نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
الادب المفرد
كِتَابُ
كتاب

436. بَابُ
436. بلا عنوان

حدیث نمبر: 962
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللهِ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي الدَّرَاوَرْدِيُّ، عَنْ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ فِي السُّوقِ دَاخِلاً مِنْ بَعْضِ الْعَالِيَةِ وَالنَّاسُ كَنَفَيْهِ، فَمَرَّ بِجَدْيٍ أَسَكَّ، فَتَنَاوَلَهُ فَأَخَذَ بِأُذُنِهِ ثُمَّ قَالَ‏: ”أَيُّكُمْ يُحِبُّ أَنَّ هَذَا لَهُ بِدِرْهَمٍ‏؟“‏ فَقَالُوا‏:‏ مَا نُحِبُّ أَنَّهُ لَنَا بِشَيْءٍ، وَمَا نَصْنَعُ بِهِ‏؟‏ قَالَ‏: ”أَتُحِبُّونَ أَنَّهُ لَكُمْ‏؟“‏ قَالُوا‏: لَا، قَالَ ذَلِكَ لَهُمْ ثَلاَثًا، فَقَالُوا‏: لَا وَاللَّهِ، لَوْ كَانَ حَيًّا لَكَانَ عَيْبًا فِيهِ أَنَّهُ أَسَكُّ - وَالأَسَكُّ‏:‏ الَّذِي لَيْسَ لَهُ أُذُنَانِ - فَكَيْفَ وَهُوَ مَيِّتٌ‏؟‏ قَالَ‏: ”فَوَاللَّهِ، لَلدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللهِ مَنْ هَذَا عَلَيْكُمْ‏.“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اونچے محلے کے راستے سے بازار سے گزر رہے تھے، اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں جانب تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک کان کٹے بکری کے بچے پر ہوا جو مرا پڑا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کان پکڑ کر فرمایا: تم میں سے کون اسے ایک درہم میں خریدنا پسند کرے گا؟ لوگوں نے کہا: ہم اسے کسی چیز کے بدلے میں اپنے لیے پسند نہیں کرتے، اور اس کا کریں بھی کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اسے مفت میں لینا پسند کرتے ہو؟ لوگوں نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ انہیں فرمایا تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم نہیں۔ اگر یہ زندہ ہوتا تو بھی یہ عیب دار تھا کہ اس کے کان کٹے ہوئے ہیں، اور اب اسے کون لے گا جبکہ یہ مردہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اللہ کی قسم! یقیناً دنیا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ بے قدر ہے جتنا یہ تمہارے نزدیک بے قیمت ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح مسلم، الزهد و الرقائق، ح: 2957»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 962 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 962  
فوائد ومسائل:
لوگوں کا ساتھ چلنا یا کسی وجہ سے ایک شخص کا بیٹھ جانا اور گفتگو کرنا اور لوگوں کا اتفاقاً کھڑے رہنا اس وعید میں نہیں آتا جس کا ذکر گزشتہ اوراق میں ہوا ہے۔ نیز اس حدیث میں دنیا کی بے ثباتی کا ذکر بڑے خوبصورت انداز میں کیا گیا ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 962   


حدیث نمبر: 963
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ الْمُؤَذِّنُ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عُتَيِّ بْنِ ضَمْرَةَ قَالَ‏:‏ رَأَيْتُ عِنْدَ أُبَيٍّ رَجُلاً تَعَزَّى بِعَزَاءِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَأَعَضَّهُ أُبَيٌّ وَلَمْ يُكْنِهِ، فَنَظَرَ إِلَيْهِ أَصْحَابُهُ، قَالَ‏:‏ كَأَنَّكُمْ أَنْكَرْتُمُوهُ‏؟‏ فَقَالَ‏:‏ إِنِّي لاَ أَهَابُ فِي هَذَا أَحَدًا أَبَدًا، إِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ‏:‏ ”مَنْ تَعَزَّى بِعَزَاءِ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَعِضُّوهُ وَلا تَكْنُوهُ‏.‏“ ¤ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ قَالَ: حَدَّثَنَا مُبَاَرَكُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنِ الْحَسَنَ، عَنْ عُتَيٍّ، مِثْلَهُ.
عتيّ بن ضمرہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا ابی بن كعب رضی اللہ عنہ کے ہاں ایک آدمی کو دیکھا جو اپنے آپ کو جاہلیت کی طرف منسوب کر رہا تھا۔ سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے اسے اپنا آلۂ تناسل کاٹ کھانے کو کہا اور کنایہ نہ کیا بلکہ واضح طور پر کہا۔ ان کے ساتھیوں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔ انہوں نے فرمایا: تم میری بات کو نا مناسب سمجھ رہے ہو؟ پھر فرمایا: میں اس معاملے میں کسی سے بھی نہیں ڈروں گا۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جو شخص جاہلیت کی طرف اپنی نسبت کرے تو اسے آلۂ تناسل کاٹ کھانے کو کہو، اور کنایہ نہ کرو بلکہ واضح طور پر کہو۔
ابن مبارک رحمہ اللہ کے واسطے سے بھی یہ روایت اسی طرح مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: مسند أحمد: 136/5»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 963 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 963  
فوائد ومسائل:
نسب کی بنیاد پر فخر کرنا جاہلانہ بات ہے۔ اسلام نے اس سے روکا ہے کیونکہ سب انسان آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور سب ایک ذریعے سے اس دنیا میں آئے ہیں۔ اب جو شخص کافر، مشرک اور جاہل آباء و اجداد پر فخر کرتا ہے تو اس کا ذریعہ وجود تو آلہ تناسل ہے تو اسے کہنا چاہیے کہ اپنے باپ کا آلہ تناسل کاٹ کھاؤ تاکہ رشتہ اچھی طرح ظاہر ہو جائے۔ برادری ازم کو ہوا دنیا اور اس کی وجہ سے تعصب پیدا کرنا جاہلانہ عادت ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 963