نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
ایمان و عقائد کے مسائل

6. اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے

حدیث نمبر: 8
26- مالك عن ابن شهاب عن أبى عبد الله الأغر وعن أبى سلمة بن عبد الرحمن عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”ينزل ربنا تبارك وتعالى كل ليلة إلى السماء الدنيا حين يبقى ثلث الليل الآخر، فيقول: من يدعوني فأستجيب له، ومن يسألني فأعطيه، ومن يستغفرني فأغفر له“.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات کے آخری پہر میں آسمان دینا پر نازل ہوتا ہے اور فرماتا ہے: کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تاکہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تاکہ میں اسے دے دوں؟ کون ہے جو مجھ سے گناہ معاف کروائے تاکہ میں اس کے گناہ معاف کر دوں؟
تخریج الحدیث: «26- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 214/1 ح 499، ك 15، ب 8 ح 30) التمهيد 128/7، الاستذكار: 468، و أخرجه البخاري (1145)، ومسلم (758) من حديث مالك به من رواية يحيي وجاء في الأصل: يَدْعُنِيْ.»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 8 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 8  
´اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے لحاظ سے اپنے عرش پر مستوی ہے `
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ينزل ربنا تبارك وتعالى كل ليلة إلى السماء الدنيا حين يبقى ثلث الليل الآخر، فيقول: من يدعوني فاستجيب له، ومن يسالني فاعطيه، ومن يستغفرني فاغفر له . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات کے آخری پہر میں آسمان دینا پر نازل ہوتا ہے اور فرماتا ہے: کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تاکہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تاکہ میں اسے دے دوں؟ کون ہے جو مجھ سے گناہ معاف کروائے تاکہ میں اس کے گناہ معاف کر دوں؟ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 8]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1145، ومسلم 758، من حديث ما لك به . و من رواية يحيي وجاء فى الأصل «يَدْعُنِيْ» ]

تفقه:
➊ یہ حدیث متواتر ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 128/7، اور نظم المتناثر 206]
➋ اس پر ایمان لانا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر رات کے آخری پہر میں آسمان دنیا پر نازل ہوتا ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔ اس سے صرف رحمت کا نزول مراد لینا اور نزول باری تعالیٰ کی تاویل کرنا باطل ہے۔
➌ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے لحاظ سے سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے اور اس کا علم و قدرت ہر چیز کو محیط ہے۔
➍ جہمیہ (ایک سخت گمراہ فرقے) نے الله سبحانہ وتعالیٰ کو ہر جگہ (موجود بذاتہ) قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [تلبيس ابليس ص 30،اقسام اهل البدع] اس کفریہ عقیدے سے حلول لازم آتا ہے۔ عقيدة حلول کے باطل ہونے کے لئے دیکھئے: حافظ ابن تیمیہ کی کتاب ابطال وحدة الوجود اور ملا علی قاری حنفی کی کتاب الرد على القائلين بوحدة الوجود
➎ امام مالک نے فرمایا:
«الله عز وجل فى السماء وعلمه فى كل مكان، لا يخلو من علمه مكان»
الله تعالیٰ آسمان پر ہے اور اس کا علم ہر مکان پر (محيط) ہے۔ اس کے علم سے کوئی مکان خالی نہیں۔ [كتاب الشريعة لآجري ص 289 ح 652 وسنده حسن]
➏ احادیث صفات کے بارے میں امام اوزاعی، مالک، سفیان ثوری اور لیث بن سعد نے فرمایا:
انہیں بلا کیفیت روایت کرتے رہیں۔ [عقيدة السلف واصحاب الحديث للصابوني ص 56ح 90 رسندہ حسن، دوسرا نسخہ 248، 249]
➐ امام عبدالله بن المبارک رحمہ اللہ نے فرمایا:
«نعرف ربنا فوق سبع سمٰوات على العرش استويٰ، بائناً من خلقه ولا نقول كما قالت الجهمية: «إنه هاهنا» وأشار إلى الأرض»
ہم اپنے رب کو پہچانتے ہیں وہ سات آسمانوں سے اوپر عرش پر مستوی ہے، وہ اپنی مخلوق سے الگ ہے اور ہم جہمیہ کی طرح یہ نہیں کہتے کہ وہ یہاں (زمین) پر ہے اور انھوں (امام عبدالله بن المبارک رحمہ اللہ) نے زمین کی طرف اشارہ کیا۔ [عقيدة السلف واصحاب الحديث للصابوني ص 186ح 28 رسنده صحيح، الرد على الجهمية للدارمي: 67، 162، والصفات للبيهقي: ص 427 دوسرا نسخه ص 538، السنة لعبد الله بن احمد: 216]
➑ امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا:
«إن الإعتصام بالسنة نجاة»
سنت کو مضبوطی سے پکڑنے میں نجات ہے۔ [حلية الاولياء لا نعيم الاصبهاني 369/3 وسنده صحيح]
➒ اس حدیث سے دعا کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے اور یہ کہ دعا توکل کے منافی نہیں بلکہ مطلوب ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 26   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ محمد حسین میمن حفظ اللہ
الشیخ عمر فاروق سعیدی حفظ اللہ
مولانا عطا اللہ ساجد حفظ اللہ
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ
مولانا داود راز رحمہ اللہ
الشیخ عبدالستار الحماد حفظ اللہ
