نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
الادب المفرد
كِتَابُ
كتاب

407. بَابُ مَا يَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا رَأَى غَيْمًا
407. بادل دیکھ کر کیا کہنا چاہیے

حدیث نمبر: 908
حَدَّثَنَا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ‏:‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَأَى مَخِيلَةً دَخَلَ وَخَرَجَ، وَأَقْبَلَ وَأَدْبَرَ، وَتَغَيَّرَ وَجْهُهُ، فَإِذَا مَطَرَتِ السَّمَاءُ سُرِّيَ، فَعَرَّفَتْهُ عَائِشَةُ ذَلِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‏:‏ ”وَمَا أَدْرِي لَعَلَّهُ كَمَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ‏: ﴿‏فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ‏﴾ [الأحقاف: 24].“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بادل دیکھتے تو (پریشان ہو جاتے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوتے، نکلتے اور آتے جاتے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل جاتا، پھر جب آسمان سے بارش برستی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پریشانی ختم ہوتی۔ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کی وجہ دریافت کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے کیا معلوم کہ وہ اسی طرح ہو جس طرح اللہ عز و جل نے فرمایا ہے: پھر جب انہوں نے بادل اپنی وادیوں کی طرف آتا دیکھا ......۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب بدء الخلق: 3206 و مسلم: 899 و الترمذي: 3257»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 908 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 908  
فوائد ومسائل:
قوم عاد پر عذاب کی صورت یہ تھی کہ ان پر گہرے بادل آئے جسے انہوں نے رحمت سمجھا لیکن ان بادلوں میں عذاب الٰہی تھا۔ اس لیے بادلوں کو آتا دیکھ کر آپ پریشان ہو جاتے کہ کہیں ہم پر بھی عذاب نہ آجائے لیکن جب بارش ہو جاتی تو آپ کی کیفیت ختم ہو جاتی اور آپ خوش ہو جاتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بادلوں کو دیکھ کر اللہ کے عذاب سے پناہ طلب کرنی چاہیے اور اس کی رحمت کا سوال کرنا چاہیے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 908   


حدیث نمبر: 909
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ الْفَضْلُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ عِيسَى بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ‏:‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‏:‏ ”الطِّيَرَةُ شِرْكٌ، وَمَا مِنَّا، وَلَكِنَّ اللَّهَ يُذْهِبُهُ بِالتَّوَكُّلِ‏.‏“
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدشگونی شرک ہے، اور ہم میں سے ہر ایک کو خدشات پیدا ہوتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰٰ اسے توکل کے ذریعے سے ختم کر دیتا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الطب، باب الطيرة: 2910 و الترمذي: 1614 و ابن ماجه: 3538»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 909 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 909  
فوائد ومسائل:
(۱)اہل جاہلیت یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اچھا یا برا شگون ان کے لیے نفع یا نقصان کا باعث ہے، حالانکہ نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ گویا اس کو انہوں نے اللہ کا شریک ٹھہرایا ہے۔
(۲) اگر صرف دل میں وہم آئے اور انسان اس وہم کو خاطر میں نہ لائے اور اللہ پر توکل کرتے ہوئے ظاہر اسباب کو بروئے کار لا کر اپنا کام جاری رکھے تو اس وہم میں کوئی حرج نہیں۔
(۳) بادلوں کو دیکھ کر بارش کا شگون ہی لینا چاہیے، لیکن چونکہ وہ مظنہ عذاب ہیں اس لیے عذاب الٰہی سے پناہ طلب کرنا بھی ضروری ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 909