نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
باجماعت نماز کا بیان

1. باجماعت نماز کی فضیلت

حدیث نمبر: 97
11- مالك عن ابن شهاب عن سعيد بن المسيب عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”صلاة الجماعة أفضل من صلاة أحدكم وحده بخمسة وعشرين جزءا.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جماعت والی نماز تمہارے اکیلے کی نماز سے پچیس (25) درجے افضل ہے۔
تخریج الحدیث: «11- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 129/1 ح 287، ك 8 ب 1 ح 2) التمهيد 316/6، الاستذكار: 256 و أخرجه مسلم (649) من حديث مالك به ورواه البخاري (648) من حديث الزهري عن سعيد بن المسيب و أبى سلمة عن أبى هريره به نحو المعني مطولا صحيح قال: ابن شهاب الزهري: أخبرني سعيد بن المسيب ايبو سلمة بن عبدالرحمن أن أبا هريرة قال: إلخ»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 97 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 97  
´نماز باجماعت میں لوگوں کی جتنی اکثریت ہو اتنی افضل ہے`
«. . . عن ابى هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: صلاة الجماعة افضل من صلاة احدكم وحده بخمسة وعشرين جزءا .»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جماعت والی نماز تمہارے اکیلے کی نماز سے پچیس (25) درجے افضل ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/0: 97]

تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 129/1 ح 287، ك 8 ب 1 ح 2، التمهيد 316/6، الاستذكار: 256
● وأخرجه مسلم 649، من حديث مالك به ورواه البخاري 648، من حديث الزهري عن سعيد بن المسيب و أبى سلمة عن أبى هريره به نحو المعني مطولاً]

تفقه:
➊ صحیح العقیدہ مسلمانوں کی نماز باجماعت میں لوگوں کی جتنی اکثریت ہو اتنی افضل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «وصلاته مع الرجلين ازكٰي من صلاته مع الرجل وما كثر فهو اَّحب إلى الله» اور آدمی کی دو آدمیوں کے ساتھ نماز ایک آدمی کے ساتھ نماز سے بہتر ہے اور جتنی کثرت ہو تو وہ اللہ کے ہاں زیادہ محبوب ہے۔ [مسند أحمد 140/5، وسنده حسن، سنن ابي داود: 554، و صححه ابن خزيمه، وبن حبان، الموارد: 429 وللحديث لون آخر عند ابن ماجه: 790 وغيره وسنده حسن]
تنبیہ: اس حدیث پر حافظ ابن عبدالبر کی جرح مردود ہے۔
➋ جماعت کے بغیر اکیلے شخص کی نماز ہو جاتی ہے لیکن باجماعت پڑھنا افضل ہے۔
➌ بعض روایت میں ستائیس (27) درجے ثواب کا ذکر ہے۔ ان روایات میں کوئی تعارض نہیں بلکہ ہر شخص کو اس کی نیت، خلوص، اتباع سنت اور بہترین عمل کے مطابق اجر ملے گا۔ ان شاء اللہ۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 11   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ محمد حسین میمن حفظ اللہ
الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ
مولانا عطا اللہ ساجد حفظ اللہ
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ
شیخ الحدیث مولانا عبد العزیز علوی حفظ اللہ
مولانا داود راز رحمہ اللہ
الشیخ عبدالستار الحماد حفظ اللہ
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 477  
´ کسی جگہ کا بند ہونا نماز سے نہیں روکتا`
«. . . وَصَلَّى ابْنُ عَوْنٍ فِي مَسْجِدٍ فِي دَارٍ يُغْلَقُ عَلَيْهِمُ الْبَابُ . . .»
. . . ‏‏‏‏ اور عبداللہ بن عون نے ایک ایسے گھر کی مسجد میں نماز پڑھی جس کے دروازے عام لوگوں پر بند کئے گئے تھے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ: Q477]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ابن عون کا ایک اثر ذکر فرمایا ہے بعض کا کہنا ہے کہ یہ اثر معلق ذکر فرمایا ہے تعلیق ترجمہ کی دلیل اور مناسبت باب کچھ اس طرح سے ہے کہ کسی جگہ کا بند ہونا نماز سے نہیں روکتا اس لیے کہ ابن عون نے بند حویلی میں نماز پڑھی اس بندش نے اس کے اندر مسجد بنانے کو منع نہ کیا اسی طرح بازار اگر بند ہوتا ہے تب بھی وہاں نماز درست ہے، ذیل میں جو حدیث پیش فرمائی ہے اس سے بھی ترجمۃ الباب کا مناسبت ہونا واضح ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جماعت کی نماز اس کے گھر اور بازار کی نماز سے پچیس درجہ زیادہ ہے۔ جب بازار میں انفرادی نماز جائز ہے تو پھر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا بالاولیٰ جائز ہوا۔
اگر غور کیا جائے تو مندرجہ بالا ترجمہ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ دراصل امام قسطلانی رحمہ اللہ نے مسند بزار کے حوالے سے نقل فرمایا ہے کہ «شر البقاع أسواقها» یعنی بازار بدترین مقامات ہیں اور مساجد بہترین جگہیں۔ لہٰذا اس سے یہ امر ظاہر ہے کہ بازار میں شور و غل، مکر و فریب، جھوٹی قسموں کے بازار گرم ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ جگہ شر اور فساد کا مرکز ہے۔ لہٰذا اس امر سے کسی کو یہ وھم نہ لگ جائے کہ بازار میں نماز ادا کرنا یا مسجد کا بنانا جائز نہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ ثابت کرنے کی سعی فرمائی ہے کہ بازار میں نماز پڑھنا بھی جائز ہے اور مسجد السوق کہہ کر یہ بھی واضح کر دیا کہ بازار میں نماز کی جگہ مقرر کرنا بھی جائز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے سب سے پہلے ابن عون کا اثر ذکر فرمایا تاکہ مسئلہ واضح ہو جائے۔

◈ بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بازار نماز کی جگہیں نہیں ہیں، مگر ان میں نماز ادا کرنا درست و جائز ہے۔ جس طرح دوسرے مقامات میں نماز جائز ہے۔
مزید فرماتے ہیں:
«وكذالك الصلاة فى المسجد المحجور فانه جائز فنبه عليه بحديث ابن عمر» [مناسبات تراجم البخاري، ص47]
اسی طرح سے محجور مسجد میں نماز درست ہے جس کی خبر حدیث ابن عمر سے ہوتی ہے۔

تنبیہ:
مندرجہ بالا اثر میں ابن عمر نہیں ہیں بلکہ ابن عون ہیں، بدرالدین بن جماعۃ نے یہ حوالہ صاحب المتواری ابن المنیر سے نقل فرمایا ہے، جب کہ ان سے بھی وہاں سھو ہوا ہے۔ کیونکہ صحیح بخاری کے نسخے میں ابن عمر نہیں ہیں بلکہ ابن عون ہیں۔

فائدہ:
«وقال الكرماني: لعل غرض البخاري منه الرد على الحنفية قالوا بامتناع اتخاذ المسجد فى الدار المحجوبة عن الناس والذي فى كتب الحنفية الكراهية لا التحريم .» [فتح الباري، ج1، ص743]
امام کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: یہاں پر امام بخاری رحمہ اللہ کو احناف کا رد مقصود ہے جو کہتے ہیں کہ گھر میں جہاں لوگوں کو آنے جانے کی اجازت نہ ہو مسجد بنانا جائز نہیں حالانکہ حنفیہ کی کتب میں اسے مکروہ لکھا ہے نہ کہ حرام۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 164   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 487  
´نماز باجماعت کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جماعت کی نماز تمہاری تنہا نماز سے پچیس گنا فضیلت رکھتی ہے ۱؎ رات اور دن کے فرشتے نماز فجر میں اکٹھا ہوتے ہیں، اگر تم چاہو تو آیت کریمہ «وقرآن الفجر إن قرآن الفجر كان مشهودا» ۲؎ پڑھ لو (الاسراء: ۲۸)۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 487]
487 ۔ اردو حاشیہ:
پچیس گنا کیونکہ باجماعت نماز پڑھنے کے لیے انسان کو بہت سے نیک کام زائد کرنے پڑتے ہیں، مثلاً: گھر سے نماز کے ارادے سے نکلنا، دعا پڑھنا، مسجد کی طرف چلنا، راستے میں ملنے والوں سے سلام و جواب کرنا، مریض کی بیمارپرسی کرنا، راستے کوصاف رکھنا، کسی کو راستہ بتانا اور عاجز کی مدد کرنا وغیرہ وغیرہ۔
➋ویسے تو فرشتے ہر نماز میں حاضر ہوتے ہیں مگر چونکہ فجر کی نماز میں دن اور رات کے فرشتے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا خصوصی ذکر فرمایا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 487   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث786  
´جماعت سے نماز پڑھنے کی فضیلت۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا گھر میں یا بازار میں تنہا نماز پڑھنے سے بیس سے زیادہ درجہ افضل ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 786]
اردو حاشہ:
(1)
دنیا میں جو ہمیں عمل کی مہلت ملی ہے وہ بہت مختصر سی ہے۔
یہ اللہ تعالی کا خاص فضل ہے کہ اس نے بعض اعمال کا ثواب بہت زیادہ رکھا ہے۔
ہمیں اللہ کی اس رحمت سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنے کے لیے نماز ہمیشہ باجماعت ادا کرنی چاہیے
(2)
اس حدیث میں (بِضْعًا وَعِشْرِينَ)
کا لفظ ہے۔
بضع کا لفظ تین سے نو تک بولا جاتا ہے۔
اس کی وضاحت اگلی حدیثوں سے ہوتی ہے جن میں پچیس گنا اور ستائیس گنا کے الفاظ وارد ہیں۔

