نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
سنن دارمي
من كتاب الفرائض
وراثت کے مسائل کا بیان


حدیث نمبر: 3013
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ غَالِبِ بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ حَبْتَرٍ النَّهْشَلِيِّ، قَالَ: أُتِيَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَرْوَانَ فِي خَالَةٍ وَعَمَّةٍ، فَقَامَ شَيْخٌ، فَقَالَ: شَهِدْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ "أَعْطَى الْخَالَةَ الثُّلُثَ، وَالْعَمَّةَ الثُّلُثَيْنِ"، قَالَ: فَهَمَّ أَنْ يَكْتُبَ بِهِ، ثُمَّ قَالَ: أَيْنَ زَيْدٌ عَنْ هَذَا.
قیس بن حبتر نہشلی نے کہا: عبدالملک بن مروان کے پاس خالہ اور پھوپھی کا مسئلہ لایا گیا تو ایک شیخ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا: میں سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر تھا، انہوں نے خالہ کو ثلث دیا اور پھوپھی کو دو ثلث (دو تہائی) دیا۔ اور انہوں نے اس کو لکھ دینے کا ارادہ کیا پھر کہا: ز ید اس سے کہاں جائیں گے؟
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف جدا، [مكتبه الشامله نمبر: 3023]»
اس اثر کی سند بہت ضعیف ہے۔ غالب بن زیاد غیر معروف اور شیخ نامعلوم ہیں۔ دیکھئے: [عبدالرزاق 19112]۔ واضح رہے کہ اکثر صحابہ وراثت کے ذوی الارحام کی طرف منتقل ہونے کے قائل تھے، لیکن سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ان کے مخالف تھے۔

حدیث نمبر: 3014
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: "الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الْأُمِّ، وَالْعَمَّةُ بِمَنْزِلَةِ الْأَبِ، وَبِنْتُ الْأَخِ بِمَنْزِلَةِ الْأَخِ، وَكُلُّ ذِي رَحِمٍ بِمَنْزِلَةِ رَحِمِهِ الَّتِي يُدْلِي بِهَا إِذَا لَمْ يَكُنْ وَارِثٌ ذُو قَرَابَةٍ".
مسروق رحمہ اللہ سے مروی ہے: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: خالہ ماں کے درجے میں ہے، اور پھوپھی باپ کے درجے میں، اور بھتیجی بھائی کے درجہ میں، اور ہر ذی رحم (قرابت دار) اس درجہ میں ہے جو میت سے قریب کا رشتہ دار ہو جب کہ اس کا قریبی وارث نہ ہو۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن سالم، [مكتبه الشامله نمبر: 3024]»
محمد بن سالم کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11165]، [عبدالرزاق 19115]، [ابن منصور 155]
وضاحت: (تشریح احادیث 3009 سے 3014)
ان تمام آثار سے ثابت ہوا کہ خالہ، پھوپھی، ماموں، چچا، بھائی اور بہن کی اولاد میت کے اصل وارث نہ ہونے کی صورت میں اس کے مال کے وارث ہوں گے، اور اس کے مال کو بیت المال میں جمع کرنے کے بعد ذوی الارحام میں ذوی الفروض کی طرح تقسیم کر دیا جائے گا۔
والله اعلم وعلمہ اتم۔
Previous    1    2    3