نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
سنن دارمي
من كتاب الطهارة
وضو اور طہارت کے مسائل


حدیث نمبر: 1176
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ عِيسَى بْنِ حِطَّانَ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ سَلَّامٍ الْحَنَفِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ طَلْقٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا أَحْدَثَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ، فَلْيَنْصَرِفْ، وَلْيَتَوَضَّأْ، ثُمَّ يُصَلِّي"، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"لَا تَأْتُوا النِّسَاءَ فِي أَدْبَارِهِنَّ، فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي مِنْ الْحَقِّ"، سُئِلَ عَبْد اللَّهِ: عَلِيُّ بْنُ طَلْقٍ لَهُ صُحْبَةٌ؟، قَالَ: نَعَمْ.
سیدنا علی بن مطلق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کسی کا نماز میں وضو ٹوٹ جائے تو وہ نماز توڑ دے، وضو کرے پھر نماز پڑھے۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورتوں کی دبر میں جماع نہ کرو، اللہ تعالیٰ حق بات بیان کرنے سے نہیں شرماتا ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: علی بن طلق صحابی تھے؟ فرمایا: ہاں۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1181]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [صحيح ابن حبان 2237، 4199]، [موارد الظمآن 203]، [مصنف ابن أبى شيبه 251/4]، [بيهقي 198/7] و [السنن الكبریٰ 9023، 9024]

حدیث نمبر: 1177
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي الْحَارِثُ بْنُ يَعْقُوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ أَبِي الْحُبَابِ، قَالَ: قُلْت لِابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: "مَا تَقُولُ فِي الْجَوَارِي حِينَ أُحَمِّضُ لَهُنَّ؟، قَالَ: وَمَا التَّحْمِيضُ؟ فَذَكَرْتُ الدُّبُرَ، فَقَالَ: هَلْ يَفْعَلُ ذَاكَ أَحَدٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ؟".
ابوالحباب سعید بن یسار نے کہا: میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے عرض کیا: اگر میں لونڈیوں سے تحمیض کروں تو آپ کی کیا رائے ہے؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: یہ تحمیض کیا ہے؟ میں نے کہا: دبر، تو انہوں نے فرمایا: کیا مسلمانوں میں سے کوئی ایسا (گندا کام) کر سکتا ہے۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف عبد الله بن صالح كاتب الليث سيئ الحفظ جدا، [مكتبه الشامله نمبر: 1182]»
اس روایت کی سند عبدالله بن صالح كاتب اللیث کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [شرح معاني الآثار 41/1]، [السنن الكبرىٰ للنسائي 8979] و [ابن كثير 389/1]، لیکن معنی صحیح ہے، کوئی مسلمان ایسا گھناؤنا کام کرے تصور نہیں کیا جاسکتا، یہ بہت بڑا گناہ ہے، سلف صالحین سے اس پر شدید انکار ثابت ہے، بلکہ جمہور علماء نے ایسا کرنے والے کو کافر گردانا ہے، جیسا کہ (1171) میں گذر چکا ہے۔
Previous    1    2    3    4    5    6    Next