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6321  
´آدھی رات کے بعد صبح صادق سے پہلے دعا کرنے کی فضیلت`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَتَنَزَّلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ يَقُولُ:" مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ، مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ، مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے، اس وقت جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے اور فرماتا ہے کون ہے جو مجھ سے دعا کرتا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں، کون ہے جو مجھ سے مانگتا ہے کہ میں اسے دوں، کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرتا ہے کہ میں اس کی بخشش کروں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الدَّعَوَاتِ: 6321]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6321 کا باب: «بَابُ الدُّعَاءِ نِصْفَ اللَّيْلِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں «نصف الليل» یعنی آدھی رات کا ذکر فرمایا ہے جبکہ تحت الباب حدیث میں آدھی رات کا ذکر نہیں ہے بلکہ «ثلث الليل» تہائی رات کا ذکر ہے، لہذا اس اعتبار سے باب اور حدیث میں مناسبت نہیں بنتی، اس کا جواب دیتے ہوئے حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«و الذي يظهر لي أن البخاري جرى على عادته فأشار إلى الرواية التي وردت بلفظ النصف، فقد أخرجه أحمد عن يزيد بن هارون عن محمد بن عمر، و عن أبى سلمة عن أبى هريرة بلفظ ينزل الله إلى السماء الدنيا نصف الليل الأخير أو ثلث الليل الآخر (2)
میرے نزدیک جو بات ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق روایت کے دوسری طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے، جس میں «نصف الليل» کا ذکر ہے، جسے احمد نے بطریق یزید بن ہارون، عن محمد بن عمر، عن ابی سلمۃ، عن ابی ہریرۃ سے نکالا ہے کہ اللہ تعالی دنیائے آسمان کی طرف نصف اللیل کے آخر یا ثلث اللیل کے آخر تک نازل ہوتا ہے۔
ابن بطال رحمہ اللہ باب اور حدیث میں مطابقت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
«ترجم بنصف الليل وساق فى الحديث أن التنزل يقع ثلث الليل، لكن المصنف عول على ما فى الآية وهو قوله تعالى: ﴿قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا o نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ﴾ [المزمل: 2-3] فأخذ الترجمة من دليل القرآن.» (1)
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے باب نصف رات کا قائم فرمایا ہے جبکہ حدیث جو تحت الباب مذکور ہے وہ ثلث اللیل پر دال ہے، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے (باب میں) اس آیت مبارکہ کو مدنظر رکھا: « ﴿قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا o نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ﴾ » [المزمل: 2-3] تو گویا ترجمۃ الباب کی دلیل قرآن سے اخذ فرمائی۔ آیت مبارکہ میں ذکر ہے نصف رات (اللہ تعالی کی) وقت تنزیل کا، پر اس کے دخول سے قبل محافظت پر دال ہے تاکہ وقت قبولیت آئے تو بندہ پہلے سے اس کے انتظار میں ہو اور اس کے لقاء کے لیے مستعد ہو۔
ابن الملقن رحمہ اللہ بھی قریب قریب یہی تطبیق دیتے ہیں، چنانچہ آپ رقمطراز ہیں:
«ان قلت: كيف ترجم الدعا نصف الليل و ذكر الحديث أن التنزل فى ثلث الليل الآخر؟ قيل إنما أخذ ذالك من قوله تعالي: ﴿قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا﴾ [المزمل: 2] فالترجمة تقوم من دليل القرآن و الحديث يدل على أن الإجابة ثلث الليل.» (2)
امام کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اگر آپ کہیں کہ باب نصف اللیل پر قائم فرمایا اور حدیث ثلث اللیل کی (تو اس میں تطبیق کیا ہوگی؟) تو میں (کرمانی رحمہ اللہ) کہتا ہوں جب ثلث باقی رہ جاتا ہے تو یہ ثلث سے قبل ہی ہوتا ہے، پس یہی مقصود ہے «من النصف» سے۔(3)
امام کرمانی رحمہ اللہ کے مطابق جب رات کا تیسرا حصہ شروع ہونے والا ہوتا ہے تو وہ نصف حصہ ہوتا ہے، کیوں کہ ابھی وہ تہائی حصہ شروع نہیں ہوا ہوتا۔
انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ باب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
«ترجم المصنف بالنصف، و أخرج له حديث الثلث، إشارة إلى أن الحديث فى النصف أيضًا، ثم الحافظ تصدى إلى الترجيح، و الوجه عندي، أن للنزول أنحاءً فنحو من على النصف، و نحو على الثلثين، و نحو على الثلث الأخير و قد علمت أن هذا النزول عبارة عن تعلق الرحمة غير المتكلمين، و الذي تبين لديّ أنه نحو من تجلي الرب عز برهانه، و جل سلطانه.» (1)
یعنی مصنف رحمہ اللہ نے نصف کے لفظ کے ساتھ ترجمہ قائم فرمایا ہے، جب کہ حدیث جو نقل فرمائی ہے اس میں «ثلث» کا ذکر ہے، یہ اشارہ مقصود ہے کہ نصف میں بھی حدیث موجود ہے، کہتے ہیں کہ حافظ ترجیح میں پڑے ہیں، میرے نزدیک ترجیح اس طرح سے ہے کہ کئی انحاء ہیں، ایک نحو نصف پر، ایک ثلثین پر، ایک نحو آخری ثلث پر ہے، اور تم جانتے ہو، یہ نزول متکلمین کے نزدیک تعلق رحمت سے عبارت ہے، میرے نزدیک متبین یہ ہے کہ یہ ایک طرح کی تجلی ہے۔
