نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
الادب المفرد
كِتَابُ
كتاب


حدیث نمبر: 705
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ عَنْ خَلَفِ بْنِ خَلِيفَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي حَفْصُ ابْنُ أَخِي أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَا رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا بَدِيعَ السَّمَاوَاتِ، يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ، إِنِّي أَسْأَلُكَ، فَقَالَ: ”أَتَدْرُونَ بِمَا دَعَا؟ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، دَعَا اللَّهَ بِاسْمِهِ الَّذِي إِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ.“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا تو ایک آدمی نے دعا کی اور کہا: اے آسمانوں کو سابقہ مثال کے بغیر پیدا کرنے والے! اے زندہ و قائم رکھنے والے! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو اس نے کس چیز کے ساتھ دعا کی؟ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس نے اللہ کے اس نام کے ساتھ دعا کی ہے کہ جب اس کے ذریعے سے دعا کی جائے تو وہ ضرور قبول فرماتا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الوتر: 1495 و الترمذي: 3544 و النسائي: 1300 و ابن ماجه: 3885»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 705 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 705  
فوائد ومسائل:
(۱)اس روایت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا واسطہ دے کر اللہ تعالیٰ سے سوال کرنا چاہیے، خصوصاً اسم اعظم کے وسیلے سے مانگنا زیادہ قبولیت کا باعث ہے۔ اسم اعظم کیا ہے؟ اس بارے میں مختلف آراء ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اللّٰه لَا إله الاّ هو الأحد الصمد الذی لم یلد ولم یولد ولم یکن له کفوًا أحدٌ۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے لا إلہ إلاَّ ہو الحي القیوم کو اسم اعظم کہا ہے۔ تمام دعاؤں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسم اعظم لفظ اللہ ہے۔ کیونکہ اسم اعظم کے بارے میں جتنی روایات ہیں سبھی میں لفظ اللہ مشترک ہے۔ (شرح صحیح الأدب المفرد:۴؍۳۸۴)
(۲) یہ جائز وسیلہ ہے۔ اس کے علاوہ کسی سے دعا کروانا، نیک اعمال کا وسیلہ دینا بھی جائز ہے اس کے علاوہ خود ساختہ اور بدعی وسیلوں حتی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک کا وسیلہ دینا بھی ناجائز ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 705   


حدیث نمبر: 706
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْن وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ، عَنْهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَلِّمْنِي دُعَاءً أَدْعُو بِهِ فِي صَلاتِي، قَالَ: ”قُلِ: اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا، وَلا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مِنْ عِنْدِكَ مَغْفِرَةً، إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ.“
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے کوئی دعا سکھائیں جو میں اپنی نماز میں پڑھا کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کہو: اے اللہ! بلاشبہ میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، بہت زیادہ ظلم، اور گناہوں کو تیرے سوا کوئی نہیں بخش سکتا۔ تو اپنے پاس سے مجھے بخش دے، اچھی طرح بخشنا، بلاشبہ تو بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب التوحيد: 7387، 3231 و مسلم: 2705 و الترمذي: 3531 و النسائي: 1302 و ابن ماجه: 3835»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 706 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 706  
فوائد ومسائل:
(۱)نماز میں اس دعا کا مقام معلوم نہیں، تاہم امام بخاری رحمہ اللہ کی صحیح بخاری میں تبویب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دعا تشہد میں سلام سے پہلے پڑھنی چاہیے۔ اگرچہ سجدوں میں بھی اس کے پڑھنے کا جواز ہے۔ کیونکہ سجدہ کی حالت بھی قبولیت دعا کا ایک اہم محل ہے۔
(۲) علماء نے لکھا ہے کہ یہ دعا بہت عظیم ہے کیونکہ یہ حبیب نے اپنے حبیب کو حبیب سے مناجات کے لیے بتائی ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 706   

Previous    1    2