(3)
  اس عدد کا مطلب یہ ہے کہ ثواب اس حد تک پہنچ سکتا ہے۔
اگر نماز میں توجہ خشوع و خضوع اور اطمینان میں نقص ہوگا تو ثواب میں بھی کمی ہوجائے گی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 786   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 216  
´باجماعت نماز کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کی باجماعت نماز اس کی تنہا نماز سے پچیس گنا بڑھ کر ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 216]
اردو حاشہ:
1؎:
پچیس اور ستائیس کے مابین کوئی منافات نہیں ہے،
پچیس کی گنتی ستائیس میں داخل ہے،
یہ بھی احتمال ہے کہ پہلے نبی اکرم ﷺ نے پچیس گنا ثواب کا ذکر کیا ہو بعد میں ستائیس گنا کا،
اور بعض نے کہا ہے کہ یہ فرق مسجد کے نزدیک اور دور ہونے کے اعتبار سے ہے اگر مسجد دور ہو گی تو اجر زیادہ ہو گا اور نزدیک ہو گی تو کم،
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ کمی و زیادتی خشوع و خضوع میں کمی و زیادتی کے اعتبار سے ہو گی،
نیز یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ فرق جماعت کی تعداد کی کمی و زیادتی کے اعتبار سے ہوگا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 216   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1475  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
الفذ:
وحده یعنی اکیلے اور منفرد کے معنی میں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1475   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1506  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
لَايَنْهَزُهُ:
اس کو نمازکےسوا کوئی چیزنہیں اٹھاتی،
آگے لَايُرِيْدُ إِلَّاالصَّلٰوةَ:
اس کی تفسیر وتوضیح ہے کہ وہ صرف نماز ہی کا ارادہ کرتا ہے۔
(2)
خُطْوَة:
پیش کے ساتھ،
قدم۔
(3)
خُطْوَة:
زبر کے ساتھ،
ایک قدم اٹھانا۔
(4)
مَالَمْ يُؤْذِ:
کی تفسیر ہے مَالَمْ يُحْدِثْ:
یعنی ہوا خارج کرکے حاضرین (فرشتوں،
انسانوں)

کو اذیت وتکلیف پہنچانا،
یا اس(مسجد)
میں خلاف شریعت کسی حرکت کا ارتکاب کرنا۔
فوائد ومسائل:
یہ حدیث پیچھے گزر چکی ہے اور وہاں اس کے فوائد گزر چکے ہیں مقصد یہ ہے کہ دور کی مسافت سے آنے والے نمازی کو قدم زیادہ اٹھانے پڑتے ہیں اس لیے اس کو اجرو ثواب بھی زیادہ ملتا ہے اور انسان جب تک مسجد میں نماز کے انتظار میں بیٹھتا ہے وہ نماز کے حکم میں ہوتا ہے اور فرشتوں کی دعاؤں کا حقدارٹھہرتا ہے اس لیے اس کو مسجد میں ادب و احترام اور وقار کے ساتھ بیٹھنا چاہیے اور کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے دوسروں کے لیے تکلیف دہ ہو۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1506   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2119  
2119. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کسی ایک کا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا اس کے بازار اور گھر میں نماز پڑھنے سے بیس سے کئی درجے زیادہ باعث ثواب ہے یہ اس لیے کہ جب وہ وضوکرتا ہے اور اسے اچھی طرح بناتاہے۔ پھر مسجد میں آتا ہے اور اس کا ارادہ صرف نماز پڑھنے کا ہوتا ہے اور اس کو نماز ہی مسجد میں لے جاتی ہے تو ایسے حالات میں وہ قدم نہیں اٹھاتا مگر اس کے باعث ایک درجہ بلند ہوتا ہے، نیز اس کے بدلے میں اس کا ایک گناہ بھی معاف ہوتا ہے اور فرشتے تو مسلسل اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں، جب تک وہ اپنے مصلے پر بیٹھا رہتا ہے، جس پر اس نے نماز پڑھی ہو۔ فرشتے کہتے ہیں۔ اے اللہ!اس شخص پر اپنی رحمت بھیج، اے اللہ! اس پر رحم فرما، جب تک وہ بے وضو نہ ہو اور کسی کو اذیت نہ پہنچائے۔ نیز آپ نے فرمایا: جتنی دیر تک آدمی نماز کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2119]
حدیث حاشیہ:
حدیث ہذا میں بازاروں کا ذکر آیا۔
اور بوقت ضرورت وہاں نماز پڑھنے کا بھی ذکر آیا۔
جس سے ثابت ہوا کہ اسلام میں بازاروں کا وجود قائم رکھا گیا اور وہاں آنا جانا، خرید و فروخت کرنا بھی، تاکہ امور تمدنی کو ترقی حاصل ہو، مگر بازاروں میں جھوٹ، مکر و فریب بھی لوگ بکثر ت کرتے ہیں اس لحاظ سے بازار کو بدترین زمین قرار دیا گیا، باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2119   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4717  
4717. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "نماز باجماعت اکیلے نماز پڑھنے سے پچیس گنا زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ اور صبح کی نماز کے وقت رات اور دن کے فرشتے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔" حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے تھے: اگر چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: "اور فجر کا قرآن پڑھنا، یقینا فجر کے وقت کا قرآن پڑھنا حاضر کیا گیا ہے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4717]
حدیث حاشیہ:
اس میں رات اور دن کے دونوں فرشتے حاضر ہوتے اور پھر اپنی اپنی ڈیوٹی بدلتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4717   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 477  
477. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: "نماز باجماعت گھر اور بازار کی نماز سے پچیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے، اس لیے کہ جب کوئی شخص اچھی طرح وضو کرے اور مسجد میں نماز ہی کے ارادے سے آئے تو مسجد میں پہنچنے تک جو قدم اٹھاتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ ایک درجہ بلند کرتا ہے اور اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔ اور جب وہ مسجد میں پہنچ جاتا ہے تو جب تک نماز کے لیے وہاں رہتا ہے، اسے برابر نماز کا ثواب ملتا رہتا ہے۔ اور جب تک وہ اپنے اس مقام میں رہے جہاں نماز پڑھتا ہے تو فرشتے اس کے لیے یوں دعا کرتے ہیں: اے اللہ اسے معاف کر دے۔ اے اللہ! اس پر رحم فرما، بشرطیکہ ہوا خارج کر کے دوسروں کو تکلیف نہ دے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:477]
حدیث حاشیہ:
بازار کی مسجد میں نماز پچیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے گھر کی نماز سے، اسی سے ترجمہ باب نکلتاہے کیونکہ جب بازار میں اکیلے نماز پڑھنی جائز ہوئی تو جماعت سے بطریق اولیٰ جائز ہوگی۔
خصوصاً بازار کی مسجدوں میں اورآج کل تو شہروں میں بے شماربازارہیں جن میں بڑی بڑی شاندار مساجد ہیں۔
حضرت امام قدس سرہ نے ان سب کی فضیلت پر اشارہ فرمایا۔
جزاہ اللّٰہ خیرالجزاء
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 477   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 647  
647. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ آدمی کا باجماعت نماز ادا کرنا اس کے اپنے گھر اور اپنے بازار میں نماز پڑھنے سے پچیس گنا زیادہ ثواب ہے اور یہ اس طرح کہ جب وہ عمدہ طریقے سے وضو کر کے مسجد کی طرف روانہ ہو اور محض نماز کے لیے چلے تو جو قدم بھی اٹھائے گا اس کے بدلے اس کا ایک درجہ بلند ہو گا اور ایک گناہ بھی معاف ہو گا۔ پھر جب وہ نماز ادا کر لے گا تو جب تک اپنی جائے نماز پر رہے گا، فرشتے اس کے لیے دعا کرتے رہیں گے کہ یا اللہ! تو اس پر اپنا فضل و کرم فرما، یا اللہ! تو اس پر رحم و شفقت فرما۔ اور جب تک تم میں سے کوئی نماز کا انتظار کرتا ہے تو وہ گویا نماز ہی میں رہتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:647]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں پچیس درجہ اورابن عمر ؓ کی حدیث میں ستائیس درجہ ثواب باجماعت نماز میں بتایاگیا ہے۔
بعض محدثین نے یہ بھی لکھا ہے کہ ابن عمر ؓ کی روایت زیادہ قوی ہے۔
اس لیے عدد سے متعلق اس روایت کو ترجیح ہوگی۔
لیکن اس سلسلے میں زیادہ صحیح مسلک یہ ہے کہ دونوں کو صحیح تسلیم کیا جائے۔
باجماعت نماز بذات خود واجب یا سنت مؤکدہ ہے۔
ایک فضیلت کی وجہ تو یہی ہے۔
پھر باجماعت نماز پڑھنے والوں کے اخلاص وتقویٰ میں بھی تفاوت ہوگا اور ثواب بھی اسی کے مطابق کم وبیش ملے گا۔
اس کے علاوہ کلام عرب میں یہ اعداد کثرت کے اظہار کے موقع پر بولے جاتے ہیں۔
گویا مقصود صرف ثواب کی زیادتی کو بتانا تھا۔
(تفہیم البخاری)
ابن دقیق العید ؒ کہتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ مسجد میں جماعت سے نمازادا کرنا گھروں اوربازاروں میں نماز پڑھنے سے پچیس گنا زیادہ ثواب رکھتا ہے گو بازار یا گھر میں جماعت سے نماز پڑھے، حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں گھر میں اوربازار میں نماز پڑھنے سے وہاں اکیلے پڑھنا مراد ہے۔
واللہ اعلم۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 647   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:477  
477. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: "نماز باجماعت گھر اور بازار کی نماز سے پچیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے، اس لیے کہ جب کوئی شخص اچھی طرح وضو کرے اور مسجد میں نماز ہی کے ارادے سے آئے تو مسجد میں پہنچنے تک جو قدم اٹھاتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ ایک درجہ بلند کرتا ہے اور اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔ اور جب وہ مسجد میں پہنچ جاتا ہے تو جب تک نماز کے لیے وہاں رہتا ہے، اسے برابر نماز کا ثواب ملتا رہتا ہے۔ اور جب تک وہ اپنے اس مقام میں رہے جہاں نماز پڑھتا ہے تو فرشتے اس کے لیے یوں دعا کرتے ہیں: اے اللہ اسے معاف کر دے۔ اے اللہ! اس پر رحم فرما، بشرطیکہ ہوا خارج کر کے دوسروں کو تکلیف نہ دے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:477]
حدیث حاشیہ:

مساجد کی دو اقسام ہیں:
ایک تو اصطلاحی مساجد ہیں جن میں نماز پڑھنے کے متعلق اذن عام ہوتا ہے اور وہ تمام مسلمانوں کے لیے وقف کی حیثیت رکھتی ہیں۔
دوسری جگہ وہ مساجد ہوتی ہیں جو صرف لغوی طور پر مساجد کہلاتی ہیں جیسا کہ گھر میں مسجد بنالی جاتی ہے یا بازار میں کسی دکان کے سامنے نماز پڑھنے کے لیے کوئی جگہ متعین کرلی جاتی ہے۔
جب بازار بند ہوگیا تو اس کے ساتھ مسجد بھی بند ہوجاتی ہے۔
عہد نبوی میں بھی بازاروں کی مساجد اسی طرح ہوتی تھیں کیونکہ وہ بازار آبادی سے باہر ہوتے تھے۔
عارضی طور پر مسجد بنالی جاتی،جب بازار ختم ہوجاتا تو مسجد بھی ختم ہوجاتی۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس عنوان میں تنہا اور باجماعت نماز کے ثواب کا فرق بیان کرناچاہتے ہیں یعنی باجماعت نماز میں بانسبت تنہایا بازار میں نماز پڑھنے کے پچیس گنا زیادہ ثواب ملتا ہے۔
بازار کی مساجد میں نماز تو ہوجاتی ہے لیکن انسان باجماعت نماز کے اضافی ثواب سے محروم رہتاہے،چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں:
مسجد سوق سے مراد ہو جگہ ہے جسے بازار والے نماز پڑھنے کے لیے مقرر کریں۔
اس کے علاوہ محلے کی مسجد اور ہوتی ہے اس کےلیے تو ہمیشہ مسجد کا حکم ہے،یعنی بازار کی مسجد میں نماز پڑھنے کا جواز ثابت کرتا ہے۔
کہ وہاں نماز ہوجاتی ہے لیکن اس دور میں آبادی کےاندر بازار اور مارکیٹیں ہیں اور بعض مقامات میں کچھ دکاندار مل کر مسجد کے لیے جگہ خرید کر وہاں مسجد بنالیتے ہیں۔
یعنی وہ اصطلاحی مسجد بناتے ہیں۔
اس میں باقاعدہ اذان اور جماعت بلکہ بعض میں جمعہ کا اہتمام ہوتا ہے۔
اگر کوئی بازار میں اس طرح کی مساجد میں نماز ادا کرے گا تو وہ پورے اضافی ثواب کا حقدار ہوگا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مسجد سوق کا عنوان اس لیے قائم کیا ہے کہ بازار شوروشغب،خریدوفروخت اور جھوٹی قسموں کی جگہ ہے اور اسے شرالبقاع کہا گیا ہے،اس بنا پر وہم ہوسکتا ہے کہ شاید ایسے مقام پر نماز جائز نہ ہو،اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جواز ثابت کیا ہے۔

ابن بطال کہتے ہیں:
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو بازار کے متعلق آنے والی حدیث شرالبقاع کی وجہ سے یہ اندیشہ ہوا کہ مبادا وہاں نماز پڑھنا ناجائز ہو،اس لیے انھوں نے حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرکے اس کا جواز ثابت کیا ہے کیونکہ اس میں بازار کے اند رنماز پڑھنے کا ثبوت ہے۔
اگر کوئی وہاں نماز پڑھتا ہے تو وہ ایسے ہی ہے جیسے گھر میں اکیلا نماز پڑھتا ہے۔
مزید برآں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ جب بازار میں انفرادی نماز کا جواز معلوم ہواتو بازار میں مسجد شرعی تعمیر کرنے کا جواز بدرجہ اولیٰ معلوم ہوگیا۔
(شرح ابن بطال 124/1۔
)

اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ شارح بخاری ابن بطال نے بھی مسجد سوق سے شرعی مسجد مراد نہیں لی بلکہ درجہ اولیٰ(بدرجہ اولی)
میں لاکر بازار کی شرعی اور لغوی دونوں قسم کی مساجد میں نماز کا جوازثابت کیا ہے۔
واللہ اعلم۔
بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ اگرعذر ہوتوگھر یا بازار میں اکیلا نماز پڑھ لے تو نماز ہوجائے گی،البتہ اضافی ثواب نہیں ملے گا اور اگر مسجد شرعی محلے یا بازار میں ہو،وہاں نماز پڑھنے سے اضافی ثواب بھی ملے گا،لہذا بازار میں نماز پڑھنا صحیح ہے۔
اوربازار میں اگر مسجد شرعی ہوتو اس میں نماز پڑھنے کا ثواب بھی محلے کی مسجد کے ثواب کے برابر ہوگا۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع 1. تحسين الوضوء (العبادات)
2. فضل انتظار الصلاة (العبادات)
3. فضل صلاة الجماعة وحكمها (العبادات)
4. دعاء الملائكة للمسلمين (الإيمان)
5. صلاة الملائكة على المسلمين (الإيمان)
6. الصلاة في المسجد (العبادات)
7. الصلاة في الأسواق (العبادات)
8. السؤال بأسماء الله تعالى (الإيمان)
9. المكث في المسجد (العبادات)
10. كفارات الصغائر (الإيمان)
11. استغفار الملائكة للمسلمين (العبادات)
موضوعات 1. اچھے انداز سے وضو کرنا (عبادات)
2. نماز کے انتظار کی فضیلت (عبادات)
3. با جماعت نماز کی فضیلت اور اس کا حکم (عبادات)
4. فرشتوں کا مسلمانوں کے لیے دعا کرنا (ایمان)
5. فرشتوں کامسلمانوں کےلیے دعائے رحمت کرنا (ایمان)
6. مسجد میں نماز پڑھنا (عبادات)
7. بازار میں نماز پڑھنا (عبادات)
8. اسمائے حسنیٰ کے واسطے سے دعا کرنا (ایمان)
9. مسجد میں ٹھہرنا (عبادات)
10. چھوٹے گناہوں کا مٹانا (ایمان)
11. فرشتوں کا مسلمانوں کے لیے بخشش کی دعا کرنا (عبادات)
Topics 1. Making ablution perfectly (Prayers/Ibadaat)
2. Virtue of waiting for prayer (Prayers/Ibadaat)
3. Ruling of congregational prayer and its virtue (Prayers/Ibadaat)
4. Angels praying for Muslims (Faith)
5. Angels' prayer for the well-
being of Muslims (Faith)
6. Offering prayer in Masjid (Prayers/Ibadaat)
7. Offering prayer at market (Prayers/Ibadaat)
8. Praying with The Names of Allah Almighty (Faith)
9. Staying in mosque (Prayers/Ibadaat)
10. Omission of minor sins (Faith)
11. Angels praying for the forgiveness of Muslims (Prayers/Ibadaat)
Sharing Link:
https:
//www.mohaddis.com/View/Sahi-
Bukhari/T8/477 تراجم الحديث المذكور المختلفة موجودہ حدیث کے دیگر تراجم × ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
٣. شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد راز (مکتبہ قدوسیہ)
5. Dr. Muhammad Muhsin Khan (Darussalam)
ترجمۃ الباب:
اور عبداللہ بن عون نے ایک ایسے گھر کی مسجد میں نماز پڑھی جس کے دروازے عام لوگوں پر بند کئے گئے تھےحدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا:
"نماز باجماعت گھر اور بازار کی نماز سے پچیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے، اس لیے کہ جب کوئی شخص اچھی طرح وضو کرے اور مسجد میں نماز ہی کے ارادے سے آئے تو مسجد میں پہنچنے تک جو قدم اٹھاتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ ایک درجہ بلند کرتا ہے اور اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔
اور جب وہ مسجد میں پہنچ جاتا ہے تو جب تک نماز کے لیے وہاں رہتا ہے، اسے برابر نماز کا ثواب ملتا رہتا ہے۔
اور جب تک وہ اپنے اس مقام میں رہے جہاں نماز پڑھتا ہے تو فرشتے اس کے لیے یوں دعا کرتے ہیں:
اے اللہ اسے معاف کر دے۔
اے اللہ! اس پر رحم فرما، بشرطیکہ ہوا خارج کر کے دوسروں کو تکلیف نہ دے۔
" حدیث حاشیہ:

مساجد کی دو اقسام ہیں:
ایک تو اصطلاحی مساجد ہیں جن میں نماز پڑھنے کے متعلق اذن عام ہوتا ہے اور وہ تمام مسلمانوں کے لیے وقف کی حیثیت رکھتی ہیں۔
دوسری جگہ وہ مساجد ہوتی ہیں جو صرف لغوی طور پر مساجد کہلاتی ہیں جیسا کہ گھر میں مسجد بنالی جاتی ہے یا بازار میں کسی دکان کے سامنے نماز پڑھنے کے لیے کوئی جگہ متعین کرلی جاتی ہے۔
جب بازار بند ہوگیا تو اس کے ساتھ مسجد بھی بند ہوجاتی ہے۔
عہد نبوی میں بھی بازاروں کی مساجد اسی طرح ہوتی تھیں کیونکہ وہ بازار آبادی سے باہر ہوتے تھے۔
عارضی طور پر مسجد بنالی جاتی،جب بازار ختم ہوجاتا تو مسجد بھی ختم ہوجاتی۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس عنوان میں تنہا اور باجماعت نماز کے ثواب کا فرق بیان کرناچاہتے ہیں یعنی باجماعت نماز میں بانسبت تنہایا بازار میں نماز پڑھنے کے پچیس گنا زیادہ ثواب ملتا ہے۔
بازار کی مساجد میں نماز تو ہوجاتی ہے لیکن انسان باجماعت نماز کے اضافی ثواب سے محروم رہتاہے،چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں:
مسجد سوق سے مراد ہو جگہ ہے جسے بازار والے نماز پڑھنے کے لیے مقرر کریں۔
اس کے علاوہ محلے کی مسجد اور ہوتی ہے اس کےلیے تو ہمیشہ مسجد کا حکم ہے،یعنی بازار کی مسجد میں نماز پڑھنے کا جواز ثابت کرتا ہے۔
کہ وہاں نماز ہوجاتی ہے لیکن اس دور میں آبادی کےاندر بازار اور مارکیٹیں ہیں اور بعض مقامات میں کچھ دکاندار مل کر مسجد کے لیے جگہ خرید کر وہاں مسجد بنالیتے ہیں۔
یعنی وہ اصطلاحی مسجد بناتے ہیں۔
اس میں باقاعدہ اذان اور جماعت بلکہ بعض میں جمعہ کا اہتمام ہوتا ہے۔
اگر کوئی بازار میں اس طرح کی مساجد میں نماز ادا کرے گا تو وہ پورے اضافی ثواب کا حقدار ہوگا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مسجد سوق کا عنوان اس لیے قائم کیا ہے کہ بازار شوروشغب،خریدوفروخت اور جھوٹی قسموں کی جگہ ہے اور اسے شرالبقاع کہا گیا ہے،اس بنا پر وہم ہوسکتا ہے کہ شاید ایسے مقام پر نماز جائز نہ ہو،اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جواز ثابت کیا ہے۔

ابن بطال کہتے ہیں:
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو بازار کے متعلق آنے والی حدیث شرالبقاع کی وجہ سے یہ اندیشہ ہوا کہ مبادا وہاں نماز پڑھنا ناجائز ہو،اس لیے انھوں نے حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرکے اس کا جواز ثابت کیا ہے کیونکہ اس میں بازار کے اند رنماز پڑھنے کا ثبوت ہے۔
اگر کوئی وہاں نماز پڑھتا ہے تو وہ ایسے ہی ہے جیسے گھر میں اکیلا نماز پڑھتا ہے۔
مزید برآں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ جب بازار میں انفرادی نماز کا جواز معلوم ہواتو بازار میں مسجد شرعی تعمیر کرنے کا جواز بدرجہ اولیٰ معلوم ہوگیا۔
(شرح ابن بطال 124/1۔
)

اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ شارح بخاری ابن بطال نے بھی مسجد سوق سے شرعی مسجد مراد نہیں لی بلکہ درجہ اولیٰ(بدرجہ اولی)
میں لاکر بازار کی شرعی اور لغوی دونوں قسم کی مساجد میں نماز کا جوازثابت کیا ہے۔
واللہ اعلم۔
بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ اگرعذر ہوتوگھر یا بازار میں اکیلا نماز پڑھ لے تو نماز ہوجائے گی،البتہ اضافی ثواب نہیں ملے گا اور اگر مسجد شرعی محلے یا بازار میں ہو،وہاں نماز پڑھنے سے اضافی ثواب بھی ملے گا،لہذا بازار میں نماز پڑھنا صحیح ہے۔
اوربازار میں اگر مسجد شرعی ہوتو اس میں نماز پڑھنے کا ثواب بھی محلے کی مسجد کے ثواب کے برابر ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عون نے ایک ایسے گھر کی مسجد میں نماز پڑھی جس کے دروازے عام لوگوں پر بند کر دیے جاتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابومعاویہ نے اعمش کے واسطہ سے، انھوں نے ابوصالح ذکوان سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے، انھوں نے رسول کریم ﷺ سے کہ آپ ﷺ نے فرمایا، جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں گھر کے اندر یا بازار (دوکان وغیرہ)
میں نماز پڑھنے سے پچیس گنا ثواب زیادہ ملتا ہے۔
کیونکہ جب کوئی شخص تم میں سے وضو کرے اور اس کے آداب کا لحاظ رکھے پھر مسجد میں صرف نماز کی غرض سے آئے تو اس کے ہر قدم پر اللہ تعالیٰ ایک درجہ اس کا بلند کرتا ہے اور ایک گناہ اس سے معاف کرتا ہے۔
اس طرح وہ مسجد کے اندر آئے گا۔
مسجد میں آنے کے بعد جب تک نماز کے انتظار میں رہے گا۔
اسے نماز ہی کی حالت میں شمار کیا جائے گا اور جب تک اس جگہ بیٹھا رہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہے تو فرشتے اس کے لیے رحمت خداوندی کی دعائیں کرتے ہیں کہ اے اللہ! اس کو بخش دے، اے اللہ! اس پر رحم کر۔
جب تک کہ ریح خارج کر کے (وہ فرشتوں کو)
تکلیف نہ دے۔
حدیث حاشیہ:
بازار کی مسجد میں نماز پچیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے گھر کی نماز سے، اسی سے ترجمہ باب نکلتاہے کیونکہ جب بازار میں اکیلے نماز پڑھنی جائز ہوئی تو جماعت سے بطریق اولیٰ جائز ہوگی۔
خصوصاً بازار کی مسجدوں میں اورآج کل تو شہروں میں بے شماربازارہیں جن میں بڑی بڑی شاندار مساجد ہیں۔
حضرت امام قدس سرہ نے ان سب کی فضیلت پر اشارہ فرمایا۔
جزاہ اللّٰہ خیرالجزاء حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA)
:
The Prophet (ﷺ) said, "The prayer offered in congregation is twenty five times more superior (in reward)
to the prayer offered alone in one's house or in a business center, because if one performs ablution and does it perfectly, and then proceeds to the mosque with the sole intention of praying, then for each step which he takes towards the mosque, Allah upgrades him a degree in reward and (forgives)
crosses out one sin till he enters the mosque. When he enters the mosque he is considered in prayer as long as he is waiting for the prayer and the angels keep on asking for Allah's forgiveness for him and they keep on saying:
'O Allah! Be Merciful to him, O Allah! Forgive him, as long as he keeps on sitting at his praying place and does not pass wind. (See Hadith No. 620)
. حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
بازار کی مسجد میں نماز پچیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے گھر کی نماز سے، اسی سے ترجمہ باب نکلتاہے کیونکہ جب بازار میں اکیلے نماز پڑھنی جائز ہوئی تو جماعت سے بطریق اولیٰ جائز ہوگی۔
خصوصاً بازار کی مسجدوں میں اورآج کل تو شہروں میں بے شماربازارہیں جن میں بڑی بڑی شاندار مساجد ہیں۔
حضرت امام قدس سرہ نے ان سب کی فضیلت پر اشارہ فرمایا۔
جزاہ اللّٰہ خیرالجزاء حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر)
١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم483٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
477٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
457٤. ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
477٥. ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
465٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
473٧. ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
477٨. ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
477١٠.ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
477 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة تمہید باب × حدیث کے مطابق بازاروں کو شرالبقاع یعنی بدترین مقامات قراردیا گیا ہے جب کہ مساجد کو خیر البقاع یعنی بہترین مقامات کہا گیا ہے۔
اب اگر بازار میں مسجد بنا لی جائے تو کیا وہ حصہ بہترین مقامات میں شمار ہو سکےگا؟ اور کیا ایسی مسجد میں نماز وہ جماعت کا ثواب دیگر مساجد کی طرح ہوگا؟ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان میں اسی شبہ کا ازالہ کیا ہے بازار میں بلا ضرورت جانا امر ممنوع ہے ابن عون نے گھر کی ایسی مسجد میں نماز پڑھی جس کا دروازہ بند ہو جا تا تھا گویا وہاں صرف مخصوص لوگ آ سکتے تھے دیگر حضرات کا آنا منع تھا لیکن اس مسجد میں بھی نماز جائز تھی معلوم ہوا کہ جانے پر پابندی یا جانے ممانعت جواز نماز کے لیے مانع نہیں نیز بازار میں اگر مسجد بن جائے تو وہ خیر البقاع (بہترین مقام)
بن جاتا ہے۔
(فتح الباری: 1/730۔
)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 477   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:647  
647. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ آدمی کا باجماعت نماز ادا کرنا اس کے اپنے گھر اور اپنے بازار میں نماز پڑھنے سے پچیس گنا زیادہ ثواب ہے اور یہ اس طرح کہ جب وہ عمدہ طریقے سے وضو کر کے مسجد کی طرف روانہ ہو اور محض نماز کے لیے چلے تو جو قدم بھی اٹھائے گا اس کے بدلے اس کا ایک درجہ بلند ہو گا اور ایک گناہ بھی معاف ہو گا۔ پھر جب وہ نماز ادا کر لے گا تو جب تک اپنی جائے نماز پر رہے گا، فرشتے اس کے لیے دعا کرتے رہیں گے کہ یا اللہ! تو اس پر اپنا فضل و کرم فرما، یا اللہ! تو اس پر رحم و شفقت فرما۔ اور جب تک تم میں سے کوئی نماز کا انتظار کرتا ہے تو وہ گویا نماز ہی میں رہتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:647]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور اس کی داد و دہش کے چار اسباب بیان ہوئے ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
٭عمدہ طریقے سے وضو کرنے کو رفع درجات اور کفارۂ سیئات کا سبب قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے حتی کہ جب انسان وضو سے فارغ ہوتا ہے تو اس کے تمام صغیرہ گناہ دھل جاتی ہیں۔
٭نماز کے لیے گھر سے مسجد کی طرف جتنے قدم چل کر آئے گا اسے ہر قدم کے بدلے ایک نیکی ملے گی اور ایک گناہ معاف ہوگا۔
٭نماز سے فراغت کے بعد جائے نماز پر بیٹھ کر ذکرو فکر میں مشغول ہونا بھی فرشتوں کی دعائیں لینے کا بڑا سبب ہے۔
٭مسجد میں بیٹھ کر دوسری نماز کا انتظار کرنا،اس سے وہ نماز ہی میں متصور ہوتا ہے۔
یہ وہ اس باب ہیں جو نماز باجماعت ادا کرنے سے اللہ کے فضل وکرم کا باعث ہیں۔
انھیں انفرادی نماز کے مقابلے میں اجتماعی نماز کی پچیس گنا فضیلت کے اسباب قرار نہیں دینا چاہیے، جیسا کہ حدیث کےظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 647   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:648  
648. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: نماز باجماعت تنہا شخص کی نماز سے پچیس درجے میں زیادہ ہے۔ اور رات دن کے فرشتے نماز فجر میں جمع ہوتے ہیں۔ پھر حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا: اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: فجر میں قرآن کی تلاوت پر فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:648]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث میں نماز فجر باجماعت ادا کرنے کی وجہ فضیلت کو بیان کیا ہے کہ اس میں دن رات کے فرشتے جمع ہوتے ہیں۔
اسی فضیلت کے پیش نطر حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ تمام رات نوافل پڑھنے سے مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ نماز فجر کی جماعت میں شرکت کروں۔
(2)
یہ فضیلت نماز عصر کوبھی حاصل ہے، جیسا کہ احادیث میں صراحت کے ساتھ اس کا ذکر ہے۔
ممکن ہے کہ نماز فجر اور نماز عصر میں فرشتوں کا حاضر ہونا دو اضافی درجے ہوں جو پچیس درجات کے علاوہ ہوں، کیونکہ اس حدیث میں پچیس درجات کے بیان کے بعد مستقل طور پر اجتماع ملائکہ کا ذکر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کے بعد حدیث ابن عمر ؓ کو بیان کیا ہے جس میں وضاحت ہے کہ نماز باجماعت انفرادی نماز کے مقابلے میں ستائیس درجے فضیلت رکھتی ہیں۔
(شرح ابن بطال: 278/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 648   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2119  
2119. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کسی ایک کا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا اس کے بازار اور گھر میں نماز پڑھنے سے بیس سے کئی درجے زیادہ باعث ثواب ہے یہ اس لیے کہ جب وہ وضوکرتا ہے اور اسے اچھی طرح بناتاہے۔ پھر مسجد میں آتا ہے اور اس کا ارادہ صرف نماز پڑھنے کا ہوتا ہے اور اس کو نماز ہی مسجد میں لے جاتی ہے تو ایسے حالات میں وہ قدم نہیں اٹھاتا مگر اس کے باعث ایک درجہ بلند ہوتا ہے، نیز اس کے بدلے میں اس کا ایک گناہ بھی معاف ہوتا ہے اور فرشتے تو مسلسل اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں، جب تک وہ اپنے مصلے پر بیٹھا رہتا ہے، جس پر اس نے نماز پڑھی ہو۔ فرشتے کہتے ہیں۔ اے اللہ!اس شخص پر اپنی رحمت بھیج، اے اللہ! اس پر رحم فرما، جب تک وہ بے وضو نہ ہو اور کسی کو اذیت نہ پہنچائے۔ نیز آپ نے فرمایا: جتنی دیر تک آدمی نماز کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2119]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں بازار کا ذکر آیا ہے اور اس میں نماز پڑھنے کا بیان ہوا ہے، اس سے ثابت ہواکہ اسلام میں بازاروں کا وجود قائم رکھا گیا ہے۔
وہاں آنا جانا،خریدوفروخت کرنا بھی جائز ہے تاکہ تمدفی امور کو ترقی حاصل ہو مگر کچھ لوگ بازاروں میں لوٹ کھسوٹ، دھوکا، جھوٹ اور مکرووفریب کرتے ہیں،اس اعتبار سے انھیں زمین کا بدترین خطہ قرار دیا گیا ہے۔
امام بخاری ؒ کا اس حدیث کو بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ اس میں بازار کا ذکر اور وہاں نماز پڑھنے کا بیان ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2119   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4717  
4717. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "نماز باجماعت اکیلے نماز پڑھنے سے پچیس گنا زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ اور صبح کی نماز کے وقت رات اور دن کے فرشتے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔" حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے تھے: اگر چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: "اور فجر کا قرآن پڑھنا، یقینا فجر کے وقت کا قرآن پڑھنا حاضر کیا گیا ہے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4717]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں خصوصیت کے ساتھ فجر کی نماز کا ذکرہے لیکن اس میں عصر کی نماز کی نفی نہیں ہے۔
جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ رات والے فرشتے جب اللہ کے پاس جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے، حالانکہ وہ خوب جانتاہے:
تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ فرشتے کہتے ہیں:
جب ہم ان کے پاس گئے تھے اس وقت بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس سے آئے توانھیں نماز پڑھتے ہوئے ہی چھوڑ کر آئے ہیں۔
(صحیح البخاری، مواقیت الصلاۃ، حدیث: 555)
اس حدیث پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے۔
(باب فضل صلاة العصر)
"نماز عصر کی فضیلت" اور اس حدیث میں یہ الفاظ قابل ملاحظہ ہیں:
"دن اور رات کے فرشتے نماز فجر اور نماز عصر کے وقت جمع ہوتے ہیں۔
" بہرحال اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نماز فجر کی فضیلت کو ثابت کیا ہے، جس سے نماز عصر کی فضیلت کی نفی نہیں ہوتی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4717   