ان گفتگو کا خلاصہ یہ ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا ہے آیت قرآن مجید پر اور تحت الباب جس حدیث کو پیش فرمایا ہے اس میں «ثلث الليل» کا ذکر ہے۔ دراصل اس جگہ پر امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں جسے دارقطنی نے نکالا ہے، اس میں شطر اللیل کا ذکر ہے۔ مزید ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآن کی آیت کو لیا جس میں «نصفه» کا ذکر ہے، یعنی «قم الليل إلا نصفه» اور اس کی متابعت سے باب میں نصف کا لفظ ذکر فرمایا ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 209   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1315  
´رات کا کون سا حصہ عبادت کے لیے زیادہ بہتر ہے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا رب ہر رات جس وقت رات کا آخری ایک تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے، آسمان دنیا پر اترتا ہے ۱؎، پھر فرماتا ہے: کون مجھ سے دعا کرتا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون مجھ سے مانگتا ہے کہ میں اسے دوں؟ کون مجھ سے مغفرت طلب کرتا ہے کہ میں اس کی مغفرت کر دوں؟۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1315]
1315. اردو حاشیہ: فوائد ومسائل:
➊ معلوم ہوا کہ رات کا آخری تیسرا پہر بہت زیادہ افضل ہے۔
➋ ایسی آیات قرآن اور احادیث صحیحہ کو، جن میں اللہ عزوجل کی اس قسم کی صفات (مثلاً) اترنا، آنا، کلام کرنا، ہنسنا، تعجب کرنا اور عرش پر بیٹھنا وغیرہ کا ذکر ہے، محققین اہل السنۃ والجماعۃ (یعنی اہل الحدیث) ان کے ظاہر پرمحمول کرتے ہیں، وہ کسی تاویل، تشبیہ یا تعطیل و تحریف کے قائل نہیں اور نہ ان کی حقیقت اور کنہ ہی کے درپے ہوتےہیں۔ یہ صفات ایسی ہی ہیں جیسا کہ اس کی ذات اقدس کے شایان شان ہیں۔ جس طرح اللہ عزوجل کی ذات دیگر اور ذوات کے مشابہ نہیں، اسی طرح اس کی صفات بھی کسی سے مشابہ نہیں۔ ﴿لَيسَ كَمِثلِهِ شَىءٌ ۖ وَهُوَ السَّميعُ البَصيرُ‌ ﴾ سورۃ شوریٰ:11، جو لوگ مندرجہ بالاحدیث کی تاویل یوں کردیتے ہیں کہ اللہ کی رحمت اترتی ہے یا اس کا امر اترتا ہے وہ ذار غور کریں کہ یہ جملے:کون ہے جو مجھ سے دعا کرے، میں قبول کروں۔ کون ہے جو مجھ سےمانگے، میں اس کو دوں۔ کون ہے جو مجھ سے معافی چاہے، میں اس کو معاف کروں۔ کس طرح رحمت یا امر پر منطبق ہوسکتے ہیں۔ یہ بلاشبہ رب کبریاء ہی سے متعلق ہیں، نیزرحمت کا اتر کر آسمان دنیا تک رہ جانا مخلوق کے لیے کیونکر نفع آور ہے۔ حالانکہ وہ خود فرماتا ہے: ﴿وَرَ‌حمَتى وَسِعَت كُلَّ شَىءٍ﴾ سور الاعراف:156، الغرض ظاہر قرآن و حدیث پر ایمان اور اس کے مطابق عمل اور اسوۂ رسول اللہﷺ کا اتباع اورسبیل المومنین (صحابہ کرام) اختیار کرنا ہی ایک مسلمان کے لیے باعث نجات و تقرب ہے (فوائد ازعلامہ وحیدالزمان)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1315   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4733  
´جہمیہ کے رد کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا رب ہر رات آسمان دنیا پر اترتا ہے، جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے اور کہتا ہے: کون ہے جو مجھے پکارے، میں اس کی پکار کو قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے میں اسے دوں؟ کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے میں اسے معاف کر دوں ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4733]
فوائد ومسائل:
1: اللہ عزوجل کا آسمان دنیا پر تشریف لانا حق ہے، اس کا ندا دینا بھی حق ہے اور اس کی ان صفات کی حقیقت ویسی ہی ہے جو اس کی شان عظمت وجلال کے لائق ہے، ان پر ایمان رکھنا واجب ان کا انکار کفر، ان کی تاویل اور ان صفات کی حقیقت کی ٹوہ لگانا یا اس کا سوال کرنا بدعت ہے۔

2: فرض نمازوں کے بعد نوافل کے لئے رات کا آخری پہر اللہ سے لو لگانے اور دعا کی قبولیت کا انتہائی شاندار وقت ہوتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4733   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1366  
´رات کا کون سا وقت (عبادت کے لیے) سب سے اچھا ہے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس وقت اخیر کی تہائی رات رہ جاتی ہے تو ہمارا رب جو کہ برکت والا اور بلند ہے، ہر رات آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے، اور فرماتا ہے: کوئی ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اس کو دوں؟ کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا قبول کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے اور میں اسے بخش دوں؟ اور یہ سلسلہ طلوع فجر تک جاری رہتا ہے، اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اخیر رات میں عبادت کرنا بہ نسبت اول رات کے پسند کرتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1366]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس حدیث میں رات کے آخری حصے میں نماز اور دعا کی فضیلت کا بیان ہے۔

(2)
اللہ کی رحمت اتنی عظیم ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اپنے بندوں کو اپنی ذات سے مانگنے کو کہتا ہے۔

(3)
