نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
سنن دارمي
من كتاب الفرائض
وراثت کے مسائل کا بیان


حدیث نمبر: 3045
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا الْأَشْعَثُ، عَنْ الْحَسَن": أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"خَرَجَ إِلَى الْبَقِيعِ، فَرَأَى رَجُلًا يُبَاعُ، فَأَتَاهُ فَسَاوَمَ بِهِ، ثُمَّ تَرَكَهُ فَرَآهُ رَجُلٌ فَاشْتَرَاهُ فَأَعْتَقَهُ، ثُمَّ جَاءَ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي اشْتَرَيْتُ هَذَا فَأَعْتَقْتُهُ، فَمَا تَرَى فِيهِ؟ فَقَالَ: هُوَ أَخُوكَ وَمَوْلَاكَ، قَالَ: مَا تَرَى فِي صُحْبَتِهِ؟ قَالَ: إِنْ شَكَرَكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ وَشَرٌّ لَكَ، وَإِنْ كَفَرَكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ وَشَرٌّ لَهُ، قَالَ: مَا تَرَى فِي مَالِهِ؟ قَالَ: إِنْ مَاتَ وَلَمْ يَتْرُكْ عَصَبَةً فَأَنْتَ وَارِثُهُ".
حسن رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنت البقیع کی طرف گئے تو دیکھا ایک آدمی بیچا جا رہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس پہنچے اور اس کے دام لگائے، پھر اس کو چھوڑ آئے (یعنی خریدا نہیں)، ایک اور آدمی نے اسے دیکھا اور خرید لیا اور آزاد کر دیا، پھر اس کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا: میں نے اس کو خریدا ہے اور اس کو آزاد کرتا ہوں، آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تمہارا (اسلامی) بھائی اور غلام ہے، اس نے پوچھا اس کو ساتھ رکھنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا: اگر اس نے تمہارا شکر ادا کیا تو یہ اس کے لئے بہتر ہے، اور تمہارے لئے اچھا نہیں ہے، اور اگر تمہاری وہ ناشکری کرے تو وہ تمہارے لئے بہتر اور اس کے لئے برا ہے، اس نے پوچھا: اس کے مال کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا: اگر وہ مر جائے اور مال سمیٹنے والے وارث موجود نہ ہوں تو تم اس کے وارث ہو۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف الأشعث، [مكتبه الشامله نمبر: 3055]»
اشعث بن سوار کی وجہ سے اس روایت کی سند ضعیف ہے، اور یہ مرسل بھی ہے۔ دیکھئے: [عبدالرزاق 1621]، [البيهقي 240/6 مرسلًا]

حدیث نمبر: 3046
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا أَشْعَثُ، عَنْ الْحَكَمِ، وَسَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ: أَنَّ ابْنَةَ حَمْزَةَ أَعْتَقَتْ عَبْدًا لَهَا، فَمَاتَ وَتَرَكَ ابْنَتَهُ وَمَوْلَاتَهُ بِنْتَ حَمْزَةَ،"فَقَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِيرَاثَهُ بَيْنَ ابْنَتِهِ وَمَوْلَاتِهِ بِنْتِ حَمْزَةَ نِصْفَيْنِ".
عبداللہ بن شداد سے مروی ہے کہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی نے اپنا غلام آزاد کر دیا، وہ غلام اپنی بیٹی اور مالکہ بنت حمزہ کو چھوڑ کر فوت ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی میراث کو اس کی بیٹی اور مالکہ کے درمیان نصف نصف تقسیم کر دیا۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف أشعث وهو: ابن سوار وهو مرسل أيضا، [مكتبه الشامله نمبر: 3056]»
اشعث بن سوار کی وجہ سے اس حدیث کی سند ضعیف ہے، لیکن دوسری اسانید سے یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 2734]، [ابن أبى شيبه 11183، 11184]، [عبدالرزاق 16210]، [ابن منصور 174]، [طبراني 355/24، 880]، [الحاكم 66/4]، [البيهقي 241/6]
وضاحت: (تشریح احادیث 3043 سے 3046)
اس سے معلوم ہوا کہ آزاد کردہ غلام یا لونڈی کے وارثین سے جو بچے گا اس کا وارث مالک یا مالکہ ہوگی۔
سارے مال کا وارث آزاد کرنے والا یا کرنے والی اس وقت مستحق ہوگا جب کوئی اور حقیقی وارث موجود نہ ہو۔
واللہ اعلم۔
Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next