نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے احکام میں


قَالَ مَالِك: وَقَدْ" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الطَّعَامِ قَبْلَ أَنْ يُسْتَوْفَى". قَالَ مَالِك: فَإِنْ نَدِمَ الْمُشْتَرِي، فَقَالَ لِلْبَائِعِ: أَقِلْنِي وَأُنْظِرُكَ بِالثَّمَنِ الَّذِي دَفَعْتُ إِلَيْكَ، فَإِنَّ ذَلِكَ لَا يَصْلُحُ، وَأَهْلُ الْعِلْمِ يَنْهَوْنَ عَنْهُ، وَذَلِكَ أَنَّهُ لَمَّا حَلَّ الطَّعَامُ لِلْمُشْتَرِي عَلَى الْبَائِعِ أَخَّرَ عَنْهُ حَقَّهُ عَلَى أَنْ يُقِيلَهُ فَكَانَ ذَلِكَ بَيْعَ الطَّعَامِ إِلَى أَجَلٍ قَبْلَ أَنْ يُسْتَوْفَى.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر مشتری نے بائع سے کہا: سلف کو فسخ کر ڈال اور ثمن واپس کرنے کے لیے میں تجھ کو مہلت دیتا ہوں، تو یہ جائز نہیں، اور اہلِ علم اس کو منع کرتے ہیں، کیونکہ جب میعاد گزر گئی اور اناج بائع کے ذمہ واجب ہو، اب مشتری نے اپنے حق وصول کرنے میں دیر کی اس شرط سے کہ بائع سلم کو فسخ کر ڈالے، تو گویا مشتری نے اپنے اناج کو ایک مدت پر بیچا قبل قبضے کے۔
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 49»

قَالَ مَالِك: وَتَفْسِيرُ ذَلِكَ: أَنَّ الْمُشْتَرِيَ حِينَ حَلَّ الْأَجَلُ وَكَرِهَ الطَّعَامَ أَخَذَ بِهِ دِينَارًا إِلَى أَجَلٍ وَلَيْسَ ذَلِكَ بِالْإِقَالَةِ، وَإِنَّمَا الْإِقَالَةُ مَا لَمْ يَزْدَدْ فِيهِ الْبَائِعُ وَلَا الْمُشْتَرِي، فَإِذَا وَقَعَتْ فِيهِ الزِّيَادَةُ بِنَسِيئَةٍ إِلَى أَجَلٍ أَوْ بِشَيْءٍ يَزْدَادُهُ أَحَدُهُمَا عَلَى صَاحِبِهِ أَوْ بِشَيْءٍ يَنْتَفِعُ بِهِ أَحَدُهُمَا، فَإِنَّ ذَلِكَ لَيْسَ بِالْإِقَالَةِ، وَإِنَّمَا تَصِيرُ الْإِقَالَةُ إِذَا فَعَلَا ذَلِكَ بَيْعًا، وَإِنَّمَا أُرْخِصَ فِي الْإِقَالَةِ وَالشِّرْكِ وَالتَّوْلِيَةِ مَا لَمْ يَدْخُلْ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ زِيَادَةٌ أَوْ نُقْصَانٌ أَوْ نَظِرَةٌ، فَإِنْ دَخَلَ ذَلِكَ زِيَادَةٌ أَوْ نُقْصَانٌ أَوْ نَظِرَةٌ، صَارَ بَيْعًا يُحِلُّهُ مَا يُحِلُّ الْبَيْعَ وَيُحَرِّمُهُ مَا يُحَرِّمُ الْبَيْعَ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کی مثال یہ ہے کہ جب مدت پوری ہوئی اور خریدار نے اناج لینا پسند نہ کیا تو اس اناج کے بدلے میں کچھ روپے ٹھہرا لیے ایک مدت پر، تو یہ اقالہ نہیں ہے، اقالہ وہ ہے جس میں کمی بیشی بائع یا مشتری کی طرف سے نہ ہو، اگر اس میں کمی بیشی ہوگی یا کوئی میعاد بڑھ جائے گی یا کچھ فائدہ مقرر ہوگا بائع کا یا مشتری کا، تو وہ اقالہ بیع سمجھا جائے گا، اور اقالہ اور شرکت اور تولیہ جب تک درست ہیں کہ کمی بیشی یا میعاد نہ ہو، اگر یہ چیزیں ہوں گی تو وہ نئی بیع سمجھیں گے۔ جن وجوہ سے بیع درست ہوتی ہے یہ بھی درست ہوں گی، اور جن وجوہ سے بیع نادرست ہوتی ہے یہ بھی نادرست ہوگی۔
_x000D_
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 49»
Previous    1    2    3    4    Next