نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
سنن دارمي
من كتاب الفرائض
وراثت کے مسائل کا بیان

28. باب الْعَصَبَةِ:
28. عصبہ کا بیان

حدیث نمبر: 3015
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الضَّحَّاكُ بْنُ قَيْسٍ: أَنَّ عُمَرَ قَضَى فِي أَهْلِ طَاعُونِ عَمَوَاسَ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا كَانُوا مِنْ قِبَلِ الْأَبِ سَوَاءً، فَبَنُو الْأُمِّ أَحَقُّ، وَإِذَا كَانَ بَعْضُهُمْ أَقْرَبَ مِنْ بَعْضٍ بِأَبٍ، فَهُمْ أَحَقُّ بِالْمَالِ".
ضحاک بن قیس نے بیان کیا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے طاعون عمواس (یا دور اسلام میں جو پہلا طاعون آیا اس) میں میراث کے بارے میں فیصلہ کیا کہ وارثین جو باپ کی جانب سے بچے ہوں وہ سب درجے میں برابر ہوں تو ماں کی جانب والے زیادہ حق دار ہوں گے اور وارثین میں سے جو بھی باپ کے زیادہ قریب ہو گا وہ ہی مال کا زیادہ حق دار ہو گا۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3025]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [عبدالرزاق 19039، 19136]، [البيهقي 239/6]
وضاحت: (تشریح حدیث 3014)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں عمواس نامی مقام پر طاعون کی وبا پھیلی تو اس میں پورے خاندان اور قبیلے کے قبیلے ختم ہو گئے اور مال کے وارثین نہ بچے، وہاں کے امیر نے امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے پاس لکھا کہ ہلاک شدگان کے اموال و ترکے کا کیا کیا جائے؟ تو امیر المؤمنین نے جواب دیا کہ باپ اور ماں کے قریبی رشتے دار موجود ہوں تو ان میں اس مال کو تقسیم کر دیا جائے جنہیں عصبہ کہتے ہیں۔
یعنی عاصب وہ شخص ہے جس کا حصہ قرآن پاک میں مقرر نہیں اور وارث کی غیر موجودگی میں کل مال سمیٹ لے، یا اصحاب الفروض کے سہام نکال دینے کے بعد جو بچ جائے وہ اس کا ہو جائے۔
عصبہ کی دو قسمیں ہیں: عصبہ بالنسب اور عصب بالسبب، عصبہ بالسبب تو یہ ہے کہ جو شخص کسی کو آزاد کرائے اور اس کا کوئی وارث نہ ہو تو آزاد کرانے والا اس کے کل مال کا حق دار ہوگا، اور عصبہ بالنسب تین طرح کے ہیں: (1) عصبہ بنفسہ: باپ، دادا، پردادا وغیرہ، بیٹا، پوتا، پڑپوتا وغیره، حقیقی بھائی، پدری بھائی وغیرہ، (2) عصب لغیرہ: وہ عورت جو کسی مرد کی معیت سے عصبہ بنے، مثلاً حقیقی بہن جب کہ اس کے ساتھ حقیقی بھائی موجود ہو، وغیرہ وغیرہ، (3) عصبہ مع الغير: وہ عورت جو کسی عورت کی معیت میں عصبہ بنے، جیسے ایک یا زیادہ حقیقی بہنیں، ایک یا زیادہ بیٹوں یا ایک یا زیادہ پوتیوں کے ساتھ مل کر عصبہ مع الغیر ہو جاتی ہیں۔
تفصیل کے لئے دیکھئے: [التحقيقات المرضية فى المباحث الفرضية، ص: 112] اور [منهاج المسلم للشيخ الجزائري، ص: 674] ۔

حدیث نمبر: 3016
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ، حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَاق الشَّيْبَانِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ، قَالَ: أُصِيبَ سَالِمٌ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ يَوْمَ الْيَمَامَة، فَبَلَغَ مِيرَاثُهُ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ، فَقَالَ عُمَرُ: "احْبِسُوهَا عَلَى أُمِّهِ حَتَّى تَأْتِيَ عَلَى آخِرِهَا".
عبداللہ بن شداد بن الہاد نے کہا: ابوحذیفہ کے آزاد کردہ غلام: سالم معرکہ یمامہ میں جاں بحق ہو گئے اور انہوں نے دو سو درہم میراث میں چھوڑے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ان (دراہم) کو ان کی ماں کے لئے روکے رکھو یہاں تک کہ وہ فوت ہو جائے۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده قوي وأبو شهاب هو: عبد ربه بن نافع وأبو إسحاق الشيباني هو: سليمان بن أبي سليمان، [مكتبه الشامله نمبر: 3026]»
اس اثر کی سند قوی ہے۔ ابوشہاب کا نام عبدربہ بن نافع ہے اور ابواسحاق کانام سلیمان بن ابی سلیمان الشیبانی ہے۔ دیکھئے: [عبدالرزاق 16237 وفيه: حتى تستكمه أو تموت]
وضاحت: (تشریح حدیث 3015)
مرنے والا اپنے پیچھے صرف ماں کو چھوڑے اور میت کے بیٹے، پوتے، بھائی، بہن کوئی نہ ہوں تو ماں کا مقررہ حصہ ثلث ہے۔
1    2    3    Next