نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
سنن دارمي
من كتاب الرويا
کتاب خوابوں کے بیان میں

13. باب في الْقُمُصِ وَالْبِئْرِ وَاللَّبَنِ وَالْعَسَلِ وَالسَّمْنِ وَالْقَمَرِ وَغَيْرِ ذَلِكَ في النَّوْمِ:
13. قمیص، کنواں، دودھ، شہد، گھی، کھجور وغیرہ خواب میں دیکھنے کا بیان

حدیث نمبر: 2188
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ هُوَ ابْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ، رَأَيْتُ النَّاسَ يُعْرَضُونَ عَلَيَّ وَعَلَيْهِمْ قُمُصٌ، مِنْهَا مَا يَبْلُغُ الثُّدِيَّ، وَمِنْهَا مَا يَبْلُغُ دُونَ ذَلِكَ، وَعُرِضَ عَلَيَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعَلَيْهِ قَمِيصٌ يَجُرُّهُ"، فَقَالَ مَنْ حَوْلَهُ: فَمَاذَا تَأَوَّلْتَ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:"الدِّينَ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: میں ایک وقت سو رہا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ لوگ میرے سامنے پیش کئے جا رہے ہیں، اور وہ کرتے پہنے ہوئے ہیں، کسی کا کرتہ سینے تک ہے اور کسی کا اس سے نیچے تک پہنچا ہے، پھر میرے سامنے عمر بن الخطاب لائے گئے، ان کے بدن پر (جو) کرتا تھا (وہ اتنا لمبا کہ) وہ اسے گھسیٹ رہے تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! اس کی تعبیر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے مراد دین ہے۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2197]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن حدیث دوسری سند سے متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 23]، [مسلم 2390]، [ترمذي 2285]، [نسائي 5026]، [أبويعلی 1290]، [ابن حبان 6890]
وضاحت: (تشریح احادیث 2186 سے 2188)
اس حدیث سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہوئی، ان دیکھے جانے والوں میں ان کا ایمان سب سے قوی اور پختہ و زیادہ تھا، اور یہ حقیقت ہے کہ ان کے زمانے میں جو ترقی اور شان و شوکت و عروج اسلام کو حاصل ہوا وہ ظاہر و معروف ہے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ لوگ دین و ایمان کے اعتبار سے مختلف کم و بیش درجات و مراتب میں ہیں اور ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اس حدیث میں ایک گہری بلیغ تشبیہ ہے جو دین کو قمیص کے ساتھ دی گئی ہے، قمیص انسان کے جسم کو چھپانے والی ہے، اسی طرح دین اسے (گناہ اور) دوزخ سے چھپا لے گا، اس میں ایمان کی کمی بیشی پر بھی دلیل ہے جیسا کہ قمیص کے ساتھ دین کی تعبیر کا مفہوم ہے، جس طرح قمیص پہننے والے اس کے پہننے میں کم و بیش ہیں اسی طرح دین میں بھی لوگ کم و بیش درجات رکھتے ہیں، اس سے ایمان کی کمی و بیشی ثابت ہوئی۔
صحابہ کرام میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے افضل ہیں اس پر اجماع ہے۔
اس حدیث سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان سے بھی افضل ہیں کیونکہ خواب میں دیکھے جانے والے حضرات میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں ہے۔
(راز رحمہ اللہ)۔

حدیث نمبر: 2189
أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ هُوَ ابْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ: أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، قَالَ: كُنْتُ فِي عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا لِي مَبِيتٌ إِلَّا فِي مَسْجِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَصْبَحَ يَأْتُونَهُ فَيَقُصُّونَ عَلَيْهِ الرُّؤْيَا، قَالَ: فَقُلْتُ: مَا لِي لَا أَرَى شَيْئًا؟ فَرَأَيْتُ كَأَنَّ النَّاسَ يُحْشَرُونَ فَيُرْمَى بِهِمْ عَلَى أَرْجُلِهِمْ فِي رَكِيٍّ فَأُخِذْتُ، فَلَمَّا دَنَى إِلَى الْبِئْرِ، قَالَ رَجُلٌ: خُذُوا بِهِ ذَاتَ الْيَمِينِ، فَلَمَّا اسْتَيْقَظْتُ، هَمَّتْنِي رُؤْيَايَ وَأَشْفَقْتُ مِنْهَا، فَسَأَلْتُ حَفْصَةَ عَنْهَا، فَقَالَتْ: نِعْمَ مَا رَأَيْتَ. فَقُلْتُ لَهَا: سَلِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَتْهُ، فَقَالَ: "نِعْمَ الرَّجُلُ عَبْدُ اللَّهِ، لَوْ كَانَ يُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں مسجد نبوی میں سوتا تھا کیوں کہ اس وقت میرے پاس رات گزارنے کی جگہ نہ تھی، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صبح کو لوگ آتے اور اپنے اپنے خواب آپ سے بیان کرتے، میں نے اپنے دل میں سوچا کیا بات ہے مجھے کچھ خواب میں دکھائی نہیں دیتا؟ چنانچہ میں نے خواب دیکھا کہ لوگوں کو جمع کیا جارہا ہے اور ان کے پیر پکڑ کر کنویں میں ڈالا جارہا ہے، جب میں اس کنویں کے قریب پکڑ کر لایا گیا تو ایک فرشتے نے کہا: ان کو دائیں طرف لے جاؤ (یعنی جہنم کے اس گڈھے سے دور لے جاؤ)، پس جب میں نیند سے بیدار ہوا تو مجھے یہ خواب اہم لگا اور میں اس سے بہت پریشان ہوا اور (اپنی بہن ام المومنین) سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے اس کو ذکر کیا تو انہوں نے کہا: تم نے بڑا اچھا خواب دیکھا ہے۔ میں نے عرض کیا: آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی تعبیر پوچھیں، چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عبداللہ بہت خوب اچھا لڑکا ہے، کاش رات میں نماز پڑھتا۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2198]»
اس روایت کی سند حسن لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1122]، [مسلم 2479]، [ابن ماجه 3919]، [ابن حبان 7070]، [مصنف عبدالرزاق 1645]، [البيهقي 501/1]
وضاحت: (تشریح حدیث 2188)
صحیح بخاری میں یہ خواب دوسرے سیاق سے مروی ہے۔
اس حدیث سے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
بخاری شریف میں ہے کہ اس خواب کے بعد سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بہت کم سوتے تھے اور زیادہ تر وقت تہجد میں گزارتے تھے، قولِ پیغمبر پر عمل پیرا رہنے کی یہ اعلیٰ مثال ہے۔
اس حدیث سے قیام اللیل کی فضیلت بھی معلوم ہوئی جو باعثِ نجات اور انسان کو سعادتِ دارین و کامرانی سے ہمکنار کرتی ہے۔
«(أسأل اللّٰه التوفيق لذٰلك)» ۔
اس حدیث سے بوقتِ ضرورت جوانوں کا مسجد میں سونا بھی ثابت ہوا۔
1    2    3    4    5    Next