نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
باجماعت نماز کا بیان

4. نماز کے انتظار میں رہنا بہت عظیم عمل ہے

حدیث نمبر: 103
329- مالك وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم: قال: ”لا يزال أحدكم فى صلاة ما دامت الصلاة تحبسه لا يمنعه أن ينقلب إلى أهله إلا الصلاة.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر آدمی اس وقت تک نماز میں رہتا ہے جب تک نماز اسے (اپنے انتظار میں) روکے رکھتی ہے۔ وہ نماز کی وجہ سے اپنے گھر واپس نہیں جاتا۔
تخریج الحدیث: «329- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 160/1 ح 382، ك 9 ب 18 ح 52) التمهيد 26/19، الاستذكار: 352، و أخرجه البخاري (659) ومسلم (649/275 بعد ح 661) من حديث مالك به.»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 103 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 103  
´نماز کے انتظار میں رہنا بہت عظیم عمل ہے`
«. . . 329- مالك وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم: قال: لا يزال أحدكم فى صلاة ما دامت الصلاة تحبسه لا يمنعه أن ينقلب إلى أهله إلا الصلاة. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر آدمی اس وقت تک نماز میں رہتا ہے جب تک نماز اسے (اپنے انتظار میں) روکے رکھتی ہے۔ وہ نماز کی وجہ سے اپنے گھر واپس نہیں جاتا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 103]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 659، ومسلم 275/649 بعد ح661، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ نماز کا انتظار کرنا بڑے ثواب اور فضیلت کا کام ہے۔
➋ فرض نماز مسجد میں پڑھنی چاہئے۔
➌ نیز دیکھئے آنے والی الموطأ حدیث: 330، اور حدیث سابق: 134
➍ ابوبکر بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ فرماتے تھے: جو شخص صبح یا شام کو مسجد صرف اس لئے جاتا ہے کہ علم سیکھے یا بھلائی حاصل کرے پھر وہ گھر واپس جاتا ہے تو اس کی مثال اس مجاہد جیسی ہے جو مالِ غنیمت لے کر گھر واپس آتا ہے۔ [الموطأ 1/161 ح383، وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 329   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ عمر فاروق سعیدی حفظ اللہ
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ
الشیخ عبدالستار الحماد حفظ اللہ
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 470  
´مسجد میں بیٹھے رہنے کی فضیلت کا بیان۔`
اسی سند سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک شخص برابر نماز ہی میں رہتا ہے جب تک نماز اس کو روکے رہے یعنی اپنے گھر والوں کے پاس واپس جانے سے اسے نماز کے علاوہ کوئی اور چیز نہ روکے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 470]
470. اردو حاشیہ:
  یعنی مسجد میں رکنا صرف نماز اور اذکار کے لئے ہو نہ کہ کسی اور غرض سے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 470   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 471  
´مسجد میں بیٹھے رہنے کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ برابر نماز ہی میں رہتا ہے، جب تک اپنے مصلی میں بیٹھ کر نماز کا انتظار کرتا رہے، فرشتے کہتے ہیں: اے اللہ! تو اسے بخش دے، اے اللہ! تو اس پر رحم فرما، جب تک کہ وہ نماز سے فارغ ہو کر گھر نہ لوٹ جائے، یا حدث نہ کرے۔‏‏‏‏ عرض کیا گیا: حدث سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (حدث یہ ہے کہ وہ) بغیر آواز کے یا آواز کے ساتھ ہوا خارج کرے (یعنی وضو توڑ دے)۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 471]
471۔ اردو حاشیہ:
➊ نماز کے بعد بیٹھنے کی احادیث اور ان کی فضیلت کو عموم پر محول کیا جاتا ہے۔ کہ انسان سنتوں کے بعد فرضوں کا انتظار کر رہا ہو، یا فرضوں کے بعد سنتوں کے لئے بیٹھا ہو، یا دوسری نماز کا انتظار کر رہا ہو۔ یا ذکر اذکار میں مشغول ہو۔ ان شاء اللہ اس فضیلت سے محروم نہیں ہو گا۔ چاہیے کہ مسلمان لا یعنی اور بےفائدہ مجالس و مشاغل کو چھوڑ کر مسجد کی مجلس اختیار کرے۔
«فساء» بغیر آواز کے ہوا خارج ہونا ہے اور «ضراط» کہتے ہیں آواز کے ساتھ ہوا کے خارج ہونے کو اردو میں اسے پھسکی اور گوز یا پاد مارنا کہتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 471   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 330  
´مسجد میں بیٹھنے اور نماز کے انتظار کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی برابر نماز ہی میں رہتا ہے جب تک وہ اس کا انتظار کرتا ہے اور فرشتے اس کے لیے برابر دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ مسجد میں رہتا ہے، کہتے ہیں «اللهم اغفر له» ‏‏‏‏ اللہ! اسے بخش دے «اللهم ارحمه» اے اللہ! اس پر رحم فرما جب تک وہ «حدث» نہیں کرتا، تو حضر موت کے ایک شخص نے پوچھا: «حدث» کیا ہے ابوہریرہ؟ تو ابوہریرہ رضی الله عنہ نے کہا: آہستہ سے یا زور سے ہوا خارج کرنا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 330]
اردو حاشہ:
1؎:
اس حدیث سے مسجد میں بیٹھ کر نماز کے انتظار کرنے کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے،
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسجد میں حدث کرنا فرشتوں کے استغفار سے محرومی کا باعث ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 330   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:176  
176. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بندہ اس وقت تک نماز میں رہتا ہے جب تک وہ مسجد میں نماز کا انتظار کرتا ہے، بشرطیکہ اسے حدث لاحق نہ ہو۔ ایک عجمی شخص نے سوال کیا: ابوہریرہ! حدث کیا ہے؟ فرمایا: حدث آواز، یعنی گوذ کو کہتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:176]
حدیث حاشیہ:

اس روایت میں صرف آواز کے ساتھ اخراج ریح کو حدث قرار دیا گیا ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث مختصر ہے۔
اس سے پہلے حدیث نمبر: 135 میں وضاحت ہے کہ حدث دونوں صورتوں میں ہو سکتا ہے۔
آواز کے ساتھ بھی اور بغیر آواز کے بھی۔
چونکہ نماز اور مسجد کا ذکر ہو رہا تھا اور نماز میں اکثر وبیشتر یہی حدث لاحق ہوتا ہے، اس لیے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صرف اسی چیز کا ذکر کیا جو اس حالت میں زیادہ پیش آنے والی تھی۔
قبل ازیں ظاہری نجاست کا ذکر تھا، اب نجاست باطنی کو بیان کیا جارہا ہے، چونکہ سوال مسجد میں انتظار نماز سے متعلق تھا، اس لیے جواب بھی خاص دیا گیا اور جس ناقض وضو کا احتمال وقوعی ہوسکتا تھا اسے ذکر کردیا گیا، احتمال عقلی سے تعرض نہیں کیا گیا۔
(فتح الباري: 370/1)

اس حدیث کے دیگرطرق سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے شخص کے لیے فرشتے رحمت ومغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ مسجد میں کسی دوسرے کی اذیت کا باعث نہیں بنتا۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 477)
اس حدیث سے مندرجہ ذیل فوائد کا استنباط ہوتا ہے:
(الف)
۔
انتظار نماز کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، کیونکہ عبادت کاانتظار بھی عبادت ہی شمارہوتا ہے۔
(ب)
۔
جو نماز کے اسباب میں منہمک ہوتا ہے وہ بھی نمازی شمارہوتا ہے۔
(ج)
یہ فضیلت اس شخص کے لیے ہے جو بے وضو نہ ہو، خواہ اس کا نقض وضو کسی سبب بھی ہو۔
(د)
انتظار نماز، نماز ہی سے ہے، اس کامطلب یہ ہے کہ اسے نماز کا ثواب ملتا ہے، کیونکہ نماز میں رہنے والے کو دوسرے سے بات چیت کرنا منع ہے، جبکہ انتظار کرنے والے پر بات چیت کرنے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔
(عمدة القاري: 507/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 176   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:659  
659. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فرشتے تم میں سے اس شخص کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ اپنی جائے نماز پر رہے، بشرطیکہ بے وضو نہ ہو۔ (دعا یہ ہے:) اے اللہ! اسے بخش دے، اے اللہ! اس پر رحم فرما، نیز تم میں سے ہر ایک اس وقت تک نماز ہی میں رہتا ہے جب تک نماز نے اسے روک رکھا ہو اور اپنے گھر واپس آنے کے لیے نماز کے علاوہ اور کوئی چیز مانع نہ ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:659]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں دووچیزیں بیان کی ہیں:
٭مساجد کا شرف٭نماز کے انتظار میں بیٹھنے کی فضیلت۔
نماز کے انتظار میں بیٹھنے والا اسی اجر و ثواب کا حق دار ہوتا ہے جو نماز ادا کرنے سے ملتا ہے لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ بے وضو نہ ہو اور کسی کو تکلیف نہ دے، نیز نماز کے علاوہ اور کوئی چیز اسے گھر واپس جانے سے مانع نہ ہو۔
اگر مسجد میں نماز کے علاوہ کسی اور مقصد کےلیے ٹھہرا یا نماز کے انتظار کی نیت میں کسی اور مقصد کو بھی شامل کرلیا تو مذکورہ ثواب کا حق دار نہیں ہوگا۔
(2)
اگر کوئی مسجد سے نکل جاتا ہے لیکن دوبارہ لوٹ کر مسجد میں ہی دوسری نماز ادا کرنے کی فکر میں رہتا ہے تو اسے بھی مذکورہ ثواب نہیں ملے گا، ہاں!اس قسم کے آدمی کو اور نوعیت کا ثواب حاصل ہوگا جسے آئندہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔
غالباً امام بخاری ؒ نے اسی مقصد کے پیش نظر اس حدیث کو یہاں بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 186/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 659   


حدیث نمبر: 104
515- مالك عن يزيد بن عبد الله ابن الهاد عن محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي عن أبى سلمة بن عبد الرحمن عن أبى هريرة أنه قال: خرجت إلى الطور فلقيت كعب الأحبار فجلست معه فحدثني عن التوراة وحدثته عن النبى صلى الله عليه وسلم فكان فيما حدثته أني قلت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:  ”خير يوم طلعت عليه الشمس يوم الجمعة، فيه خلق آدم وفيه أهبط، وفيه تيب عليه، وفيه مات، وفيه تقوم الساعة، وما من دابة إلا وهى مصيخة يوم الجمعة من حين تصبح حتى تطلع الشمس شفقا من الساعة إلا الجن والإنس، وفيه ساعة لا يصادفها عبد مسلم وهو يصلي يسأل الله شيئا إلا أعطاه إياه“  فقال كعب: ذلك فى كل سنة يوم، فقلت: بل فى كل جمعة، قال: فقرأ كعب التوراة، فقال: صدق رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: أبو هريرة: فلقيت بصرة بن أبى بصرة الغفاري فقال: من أين أقبلت؟ فقلت: من الطور، فقال: لو أدركتك قبل أن تخرج إليه ما خرجت إليه، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:  ”لا تعمل المطي إلا إلى ثلاثة مساجد، إلى المسجد الحرام وإلى مسجدي هذا وإلى مسجد إيلياء أو بيت المقدس“  ؛ يشك أيهما. قال قال أبو هريرة: ثم لقيت عبد الله بن سلام فحدثته بمجلسي مع كعب وما حدثته فى يوم الجمعة، فقلت له: قال كعب: ذلك فى كل سنة يوم، فقال عبد الله بن سلام: كذب كعب، قال: فقلت: ثم قرأ كعب التوراة فقال: بل هي فى كل جمعة، فقال عبد الله: صدق كعب، ثم قال عبد الله بن سلام: قد علمت أية ساعة هي، قال أبو هريرة: فأخبرني بها ولا تضن على، فقال عبد الله بن سلام: هي آخر ساعة من يوم الجمعة، فقال أبو هريرة كيف تكون آخر ساعة من يوم الجمعة، وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:  ”لا يصادفها عبد مسلم وهو يصلي وتلك ساعة لا يصلي فيها“  ؟ فقال عبد الله بن سلام: ألم يقل رسول الله صلى الله عليه وسلم:  ”من جلس مجلسا ينتظر الصلاة فهو فى صلاة حتى يصلي؟“  قال: فقلت: بلى، فقال: هو ذلك.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں طور (پہاڑ) کی طرف گیا تو (واپسی پر) میری ملاقات کعب الاحبار سے ہوئی تو میں اس کے پاس بیٹھ گیا۔ اس نے مجھے تورات سے باتیں بتائیں اور میں نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں سنائیں۔ میں نے اسے یہ بھی بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہترین دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے جمعہ کا دن ہے۔ اسی میں آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے اور اسی میں (جنت سے) اتارے گئے اور اسی میں ان کی توبہ قبول کی گئی اور اسی دن فوت ہوئے اور اسی دن قیامت بپا ہو گی۔ ہر جانور جمعہ کے دن صبح کے وقت سورج کے طلوع ہونے تک قیامت سے ڈرتے ہوئے کان لگا کر سننے کی کوشش کرتا ہے سوائے جنوں اور انسانوں کے اور اس دن میں ایک ایسا وقت ہے جب مسلمان بندہ نماز پڑھ رہا ہوتا ہے تو اللہ سے جو کچھ مانگتا ہے وہ اسے عطا کر دیتا ہے۔ کعب نے کہا: یہ ہر سال میں ایک دن ہوتا ہے، تو میں نے کہا: (نہیں) بلکہ ہر جمعہ کہ یہ ہوتا ہے۔ پھر کعب نے تورات پڑھی تو کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پھر میری ملاقات سیدنا بصرہ بن ابی بصرہ الغفاری رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو انہوں نے کہا: آپ کہاں سے آئے ہیں؟ میں نے کہا: طور سے۔ تو انہوں نے کہا کہ اگر میری ملاقات آپ کے جانے سے پہلے ہوتی تو آپ وہاں نہ جاتے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تین مسجدوں کے علاوہ (نماز یا ثواب کے لئے) سفر نہیں کیا جاتا: مسجد حرام، یہ میری مسجد (مسجد نبوی) اور مسجد ایلیا یا بیت المقدس کی طرف۔ راوی کو مسجد ایلیا یا بیت المقدس کے لفظ میں شک ہے (اور دونوں سے مراد ایک ہی مسجد ہے یعنی مسجد اقصیٰ) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر میری ملاقات سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو میں نے انہیں کعب کے ساتھ اپنی مجلس کے بارے میں بتایا اور جمعے کے بارے میں جو حدیث بیان کی تھی وہ بتائی اور کہا کہ کعب نے کہا: یہ وقت ہر سال میں ایک دن ہوتا ہے تو انہوں نے کہا: کعب نے غلط کہا ہے۔ میں نے کہا: پھر کعب نے تورات پڑھی تو کہا کہ بلکہ یہ (وقت) ہر جمعے کو ہوتا ہے تو عبداللہ (بن سلام رضی اللہ عنہ) نے کہا: کعب نے سچ کہا: ہے۔ پھر سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے علم ہے کہ یہ گھڑی کس وقت ہوتی ہے؟ میں نے کہا: آپ مجھے بتا دیں اور بتانے میں بخل نہ کریں تو سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ جمعے کے آخری وقت ہوتی ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ آخری وقت کس طرح ہوتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مسلمان بندہ نماز پڑھ رہا ہوتا ہے، اور اس وقت تو نماز نہیں پڑھی جاتی؟ تو سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا کہ جو شخص نماز کے انتظار میں بیٹھا ہو تو وہ نماز پڑھنے تک نماز میں ہی (شمار) ہوتا ہے؟ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:) میں نے کہا: ہاں! فرمایا تھا، تو انہوں نے کہا: تو یہی (مطلب) ہے۔
تخریج الحدیث: «515- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 108/1-110 ح 239، ك 5 ب 7 ح 16) التمهيد 36/23، 37، الاستذكار: 210 و أخرجه أبوداود (1046) و الترمذي (491) من حديث مالك به وقال الترمذي: ”حسن صحيح“ وصححه ابن خزيمة (1738) وابن حبان (الموارد: 1024) والحاكم (278/1، 279) عليٰ شرط الشيخين ووافقه الذهبي.»