نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے احکام میں


قَالَ مَالِكٌ: فِي رَجُلٍ بَاعَ مِنْ رَجُلٍ مَتَاعًا فَأَفْلَسَ الْمُبْتَاعُ، فَإِنَّ الْبَائِعَ إِذَا وَجَدَ شَيْئًا مِنْ مَتَاعِهِ بِعَيْنِهِ أَخَذَهُ، وَإِنْ كَانَ الْمُشْتَرِي قَدْ بَاعَ بَعْضَهُ، وَفَرَّقَهُ فَصَاحِبُ الْمَتَاعِ أَحَقُّ بِهِ مِنَ الْغُرَمَاءِ، لَا يَمْنَعُهُ مَا فَرَّقَ الْمُبْتَاعُ مِنْهُ، أَنْ يَأْخُذَ مَا وَجَدَ بِعَيْنِهِ، فَإِنِ اقْتَضَى مِنْ ثَمَنِ الْمُبْتَاعِ شَيْئًا فَأَحَبَّ أَنْ يَرُدَّهُ وَيَقْبِضَ مَا وَجَدَ مِنْ مَتَاعِهِ، وَيَكُونَ فِيمَا لَمْ يَجِدْ أُسْوَةَ الْغُرَمَاءِ فَذَلِكَ لَهُ. ¤
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جس شخص نے کوئی اسباب بیچا، پھر مشتری مفلس ہوگیا اور بائع نے اپنی چیز بعینہ مشتری کے پاس پائی، تو بائع اس کو لے لے گا، اگر مشتری نے اس میں سے کچھ بیچ ڈالا ہے، تو جس قدر باقی ہے اس کا بائع زیادہ حقدار ہے، بہ نسبت اور قرض خواہوں کے۔ اگر بائع تھوڑی سی ثمن پا چکا ہے، پھر بائع یہ چاہے کہ اس ثمن کو پھیر کر جس قدر اسباب اپنا باقی ہے اس کو لے لے، اور جو کچھ باقی رہ جائے اس میں اور قرض خواہوں کے برابر رہے، تو ہو سکتا ہے۔
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 88»

قَالَ مَالِكٌ: وَمَنِ اشْتَرَى سِلْعَةً مِنَ السِّلَعِ غَزْلًا أَوْ مَتَاعًا أَوْ بُقْعَةً مِنَ الْأَرْضِ ثُمَّ أَحْدَثَ فِي ذَلِكَ الْمُشْتَرَى عَمَلًا بَنَى الْبُقْعَةَ دَارًا، أَوْ نَسَجَ الْغَزْلَ ثَوْبًا، ثُمَّ أَفْلَسَ الَّذِي ابْتَاعَ ذَلِكَ، فَقَالَ: رَبُّ الْبُقْعَةِ أَنَا آخُذُ الْبُقْعَةَ وَمَا فِيهَا مِنَ الْبُنْيَانِ، إِنَّ ذَلِكَ لَيْسَ لَهُ، وَلَكِنْ تُقَوَّمُ الْبُقْعَةُ وَمَا فِيهَا، مِمَّا أَصْلَحَ الْمُشْتَرِي ثُمَّ يُنْظَرُ كَمْ ثَمَنُ الْبُقْعَةِ؟ وَكَمْ ثَمَنُ الْبُنْيَانِ مِنْ تِلْكَ الْقِيمَةِ؟ ثُمَّ يَكُونَانِ شَرِيكَيْنِ فِي ذَلِكَ لِصَاحِبِ الْبُقْعَةِ، بِقَدْرِ حِصَّتِهِ وَيَكُونُ لِلْغُرَمَاءِ بِقَدْرِ حِصَّةِ الْبُنْيَانِ. ¤
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص نے سوت یا زمین خریدی پھر سوت کا کپڑا بن لیا اور زمین پر مکان بنایا، بعد اس کے مشتری مفلس ہوگیا، اب زمین کا بائع یہ کہے کہ میں زمین اور مکان سب لیے لیتا ہوں، تو یہ نہیں ہو سکتا، بلکہ زمین کی اور عملے کی قیمت لگائیں گے، پھر دیکھیں گے اس قیمت کا حصّہ زمین پر کتنا آتا ہے، اور عملے پر کتنا آتا ہے، اب بائع اور مشتری دونوں اس میں شریک رہیں گے، زمین کا مالک اپنے حصّہ کے موافق اور باقی قرض خواہ عملے کے موافق۔
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 88»
Previous    1    2    3    4    Next