نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
الادب المفرد
كِتَابُ
كتاب

433. بَابُ ضَرْبِ الرَّجُلِ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ عِنْدَ التَّعَجُّبِ أَوِ الشَّيْءِ
433. تعجب کے وقت اپنی ران یا کسی چیز پر ہاتھ مارنا

حدیث نمبر: 955
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ حَدَّثَهُ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ بِنْتَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ‏:‏ ”أَلاَ تُصَلُّونَ‏؟“‏ فَقُلْتُ‏:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّمَا أَنْفُسُنَا عِنْدَ اللهِ، فَإِذَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَنَا بَعَثَنَا، فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيَّ شَيْئًا، ثُمَّ سَمِعْتُ وَهُوَ مُدْبِرٌ يَضْرِبُ فَخِذَهُ يَقُولُ‏: ”﴿‏وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلاً‏﴾“ [الکھف: 54].
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت میرے اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم (تہجد کی) نماز نہیں پڑھتے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہماری جانیں تو صرف اللہ کے قبضے میں ہیں، جب وہ چاہتا ہے ہمیں اٹھا دیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے اور مجھے کچھ نہ کہا۔ پھر میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس جاتے ہوئے ہاتھ ران پر مارتے ہوئے (یہ آیت تلاوت) فرما رہے تھے: اور آدمی سب سے بڑھ کر جھگڑالو ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح البخاري، الجمعة، ح: 1127»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 955 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 955  
فوائد ومسائل:
(۱)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تعجب کے وقت ہاتھ اپنی ران پر یا کسی اور چیز پر مارنا جائز ہے لیکن اس سے ماتم کا استدلال صراصر باطل ہے کیونکہ نص صریح سے اس کا حرام اور ناجائز ہونا ثابت ہے۔
(۲) تہجد نہایت فضیلت والی نماز ہے۔ اہل و عیال اور اولاد کو اس کی ترغیب دلانی چاہیے، نیز شادی شدہ اولاد کی بھی خبر گیری کرنی چاہیے کہ دینی حوالے سے ان کی کیا صورت حال ہے۔
(۳) سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے تہجد پڑھنے کا انکار نہیں کیا بلکہ احسن انداز میں اپنا عذر پیش کر دیا۔ آپ کو ان کی حاضر دماغی اور فوراً معقول جواب پر تعجب ہوا کہ انسان کس طرح اپنے لیے قرآن و سنت سے استدلال کرلیتا ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 955   


حدیث نمبر: 956
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي رَزِينٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ‏:‏ رَأَيْتُهُ يَضْرِبُ جَبْهَتَهُ بِيَدِهِ وَيَقُولُ‏:‏ يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ، أَتَزْعُمُونَ أَنِّي أَكْذِبُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيَكُونُ لَكُمُ الْمَهْنَأُ وَعَلَيَّ الْمَأْثَمُ‏؟‏ أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ‏:‏ ”إِذَا انْقَطَعَ شِسْعُ نَعْلِ أَحَدِكُمْ، فَلاَ يَمْشِي فِي نَعْلِهِ الأُخْرَى حَتَّى يُصْلِحَهُ‏.“
ابورزین رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا ابوہریره رضی اللہ عنہ کو اپنی پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوئے دیکھا، اور وہ فرما رہے تھے۔ اے اہلِ عراق! کیا تم سمجھتے ہو کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتا ہوں؟ کیا تمہارے لیے لذت اور راحت ہو اور مجھ پر گناہ ہو؟ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جب تم میں سے کسی (کے جوتے) کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ دوسرے (ایک) جوتے میں نہ چلے یہاں تک کہ اس کو درست کر لے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح مسلم، اللباس و الزينة، ح: 2098»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 956 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 956  
فوائد ومسائل:
(۱)سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اہل عراق پر تعجب کیا کہ تم کیسے لوگ ہو جو یہ سوچ رکھتے ہو کہ میں ویسے ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف باتیں منسوب کرتا ہوں۔ مجھے کیا پڑی ہے کہ تمہارے فائدے کے لیے اپنی آخرت برباد کرلوں۔
(۲) تسمے والا یا دوسرا ایک جوتا ٹوٹ جائے تو درست کرنے تک دوسرا بھی اتار لینا چاہیے۔ ایک جوتے میں چلنا ناجائز ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 956