نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
الادب المفرد
كِتَابُ
كتاب

431. بَابُ هَلْ يَفْلِي أَحَدٌ رَأْسَ غَيْرِهِ؟
431. کیا کوئی دوسرے کے سر کی جوئیں نکال سکتا ہے

حدیث نمبر: 952
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ‏:‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُ عَلَى أُمِّ حَرَامِ ابْنَةِ مِلْحَانَ، فَتُطْعِمُهُ، وَكَانَتْ تَحْتَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، فَأَطْعَمَتْهُ وَجَعَلَتْ تَفْلِي رَأْسَهُ، فَنَامَ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ يَضْحَكُ‏.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا جو سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں، کے ہاں تشریف لے جاتے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا کھلاتیں۔ ایک دفعہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا کھلایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر سے جوئیں نکالنے لگیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے، پھر اٹھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح البخاري، الجهاد و السير، ح: 2789 و مسلم كتاب الإمارة: 1912، 160»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 952 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 952  
فوائد ومسائل:
(۱)ام حرام سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی خالہ تھیں۔ یہ وہی صحابیہ ہیں جنہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے پہلے لشکر میں شرکت کی دعا کروائی اور پھر اسی غزوے میں شہید ہوگئیں۔ یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی خالہ تھیں کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا کے ننھیال مدینہ طیبہ ہی سے تعلق رکھتے تھے۔
(۲) اس سے معلوم ہوا عورت اپنے کسی محرم مرد کی جوئیں وغیرہ نکال سکتی ہے، یہ بالکل وہی صورت ہے جو ہمارے ہاں رائج ہے کہ خالہ یا پھوپھی کے پاس اگر بچہ بیٹھ جائے تو وہ اس کا سر دیکھنا شروع کر دیتی ہیں۔ ضروری نہیں ہوتا کہ جوئیں ہوں۔ اسی طرح اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ کے سر میں جوئیں ہوتی تھیں اور اگر مان لیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر میں جوئیں تھیں تو آپ کے حالات کے لحاظ سے ایسا بھی ممکن ہے۔ عام طور پر آپ کے بال کانوں کے نیچے تک ہوتے تھے۔ آج کل کی مروج کٹنگ آپ کی عادت نہ تھی، عرب کے ہاں پانی کی قلت کا مسئلہ مستقل تھا۔ تو مسلسل صابن یا شیمپوں کے ساتھ بالوں کو دھو کر رکھنا ممکن نہ تھا۔ پھر آپ عام طور پر جہادی سفروں پر رہتے تھے ایسے حالات میں اگر کبھی جوئیں پڑ گئی ہوں تو اس اک امکان موجود ہے۔ واللہ اعلم!
(۳) بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خالہ نہیں تھیں تاہم یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصا تھا کہ غیر محرم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کی جوئیں دیکھیں۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 952   


