نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
ایمان و عقائد کے مسائل

11. اتباع رسول کا بیان

حدیث نمبر: 15
505- مالك عن يحيى بن سعيد عن عبادة بن الوليد بن عبادة بن الصامت قال: أخبرني أبى عن عبادة بن الصامت قال: بايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة، فى اليسر والعسر، والمكره والمنشط، ولا ننازع الأمر أهله، وأن نقول أو نقوم بالحق حيثما كنا، لا نخاف فى الله لومة لائم.
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس چیز پر بیعت کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے چاہے آسانی ہو یا تنگی، چاہے خوش ہوں یا ناخوش، اور حکمرانوں سے جنگ نہیں کریں گے۔ ہم جہاں بھی ہوں گے حق کہیں گے اور حق پر ثابت قدم رہیں گے۔ ہم اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی پروا نہیں کریں گے۔
تخریج الحدیث: «505- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 445/2 ح 990، ك 21 ب 1 ح 5) التمهيد 271/23، الاستذكار: 929 و أخرجه البخاري (7199، 7200) من حديث مالك به.»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 15 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 15  
´اتباع رسول کا بیان`
«. . . 505- مالك عن يحيى بن سعيد عن عبادة بن الوليد بن عبادة بن الصامت قال: أخبرني أبى عن عبادة بن الصامت قال: بايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة، فى اليسر والعسر، والمكره والمنشط، ولا ننازع الأمر أهله، وأن نقول أو نقوم بالحق حيثما كنا، لا نخاف فى الله لومة لائم. . . .»
. . . سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس چیز پر بیعت کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے چاہے آسانی ہو یا تنگی، چاہے خوش ہوں یا ناخوش، اور حکمرانوں سے جنگ نہیں کریں گے۔ ہم جہاں بھی ہوں گے حق کہیں گے اور حق پر ثابت قدم رہیں گے۔ ہم اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی پروا نہیں کریں گے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 15]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 7199، 7200، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کی بیعت اور ہر دور میں قیامت تک آپ کی اطاعت ہر حال میں فرض ہے۔
➋ دینِ اسلام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحیح العقیدہ مسلمان اصحابِ اقتدار «اولي الامر منكم» کی بیعت کے علاوہ تیسری کسی بیعت کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
➌ حق پر ہمیشہ ثابت قدم رہنا چاہئے خواہ ساری دنیا اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
➍ مسلمان اہلِ ایمان حکمرانوں کے خلاف جنگ یا تصادم نہیں کرنا چاہئے۔ یاد رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «کلمة عدل عند إمام جائر» یعنی افضل جہاد یہ ہے کہ ظالم حکمران کے سامنے کلمۂ انصاف بیان کیا جائے۔ [مسند أحمد 5 / 256 ح22207، وسنده حسن لذاته، ابن ماجه: 4012]
➎ سیدنا عبادہ بن الصامت البدری الانصاری رضی اللہ عنہ بہت زیادہ فضیلت کے حامل صحابی تھے۔
➏ کتاب وسنت پر عمل کے دوران میں لوگوں کے اعتراضات کی کوئی پروا نہیں کرنی چاہئے۔
➐ سختی میں صبر اور کشادگی میں شکر ادا کرتے رہنا چاہئے۔
➑ اہل ایمان نہ آسانی وخوشی میں ایمان کا سودا کرتے ہیں اور نہ تنگی وغمی میں متزلزل ہوتے ہیں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 505   


