نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
سنن دارمي
من كتاب فضائل القرآن
قرآن کے فضائل


حدیث نمبر: 3346
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ الْفَزَارِيُّ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ إِذَا أَتَى أَهْلَهُ أَنْ يَجِدَ ثَلَاثَ خَلِفَاتٍ سِمَانٍ، قَالُوا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:"فَثَلَاثُ آيَاتٍ يَقْرَؤُهُنَّ أَحَدُكُمْ، خَيْرٌ لَهُ مِنْهُنَّ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم میں سے کوئی پسند کرے گا کہ وہ جب اپنے گھر آئے تو تین نہایت فربہ حاملہ اونٹنیاں کھٹری پائے؟ عرض کیا: بے شک یا رسول اللہ! (ہم میں سے ہر کوئی اس کو پسند کرتا ہے)، فرمایا: پس تین آیات جن کو انسان پڑھتا ہے ان تین (موٹی حاملہ) اونٹنیوں سے بہتر ہیں۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 3357]»
اس حدیث کی سند جید ہے اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 802]، [ابن ماجه 3782]، [أحمد 266/2، 396]، [ابن أبى شيبه 10122]، [فضائل القرآن للفريابي 70]، [شرح السنة للبغوي 1177]، [شعب الايمان 2242، وغيرهم]۔ مسلم اور ابن ماجہ میں تین آیات نماز میں پڑھنے کا ذکر ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 3342 سے 3346)
سبحان اللہ! کیا فضیلت ہے قرآن پڑھنے کی، صرف تین آیات اور اتنا بڑا ثواب، تین اونٹنیاں وہ بھی حاملہ اور موٹی تازی جن کی اس زمانے میں بڑی قیمت تھی، افسوس ہم اتنا بھی نہیں کر پاتے، اور یہ مثال تو دنیا کے لوگوں کی فہمائش کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ورنہ آیاتِ قرآنیہ تو آخرت کی بہت عمدہ نعمتوں میں سے ہیں اور بارگاهِ عالی میں درجات بلند کرانے والی ہیں۔

حدیث نمبر: 3347
حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ هُوَ الْهَجَرِيُّ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ مَأْدُبَةُ اللَّهِ، فَتَعَلَّمُوا مِنْ مَأْدُبَتِهِ مَا اسْتَطَعْتُمْ، إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ حَبْلُ اللَّهِ، وَالنُّورُ الْمُبِينُ، وَالشِّفَاءُ النَّافِعُ، عِصْمَةٌ لِمَنْ تَمَسَّكَ بِهِ، وَنَجَاةٌ لِمَنْ اتَّبَعَهُ، لَا يَزِيغُ فَيَسْتَعْتِبُ، وَلَا يَعْوَجُّ فَيُقَوَّمُ، وَلَا تَنْقَضِي عَجَائِبُهُ، وَلَا يَخْلَقُ عَنْ كَثْرَةِ الرَّدِّ، فَاتْلُوهُ، فَإِنَّ اللَّهَ يَأْجُرُكُمْ عَلَى تِلَاوَتِهِ بِكُلِّ حَرْفٍ عَشْرَ حَسَنَاتٍ، أَمَا إِنِّي لَا أَقُولُ (الم) وَلَكِنْ بِأَلِفٍ، وَلَامٍ، وَمِيمٍ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: بیشک یہ قرآن اللہ کا دسترخوان ہے، اس کے دسترخوان سے جتنا ہو سکے علم حاصل کرو، بیشک یہ قرآن کریم اللہ کی رسی، نور، شفا اورنفع بخش ہے، جو اس کو تھامے اس کے لئے (گناہوں سے بچنے کا) سبب ہے، اور جو اس کی پیروی کرے اس کے لئے نجات ہے، اس پر چلنے والا گمراہ نہ ہوگا کہ اس کو رضامندی طلب کرنی پڑے، نہ ٹیڑھا ہو گا کہ اس کو سیدھا کرنا پڑے، اور اس کے عجائب ختم ہونے والے نہیں ہیں، اور بار بار پڑھنے سے یہ پرانا نہ ہو گا، اس کو پڑھو بیشک اس کی تلاوت پر الله تعالیٰ تمہیں اجر و ثواب سے نوازے گا، ہر ایک حرف کے بدلے دس نیکیاں ہیں، میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف لام اور میم (الگ الگ حرف) ہیں۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف إبراهيم الهجري، [مكتبه الشامله نمبر: 3358]»
ابراہیم بن مسلم الہجری کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے۔ بعض رواۃ نے اس کو مرفوعاً بھی روایت کیا ہے۔ اس کا طرف اول (3339) پر گذر چکا ہے۔ مزید حوالے کے لئے دیکھئے: [عبدالرزاق 6017]، [طبراني 139/9، 8646]، [أبونعيم فى الحلية 130/1]، [الحاكم فى المستدرك 555/1]، [أبوعبيد فى فضائل القرآن، ص: 49-50]، [نسائي فى عمل اليوم 963] و [أبونعيم فى أخبار أصبهاني 278/2]، [ابن منصور 7] و [البيهقي فى شعب الايمان 1985]، «كلهم عن طريق ابراهيم الهجري» ۔
وضاحت: (تشریح حدیث 3346)
اگرچہ اس اثر کی سند ضعیف ہے لیکن قرآن پاک کے وصف میں تمام جملے مبنی برحقیقت ہیں اور ہر جملے کا شاہد قرآن یا حدیث میں موجود ہے: «‏‏‏‏﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيعًا .....﴾ [آل عمران: 103] » اور «﴿وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا﴾ [الإسراء: 82] » نیز «مَنْ يَهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ [مسلم: 868] ، اقْرَءُوا الْقُرْآنَ، فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لِأَصْحَابِهِ [مسلم: 804] وفي رواية: كِتَابُ اللّٰهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ مَنِ اسْتَمْسَكَ بِهِ وَأَخَذَ بِهِ كَانَ عَلَى الْهُدَى، وَمَنْ أَخْطَأَهُ ضَلَّ [مسلم 2408] او كما قال عليه الصلاة والسلام» یہ بھی صحیح ہے کہ اس قرآن پاک کے عجائب کبھی ختم ہونے والے نہیں، اس کی واضح مثال یہ ہے کہ چودہ سو سال میں بے شمار تفاسیر لکھی گئیں، ہر مفسر ایک نئی راہ اور مثال بیان کرتا ہے اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے، پچھلی صرف ایک دہائی میں صرف اردو میں کتنی تفسیر طبع ہوئیں ہیں اس پر غور کیا جائے، اور ہر تفسیر میں نیا اسلوب دیکھنے اور سمجھنے کو ملے گا، اور اسی لئے جب بعض اسلاف سے کہا گیا کہ آپ رات رات بھر بیٹھے قرآن پڑھتے رہتے ہیں سوتے بھی نہیں؟ کہا: کیا کروں، قرآن پڑھتا ہوں تو ایک عجوبہ سے نکل نہیں پاتا کہ دوسرا عجوبہ شروع ہو جاتا ہے۔
سبحان اللہ العظیم! کیا فہمِ قرآن ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    9    Next