حدیث نمبر: 98
331- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”يتعاقبون فيكم ملائكة بالليل وملائكة بالنهار ويجتمعون فى صلاة الفجر وصلاة العصر ثم يعرج الذين باتوا فيكم فيسألهم وهو أعلم بهم كيف تركتم عبادي فيقولون تركناهم وهم يصلون وآتيناهم وهم يصلون“.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے درمیان رات اور دن کو فرشتے آتے جاتے رہتے ہیں اور فجر کی نماز اور عصر کی نماز میں اکٹھے ہوتے ہیں، پھر جنہوں نے تمہارے درمیان رات گزاری (ہوتی ہے صبح کو) اوپر چڑھ جاتے ہیں تو ان سے (اللہ تعالیٰ) پوچھتا ہے اور وہ ان سے زیادہ جانتا ہے! میرے بندوں کو تم کس حال پر چھوڑ کر آئے ہو؟ تو وہ کہتے ہیں: ہم انہیں اس حالت میں چھوڑ آئے ہیں کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس گئے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔
تخریج الحدیث: «331- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 170/1 ح 412، ك 9 ب 24 ح 82) التمهيد 50/19، الاستذكار: 382، و أخرجه البخاري (555) ومسلم (632) من حديث مالك به.»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 98 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 98  
´باجماعت نماز کی فضیلت`
«. . . 331- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يتعاقبون فيكم ملائكة بالليل وملائكة بالنهار ويجتمعون فى صلاة الفجر وصلاة العصر ثم يعرج الذين باتوا فيكم فيسألهم وهو أعلم بهم كيف تركتم عبادي فيقولون تركناهم وهم يصلون وآتيناهم وهم يصلون. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے درمیان رات اور دن کو فرشتے آتے جاتے رہتے ہیں اور فجر کی نماز اور عصر کی نماز میں اکٹھے ہوتے ہیں، پھر جنہوں نے تمہارے درمیان رات گزاری (ہوتی ہے صبح کو) اوپر چڑھ جاتے ہیں تو ان سے (اللہ تعالیٰ) پوچھتا ہے اور وہ ان سے زیادہ جانتا ہے! میرے بندوں کو تم کس حال پر چھوڑ کر آئے ہو؟ تو وہ کہتے ہیں: ہم انہیں اس حالت میں چھوڑ آئے ہیں کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس گئے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/0/0: 98]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 555، ومسلم 632، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اللہ تعالیٰ سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے جیسا کہ قرآن، حدیث اور اجماعِ صحابہ واجماعِ تابعین سے ثابت ہے۔
➋ فرشتوں کا آسمان پر جانا اور آنا روشنی کی رفتار کا محتاج نہیں ہے بلکہ وہ ایسی رفتار سے آتے جاتے ہیں جو روشنی کی رفتار سے بے حد زیادہ ہے۔ ہم اس کی کیفیت سے بے خبر ہیں۔
➌ اہل ایمان کے دل ودماغ میں ہر وقت نماز کا خیال رہتا ہے۔
➍ باجماعت نماز میں فرشتے بھی حاضر ہوتے ہیں۔
➎ غیب پر ایمان لانا ضروری ہے بشرطیکہ قرآن وحدیث سے ثابت ہو۔
➏ فجر اور عصر کی نمازیں بہت زیادہ فضیلت واہمیت کی حامل ہیں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 331   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمہ اللہ
شیخ الحدیث مولانا عبد العزیز علوی حفظ اللہ
الشیخ عبدالستار الحماد حفظ اللہ
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 555  
´نماز عصر کی فضیلت`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يَتَعَاقَبُونَ فِيكُمْ مَلَائِكَةٌ بِاللَّيْلِ وَمَلَائِكَةٌ بِالنَّهَارِ، وَيَجْتَمِعُونَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ وَصَلَاةِ الْعَصْرِ، ثُمَّ يَعْرُجُ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ فَيَسْأَلُهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ، كَيْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِي؟ فَيَقُولُونَ: تَرَكْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ، وَأَتَيْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات اور دن میں فرشتوں کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں۔ اور فجر اور عصر کی نمازوں میں (ڈیوٹی پر آنے والوں اور رخصت پانے والوں کا) اجتماع ہوتا ہے۔ پھر تمہارے پاس رہنے والے فرشتے جب اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان سے بہت زیادہ اپنے بندوں کے متعلق جانتا ہے، کہ میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا۔ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے جب انہیں چھوڑا تو وہ (فجر کی) نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تب بھی وہ (عصر کی) نماز پڑھ رہے تھے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 17]