حدیث نمبر: 953
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللهِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ سَلَمَةَ أَبُو هِشَامٍ الْمَخْزُومِيُّ - وَكَانَ ثِقَةً - قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا الصَّعْقُ بْنُ حَزْنٍ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ مُطَيَّبٍ، عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عَاصِمٍ السَّعْدِيِّ قَالَ‏:‏ أَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ‏: ”هَذَا سَيِّدُ أَهْلِ الْوَبَرِ“، فَقُلْتُ‏:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، مَا الْمَالُ الَّذِي لَيْسَ عَلَيَّ فِيهِ تَبِعَةٌ مِنْ طَالِبٍ، وَلاَ مِنْ ضَيْفٍ‏؟‏ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‏: ”نِعْمَ الْمَالُ أَرْبَعُونَ، وَالأَكْثَرُ سِتُّونَ، وَوَيْلٌ لأَصْحَابِ الْمِئِينَ إِلاَّ مَنْ أَعْطَى الْكَرِيمَةَ، وَمَنَحَالْغَزِيرَةَ، وَنَحَرَ السَّمِينَةَ، فَأَكَلَ وَأَطْعَمَ الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ“، قُلْتُ‏:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، مَا أَكْرَمُ هَذِهِ الأَخْلاَقِ، لاَ يُحَلُّ بِوَادٍ أَنَا فِيهِ مِنْ كَثْرَةِ نَعَمِي‏؟‏ فَقَالَ‏:‏ ”كَيْفَ تَصْنَعُ بِالْعَطِيَّةِ‏؟‏“ قُلْتُ‏:‏ أُعْطِي الْبِكْرَ، وَأُعْطِي النَّابَ، قَالَ‏:‏ ”كَيْفَ تَصْنَعُ فِي الْمَنِيحَةِ‏؟“‏ قَالَ‏:‏ إِنِّي لَأَمْنَحُ النَّاقَةَ، قَالَ‏:‏ ”كَيْفَ تَصْنَعُ فِي الطَّرُوقَةِ‏؟“‏ قَالَ‏:‏ يَغْدُو النَّاسُ بِحِبَالِهِمْ، وَلاَ يُوزَعُ رَجُلٌ مِنْ جَمَلٍ يَخْتَطِمُهُ، فَيُمْسِكُهُ مَا بَدَا لَهُ، حَتَّى يَكُونَ هُوَ يَرُدَّهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‏:‏ ”فَمَالُكَ أَحَبُّ إِلَيْكَ أَمْ مَالُ مَوَالِيكَ‏؟“‏ قَالَ‏:‏ مَالِي، قَالَ‏:‏ ”فَإِنَّمَا لَكَ مِنْ مَالِكَ مَا أَكَلْتَ فَأَفْنَيْتَ، أَوْ أَعْطَيْتَ فَأَمْضَيْتَ، وَسَائِرُهُ لِمَوَالِيكَ“، فَقُلْتُ‏:‏ لاَ جَرَمَ، لَئِنْ رَجَعْتُ لَأُقِلَّنَّ عَدَدَهَا فَلَمَّا حَضَرَهُ الْمَوْتُ جَمَعَ بَنِيهِ فَقَالَ‏:‏ يَا بَنِيَّ، خُذُوا عَنِّي، فَإِنَّكُمْ لَنْ تَأْخُذُوا عَنْ أَحَدٍ هُوَ أَنْصَحُ لَكُمْ مِنِّي‏:‏ لاَ تَنُوحُوا عَلَيَّ، فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يُنَحْ عَلَيْهِ، وَقَدْ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنِ النِّيَاحَةِ، وَكَفِّنُونِي فِي ثِيَابِي الَّتِي كُنْتُ أُصَلِّي فِيهَا، وَسَوِّدُوا أَكَابِرَكُمْ، فَإِنَّكُمْ إِذَا سَوَّدْتُمْ أَكَابِرَكُمْ لَمْ يَزَلْ لأَبِيكُمْ فِيكُمْ خَلِيفَةٌ، وَإِذَا سَوَّدْتُمْ أَصَاغِرَكُمْ هَانَ أَكَابِرُكُمْ عَلَى النَّاسِ، وزهدوا فيكم وَأَصْلِحُوا عَيْشَكُمْ، فَإِنَّ فِيهِ غِنًى عَنْ طَلَبِ النَّاسِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْمَسْأَلَةَ، فَإِنَّهَا آخِرُ كَسْبِ الْمَرْءِ، وَإِذَا دَفَنْتُمُونِي فَسَوُّوا عَلَيَّ قَبْرِي، فَإِنَّهُ كَانَ يَكُونُ شَيْءٌ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا الْحَيِّ مِنْ بَكْرِ بْنِ وَائِلٍ‏:‏ خُمَاشَاتٌ، فَلاَ آمَنُ سَفِيهًا أَنْ يَأْتِيَ أَمْرًا يُدْخِلُ عَلَيْكُمْ عَيْبًا فِي دِينِكُمْ‏.‏ ¤ قَالَ عَلِيٌّ: فَذَاكَرْتُ أَبَا النُّعْمَانِ مُحَمَّدَ بْنَ الْفَضْلِ، فَقَالَ: أَتَيْتُ الصَّعْقَ بْنَ حَزْنٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، فَحَدَّثَنَا عَنِ الْحَسَنِ، فَقِيلَ لَهُ: عَنِ الْحَسَنِ؟ قَالَ: لا، يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، قِيلَ لَهُ: سَمِعْتَهُ مِنْ يُونُسَ؟ قَالَ: لا، حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ مُطَيَّبٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ قَيْسٍ، فَقُلْتُ لأَبِي النُّعْمَانِ: فَلِمَ تَحْمِلُهُ؟ قَالَ: لا، ضَيَّعْنَاهُ.
