نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
سنن دارمي
من كتاب الاضاحي
قربانی کے بیان میں


حدیث نمبر: 1990
أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ حُجَيَّةَ بْنَ عَدِيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا وَسَأَلَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، الْبَقَرَةُ? قَالَ: عَنْ سَبْعَةٍ، قُلْتُ: الْقَرْنُ؟ قَالَ: لَا يَضُرُّكَ. قَالَ: قُلْتُ: الْعَرَجُ؟ قَالَ: إِذَا بَلَغَتْ الْمَنْسَكَ. ثُمَّ قَالَ:"أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالْأُذُنَ".
حجیہ بن عدی نے کہا: میں نے سنا ایک شخص نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا: اے امیر المومنین! گائے کتنے افراد کی طرف سے؟ فرمایا: سات افراد کی طرف سے، میں نے عرض کیا: سینگ کے بارے میں کیا حکم ہے؟ فرمایا: کوئی برائی نہیں، عرض کیا: اور لنگڑا پن؟ فرمایا: قربان گاہ تک پہنچ جائے تو کوئی حرج نہیں، (یعنی جو چل سکتا ہو اس میں کوئی حرج نہیں)، پھر فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کوحکم دیا تھا کہ آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1994]»
اس روایت کی سند حسن ہے لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1498]، [نسائي 4388، الطرف الأخير فقط]، [أبويعلی 333]، [ابن حبان 5920]
وضاحت: (تشریح حدیث 1989)
اس حدیث کا آخری جملہ نسائی اور ترمذی میں مذکور ہے طرفِ اوّل مذکور نہیں، اس روایت کا مفہوم یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک کان اور آنکھ کی خرابی ہی قربانی کے موانع میں سے ہے اور سینگ کا ٹوٹا ہونا یا لنگڑے پن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چیک کرنے کا حکم نہیں دیا، (واللہ اعلم)۔
لیکن سینگ اور لنگڑا پن بھی نقص ہے جو قربانی کے جانور میں نہیں ہونا چاہئے، جیسا کہ اگلی حدیث میں صراحتاً مذکور ہے۔
ہاں قدرتی طور پر سینگ نہ ہوں تو کوئی حرج نہیں۔

حدیث نمبر: 1991
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ النُّعْمَانِ الصَّائِدِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:"أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالْأُذُنَ، وَأَنْ لَا نُضَحِّيَ بِمُقَابَلَةٍ وَلَا مُدَابَرَةٍ وَلَا خَرْقَاءَ، وَلَا شَرْقَاءَ، فَالْمُقَابَلَةُ: مَا قُطِعَ طَرَفُ أُذُنِهَا، وَالْمُدَابَرَةُ: مَا قُطِعَ مِنْ جَانِبِ الْأُذُنِ، وَالْخَرْقَاءُ: الْمَثْقُوبَةُ، وَالشَّرْقَاءُ: الْمَشْقُوقَةُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم (قربانی) کے کان اور آنکھ کو خوب دیکھ لیں (یعنی ان میں کوئی نقص نہ ہو) اور مقابلہ، مدابرة، خرقاء اور شرقاء کی قربانی نہ کریں۔ مقابلہ وہ جانور جس کا کان کاٹ دیا گیا ہو، مدابرہ وہ ہے کہ کان کی جانب سے کچھ کٹا ہوا ہو، اور خرقاء وہ ہے جس کا کان چھدا ہوا ہو، اور شرقاء جس کا کان چرا ہوا ہو۔ (یہ سب کان کے نقص ہیں، ان کے ہوتے ہوئے قربانی درست نہیں)۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات فقد قيل: إن أبا إسحاق لم يسمع شريح بن النعمان، [مكتبه الشامله نمبر: 1995]»
اس روایت کے تمام راوی ثقات ہیں۔ حوالہ دیکھئے: [أبوداؤد 2804]، [ترمذي 1498]، [نسائي 4384]، [ابن ماجه 3142]
وضاحت: (تشریح حدیث 1990)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ لنگڑی، کن کٹی اور ٹوٹے سینگ والی، مریل، بوڑھی کی قربانی درست نہیں، مذکورہ علل و خرابیاں قربانی کے جانور کو عیب دار بنا دیتی ہیں، اس لئے قربانی ایسے جانور کی کرنی چاہئے جس میں مذکور بالا عیوب نہ ہوں۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ گائے کی قربانی میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں۔
Previous    1    2