اللہ تعالیٰ کا پہلے آسمان پر تشریف لانا اسی طرح اللہ کی صفت ہے۔
جس طرح اس کاعرش پر تشریف فرما ہونا اور کلام کرنا، ان صفات پر ایمان لانا چاہیے انکار یا تاویل کرنا جائز نہیں البتہ اللہ تعالیٰ کی صفات کومخلوق کی صفات جیسی نہیں سمجھناچاہیے، ہمیں یہ ماننا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نزول فرماتا ہے۔
جیسے اس کی شان کے لائق ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1366   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 446  
´اللہ عزوجل کے ہر رات آسمان دنیا پر اترنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہر رات کو جب رات کا پہلا تہائی حصہ گزر جاتا ہے ۱؎ آسمان دنیا پر اترتا ہے ۲؎ اور کہتا ہے: میں بادشاہ ہوں، کون ہے جو مجھے پکارے تاکہ میں اس کی پکار سنوں، کون ہے جو مجھ سے مانگے تاکہ میں اسے دوں، کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے تاکہ میں اسے معاف کر دوں۔ وہ برابر اسی طرح فرماتا رہتا ہے یہاں تک کہ فجر روشن ہو جاتی ہیں۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 446]
اردو حاشہ:
1؎:
آگے مؤلف بیان کر رہے ہیں:
صحیح بات یہ ہے کہ ایک تہائی رات گزرنے پر نہیں،
بلکہ ایک تہائی رات باقی رہ جانے پر اللہ نزول فرماتے ہیں۔
(مؤلف کے سوا دیگر کے نزدیک ((الْآخِرُ)) ہی ہے)

2؎:
اس سے اللہ عزوجل کا جیسے اُس کی ذاتِ اقدس کو لائق ہے آسمان دنیا پر ہر رات کو نزول فرمانا ثابت ہوتا ہے،
اور حقیقی اہل السنہ والجماعہ،
سلف صالحین اللہ تبارک وتعالیٰ کی صفات میں تاویل نہیں کیا کرتے تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 446   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6321  
6321. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہمارا رب تبارک وتعالٰی ہر رات آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے۔ جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو فرماتا ہے: کون ہے جو مجھ سے دعا کرے میں اس کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازوں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے میں اسے عطا کروں؟ کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے میں اسے بخشش دوں؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6321]
حدیث حاشیہ:
حدیث باب میں اللہ پاک رب العالمین کے آخر تہائی حصہ رات میں آسمان دنیا پر نزول کا ذکر ہے یعنی خود پرور دگار اپنی ذات سے نزول فرماتا ہے جیسا کہ دوسری روایت میں خود ذات کی صراحت موجود ہے اب بعض لوگوں کی یہ تاویل کہ اس کی رحمت اترتی ہے یا فرشتے اترتے ہیں یہ محض تاویل فاسد ہے۔
اور امام شیخ الاسلام حضرت علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے شاگرد رشید حضرت علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اس عقیدہ پر بہت تفصیل سے لکھا ہے۔
علامہ ابن تیمیہ کی مستقل کتاب النزول ہے اس میں آ پ نے مخالفین کے تمام اعتراضات اور شبہات کا جواب مفصل دیا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ نزول بھی پروردگار کی ایک صفت ہے جس کو ہم اور صفات کی طرح اپنے ظاہری معنی پر محمول رکھتے ہیں لیکن اس کی کیفیت ہم نہیں جانتے اور یہ نزول اس کا مخلوقات کی طرح نہیں ہے اور یہ امر اس کے لئے قطعاً محال نہیں ہے کہ وہ بیک وقت عرش پر بھی ہو اور آسمان دنیا پر نزول بھی فرمائے (إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ)
ایسے استحالات پیش کرنے والوں کی نگاہیں کمزور ہیں۔
ترجمہ باب میں نصف لیل کا ذکر تھا اور حدیث میں آخری ثلث لیل مذکور ہے۔
اس کا جواب حافظ صاحب نے یوں دیا ہے کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی عادت کے موافق حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس کو دارقطنی نے نکالا اس میں ثلث لیل مذکور ہے اور ابن بطال نے کہا حضرت امام بخاری نے قرآن کی آیت کو لیا جس میں نصفه کا لفظ یعنی ﴿نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا﴾ اور اس کی متابعت سے باب میں نصفه الآیۃ کا لفظ ذکر کیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6321   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1145  
1145. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہمارا بزرگ و برتر پروردگار ہر رات آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے جب رات کی آخری تہائی باقی رہ جاتی ہے۔ اور آواز دیتا ہے: کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے میں اسے قبول کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے مانگے میں اسے عطا کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے تو میں اسے معاف کر دوں؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1145]
حدیث حاشیہ:
تشریح:
بلاتاویل وبلا تکییف اللہ پاک رب العالمین کا عرش معلی سے آسمان دنیا پر اترنا برحق ہے۔
جس طرح اس کا عرش عظیم پر مستوی ہونا برحق ہے۔
اہل الحدیث کا ازاول تا آخر یہی عقیدہ ہے۔
قرآن مجید کی سات آیات میں اللہ کا عرش پر مستوی ہونا بیان کیا گیا ہے۔
