نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے احکام میں

36. بَابُ بَيْعِ الْمُرَابَحَةِ
36. مرابحہ کا بیان

قَالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا فِي الْبَزِّ يَشْتَرِيهِ الرَّجُلُ بِبَلَدٍ، ثُمَّ يَقْدَمُ بِهِ بَلَدًا آخَرَ، فَيَبِيعُهُ مُرَابَحَةً إِنَّهُ لَا يَحْسِبُ فِيهِ أَجْرَ السَّمَاسِرَةِ، وَلَا أَجْرَ الطَّيِّ، وَلَا الشَّدِّ، وَلَا النَّفَقَةَ، وَلَا كِرَاءَ بَيْتٍ، فَأَمَّا كِرَاءُ الْبَزِّ فِي حُمْلَانِهِ، فَإِنَّهُ يُحْسَبُ فِي أَصْلِ الثَّمَنِ، وَلَا يُحْسَبُ فِيهِ رِبْحٌ، إِلَّا أَنْ يُعْلِمَ الْبَائِعُ مَنْ يُسَاوِمُهُ بِذَلِكَ كُلِّهِ، فَإِنْ رَبَّحُوهُ عَلَى ذَلِكَ كُلِّهِ بَعْدَ الْعِلْمِ بِهِ فَلَا بَأْسَ بِهِ. ¤
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے: جو شخص ایک شہر سے کپڑا خرید کر کے دوسرے شہر میں لائے، پھر مرابحہ کے طور پر بیچنا چاہے، تو اصل لاگت میں دلالوں کی دلالی، اور تہہ کرنے کی مزدوری، اور باندھا بوندھی کی اجرت، اور اپناخرچ، اور مکان کا کرایہ شریک نہ کرے، البتہ کپڑے کی بار برداری اس میں شریک کر لے مگر اس پر نفع نہ لے مگر جب مشتری کو اطلاع دے، اور وہ اس پر بھی نفع دینے کو راضی ہوجائے، تو کچھ قباحت نہیں۔
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 77»

قَالَ مَالِكٌ: فَأَمَّا الْقِصَارَةُ، وَالْخِيَاطَةُ، وَالصِّبَاغُ، وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ، فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الْبَزِّ يُحْسَبُ فِيهِ الرِّبْحُ كَمَا يُحْسَبُ فِي الْبَزِّ، فَإِنْ بَاعَ الْبَزَّ، وَلَمْ يُبَيِّنْ شَيْئًا مِمَّا سَمَّيْتُ إِنَّهُ لَا يُحْسَبُ لَهُ فِيهِ رِبْحٌ، فَإِنْ فَاتَ الْبَزُّ، فَإِنَّ الْكِرَاءَ يُحْسَبُ، وَلَا يُحْسَبُ عَلَيْهِ رِبْحٌ، فَإِنْ لَمْ يَفُتِ الْبَزُّ فَالْبَيْعُ مَفْسُوخٌ بَيْنَهُمَا، إِلَّا أَنْ يَتَرَاضَيَا عَلَى شَيْءٍ مِمَّا يَجُوزُ بَيْنَهُمَا. ¤
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ کپڑوں کی دھلائی اور رنگوائی اس لاگت میں داخل ہوگی، اور اس پر نفع لیا جائے گا۔ جیسے کپڑے پر نفع لیا جاتا ہے۔ اگر کپڑوں کو بیچا اور ان چیزوں کا حال بیان نہ کیا تو ان پر نفع نہ ملے گا، اب اگر کپڑا تلف ہوگیا تو کرایہ بار برداری کا محسوب ہوگا، مگر اس پر نفع نہ لگایا جائے گا۔ اگر کپڑا موجود ہے تو بیع کو فسخ کردیں گے، جب دونوں راضی ہوجائیں کسی امر پر۔
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 77»
1    2    3    Next