نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
سنن دارمي
من كتاب الطلاق
طلاق کے مسائل

15. باب في تَخْيِيرِ الأَمَةِ تَكُونُ تَحْتَ الْعَبْدِ فَتُعْتَقُ:
15. لونڈی جو غلام کے نکاح میں ہو آزاد ہونے کے بعد اس کو اختیار ہو گا

حدیث نمبر: 2326
أَخْبَرَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّهَا أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ بَرِيرَةَ، فَأَرَادَ مَوَالِيهَا أَنْ يَشْتَرِطُوا وَلَاءَهَا، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "اشْتَرِيهَا، فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ"، فَاشْتَرَتْهَا فَأَعْتَقَتْهَا، وَخَيَّرَهَا مِنْ زَوْجِهَا وَكَانَ حُرًّا وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِلَحْمٍ، فَقَالَ:"مِنْ أَيْنَ هَذَا؟"قِيلَ: تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، فَقَالَ:"هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ، وَلَنَا هَدِيَّةٌ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدنے کا ارادہ کیا تو اس کے مالکان نے سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کی میراث کی اپنے لئے شرط لگانی چاہی (یعنی ہم بیچ دیں گے لیکن اس کا ولاء ہمارے لئے ہوگا)، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بریرہ کو خرید لو اور ولاء تو اس کا ہے جو غلام یا لونڈی کو آزاد کرے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: لہٰذا میں نے بریرہ کو خریدا اور اسے آزاد کر دیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اختیار دیا شوہر کے پاس رہنے کا جو کہ آزاد تھے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کہاں سے آیا؟ عرض کیا گیا: بریرہ کے لئے صدقہ آیا تھا۔ فرمایا: وہ اس کے لئے صدقہ تھا اور ہمارے لئے اس کی طرف سے ہدیہ ہے۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2335]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2168، 5284]، [مسلم 1504]، [أبويعلی 4435]، [ابن حبان 4269]
وضاحت: (تشریح حدیث 2325)
امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: علماء کا اس پر اجماع ہے کہ جب لونڈی آزاد ہو جائے اور اس کا شوہر غلام ہو تو لونڈی کو اختیار ہوگا، چاہے نکاح فسخ کر ڈالے چاہے باقی رکھے، اور اگر اس کا خاوند آزاد ہو تو عورت کو اختیار نہ ہوگا، امام مالک، امام شافعی رحمہما اللہ و جمہور علماء کا یہی قول ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک چاہے شوہر آزاد ہو تب بھی لونڈی کو اختیار ہوگا، اور ان کی دلیل مذکورہ بالا روایت ہے کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر آزاد تھے، لیکن یہ جملہ قابلِ اعتبار نہیں کیونکہ اکثر رواۃ نے بیان کیا ہے کہ ان کے شوہر مغیث بھی غلام تھے۔
نیز بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ جب شعبہ یا نافع سے پوچھا گیا کہ مغیث آزاد تھے تو انہوں نے کہا: پتہ نہیں آ زاد تھے یا غلام، لہٰذا یہ کہنا کہ وہ غلام تھے شاذ ہے اور قابلِ احتجاج نہیں، اور اگر آزاد ہی ہوتے تو پھر اختیار دیئے جانے کا کیا فائدہ۔
اس حدیث میں عام قاعده مذکور ہے کہ لونڈی یا غلام کو آزاد کیا جائے تو اس کا ولاء (میراث) آزاد کرنے والے کی ملکیت ہوگی۔
نیز یہ کہ اگر کسی غریب مسکین کو صدقہ دیا جائے اور وہ مسکین اسی کو ہدیہ دے تو یہ صدقہ نہیں ہدیہ ہوگا۔
واللہ اعلم۔

حدیث نمبر: 2327
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ خَلِيلٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيَّ فَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ طَعَامًا لَيْسَ فِيهِ لَحْمٌ، فَقَالَ: "أَلَمْ أَرَ لَكُمْ قِدْرًا مَنْصُوبَةً؟"قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا لَحْمٌ تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، فَأَهْدَتْ لَنَا، قَالَ:"هُوَ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ، وَهُوَ لَنَا مِنْهَا هَدِيَّةٌ"، وَكَانَ لَهَا زَوْجٌ، فَلَمَّا عُتِقَتْ، خُيِّرَتْ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو میں نے کھانا پیش کیا جس میں گوشت نہیں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہاری گوشت کی ہانڈی چڑھی ہوئی نہیں دیکھ رہا ہوں؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ گوشت بریرہ کو صدقہ میں ملا ہے، اور بریرہ نے ہمیں ہدیہ کر دیا، اور آپ تو صدقہ کھاتے نہیں، فرمایا: وہ ان کے لئے صدقہ ہے اور ہمارے لئے بریرہ کی طرف سے ہدیہ ہے، اور ان کا (بریرہ کا) شوہر تھا جب وہ آزاد کر دی گئیں تو انہیں شوہر کے بارے میں اختیار دیا گیا۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح وهو طرف من الحديث السابق، [مكتبه الشامله نمبر: 2336]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5279]، [مسلم 1505]، [نسائي 3448، وغيرهم كما تقدم]
وضاحت: (تشریح حدیث 2326)
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر غلام تھے اور انہیں اختیار دیا گیا کہ مغیث کی زوجیت میں رہیں یا نہ رہیں، اور انہوں نے جدائی کو ترجیح دی جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔
1    2    Next