نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
الادب المفرد
كِتَابُ
كتاب

622. بَابُ الظَّنِّ
622. گمان کا بیان

حدیث نمبر: 1287
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ‏: ”إِيَّاكُمْ وَ الظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ، وَلاَ تَجَسَّسُوا، وَلاَ تَنَافَسُوا، وَلاَ تَدَابَرُوا، وَلاَ تَحَاسَدُوا، وَلاَ تَبَاغَضُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا‏.‏“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدگمانی سے بچو، کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے، ایک دوسرے کی جاسوسی نہ کرو، اور نہ دنیا میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرو۔ ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو، اور نہ ایک دوسرے سے حسد کرو، اور نہ بغض ہی رکھو، اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب: 6066 و مسلم: 2563 و أبوداؤد: 4917»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 1287 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1287  
فوائد ومسائل:
حدیث میں ظن سے مراد برا گمان ہے کیونکہ اچھا گمان مطلوب ہے۔ بدگمانی یہ ہے کہ کسی شخص کو کسی جگہ دیکھ کر کہنا کہ یہ فلاں برائی کے لیے ادھر گیا ہوگا۔ یہ شیطانی وسوسہ ہے۔ مسلمان کو ایک دوسرے کے بارے میں حسن ظن رکھنا چاہیے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1287   


حدیث نمبر: 1288
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ‏:‏ بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ امْرَأَةٍ مِنْ نِسَائِهِ، إِذْ مَرَّ بِهِ رَجُلٌ، فَدَعَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ‏:‏ ”يَا فُلاَنُ، إِنَّ هَذِهِ زَوْجَتِي فُلاَنَةٌ“، قَالَ‏:‏ مَنْ كُنْتُ أَظُنُّ بِهِ فَلَمْ أَكُنْ أَظُنُّ بِكَ، قَالَ‏:‏ ”إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنِ ابْنِ آدَمَ مَجْرَى الدَّمِ‏.“‏
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی بیوی کے ساتھ تھے کہ وہاں سے ایک آدمی گزرا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلا کر فرمایا: اے فلاں! یہ میری فلاں بیوی ہے۔ اس نے کہا: میں جس کے ساتھ بھی بدگمانی کرنے والا ہوں، آپ کے ساتھ تو بدگمانی نہیں کر سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلاشبہ شیطان ابن آدم کی رگوں میں خون کی طرح گردش کرتا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب السلام: 2174 و أبو داؤد: 4719»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 1288 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1288  
فوائد ومسائل:
(۱)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں اعتکاف کر رہے تھے کہ آپ کی بیوی سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا آپ سے ملاقات کے لیے مسجد آئیں تو آپ انہیں گھر تک چھوڑنے کے لیے ساتھ باہر آئے تو دو انصاری گزر رہے تھے جنہیں روک کر آپ نے وضاحت فرمائی۔
(۲) اس سے معلوم ہوا کہ تہمت والی جگہوں سے بچنا چاہیے۔ اگر کسی جگہ بدگمانی کا خدشہ ہو تو اپنی پوزیشن واضح کر دینی چاہیے۔
(۳) اعتکاف کرنے والا کسی ضرورت کے لیے باہر جاسکتا ہے اور ضروری بات کرنا بھی اس کے لیے جائز ہے۔
(۴) شیاطین اور جن انسانی جسم میں حلول کرسکتے ہیں اور اپنی ہیئت بھی بدل سکتے ہیں۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1288   

1    2    Next