نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
سنن دارمي
من كتاب الفرائض
وراثت کے مسائل کا بیان


حدیث نمبر: 2892
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ، فَلْيَتَعَلَّمْ الْفَرَائِضَ، فَإِنْ لَقِيَهُ أَعْرَابِيٌّ، قَالَ: يَا مُهَاجِرُ، أَتَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ فَإِنْ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: تَفْرِضُ؟ فَإِنْ قَالَ: نَعَمْ، فَهُوَ زِيَادَةٌ وَخَيْر، وَإِنْ قَالَ: لَا، قَالَ: فَمَا فَضْلُكَ عَلَيَّ يَا مُهَاجِرُ؟!.
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: جس نے قرآن پڑھا وہ علم فرائض سیکھے کیونکہ اس کو اگر کوئی دیہاتی مل جائے اور کہے: اے مہاجر (بھائی)! کیا تم قرآن پڑھتے ہو؟ اگر اس نے کہا: ہاں پڑھتا ہوں تو وہ کہے گا: کیا تم میراث تقسیم کر سکتے ہو؟ اگر اس نے کہا کہ ہاں کر سکتا ہوں، تو یہ مزید علم اور بہتری ہے، اور اگر اس نے کہا: میں علم الفرائض نہیں جانتا تو وہ اعرابی کہے گا: پھر میرے اور آپ کے درمیان اے مہاجر بھائی کیا فرق ہے۔ (یعنی میں بھی علم فرائض سے نابلد اور آپ بھی اس سے نادان)۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات غير أنه منقطع أبو عبيدة بن عبد الله بن مسعود لم يصح له سماع من أبيه، [مكتبه الشامله نمبر: 2900]»
اس روایت کے رجال ثقات ہیں، لیکن ابوعبیدہ نے اپنے والد سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں کیا، لہٰذا یہ اثر منقطع ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 333/11، 11080]، [طبراني فى الكبير 161/9، 8742]، [الحاكم 333/4]، [البيهقي 209/6]، [مجمع الزوائد 7231]

حدیث نمبر: 2893
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، قَالَ: سَأَلْنَا مَسْرُوقًا: كَانَتْ عَائِشَةُ تُحْسِنُ الْفَرَائِضَ؟ قَالَ: "وَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ، لَقَدْ رَأَيْتُ الْأَكَابِرَ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ يَسْأَلُونَهَا عَنْ الْفَرَائِضِ".
مسلم نے کہا: ہم نے مسروق سے پوچھا: کیا ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرائض اچھی طرح جانتی تھیں؟ انہوں نے کہا: قسم اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اکابر صحابہ کو دیکھا کہ وہ بھی ان سے فرائض کے سلسلے میں سوال کیا کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2901]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المعرفة و التاريخ للفسوي 489/1]، [ابن أبى شيبه 234/11، 11084]
وضاحت: (تشریح احادیث 2889 سے 2893)
علمِ فرائض یا علم المواریث کے سلسلے میں یہ آثار امام دارمی رحمہ اللہ نے ذکر کئے ہیں جن میں اس علم کو سیکھنے اور حاصل کرنے کی رغبت دلائی گئی ہے۔
بعض دیگر روایات میں مرفوعاً بھی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ وغیرہ سے علم الفرائض سیکھنے اور حاصل کرنے کی ترغیب ہے، لیکن ساری روایات ضعیفہ ہیں، ترمذی و ابن ماجہ وغیرہ میں ہے: علمِ فرائض حاصل کرو یہ پہلا علم ہے جو بھلا دیا جائے گا، بعض احادیث میں اس کو نصف علم کہا گیا لیکن یہ بھی ضعیف ہے، تفصیل کے لئے دیکھئے: [إرواء الغليل 1664، 1665] ، اس کے باوجود اس علم کی ضرورت و اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، اور اس پر کامل طور پر عبور رکھنے والے علماء خال خال ہی ملتے ہیں۔
Previous    1    2    3    4    5