نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
الادب المفرد
كِتَابُ
كتاب

293. بَابُ الدُّعَاءِ عِنْدَ الاسْتِخَارَةِ
293. استخارہ کی دعا

حدیث نمبر: 703
حَدَّثَنَا مُطَرِّفُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَبُو الْمُصْعَبِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الْمَوَالِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا الاسْتِخَارَةَ فِي الأُمُورِ كَالسُّورَةِ مِنَ الْقُرْآنِ: ”إِذَا هَمَّ بِالأَمْرِ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ يَقُولُ: ”اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ، وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ، وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلا أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلامُ الْغُيُوبِ، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي، وَمَعَاشِي، وَعَاقِبَةِ، أَوْ قَالَ: فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاقْدُرْهُ لِي، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي، وَمَعَاشِي، وَعَاقِبَةِ أَمْرِي، أَوْ قَالَ: عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ، فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِيَ الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ، ثُمَّ رَضِّنِي“، وَيُسَمِّي حَاجَتَهُ.“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اہم معاملات میں استخارہ کی اس طرح تعلیم دیتے جس طرح قرآن کی سورت سکھاتے۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے:) جب تم میں سے کوئی شخص اہم کام کرنے کا ارادہ کرے تو دو رکعتیں (بطور نفل) ادا کرے، پھر کہے: اے اللہ! میں تیرے علم کے ذریعے سے خیر مانگتا ہوں، اور تیری قدرت کے ذریعے سے قدرت طلب کرتا ہوں، اور تیرے عظیم فضل کا تجھ سے سوال کرتا ہوں، بلاشبہ تجھے قدرت حاصل ہے اور مجھے قدرت نہیں، اور تو جانتا ہے میں نہیں جانتا، اور تو غیبوں کو خوب جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تیرے علم میں یہ معاملہ میرے لیے میرے دین اور میری معاش کے اعتبار سے اور انجام کار کے اعتبار سے جلد یا بہ دیر بہتر ہے تو اسے میرے مقدر میں کر دے۔ اگر تیرے علم میں میرے لیے یہ کام میری دنیا اور آخرت میں شر ہے اور انجام کار کے لحاظ سے برا ہے، جلد یا بہ دیر تو اس کو مجھ سے اور مجھے اس سے دور کر دے، اور میرے لیے خیر مقدر کر دے جہاں کہیں بھی ہو، پھر مجھے اس پر راضی فرما۔ اور اپنی حاجت اور کام کا نام لے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الدعوات: 6382 و أبوداؤد: 1538 و الترمذي: 480 و النسائي: 3253 و ابن ماجه: 1383»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 703 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 703  
فوائد ومسائل:
(۱)استخارہ جائز اور مباح کاموں میں ہوگا۔ حرام اور ناجائز کاموں میں نہیں ہے بلکہ ان سے ہر صورت بچنا ضروری ہے۔
(۲) استخارہ اہم امور میں ہوگا۔ روز مرہ کے کاموں، جیسے کھانے، پینے وغیرہ میں استخارہ نہیں ہوگا۔ اسی طرح فرائض کی ادائیگی کے لیے بھی استخارہ کی ضرورت نہیں اور نہ اس بنیاد پر اسے ترک کیا جاسکتا ہے۔
(۳) استخارہ دو مباح اور مستحب کاموں میں سے ایک کے انتخاب کے لیے ہوگا، مثلاً:کوئی شخص شادی کرنا چاہتا ہے اس کے سامنے دو یا چار رشتے ہیں اور سبھی بظاہر اچھے ہیں تو وہ استخارہ کرلے۔ جس کی طرف میلان ہو جائے، وہاں رشتہ کرلے۔ یا ایک جائز کام کے لیے بھی استخارہ کیا جاسکتا ہے، مثلاً کسی کے ساتھ شراکت کرنا چاہتا ہے یا کوئی کاروبار کرنا چاہتا ہے تو بھی استخارہ مستحب ہے۔
(۴) استخارے کے لیے خواب میں کچھ نظر آنا ضروری نہیں۔ اگر وہ کام بہتر ہوا تو اس کی طرف از خود میلان ہو جائے گا۔ انسان کو چاہیے کہ ظاہری صورت حال دیکھ کر فیصلہ کرلے۔
(۵) استخارہ اس شخص کو کرنا چاہیے جس کا معاملہ ہے، مثلاً لڑکے یا لڑکی کی شادی کا معاملہ ہے تو اس کے والدین یا سرپرست اور وہ خود استخارہ کرے۔ کسی سے استخارہ کروانے کی کوئی صحیح دلیل نہیں۔ اسی طرح آن لائن استخارے کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔
(۶) استخارے کی دعا نماز کے تشہد میں بھی کی جاسکتی ہے اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد بھی۔ اصل طریقہ تو یہی ہے کہ دو رکعت پڑھ کر بعد میں دعاکرے کیونکہ حدیث میں ہے:فلیرکع رکعتین ثم یقول کے الفاظ ہیں یعنی وہ دو رکعت پڑھے پھر وہ کہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 703   


