نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
سنن دارمي
من كتاب الفرائض
وراثت کے مسائل کا بیان

2. باب مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ:
2. حقیقی باپ کے بجائے کسی غیر کو باپ بنانا

حدیث نمبر: 2894
أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، وَعَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ شُعْبَةُ: هَذَا أَوَّلُ مَنْ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَهَذَا تَدَلَّى مِنْ حِصْنِ الطَّائِفِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم إِنَّهُمَا حَدَّثَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ، فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص اور سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے شعبہ نے کہا اور سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ وہ ہیں جنہوں نے اللہ کے راستے میں سب سے پہلے تیر چلایا، اور سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ وہ ہیں جو طائف کے قلعہ پر چڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اترے تھے، ان دونوں صحابیوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے باپ کے سوا کسی اور کے بیٹے ہونے کا دعوی کیا یہ جانتے ہوئے کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے تو جنت اس پر حرام ہے۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2902]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4326، 4327]، [مسلم 63]، [أبوداؤد 5113]، [ابن ماجه 2610]، [أبويعلی 700، 706]، [ابن رجب 415، 416]
وضاحت: (تشریح حدیث 2893)
فرائض کے ابواب میں یہ حدیث اور بعد والی احادیث ذکر کرنے سے غالباً امام دارمی رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ ترکہ اور میراث حاصل کرنے کے لئے کوئی شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کو اپنا باپ ہونے کا دعویٰ کرے تو یہ بہت بڑا بھیانک گناہ ہے، ایسے شخص پر جنّت حرام ہوگی، کیوں کہ ایک تو اس نے جھوٹ کا ارتکاب کیا، پھر اپنے حقیقی باپ کی باپتا سے انکار کیا اور غیر کا مال غصب کرنا چاہا، اس لئے جنّت اس پر حرام ہے۔
بخاری شریف کی دوسری روایت [بخاري 6768] میں ہے: اپنے باپ کا کوئی انکار نہ کرے، جس نے اپنے باپ سے منہ موڑا تو یہ کفر ہے، یعنی اس نے کفر کا ارتکاب کیا اور کافر کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
جیسا کہ اگلی روایت میں آ رہا ہے۔

حدیث نمبر: 2895
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، قَالَ: "كُفْرٌ بِاللَّهِ ادِّعَاءٌ إِلَى نَسَبٍ لَا يُعْرَفُ، وَكُفْرٌ بِاللَّهِ تَبَرُّؤٌ مِنْ نَسَبٍ وَإِنْ دَقَّ.
سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: غیر معروف نسب کا دعویٰ کرنا اللہ کے ساتھ کفر ہے، اسی طرح کسی نسب سے براءت ظاہر کرنا چاہے وہ ذرا سا ہی ہو اللہ کے ساتھ کفر ہے۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح على شرط البخاري، [مكتبه الشامله نمبر: 2903]»
اس اثر کی سندعلی شرط البخاری ہے، پہلے جملے کا شاہد بخاری میں موجود ہے، دوسرا جملہ بھی معنی کے لحاظ سے صحیح ہے۔ تخریج کے لئے دیکھئے: [ابن أبى شيبه 6160]، [طبراني فى الأوسط 8570]، [مجمع الزوائد 350، 352] و [الخطيب 144/3] و [ابن عدي فى الكامل 1710/7]
وضاحت: (تشریح حدیث 2894)
اپنے آپ کو کسی دوسرے خاندان یا قبیلے کی طرف منسوب کرنا، کسی قبیلے یا خاندان کا فرد ہونے کے باوجود اس سے انکار کرنا، دونوں صورتیں حرام ہیں، مثلاً کوئی بزاز، حجام یا حداد قبیلے کا فرد شرم کے مارے اپنے قبیلے سے انکار کرے یا اپنا نام کسی ایسے قبیلے کی طرف منسوب کرے جو اس کا خاندان و قبیلہ ہے ہی نہیں، جیسے قریشی، ہاشمی یا سید وغیرہ لگا کر لوگ اپنا انتساب ان معزز قبائل کی طرف کرتے ہیں تاکہ عزت و وقار ملے تو ایسا کرنا الله تعالیٰ کے ساتھ کفر ہے، جھوٹ اور افتراء ہے، اس سے بچنا چاہیے۔
1    2    3    Next