا ہے تو وہ فوراً بیٹھ جائے اور متروکہ سجدہ کرے۔
اس کے بعد اپنی بقیہ نماز ادا کرے اور سلام پھیر دے۔
پھر سجدۂ سہو کر کے دوبارہ سلام پھیرے۔
اگر نماز میں رکن کے بجائے کوئی دوسرا واجب رہ گیا ہے تو اگر نمازی نے اس واجب کو دانستہ ترک کیا ہے تو اس صورت میں اس کی نماز سرے سے نہیں ہو گی اور اگر بھول کر چھوڑا ہے تو اس کی تین صورتیں ہیں:
٭ جہاں وہ واجب ادا ہوتا ہے اس مقام پر فوراً یاد آ گیا تو اسے مکمل کرے، مثلاً:
ایک نمازی نے دوسری رکعت کے آخری سجدے سے سر اٹھایا اور وہ اپنی دانست کے مطابق تیسری رکعت کے لیے اٹھنا چاہتا ہے، حالانکہ اس نے تشہد نہیں پڑھا، لیکن اٹھنے سے پہلے پہلے یاد آ گیا تو اس صورت میں وہ بیٹھا رہے اور تشہد پڑھ کر اپنی نماز مکمل کرے۔
اس قسم کے سہو و نسیان پر کوئی سجدہ نہیں۔
٭ اگر اسے تیسری رکعت کے لیے اٹھنے کے بعد یاد آیا، لیکن ابھی تک پوری طرح سیدھا کھڑا نہیں ہو پایا تھا کہ اسے متروکہ واجب یاد آ گیا تو فورا اٹھ کر تشہد پڑھے اور اپنی نماز مکمل کر کے سلام پھیرے۔
اس کے بعد سجدۂ سہو کرے اور آخر میں دوبارہ سلام پھیرے۔
٭ اگر اسے دوسرا رکن شروع کرنے کے بعد یاد آیا تو اس صورت میں متروکہ واجب ساقط ہو جائے گا اور وہ اس کے بغیر ہی نماز ادا کرے گا، مثلاً:
نمازی تیسری رکعت ادا کرنے کے لیے تشہد پڑھے بغیر پوری طرح سیدھا کھڑا ہو گیا تو اس صورت میں تشہد ساقط ہو جائے گا۔
نمازی تشہد کے بغیر ہی اپنی نماز مکمل کرے اور سلام سے قبل سجدۂ سہو کر کے آخر میں سلام پھیر دے، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں ہے۔
(سجودالسھو للشیخ محمد بن صالح العثیمین) (3)
امام بخاری ؒ کی پہلی پیش کردہ حدیث میں نماز کی صراحت نہیں تھی جس میں رسول اللہ ﷺ کو سہو ہوا تھا، اس لیے دوسری روایت پیش کی جس میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو نماز ظہر میں سہو کا واقعہ پیش آیا تھا۔
آپ کی یہ بھول بھی ہمارے لیے ایک نمونہ ہے۔
اگر یہ واقعہ پیش نہ آتا تو سہو کے متعدد مسائل ہمیں معلوم نہ ہوتے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1225   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1230  
1230. حضرت عبداللہ ابن بحینہ اسدی ؓ، جو بنو عبدالمطلب کے حلیف تھے،سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ظہر کی نماز میں دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہو گئے جبکہ آپ کو بیٹھ کر تشہد پڑھنا تھا۔ جب آپ نماز مکمل کرنے قریب تھے تو آپ نے بیٹھے بیٹھے ہی سلام سے قبل دو سجدے کیے اور ان کے لیے اللہ أکبر بھی کہا۔ مقتدیوں نے بھی آپ کے ساتھ یہ دو سجدے کیے۔ یہ اس تشہد کی جگہ تھے جسے آپ بھول گئے تھے۔ امام ابن شہاب سے تکبیر کا لفظ بیان کرنے میں ابن جریج نے لیث کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1230]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے ان روایات سے ثابت کیا ہے کہ سجدۂ سہو کے لیے الگ سے تکبیر تحریمہ کہنے کی ضرورت نہیں، بلکہ سجدے کو جاتے ہوئے ایک دفعہ اللہ أکبر کہنا ہی کافی ہے۔
تکبیر تحریمہ کہنے کے متعلق سنن ابی داود کی ایک روایت بیان کی جاتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
رسول اللہ ﷺ نے اللہ أکبر کہا، پھر اللہ أکبر کہا اور سجدۂ سہو کیا۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1011)
لیکن امام ابو داود ؒ نے خود ہی اس روایت کے شاذ ہونے کی طرف واضح اشارہ فرمایا ہے کہ ان الفاظ کو حماد بن زید کے علاوہ دوسرے راویوں نے بیان نہیں کیا۔
ہشام بن حسان سے ان کے دوسرے شاگرد جب اس روایت کو بیان کرتے ہیں تو وہ مذکورہ الفاظ ذکر نہیں کرتے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1011) (2)
ابن جریج کی متابعت کو امام عبدالرزاق نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر سجدۂ سہو میں اللہ أکبر کہتے تھے۔
مسند امام احمد کی روایت بایں الفاظ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ أکبر کہا، پھر سجدہ کیا۔
اس کے بعد اللہ أکبر کہا اور دوسرا سجدہ کیا۔
اس کے بعد آپ نے سلام پھیر دیا۔
ان تمام روایات میں صرف سجدہ کرتے وقت تکبیر کہنے کا ذکر ہے، تکبیر تحریمہ کا کوئی ذکر نہیں۔
اور جن روایات میں پہلے سجدے سے قبل دو دفعہ اللہ أکبر کہنے کا ذکر ہے وہ محدثین کے معیار صحت پر پوری نہیں اترتیں۔
(فتح الباري: 134/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1230   

1    2    3    Next