نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
الادب المفرد
كِتَابُ
كتاب

411. بَابُ الْفَأْلِ
411. نیک فال لینے کا بیان

حدیث نمبر: 913
حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‏: ”لَا عَدْوَى، وَلاَ طِيَرَةَ، وَيُعْجِبُنِي الْفَأْلُ الصَّالِحُ، الْكَلِمَةُ الْحَسَنَةُ‏.“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں: (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:) بیماری متعدی ہونے اور بدشگونی کی کوئی حیثیت نہیں، اور مجھے تو نیک فال، یعنی اچھا کلمہ سن کر نیک شگون لینا پسند ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الطب، باب الفال: 5756 و مسلم: 2224 و أبوداؤد: 3916 و الترمذي: 1615 و ابن ماجه: 3537»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 913 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 913  
فوائد ومسائل:
(۱)کوئی بیماری از خود متعدی نہیں ورنہ پہلے کو بیماری کس نے لگائی ہے۔ جراثیم کا منتقل ہونا اللہ تعالیٰ کے حکم پر موقوف ہے، از خود ان میں یہ تأثیر نہیں۔ بسا اوقات ساتھ رہنے والا محفوظ رہتا ہے اور دور والا متأثر ہو جاتا ہے۔ تاہم وہم سے بچنے کے لیے ایسے مریضوں سے دور رہنے کا حکم ہے تاکہ عقیدہ خراب نہ ہو۔
(۲) بری چیز یا برا کلمہ سن کر دل میں وہم پیدا ہونا فطری بات ہے، تاہم اس وجہ سے اپنے کام سے رکنا مسلمان کے لیے ناجائز ہے۔ البتہ اچھا کلمہ سن کر نیک شگون لینا پسندیدہ امر ہے بشرطیکہ وہ سفر یا کام جائز اور مباح ہو۔ اگر سفر نافرمانی کا ہے یا کام حرام ہے تو وہ اچھا کلمہ شیطان کی طرف سے ہوگا۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 913   


حدیث نمبر: 914
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي حَيَّةُ التَّمِيمِيُّ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ‏: ”لَا شَيْءَ فِي الْهَامِّ، وَأَصْدَقُ الطِّيَرَةِ الْفَأْلُ، وَالْعَيْنُ حَقٌّ‏.“
سیدنا حابس بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اُلو کوئی چیز نہیں، اور سب سے سچا شگون نیک فال ہے، اور نظر کا لگ جانا برحق ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح لغيره: أخرجه الترمذي، كتاب الطب: 2061 - انظر الصحيحة: 78، 782، 785، 789، 2924»

قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره

الادب المفرد کی حدیث نمبر 914 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 914  
فوائد ومسائل:
(۱)الو کے بارے میں اہل علم کے مختلف اقوال ہیں جن میں سے دو زیادہ مشہور ہیں:زمانہ جاہلیت میں لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ جب کسی مقتول کا بدلہ نہ لیا جائے تو اس کے سر سے ایک الو نکلتا ہے جو اس کی قبر کے ارد گرد چکر لگاتا ہے اور کہتا ہے مجھے (بدلے کا خون)پلاؤ، مجھے پلاؤ۔ جب تک اس کا بدلا نہ لیا جائے وہ واپس نہیں جاتا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس کی روح یا ہڈیاں الو کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور سات دن تک یہ پکارتی رہتی ہیں اور بعدازاں واپس چلی جاتی ہیں۔ اسلام نے اس کی تردید فرمائی اور واضح کیا کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔
(۲) بدشگونی اور فال کی تفصیل گزشتہ حدیث میں گزر چکی ہے اور جہاں تک نظر لگ جانے کا تعلق ہے تو یہ برحق امر ہے۔ یہ کبھی حسد کی وجہ سے ہوتی ہے اور کبھی کسی چیز کے اچھا لگنے سے بھی ہو جاتی ہے۔ اس لیے شریعت نے کسی چیز کے اچھا لگنے پر ماشاء اللہ پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ ایک حدیث میں تو یہاں تک ہے کہ آپ نے فرمایا:میری امت کی اکثر اموات اللہ کی تقدیر کے بعد نظر لگنے سے ہوں گی۔ (حسن، مسند ابي داود طیالسي:۱۷۶۰، السنة ابن ابي عاصم:۳۱۱، مجمع الزوائد:۵؍ ۱۰۶)۔ اس لیے اس سے بچاؤ کے لیے مسنون اذکار اور آخری تینوں قل پڑھنے اور ان کا دم کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 914