سیدنا قیس بن عاصم سعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دیہاتیوں کا سردار ہے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کس مقدار میں مال ہو تو مجھ پر کسی سائل یا مہمان کا حق نہیں ہوگا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چالیس (اونٹوں وغیرہ) تک مال ہونا اچھی بات ہے۔ ساٹھ ہو جائے تو یہ بہت کثیر میں شمار ہوگا، اور جن کے پاس سیکڑوں ہوں ان کے لیے ہلاکت ہے، سوائے اس کے جو پیارا مال بطورِ عطیہ دے اور خوب دودھ والا جانور ضرورت مند کو دے اور موٹا تازہ جانور ذبح کرے جو خود بھی کھائے اور ان لوگوں کو بھی کھلائے جو قناعت کیے ہوئے ہیں، اور جو مانگنے والے ہیں انہیں بھی کھلائے۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ عادتیں تو بڑی کریمانہ ہیں۔ جس وادی میں میں رہتا ہوں، میرے مویشیوں کی کثرت کی وجہ سے کوئی وہاں مویشی لاتا ہی نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم عطیے میں کیا دیتے ہو؟ میں نے عرض کیا: جواں سال گائے یا بیل اور دو دانتا اونٹنی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دودھ والے جانور کے بارے میں کیا کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا: میں اونٹنی دودھ کے لیے دے دیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم قابلِ حمل اونٹنیوں کے بارے میں کیا کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا: لوگ اپنی رسیاں لاتے ہیں اور اونٹ کو مہار ڈال کر لے جاتے ہیں، کسی کو بھی اس سے منع نہیں کیا جاتا۔ اونٹ لے کر جانے والا اپنی مرضی سے جب تک چاہتا ہے اپنے پاس رکھتا ہے، اور خود مرضی ہی سے واپس کر جاتا ہے (میں نے کبھی کسی سے نہیں پوچھا)۔ نبى صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تجھے اپنا مال زیادہ پسند ہے یا اپنے رشتہ داروں کا؟ اس نے کہا: اپنا مال۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرا مال صرف وہ ہے جسے تو نے کھا کر ختم کر دیا، یا کسی کو دے کر صدقے میں لگا دیا، اس کے علاوہ تیرے رشتہ داروں اور وارثوں کا ہے۔ میں نے عرض کیا: بلاشبہ اب واپس جا کر اپنا مال ضرور کم کروں گا، یعنی صدقہ کروں گا۔ جب ان کی موت کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنے بیٹوں کو جمع کیا اور کہا: اے میرے بیٹو! میری باتیں توجہ سے سنو، مجھ سے بڑھ کر تمہارا کوئی خیر خواہ نہیں ہو سکتا۔ مجھ پر نوحہ مت کرنا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نوحہ نہیں کیا گیا، اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نوحہ سے منع کرتے سنا ہے۔ اور مجھے ان کپڑوں میں کفن دینا جن میں، میں نماز پڑھتا تھا۔ اور اپنے بڑوں کو سردار بنانا، جب تم اپنے بڑوں کو سردار بناؤ گے تو تمہارے اندر تمہارے باپ کا کوئی نہ کوئی خلیفہ رہے گا، اور جب تم چھوٹوں کو سردار بناؤ گے تو تمہارے بڑے لوگوں کی نظروں میں حقیر ہو جائیں گے، اور لوگ تم سے بے تعلق ہو جائیں گے۔ اور اپنی روزی کو سوچ سمجھ کر درست رکھو کیونکہ اس طرح لوگوں سے مانگنا نہیں پڑتا۔ لوگوں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا کیونکہ یہ بندے کا سب سے آخری ذریعہ معاش ہے۔ اور جب تم مجھے دفن کر لو تو میری قبر برابر کر دینا کیونکہ میرے اور قبیلہ بکر بن وائل کے درمیان جھگڑے رہے ہیں تو مجھے اطمینان نہیں کہ ان کا کوئی بے وقوف کوئی ایسی حرکت کردے جو تمہارے دین میں کوئی عیب کی بات داخل کر دے۔
علی بن مدینی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ابونعمان محمد بن فضل سے مذاکرہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ میں صعق بن حزن (جو کہ ملس تھے) کے پاس اس حدیث کے سلسلے میں گیا تو انہوں نے حسن سے روایت بیان کی۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے حسن سے خود سنی ہے؟ اس نے کہا: نہیں، یونس بن عبید حسن سے بیان کرتے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا: کیا آپ نے یونس سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، مجھے قاسم بن مطیب نے یونس سے اور انہوں نے حسن سے بیان کی، انہوں نے قیس سے۔ میں نے ابونعمان سے کہا کہ تم نے یہ طریق کیوں اختیار نہیں کیا؟ انہوں نے کہا: ہم سے ضائع ہو گیا (اور اسے بھول گیا)۔
تخریج الحدیث: «حسن لغيره: المستدرك للحاكم: 709/3»

قال الشيخ الألباني: حسن لغيره

الادب المفرد کی حدیث نمبر 953 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 953  
فوائد ومسائل:
اس حدیث میں مکارم اخلاق کے علاوہ صدقہ و خیرات کرنے کا حکم ہے، نیز قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ کا فضل و منقبت بھی ظاہر ہوتا ہے، آخر میں ایک علمی بحث ہے اور اس کا خلاصہ ہے کہ صعق بن حزن مدلس راوی ہیں لیکن اس روایت میں اس نے اپنے استاد قاسم بن مطیب سے سماع کی صراحت کی ہے۔ مدلس راوی سماع کی صراحت کر دے تو اس کی روایت قابلِ حجت ہوتی ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 953