چونکہ آسمان بھی سات ہی ہیں لہذا ان ساتوں کے اوپر عرش عظیم اور اس پر اللہ کا استواءاسی لیے سات آیات میں مذکور ہوا۔
پہلی آیت سورۃ اعراف میں ہے ﴿اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَوٰتِ وَالاَرضَ فِی سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ﴾ (الأعراف: 54)
تمہارا رب وہ ہے جس نے چھ ایام میں آسمان اور زمین کو پیدا کیا، پھر وہ عرش پر مستوی ہوا۔
دوسری آیت سورۃ یونس کی ہے ﴿اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ فِی سَتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ یُدَ بِّرُالاَمرَ﴾ (یونس: 3)
بے شک تمہارا رب وہ ہے جس نے چھ دنوں میں زمین آسمان کو بنایا اور پھر وہ عرش پر قائم ہوا۔
تیسری آیت سورۃ رعد میں ہے ﴿اَللّٰہُ الَّذِی رَفَعَ السَّمٰوٰت بِغَیرِ عَمَدٍ تَرَونَھَاثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ﴾ (الرعد: 2)
اللہ وہ ہے جس نے بغیر ستونوں کے اونچے آسمان بنائے جن کو تم دیکھ رہے ہو پھر وہ عرش پر قائم ہوا۔
چوتھی آیت سورۃ طہ میں ہے ﴿تَنزِیلاً مِّمَّن خَلَقَ الاَرضَ وَالسَّمٰوٰتِ العُلٰی اَلرَّحمٰنُ عَلَی العَرشِ استَوٰی﴾ (طہ: 19,20)
یعنی اس قرآن کا نازل کرنا اس کا کام ہے جس نے زمین آسمان کو پیدا کیا پھر وہ رحمن عرش کے اوپر مستوی ہوا۔
پانچویں آیت سورہ فرقان میں ہے ﴿اَلَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ وَمَا بَینَھُمَا فِی سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ﴾ (الفرقان: 59)
وہ اللہ جس نے زمین آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے سب کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر وہ عرش پر قائم ہوا۔
چھٹی آیت سورۃ سجدہ میں ہے۔
﴿اَللّٰہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ وَمَا بَینَھُمَا فِی سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ﴾ (السجدہ: 4)
اللہ وہ ہے جس نے زمین آسمان کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دنوں میں بنایا وہ پھر عرش پر قائم ہوا۔
ساتویں آیت سورہ حدید میں ہے۔
﴿ھُوَالَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ فِی سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ یَعلَمُ مَا یَلِجُ فِی الاَرضِ وَمَا یَخرُجُ مِنھَا وَمَا یَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا یَعرُجُ فِیھَا وَھُوَ مَعَکُم اَینَ مَا کُنتُم وَاللّٰہُ بِمَا تَعمَلُونَ بَصِیر﴾ (الحدید: 4)
یعنی اللہ وہ ذات پاک ہے جس نے چھ دنوں میں زمین آسمانوں کو بنا یا وہ پھر عرش پر قائم ہوا ان سب چیزوں کو جانتاہے جو زمین میں داخل ہوتی ہیں اور جو کچھ اس سے باہر نکلتی ہیں اور جو چیزیں آسمان سے اترتی ہیں اور جو کچھ آسمان کی طرف چڑھتی ہیں وہ سب سے واقف ہے اور وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں بھی ہو اور اللہ پاک تمہارے سارے کاموں کو دیکھنے والا ہے۔
ان سات آیتوں میں صراحت کے ساتھ اللہ پاک کا عرش عظیم پر مستوی ہونا مذکور ہے۔
آیات قرآنی کے علاوہ پندرہ احادیث نبوی ایسی ہیں جن میں اللہ پاک کاآسمانوں کے اوپر عرش اعظم پر ہونا مذکور ہے اور جن سے اس کے لیے جہت فوق ثابت ہے۔
اس حقیقت کے بعد اس باری تعالی وتقدس کا عرش عظیم سے آسمان دنیا پر نزول فرمانا یہ بھی برحق ہے۔
حضرت علامہ ابن تیمہ ؒ نے اس بارے میں ایک مستقل کتاب بنام نزول الرب إلی السماءالدنیا تحریر فرمائی ہے جس میں بدلائل واضحہ اس کا آسمان دنیا پر نازل ہونا ثابت فرمایا ہے۔
حضرت علامہ وحید الزماں صاحب کے لفظوں میں خلاصہ یہ ہے یعنی وہ خود اپنی ذات سے اترتا ہے جیسے دوسری روایت میں ہے۔
نزل بذاته اب یہ تاویل کرنا اس کی رحمت اترتی ہے، محض فاسد ہے۔
علاوہ اس کے اس کی رحمت اتر کر آسمان تک رہ جانے سے ہم کو فائدہ ہی کیا ہے، اس طرح یہ تاویل کہ ایک فرشتہ اس کا اترتا ہے یہ بھی فاسد ہے کیونکہ فرشتہ یہ کیسے کہہ سکتا ہے جو کوئی مجھ سے دعا کرے میں قبول کروں گا، گناہ بخش دوں گا۔
دعا قبول کرنا یا گناہوں کا بخش دینا خاص پروردگار کا کام ہے۔
اہل حدیث نے اس قسم کی حدیثوں کو جن میں صفات الہی کا بیان ہے، بہ دل وجان قبول کیا ہے اور ان کے اپنے ظاہری معنی پر محمول رکھا ہے، مگر یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس کی صفات مخلوق کی صفات کے مشابہ نہیں ہیں اور ہمارے اصحاب میں سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے اس حدیث کی شرح میں ایک کتاب لکھی ہے جو دیکھنے کے قابل ہے اور مخالفوں کے تمام اعتراضوں اور شبہوں کا جواب دیا ہے۔
اس حدیث پر روشنی ڈالتے ہوئے المحدث الکبیر حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب مبارکپوری فرماتے ہیں:
وَمِنْهُمْ مَنْ أَجْرَاهُ عَلَى مَا وَرَدَ مُؤْمِنًا بِهِ عَلَى طَرِيقِ الْإِجْمَالِ مُنَزِّهًا اللَّهَ تَعَالَى عَنِ الْكَيْفِيَّةِ وَالتَّشْبِيهِ وَهُمْ جُمْهُورُ السَّلَفِ وَنَقَلَهُ الْبَيْهَقِيُّ وَغَيْرُهُ عَنِ الْأَئِمَّةِ الْأَرْبَعَةِ وَالسُّفْيَانَيْنِ وَالْحَمَّادَيْنِ وَالْأَوْزَاعِيِّ وَاللَّيْثِ وَغَيْرِهِمْ وَهَذَا الْقَوْلُ هُوَ الْحَقُّ فَعَلَيْكَ اتِّبَاعَ جُمْهُورِ السَّلَفِ وَإِيَّاكَ أَنْ تَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ التَّأْوِيلِ وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ۔