تشریح:
فرشتوں کا یہ جواب ان ہی نیک بندوں کے لیے ہو گا جو نماز پابندی کے ساتھ ادا کرتے تھے اور جن لوگوں نے نماز کو پابندی کے ساتھ ادا ہی نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کے دربار میں فرشتے ان کے بارے میں کیا کہہ سکیں گے۔ کہتے ہیں کہ ان فرشتوں سے مراد کراماً کاتبین ہی ہیں۔ جو آدمی کی محافظت کرتے ہیں، صبح و شام ان کی بدلی ہوتی رہتی ہے۔ قرطبی نے کہا یہ دو فرشتے ہیں اور پروردگار جو سب کچھ جاننے والا ہے۔ اس کا ان سے پوچھنا ان کے قائل کرنے کے لیے ہے جو انھوں نے آدم علیہ السلام کی پیدائش کے وقت کہا تھا کہ آدم زاد زمین میں خون اور فساد کریں گے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 555   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3223  
3223. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: فرشتے لگاتار ایک د وسرے کے بعد آتے جاتے ہیں۔ کچھ فرشتے رات کو آتے ہیں اور کچھ دن کے وقت اترتے ہیں۔ یہ سب نماز فجر اور نماز عصر میں جمع ہوجاتے ہیں۔ پھر جو فرشتے تم میں رات بھر رہتے ہیں اور وہ اللہ کے حضور جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے، حالانکہ وہ سب کچھ جانتا ہے: تم نے میرے بندوں کو کس حالت پر چھوڑا؟ وہ عرض کرتے ہیں: ہم نے ان کو (فجر کی) نماز پڑھتے ہوئے چھوڑا ہے اور جب ہم ان کے پاس گئے تھے تب بھی وہ نماز (عصر) پڑھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3223]
حدیث حاشیہ:
ان جملہ احادیث کے لانے سے مجتہد مطلق حضرت امام بخاری ؒ کی غرض فرشتوں کا وجود ثابت کرنا ہے۔
جن پر ایمان لانا ارکان ایمان سے ہے۔
فرشتوں میں حضرت جبرئیل، میکائیل، اسرافیل ؑ زیادہ مشہور ہیں۔
باقی ان کی تعداد اتنی ہے جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، وہ سب اللہ کے بندے ہیں، اللہ کے فرمانبردار ہیں۔
اس کی اجازت بغیر وہ دم بھی نہیں مارسکتے نہ وہ کسی نفع نقصان کے مالک ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3223   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7486  
7486. سیدنا ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمہارے پاس رات اور دن کے فرشتے یکے بعد دیگرے آتے ہیں اور عصر وفجر کی نمازوں میں وہ اکھٹے ہوتے ہیں۔ پھر وہ فرشتے جو تم میں رات گزارتے ہیں جب اوپر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ بندوں کے احوال سے خوب واقف ہے تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں: ہم نے انہیں اس حال میں چھوڑا کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تھے تو بھی نماز پڑھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7486]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سےاما م بخاری نے یہ نکالا کہ اللہ تعالی فرشتوں سے کلام کرتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7486   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1432  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
يَتَعَاقَبُونَ:
یکے بعد دیگرے یا باری باری آتے ہیں،
ایک گروہ کی ڈیوٹی ختم ہوتی ہے اور دوسرے کی ذمہ داری شروع ہوتی ہے،
دوسرے گروہ کی آمد کے بعد پہلا گروہ جاتا ہے،
اس طرح فرشتوں کی ڈیوٹی صبح اور عصر کے وقت تبدیل ہو جاتی ہے تاکہ صبح کے وقت وہ اللہ کے بندوں کو نرم وگرم بستروں اور پیاری اور میٹھی نیند کو اللہ کی رضا کی خاطر چھوڑتا دیکھ لیں اور عصر کے وقت فکر معاش اور کاروبار کو چھوڑتا دیکھ لیں اور صبح وعصر کی نماز کی اس اہمیت کی بنا پر یہ بندے میں دیدار الٰہی کی صلاحیت واستعداد پیدا کرتی ہیں۔
فوائد ومسائل:
جمہور عرب اور اکثر نحوی جن کے سرخیل امام النحو سیبویہ ہیں کا نظریہ ہے کہ اگر فاعل ظاہر ہو تثنیہ ہو یا جمع تو فعل مفرد لائیں گے اس کے ساتھ تثنیہ یا جمع کی ضمیر لانا جائز نہیں ہے لیکن بنو حارث بن کعب کے نزدیک علامت تثنیہ اور جمع لانا جائز ہے۔
(يَتَعَاقَبُونَ فِيكُم مَلَائِكَةُ)
انہیں کے قول کے مطابق ہے اس لیے اخفش اور اس کے ہمنوا قرآن مجید کی آیت:
﴿وَأَسَرُّوا النَّجْوَى الَّذِينَ ظَلَمُوا﴾ کو بھی اس پر محمول کرتے ہیں کہ:
﴿الَّذِينَ ظَلَمُوا﴾ فاعل ظاہر اور ﴿وَأَسَرُّوا﴾ فعل کی جمع ہے اس کے ساتھ ضمیر جمع موجود ہے اس طرح ملائکہ فاعل ظاہرہے اور (يتعاقبون)
فعل جمع ہے لیکن سیبویہ اور اس کے ہمنوا ﴿الَّذِينَ ظَلَمُوا﴾ اور ملائکہ کو فعل سے متصل ضمیرجمع سے بدل بناتے ہیں ان کو فاعل تسلیم نہیں کرتے لیکن اگلی روایت میں:
(الملائكة يتعاقبون)
ہے۔
(الملائكة)
مبتدا اور ﴿يتعاقبون﴾ فعل فاعل ہے۔
﴿ملائكة﴾ کی مناسبت سے ضمیر فاعل جمع لائی گئی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1432   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:555  
555. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کچھ فرشتے رات کو اور کچھ دن کو تمہارے پاس یکے بعد دیگرے حاضر ہوتے ہیں اور یہ تمام فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہو جاتے ہیں، پھر جو فرشتے رات کو تمہارے پاس حاضر ہوتے ہیں، جب وہ آسمان پر جاتے ہیں تو ان سے ان کا پروردگار پوچھتا ہے: تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ہے؟ حالانکہ وہ خود اپنے بندوں سے خوب واقف ہے۔ وہ جواب دیتے ہیں: ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا ہے۔ اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے، تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:555]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس روایت میں نماز عصر کی خصوصی فضیلت کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کا اجتماع فجر اور عصر کی نماز میں ہوتا ہے۔
مگر فرق یہ ہے کہ فجر کی نماز میں جو فرشتے آتے ہیں وہ دن کے فرشتے ہیں اور ان کی آمد اپنے مقررہ اوقات میں ہوتی ہے، کیونکہ دن صبح صادق سے شروع ہو جاتا ہے اور عصر کے وقت جو فرشتے آتے ہیں ان کی ڈیوٹی رات کی ہے انھیں نماز میں مغرب شریک ہونا ہوتا ہے، کیونکہ رات غروب آفتاب کے بعد شروع ہوتی ہے، لیکن یہ فرشتے مقررہ اوقات پر آنے کے بجائے قبل از وقت حاضر ہوجاتے ہیں، معلوم ہوا کہ وقت سے پہلے آنے میں نماز عصر کی فضیلت کا دخل ہے۔
وهوالمقصود. پھر اللہ تعالیٰ کا اپنے مومن بندوں پر کرم و احسان ہے کہ فرشتوں کے اجتماع اور تبدیلی کے لیے جو وقت رکھا ہے اس وقت اہل ایمان نمازوں میں مصروف ہوتے ہیں تاکہ ان کے متعلق خیر و برکت اور بھلائی کی گواہی دیں۔
(شرح الکرماني: 200/2) (2)
اللہ تعالیٰ تو ہر چیز کا علم رکھتا ہے، اس کے باوجود فرشتوں سے سوال کرتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حالت میں پایا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرشتوں سے اعتراف کروانا مقصود ہے کہ تخلیق آدم کے وقت ان کا اعتراض درست نہ تھا کہ تو زمین میں ایسی مخلوق پیدا کرنا چاہتا ہے جو وہاں پر فساد اور خون خرابہ کرے گی۔
اللہ تعالیٰ فرشتوں کو بتانا چاہتا ہے کہ ان کا موقف درست نہیں تھا، نیز جن بندوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرشتوں سے سوال کرتا ہے، وہ وہی ہیں جن کے متعلق ارشاد ہے:
﴿ إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ﴾ اے شیطان! میرے بندوں پر تو غلبہ حاصل نہیں کر سکے گا۔
(الحجر15: 42)
اس کے علاوہ فرشتے بھی اہل ایمان کی بابت بہت خیر خواہی کے جذبات رکھتے ہیں، کیونکہ جب ان سے سوال ہوا کہ جب تم ان سے جدا ہوئے تو وہ کس حالت میں تھے؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو نماز پڑھ رہے تھے اور جب وہاں سے واپس آئے تو بھی نماز ہی میں مشغول تھے، یعنی وہ ہر آن اہل ایمان کی عظمت و فضیلت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں اور وہ ایسی چیزیں بیان کرتے ہیں جن سے ان کی مغفرت ہو۔
واضح رہے کہ یہ وہی فرشتے ہیں جن کی ڈیوٹی ہی مومنین کے لیے استغفار کرنا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ يَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا﴾ وہ فرشتے اہل ایمان کےلیے استغفارکرتے رہتے ہیں۔
(المومن 40: 7)
بہرحال اللہ تعالیٰ کے معزز فرشتے اہل ایمان سے محبت کرتے ہیں اور ان کی بابت خیر خواہی کے جذبات رکھتے ہیں۔
(شرح الکرماني: 200/2) (3)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف ان فرشتوں سے سوال کرتا ہے جن کی ڈیوٹی صرف رات کی تھی۔
ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ دن کے وقت ڈیوٹی دینے والوں سے بھی سوال کیا جاتا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے:
فجر اور عصر کی نماز میں دن اور رات کے فرشتے اکٹھے ہوجاتے ہیں، چنانچہ جب نماز فجر میں اکٹھے ہوتے ہیں تو رات کے فرشتے چلے جاتے ہیں اور دن کے فرشتے ڈیوٹی دیتے ہیں اور جب نماز عصر میں اکٹھے ہوتے ہیں تو دن کے فرشتے اوپر چلے جاتے ہیں اور رات کو ڈیوٹی دینے والے موجود رہتے ہیں۔
ان سب سے اللہ تعالیٰ سوال کرتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حالت میں چھوڑا؟ (صحیح ابن خزیمة: 165/1، حدیث: 322)
اس تفصیلی روایت سے معلوم ہوا کہ دن اور رات دونوں قسم کے فرشتوں سے سوال کیا ہوتا ہے اور وہ اہل ایمان کےلیے نماز میں مصروف رہنے کی گواہی دیتے ہیں۔
(فتح الباري: 49/2)
علامہ کرمانی فرماتے ہیں کہ رات کا وقت نیند اور آرام کا ہوتا ہے اور زیادہ تر گناہ بھی اسی وقت ہوتے ہیں، تو جو لوگ رات کے وقت نہ صرف گناہ سے کنارہ کش رہتے ہیں بلکہ عبادت میں اپنے آپ کو مشغول رکھتے ہیں، وہ دن کے اوقات میں بالاولیٰ گناہوں سے اجتناب کرتے ہوئے عبادت میں مشغول رہیں گے۔
(شرح الکرماني: 200/2)
(4)
اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ نماز ایک اعلیٰ ترین عبادت ہے کیونکہ اس کے متعلق سوال و جواب کا ذکر ہے، خاص طور پر نماز فجر اور نماز عصر تو گرانقدر اہمیت و فضیلت کی حامل ہیں، کیونکہ ان دونوں کے اوقات میں فرشتوں کے دو گروہ اکٹھے ہوتے ہیں جبکہ دوسری نمازوں میں صرف ایک گروہ ہوتا ہے۔
ان دونوں نمازوں کے اوقات بھی انتہا کی فضیلت رکھتے ہیں، چنانچہ صبح کے وقت رزق تقسیم ہوتا ہے اور شام کے وقت اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور انھیں اللہ کے حضور پیش کیا جاتا ہے۔
جو شخص ان اوقات میں اللہ کی عبادت کرے گا اللہ اس کے رزق اور عمل میں برکت فرمائے گا۔
(فتح الباري: 50/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 555   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3223  
3223. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: فرشتے لگاتار ایک د وسرے کے بعد آتے جاتے ہیں۔ کچھ فرشتے رات کو آتے ہیں اور کچھ دن کے وقت اترتے ہیں۔ یہ سب نماز فجر اور نماز عصر میں جمع ہوجاتے ہیں۔ پھر جو فرشتے تم میں رات بھر رہتے ہیں اور وہ اللہ کے حضور جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے، حالانکہ وہ سب کچھ جانتا ہے: تم نے میرے بندوں کو کس حالت پر چھوڑا؟ وہ عرض کرتے ہیں: ہم نے ان کو (فجر کی) نماز پڑھتے ہوئے چھوڑا ہے اور جب ہم ان کے پاس گئے تھے تب بھی وہ نماز (عصر) پڑھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3223]
حدیث حاشیہ:

فرشتے اپنی ڈیوٹی کے لیے یکے بعد دیگرے آتے جاتے ہیں۔
ایک گروہ آتا ہے تو دوسرا چلا جاتا ہے۔

ان تمام احادیث سے امام بخاری ى کی غرض فرشتوں کا وجود ثابت کرنا ہے جن پر ایمان لانا ارکان ایمان میں سے ہے۔
فرشتوں میں حضرت جبرئیل ؑ، حضرت میکائل ؑاور حضرت اسرافیل ؑ زیادہ مشہور ہیں۔
باقی تعداد میں اتنے ہیں کہ انھیں اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔
وہ سب اللہ کے عاجز بندے اور اس کی اطاعت گزار ہیں۔
وہ اللہ کی اجازت کے بغیر دم بھی نہیں مارسکتے اور نہ وہ کسی کے لیے نفع ونقصان ہی کے مالک ہیں۔
وہ شب و روز اللہ کی اطاعت اور اس کی عبادت میں مصروف ہیں۔
یہی ان کاکام اور اوڑھنا بچھونا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3223   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7429  
7429. سییدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: رات اور دن کے فرشتے تمہارے پاس باری باری آتے ہیں اور عصر وفجر کی نمازوں میں جمع ہوتے ہیں۔ پھر جن فرشتوں نے تمہارے پاس رات گزاری ہوتی ہے وہ اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے، حالانکہ اسے تمہاری خوب خبر ہوتی ہے، وہ پوچھتا ہے، تم نے میرے بندوں کو کس حالت میں چھورا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں:جب ہم نے انہیں چھوڑا تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس گئے تو بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7429]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ذات باری تعالیٰ کے لیے صفت علو اور جہت فوق کو ثابت کیا ہےکیونکہ اس میں ہے کہ فرشتے اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے سوال کرتا ہے اور ان سے براہ راست خطاب کرتا ہے۔
حدیث کی ظاہری عبارت کا یہی تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے وحی کے واسطے کے بغیر دریافت کرتا ہے۔
فرشتوں کے لیے لفظ عروج استعمال ہوا ہے۔
عربی لغت کے اعتبار سے اس کے معنی ہیں نیچے سے اوپرچڑھنا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِنَ السَّمَاءِ فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ)
"اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول بھی دیتے جس میں وہ اوپر چڑھنے لگ جاتے۔
" (الحجر: 15۔
14)


ذات باری تعالیٰ کے علو کی دو قسمیں ہیں۔
علو ذات۔
علو صفات۔
علو ذات کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کے اوپر ہے کوئی چیز بھی اس کے اوپر تو کجا اس کے برابر بھی نہیں ہو سکتی علو صفات کا مطلب یہ ہے کہ اس کی تمام صفات بلند پایہ ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَىٰ)
"اللہ تعالیٰ کے لیے سب سے اونچی اور بلند مثال ہے۔
" (النحل: 16۔
60)

اس سلسلے میں اہل سنت کا موقف ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے تمام مخلوقات سے اوپر ہے اور اس کی بلندی ازلی اور ابدی صفات کی وجہ سے ہے دو گروہوں نے اہل سنت کی مخالفت کی ہے۔
ایک گروہ کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر جگہ موجود ہے۔
اس عقیدے سے اللہ تعالیٰ کی توہین لازم آتی ہے کیونکہ کائنات میں بعض مقامات ایسے ہیں جہاں انسان خود ٹھہرنا گوارا نہیں کرتا چہ جائیکہ اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ متعلق یہ عقیدہ رکھا جائے کہ وہ ان مقامات میں بھی ہے دوسرا گروہ ان کے برعکس کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کائنات کے اوپر ہے نہ نیچے نہ جہان کے اندر ہے نہ باہر نہ دائیں ہے نہ بائیں نہ کائنات سے متصل (ملاہو)
ہے اور نہ اس سے متصل (الگ)
واضح رہے کہ ہم عدم کے سواکسی ایسی چیز سے واقف نہیں جو کائنات کے اوپر ہو نہ نیچےنہ دائیں نہ متصل نہ منفصل۔
اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی اور توہین کیا ہو سکتی ہے۔

الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ اور تابعین کے اقوال سے کوئی نص یا واضح بات ایسی نہیں جو ثابت کرے۔
کہ اللہ تعالیٰ عرش پر یا آسمانوں کے اوپر نہیں بلکہ ان کی تمام باتوں سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کے اوپر ہے۔
بہر حال ذات باری تعالیٰ کے لیے صفت علو کا ثابت ہونا قرآن مجید حدیث، اجماع، عقل اور فطرت سے ثابت ہے۔
اس کے خلاف عقیدہ رکھنا سراسر گمراہی اور ضلالت ہے۔
أعاذنا اللہ منه آمین۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7429   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7486  
7486. سیدنا ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمہارے پاس رات اور دن کے فرشتے یکے بعد دیگرے آتے ہیں اور عصر وفجر کی نمازوں میں وہ اکھٹے ہوتے ہیں۔ پھر وہ فرشتے جو تم میں رات گزارتے ہیں جب اوپر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ بندوں کے احوال سے خوب واقف ہے تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں: ہم نے انہیں اس حال میں چھوڑا کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تھے تو بھی نماز پڑھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7486]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کے مطابق فرشتے لوگوں کے شب وروز کے عمل کو لے کر اوپر جاتے ہیں۔
اسی طرح ان کا تانتا لگا رہتا ہے۔
اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے علاوہ دوسرے فرشتوں سے بھی کلام کرتا ہے اور اس کا کلام قرآن مجید کے علاوہ بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا کلام حروف واصوات پر مشتمل مبنی برحقیقت ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے فرشتوں سے سوال کرنے کا ذکر ہے اورسوال ایسا کلام ہوتا ہے جو دوسروں کو سنائی دے اور وہ کلام حروف وآواز پر مشتمل ہو۔
واللہ أعلم۔

اس حدیث میں رات گزارنے والے فرشتوں کا خاص طور پر اس لیے ذکر ہوا کہ جو لوگ رات کے وقت نیک کام کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
حالانکہ اللہ تعالیٰ نےرات کو آرام کے لیے بنایا ہے تو وہ دن کے اوقات میں بطریق اولیٰ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مصروف رہتے ہوں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7486   

1    2    Next