حدیث نمبر: 16
294- وبه: قال: كنا إذا بايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة، يقول لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”فيما استطعتم.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ جب ہم سننے اور اطاعت کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں فرماتے: جتنی تمہاری استطاعت ہو۔
تخریج الحدیث: «294- الموطأ (رواية يحيٰي بن يحيٰي 982/2 ح 1907، ك 55 ب 1 ح 1)، التمهيد 347/16، الاستذكار: 1843، و أخرجه البخاري (7202) من حديث مالك ومسلم (1867) من حديث عبداللہ بن دينار به.»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 16 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 16  
´اتباع رسول کا بیان`
«. . . 294- وبه: قال: كنا إذا بايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة، يقول لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: فيما استطعتم . . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ جب ہم سننے اور اطاعت کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں فرماتے: جتنی تمہاری استطاعت ہو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 16]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 7202، من حديث مالك، ومسلم 1867، من حديث عبدالله بن دينار به]
تفقه
➊ ہر انسان پر اس کی استطاعت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت فرض ہے۔
➋ اسلام میں دو ہی بیعتیں ہیں:
اول: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت
دوم: خلیفہ اور حکمران کی بیعت
ان کے علاوہ کسی تیسری بیعت کا اسلام میں کوئی ثبوت نہیں ہے، چاہے یہ بیعت کسی نام نہاد کاغذی پارٹی کی ہو یا کسی پیر کی۔
➌ سیدنا ابوغادیہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تھی۔ شاگرد نے پوچھا: آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کے ساتھ بیعت کی تھی؟ انہوں نے فرمایا: جی ہاں۔ [مسند أحمد 5/68 ح20666 وسنده حسن]
◈ سیدنا واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ نے دائیں ہاتھ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تھی، اس دائیں ہاتھ کو ابوالاسود الجرشی رحمہ اللہ نے لے کر اپنی آنکھوں اور چہرے پر پھیرا۔ دیکھئے [مسند أحمد 3/491 ح16016، وسنده صحيح]
معلوم ہوا کہ ایک ہاتھ سے مصافحہ افضل ہے۔ اسی طرح بعض آثار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عرض ہے کہ دو ہاتھوں سے مصافحہ بھی جائز ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 294   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ
الشیخ عمر فاروق سعیدی حفظ اللہ
شیخ الحدیث مولانا عبد العزیز علوی حفظ اللہ
الشیخ عبدالستار الحماد حفظ اللہ
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4192  
´طاقت بھر حاکم کی سمع و طاعت (سننے اور حکم بجا لانے) کی بیعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمع و طاعت (سننے اور حکم بجا لانے) پر بیعت کرتے تھے، پھر آپ فرماتے تھے: جتنی تمہاری طاقت ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4192]
اردو حاشہ:
باب کا مقصد یہ ہے کہ بیعت کرتے وقت طاقت کی قید بھی ذکر کرنی چاہیے۔ یہ مقصد بھی ہوسکتا ہے کہ بیعت میں طاقت و صسعت کی قید ملحوظ ہوتی ہے، خواہ  لفظاََ ذکر نہ کی جائے۔ طاقت سے بڑھ کر کوئی اطاعت کا مکلف نہیں بن سکتا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4192   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2940  
´بیعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے اور اطاعت کرنے کی بیعت کرتے تھے اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تلقین کرتے تھے کہ ہم یہ بھی کہیں: جہاں تک ہمیں طاقت ہے (یعنی ہم اپنی پوری طاقت بھر آپ کی سمع و طاعت کرتے رہیں گے)۔ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2940]
فوائد ومسائل:

اسلام اور جہادی بعیت کے بعد شوریٰ کے ذریعے سے منتخب حکمران کی بعیت بیعت حکومت کہلاتی ہیں۔
اس بعیت سے دو مقاصد حاصل ہوتے ہیں۔


یہ بعیت اس بات کی علامت تھی۔
کہ لوگوں نے تجویز ہونے والےنام کو قبول کرلیا ہے۔
اس بعیت کے بعد خلافت کا انعقاد ہوجاتا تھا۔


تمام مسلمان شوریٰ کے ذریعے سے منتخب حکمران ان سے تعاون کریں گے۔
یہ ایک طرف کا عمرانی معاہدہ ہے۔
خلفائے راشدین نے ان الفاظ کا اضافہ کرایا۔
کہ سمع وطاقت ان کاموں میں ہوگی۔
جو اللہ اور اس کے رسول ﷺکے احکامات اور سابقہ خلفائے راشدین کے اقدامات کے مطابق ہوں گے۔
رسول اللہ ﷺ نے بعیت کے الفاظ میں انسانی استطاعت کے مطابق کے الفاظ شامل کرنے کی تلقین اس لئے فرمائی کہ بعیت کرنے والے خود کو ایسی صورت حال میں نہ پایئں جس کی انسان استطاعت ہی نہیں رکھتا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2940   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4836  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت پر شفقت اور الفت کا اظہار ہوتا ہے کہ آپ بیعت لیتے وقت خود یہ تلقین فرماتے کہ یوں کہو،
اپنی استطاعت کی حد تک۔
جس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کو کسی چیز کا التزام اور پابندی اپنی قدرت اور طاقت کے دائرہ میں رہتے ہوئے کرنا چاہیے اور کسی ایسی چیز کے الزام کو قبول نہیں کرنا چاہیے،
جو اپنی قدرت اور وسعت سے باہر ہو۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4836   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7202  
7202. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب ہم رسول اللہ ﷺ سے سمع و اطاعت کی بیعت کرتے تو آپ ہم سے فرماتے: جتنی تمہیں طاقت ہو۔ یعنی اپنی ہمت کے مطابق اسے بجا لائیں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7202]
حدیث حاشیہ:
حاکم وقت سے سمع و طاعت پر بیعت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ایسی بات کا حکم دے جو ہماری طبیعت یا ذاتی رائے کے خلاف ہو تو اپنی ذاتی طبیعت کے رجحان اور ذاتی رائے کو نظر انداز کر کے اپنی ہمت کے مطابق اس کی بات کو ماناجائے۔
اگر ایسا نہ کیا گیا تو قدم قدم پر اختلاف و انتشار ہو گا۔
جو حکومت کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔
ہاں اگر اس کی بات شریعت کے خلاف ہو تو پھر اس کی بات ماننا ضروری نہیں کیونکہ شریعت کا حکم مقدم اور سب سے بالا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7202