(تحفة الأحوذي)
یعنی سلف صالحین وائمہ اربعہ اور بیشتر علمائے دین اسلاف کرام کا یہی عقیدہ ہے کہ وہ بغیر تاویل اور کیفیت اورتشبیہ کے کہ اللہ اس سے پاک ہے جس طرح سے یہ صفات باری تعالی وارد ہوئی ہیں۔
ان پر ایمان رکھتے ہیں اور یہی حق اور صواب ہے۔
پس سلف کی اتباع لازم پکڑلے اور تاویل والوں میں سے مت ہو کہ یہی حق ہے۔
واللہ أعلم۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1145   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7494  
7494. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہمارا رب تبارک وتعالٰی ہر رات آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتاہے جس وقت رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے اور کہتا ہے: کوئی شخص ہے جو مجھ سے دعا کرے میں اس کی دعا قبول کروں، کوئی شخص ہے جو مجھ سے سوال کرے میں اسے عطا کروں، کوئی شخص ہے جو مجھ سے معافی مناگے تو میں اسے بخش دوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7494]
حدیث حاشیہ:
اللہ پاک کا عرش معلیٰ سے آسمان دنیا پر اترنا اور کلام کرنا ثابت ہوا جو لوگ اللہ کے بارے میں ان چیزوں سے انکار کرتے ہیں ان کوغورکرنا چاہیے کہ اس سے واضح دلیل اور کیا ہوگی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7494   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1145  
1145. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہمارا بزرگ و برتر پروردگار ہر رات آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے جب رات کی آخری تہائی باقی رہ جاتی ہے۔ اور آواز دیتا ہے: کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے میں اسے قبول کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے مانگے میں اسے عطا کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے تو میں اسے معاف کر دوں؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1145]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس روایت میں دعا، سوال اور استغفار کا ذکر ہے۔
دیگر روایات میں توبہ، رزق اور دفع بلا کا ذکر بھی مروی ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ کون ہے جو اس وقت ایسی ذات کو قرض دے جو مفلس اور ظلم پیشہ نہیں۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس قسم کی ندا کا سلسلہ طلوع فجر تک جاری رہتا ہے۔
بعض روایات کے آخر میں امام زہری کا قول بایں الفاظ بیان ہوا ہے کہ اس لیے نیک لوگ پچھلی رات نماز پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے عنوان میں دعا کے ساتھ نماز کا ذکر بھی کیا ہے۔
(فتح الباري: 41/3) (2)
اللہ تعالیٰ کا اپنے عرش معلیٰ سے آسمان دنیا پر بلا تاویل و تکییف اترنا برحق ہے جس طرح اس ذات کا عرش عظیم پر مستوی ہونا برحق ہے۔
ہمارے اسلاف کا عقیدہ ہے کہ اس قسم کی صفات کو ظاہری معنی پر ہی محمول کیا جائے، مگر یہ بھی عقیدہ رکھنا چاہیے کہ اللہ کی صفات، مخلوق کی صفات کی طرح نہیں ہیں۔
اس کی مکمل تشریح ہم کتاب التوحید، (حدیث: 7494)
کے تحت کریں گے۔
بإذن اللہ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1145   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6321  
6321. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہمارا رب تبارک وتعالٰی ہر رات آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے۔ جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو فرماتا ہے: کون ہے جو مجھ سے دعا کرے میں اس کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازوں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے میں اسے عطا کروں؟ کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے میں اسے بخشش دوں؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6321]
حدیث حاشیہ:
1)
حدیث میں رات کی آخری تہائی کا ذکر ہے جبکہ عنوان میں نصف رات کے الفاظ ہیں؟ دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے حسب عادت ان روایات کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں نصف رات کے الفاظ آئے ہیں جیسا کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے کتاب الرؤیا میں بیان کیا ہے۔
(النزول للدارقطني: 17/1، و فتح الباري: 155/11) (2)
علامہ کرمانی رحمہ اللہ نے حدیث میں مذکور اللہ رب العزت کے نزول کو محال قرار دیا ہے لیکن سلف صالحین اللہ تعالیٰ کی اس صفت کو کسی قسم کی تاویل کے بغیر اپنے ظاہر پر محمول کرتے ہیں۔
یہ امر اللہ تعالیٰ کے لیے قطعاً محال نہیں کہ وہ بیک وقت عرش پر بھی ہو اور آسمان پر بھی نزول فرمائے:
(إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ)
اس مسئلے کے متعلق ہم کتاب التوحید میں تفصیل سے لکھیں گے۔
بإذن اللہ تعالیٰ
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6321   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7494  
