نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الزَّكَاةِ
کتاب: زکوٰۃ کے بیان میں

13. بَابُ صَدَقَةِ الْخُلَطَاءِ
13. شرکت کے مال میں زکوٰۃ کا بیان

قَالَ مَالِكٌ: فِي الْخَلِيطَيْنِ إِذَا كَانَ الرَّاعِي وَاحِدًا، وَالْفَحْلُ وَاحِدًا، وَالْمُرَاحُ وَاحِدًا، وَالدَّلْوُ وَاحِدًا: فَالرَّجُلَانِ خَلِيطَانِ. وَإِنْ عَرَفَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مَالَهُ مِنْ مَالِ صَاحِبِهِ. قَالَ: وَالَّذِي لَا يَعْرِفُ مَالَهُ مِنْ مَالِ صَاحِبِهِ لَيْسَ بِخَلِيطٍ. إِنَّمَا هُوَ شَرِيكٌ. قَالَ مَالِكٌ: وَلَا تَجِبُ الصَّدَقَةُ عَلَى الْخَلِيطَيْنِ حَتَّى يَكُونَ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مَا تَجِبُ فِيهِ الصَّدَقَةُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر دو آدمی شریک ہوں جانوروں میں اس طرح: چرواہا ایک ہو اور نر جانور بھی ایک ہوں اور جانوروں کے رہنے کا مکان بھی ایک ہو اور پانی پلانے کا ڈول بھی ایک ہو تو اُن دونوں آدمیوں کو خلیطان کہیں گے، اگر ہر ایک اُن میں سے مال کو پہچانتا ہو، اور جو کوئی اپنے مال کو دوسرے کے مال سے تمیز نہ کر سکتا ہو تو اُن کو شریکان کہیں گے۔
تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر:، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 24»

وَتَفْسِيرُ ذَلِكَ، أَنَّهُ إِذَا كَانَ لِأَحَدِ الْخَلِيطَيْنِ أَرْبَعُونَ شَاةً فَصَاعِدًا، وَلِلْآخَرِ أَقَلُّ مِنْ أَرْبَعِينَ شَاةً، كَانَتِ الصَّدَقَةُ عَلَى الَّذِي لَهُ الْأَرْبَعُونَ شَاةً. وَلَمْ تَكُنْ عَلَى الَّذِي لَهُ أَقَلُّ مِنْ ذَلِكَ، صَدَقَةٌ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: خلیطان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی جب تک ہر ایک کا مال بقدرِ نصاب کے نہ ہو۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اس مسئلہ کی تفسیر یہ ہے کہ مثلاً ایک خلیط کی چالیس بکریاں یا زیادہ ہیں اور دوسرے خلیط کی چالیس سے کم ہیں، تو جس کی چالیس یا زیادہ ہیں اسی پر زکوٰۃ واجب ہے، اور جس کی چالیس سے کم ہیں اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر:، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 24»
1    2    3    Next