نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
سنن دارمي
من كتاب الاطعمة
کھانا کھانے کے آداب

28. باب في الْوَلِيمَةِ:
28. ولیمہ کا بیان

حدیث نمبر: 2101
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَرَأَى عَلَيْهِ وَضَرًا مِنْ صُفْرَةٍ:"مَهْيَمْ؟"قَالَ: تَزَوَّجْتُ، قَالَ: "أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ پر زردی کا نشان دیکھا تو فرمایا: یہ زردی کیسی ہے؟ عرض کیا: میں نے شادی کر لی ہے۔ فرمایا: (پھر) ولیمہ کرو چاہے ایک بکری کا ہی ہو۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2108]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2049]، [مسلم 1427]، [أبوداؤد 2109]، [ترمذي 1094]، [نسائي 3372]، [ابن ماجه 1907]، [أبويعلی 3205]، [ابن حبان 4060، 4096، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 2100)
ولیمہ اس کھانے کو کہتے ہیں جو شبِ زفاف کے بعد خاوند کی طرف سے ہوتا ہے۔
بعض علماء نے اس کو واجب کہا ہے کیونکہ مذکورہ بالا حدیث میں بصیغۂ امر آیا ہے اور امر وجوب پر دلالت کرتا ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ولیمہ میں کم از کم ایک بکرے یا بکری کا ذبیحہ ہونا چاہیے، اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو ستّو اور مٹھائی وغیرہ کا بھی ولیمہ ہو سکتا ہے۔
اسی حدیث میں زعفرانی رنگ کا ذکر ہے لیکن مرد کو زعفران لگانا منع ہے، اس کی توجیہ یہ ہو سکتی ہے کہ دلہن کے پاس رہنے سے عورت کا زرد رنگ یا مخلوط خوشبو کا زردئی رنگ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بدن یا کپڑے پر لگ گیا ہو۔

حدیث نمبر: 2102
أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ الثَّقَفِيِّ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ ثَقِيفَ أَعْوَرَ، قَالَ: كَانَ يُقَالُ لَهُ مَعْرُوفٌ: أَيْ يُثْنَى عَلَيْهِ خَيْرٌ إِنْ لَمْ يَكُنْ اسْمُهُ زُهَيْرَ بْنَ عُثْمَانَ، فَلَا أَدْرِي مَا اسْمُهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الْوَلِيمَةُ أَوَّلَ يَوْمٍ حَقٌّ، وَالثَّانِيَ مَعْرُوفٌ، وَالثَّالِثَ سُمْعَةٌ وَرِيَاءٌ". قَالَ قَتَادَةُ: وَحَدَّثَنِي رَجُلٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ دُعِيَ أَوَّلَ يَوْمٍ فَأَجَابَ، وَدُعِيَ الْيَوْمَ الثَّانِيَ فَأَجَابَ، وَدُعِيَ الْيَوْمَ الثَّالِثَ فَحَصَبَ الرَّسُولَ وَلَمْ يُجِبْهُ، وَقَالَ:"أَهْلُ سُمْعَةٍ وَرِيَاءٍ".
عبداللہ بن عثمان ثقفی سے روایت ہے۔ ثقیف کے ایک نابینا شخص نے کہا جس کو لوگ اس کی بھلائی کی وجہ سے معروف کہتے تھے، اس کا نام زہیر بن عثمان تھا، اگر یہ نام نہ ہو تو مجھ کو معلوم نہیں، پھر اس کا کیا نام تھا۔ اس نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولیمہ کا کھانا پہلے دن ضروری، دوسرے دن کا بہتر (یعنی اس میں بلایا جائے اور دعوت قبول کی جائے)، اور تیسرے دن کا ولیمہ ریا و نمود (دکھلاوا) ہے۔ قتادہ نے کہا: مجھے ایک شخص نے بیان کیا کہ سعيد بن المسيب کو پہلے دن دعوت دی گئی تو انہوں نے منظور کر لی، دوسرے دن کی بھی دعوت منظور کر لی، لیکن تیسرے دن کی دعوت منظور نہ کی اور کہا کہ یہ لوگ نام و نمود والے ہیں۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «في اسناده عبد الله بن عثمان الثقفي ترجمه البخاري في الكبير 146/ 5، وابن أبي حاتم في ((الجرح والتعديل)) 11/ 5 ولم يذكرا فيه جرحا ولا تعديلا. فهو على شرط ابن حبان وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 2109]»
اس روایت کی سند میں کلام ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3745]، [أحمد 48/5]، [عبدالرزاق 19660]، [ابن ابي شيبه 17763]، [طبراني 314/5]، [طحاوي فى مشكل الآثار 46/4، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 2101)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ولیمہ میں جلدی کرنی چاہیے اور بہت زیادہ تکلف و تأخیر نہیں کرنی چاہیے۔
ولیمہ سے متعلق دیگر معلومات آگے نکاح کے مسائل میں (2241) پر آ رہی ہیں۔
واللہ اعلم۔
1    2    3    Next