7494. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہمارا رب تبارک وتعالٰی ہر رات آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتاہے جس وقت رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے اور کہتا ہے: کوئی شخص ہے جو مجھ سے دعا کرے میں اس کی دعا قبول کروں، کوئی شخص ہے جو مجھ سے سوال کرے میں اسے عطا کروں، کوئی شخص ہے جو مجھ سے معافی مناگے تو میں اسے بخش دوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7494]
حدیث حاشیہ:

رات کے آخری تہائی حصے میں کھانا وغیرہ ہضم ہو جانے کے باعث سانس کی آمدورفت آسان ہو جاتی ہے۔
حواس کا بوجھ بھی ہلکا ہو جاتا ہے، نیز تشویش کن امور اور دنیا کا شوروغل بھی نہیں ہوتا۔
الغرض یہ وقت تنہائی اور یکسوئی کا ہوتا ہے۔
ان پر سکوت لمحات میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو پکارتا ہے۔
اس وقت عبادت میں بڑی لذت آتی ہے۔

اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کا آسمان دنیا پر اترنا اور کلام کرنا ثابت ہوا۔
اللہ تعالیٰ کا یہ کلام قرآن مجید کے علاوہ اور آواز وحروف پر مشتمل ہے۔
جو لوگ ان حقائق کا انکار کرتے ہیں یا دوراز کا تاویل کا دروازہ کھولتے ہیں انھیں غور وفکر کرنا چاہیے کہ وہ کدھر اپنا رخ کیے ہوئے ہیں۔
کیا اس قدر واضح دلائل کے بعد بھی انکار یا تاویل کی گنجائش باقی رہتی ہے؟
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7494   


حدیث نمبر: 9
485- مالك عن هلال بن أسامة عن عطاء بن يسار عن عمر بن الحكم أنه قال: أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: يا رسول الله إن جارية لي كانت ترعى غنما لي فجئتها وقد فقدت شاة من الغنم، فسألتها عنها فقالت: أكلها الذئب فأسفت عليها، وكنت من بني آدم فلطمت وجهها، وعلي رقبة أفأعتقها؟ فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”أين الله؟“ فقالت: فى السماء، قال لها: ”من أنا؟“ قالت: أنت رسول الله، قال: ”أعتقها“.
سیدنا عمر بن الحکم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میری ایک لونڈی میری بکریاں چراتی تھی۔ جب میں اس کے پاس آیا تو ایک بکری گم تھی۔ میں نے اس کے بارے میں اس سے پوچھا: تو وہ بولی: اسے بھیڑیا کھا گیا ہے۔ مجھے اس پر غصہ آیا اور میں آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہوں۔ پس میں نے اس کے چہرے پر تھپڑ مارے۔ مجھ پر ایک غلام آزاد کرنا ضروری ہے، کیا میں اسے آزاد کر دوں؟ پھر (جب وہ اپنی لونڈی لائے تو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈی سے پوچھا: اللہ کہاں ہے؟ اس نے کہا: آسمان پر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: میں کون ہوں؟ اس نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے آزاد کر دو۔
تخریج الحدیث: «485- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 776/2، 777 ح 1550، ك 38 ب 6 ح 8) التمهيد 75/22، الاستذكار: 1479 و أخرجه النسائي فى الكبريٰ (418/4 ح 7756) من حديث مالك به ورواه مسلم (537) من حديث هلال به وقال: ”معاوية بن الحكم“ وهو الصواب.»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 9 کے فوائد و مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 9  
´اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے`
«. . . 485- مالك عن هلال بن أسامة عن عطاء بن يسار عن عمر بن الحكم أنه قال: أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: يا رسول الله إن جارية لي كانت ترعى غنما لي فجئتها وقد فقدت شاة من الغنم، فسألتها عنها فقالت: أكلها الذئب فأسفت عليها، وكنت من بني آدم فلطمت وجهها، وعلي رقبة أفأعتقها؟ فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: أين الله؟ فقالت: فى السماء، قال لها: من أنا؟ قالت: أنت رسول الله، قال: أعتقها . . . .»
. . . سیدنا عمر بن الحکم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میری ایک لونڈی میری بکریاں چراتی تھی۔ جب میں اس کے پاس آیا تو ایک بکری گم تھی۔ میں نے اس کے بارے میں اس سے پوچھا: تو وہ بولی: اسے بھیڑیا کھا گیا ہے۔ مجھے اس پر غصہ آیا اور میں آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہوں۔ پس میں نے اس کے چہرے پر تھپڑ مارے۔ مجھ پر ایک غلام آزاد کرنا ضروری ہے، کیا میں اسے آزاد کر دوں؟ پھر (جب وہ اپنی لونڈی لائے تو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈی سے پوچھا: اللہ کہاں ہے؟ اس نے کہا: آسمان پر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: میں کون ہوں؟ اس نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے آزاد کر دو۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 9]

تحقیق: سندہ صحیح
تخریج:
[الموطا رواية يحييٰ 777، 776/2ح 1550، ك 38 ب 6 ح 8، التمهيد 75/22، الاستدكار: 1479 * و أخرجه النسائي فى الكبريٰ 418/4 ح 7756، من حديث مالك به: ورواه مسلم 537، من حديث هلال به و قال: معاوية بن الحكم وهوالصواب]

تنبیہ:
روایت مذکورہ میں عمر کے بجائے معاویہ کا لفظ صحیح ہے یعنی اس حدیث کے راوی سیدنا معاویہ بن الحکم السلمی رضی اللہ عنہ ہیں جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ میں لکھا ہوا ہے۔

تفقه:
➊ یہ سوال کرنا کہ اللہ کہاں ہے؟ بالکل صحیح اور سنت ہے بلکہ ایمان کی کسوٹی ہے۔ یاد رہے کہ اس سوال کے جواب میں یہ کہنا کہ اللہ ہر جگہ بذاتہ موجود ہے غلط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔ «كما يليق بجلاله وشأنه»
➋ اسلام میں یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ مسلمانوں پر چار اماموں (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، اور امام أحمد بن حنبل) میں سے صرف ایک امام کی تقلید شخصی واجب ہے اور باقی تینوں کی حرام ہے بلکہ اسلام تو اللہ اور رسول پر ایمان لانے کا نام ہے۔
➌ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ اللہ تعالی سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پرمستوی ہے۔ «كما يليق بجلاله»
➍ اہل سنت والجماعتہ کے اکابر علماء نے اپنی تصانیف میں اللہ تعالی کا عرش پر مستوی ہونا مدلل لکھا ہے مثلا دیکھۓ: صحیح بخاری [كتاب التوحيد باب 22ح7418 تا 7428،] وغیرہ۔ بلکہ بعض علماء نے خاص اس مسئلے علوی باری تعالی پر کتابیں لکھی ہیں مثلا المحدث الصدوق محمد بن عثمان بن ابی شیبہ کی کتاب العرش، حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی کتاب العلوللعلی الغفار اور حافظ ابن تیمیہ کا الرسالتہ العرشیہ [مجموع الفتاوٰيٰ 6/ 545۔ 583] وغیرہ۔ اس عقیدے کو امام ابن خزيمة اور اس جیسی دوسری کتابوں میں بھی تفصیلاََ بیان کیا گیا ہے۔
➎ سیدنا عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک پانچ سو سال کا فاصلہ ہے، زمین اور آسمان کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے، ساتویں آسمان اور کرسی کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے، کرسی اور پانی کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے اور عرش پانی پر ہے اور اللہ عرش پر ہے اور تمھارے اعمال جانتا ہے۔ [كتاب التوحيد لابن خزيمه ص 105 ح 149، و سنده حسن لذاته، عاصم بن ابي النجو والقاري حسن الحديث و باقي السند صحيح]
معلوم ہوا کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اللہ تعالی کوبذاتہ ہر جگہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ عرش پر مستوی مانتے تھے۔
➏ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو شخص محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی عبادت کرتا تھا تو تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) فوت ہوگئے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ آسمان پر زندہ ہے اسے موت نہیں آئے گی۔ [التاريخ الكبير للبخاري 202/1 و سنده حسن، الرد على الجهميه للامام عثمان بن سعد الدارمي: 78]
➐ مشہور تابعی سعید بن جبیررحمہ اللہ کے شاگرد اور مفسر قرآن ضحاک بن مزاحم رحمہ اللہ [متوفي105ه] نے کہا: «هوا فوق العرش و علمه معهم اينما كانوا» وہ عرش پر ہے اور اس کا علم ان کے ساتھ ہے وہ جہاں بھی ہوں۔ [تفسير ابن جرير الطبري ج28ص10، و سنده لعبدلله بن أحمد بن حنبل: 592]
➑ امام عبد اللہ بن المبارک المزوری رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ ھم اپنے رب کو کس طرح پہچانیں؟ تو انہوں نے فرمایا: وہ ساتویں آسمان پر عرش پر ہے، (ذات کے لحاظ سے) جدا ہے۔ [كتاب الرد على الجهميه للامام عثمان بن سعيد الدارمي: 67و سنده صحيح]
امام ابن المبارک رحمہ اللہ نے فرمایا: «نعرف ربنا فوق سبع سموات على العرش استوي بائنا من خلقه ولا نقول كما قالت الجهمية: انه هاهنا۔ واًشار الي الارض۔» ہم جانتے ہیں کہ ہمارارب سات آسمانوں سے اوپرعرش پرمستوی ہے، اپنی مخلوق سے جدا ہے، ہم جہمیوں کی طرح یہ نہیں کہتے کہ وہ یہاں ہے اور انہوں نے زمین کی طرف اشارہ کیا۔ [عقيده السلف واصحاب الحديث للصابوني ص185، 186، سنده صحيح، دوسرا نسخه ص 20 ح28، السماءوالصفات للبيهقي ص427 دوسرا نسخه ص538، تيسرنسخه ص303، محمد بن عبدالرحمنٰ هوالسامي بالسين المهمله]
➒ امام مالک بن انس رحمہ اللہ (صاحب الموطا) نے فرمایا: «الله عز وجل فى السماءعلمه فى كل مكان، لا يخلو من علمه مكان» اللہ عز وجل آسمان پر ہے اور اس کا علم ہر مکان (محیط)، اس کے علم سے کوئی باہر نہیں۔ [الشريعه للاجري ص289ح652 وسنده حسن لذاته، مسائل ابي داودص263]
➓ اس عقیدے کے بارے میں سلف صالحین کے بے شمار اقوال ہیں۔ آخر میں صحیح ابن خزیمہ کے مؤلف امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کا قول پیشِ خدمت ہے، انہوں نے فرمایا: جو شخص اس کا اقرار نہ کرے کہ اللہ تعالیٰ سات آسمانوں سے اور اپنے عرش پر مستوی ہے تو وہ اپنے رب کا کافر ہے، اسے توبہ کرائی جائے ورنہ اس کی گردن مار دی جائے اور گندگی کے کسی ڈھیر پر پھینک دیا جائے۔ الخ [معرفة علوم الحديث للحاكم ص 84 ح187، و سنده صحيح، دوسرا نسخه ص285]
تنبیہ:
◈ یاد رہے کہ گردن مارنا، قتل کرنا اور سزائیں دینا مسلمان حکمرانوں کا کام ہے۔
اللہ تعالی کے عرش پرمستوی ہونے کے مزید دلائل کیلۓ دیکھئے میری کتابعلمی مقالات [ج1ص13]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 485