حدیث نمبر: 704
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي كَثِيرُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ، مَسْجِدِ الْفَتْحِ، يَوْمَ الاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الثُّلاثَاءِ وَيَوْمَ الأَرْبِعَاءِ، فَاسْتُجِيبَ لَهُ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ مِنْ يَوْمِ الأَرْبِعَاءِ، قَالَ جَابِرٌ: وَلَمْ يَنْزِلْ بِي أَمْرٌ مُهِمٌّ غائِظٌ إِلا تَوَخَّيْتُ تِلْكَ السَّاعَةَ، فَدَعَوْتُ اللَّهَ فِيهِ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ يَوْمَ الأَرْبِعَاءِ فِي تِلْكَ السَّاعَةِ، إِلا عَرَفْتُ الإِجَابَةَ.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسجد، یعنی مسجد فتح میں پیر، منگل اور بدھ کے روز دعا کی۔ بدھ کے روز دو نمازوں کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہوئی۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے جب بھی کوئی شدید اہم کام پیش آیا تو میں نے دعا کرنے کے لیے اسی وقت کا انتخاب کیا۔ چنانچہ میں نے اللہ تعالیٰ سے بدھ کے روز اسی وقت دو نمازوں کے درمیان جب بھی دعا کی ضرور قبولیت کے آثار میں نے دیکھے۔
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه أحمد: 14563 و البيهقي فى شعب الإيمان: 3874 و البزار: 431، كشف - انظر صحيح الترغيب: 1185»

قال الشيخ الألباني: حسن

الادب المفرد کی حدیث نمبر 704 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 704  
فوائد ومسائل:
(۱)اس دعا کا باب سے بظاہر تعلق نہیں ہے، تاہم یہ ممکن ہے کہ امام رحمہ اللہ یہ حدیث لاکر بتانا چاہتے ہوں کہ استخارہ دعا ہے اور اسے بار بار کیا جاسکتا ہے بلکہ کرنا چاہیے جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کے موقع پر بار بار دعا کی۔
(۲) دعا مسلسل کرنی چاہیے کیونکہ قبولیت کی گھڑی سے کسی وقت بھی موافقت ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل تین روز تک دعا کی اور تیسرے دن قبول ہوئی۔
(۳) حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی قبولیت کے وقت کو مطلق قبولیت کا وقت سمجھا اور اس میں دعا کی تو ان کی دعا بھی قبول ہوئی۔ ممکن ہے کہ یہ وقت اذان اور اقامت کے درمیان کا ہو اور اس گھڑی میں قبولیت دعا کی خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دی ہو۔
(۴) یہ واقعہ غزوہ احزاب کا ہے اور اس وقت اس جگہ مسجد نہیں تھی۔ بعد میں مسجد بنی جسے مسجد احزاب اور مسجد اعلیٰ بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کی اس دعا کے بعد شدید آندھی چلی اور مشرکین کے خیمے اکھڑ گئے اور وہ بھاگ نکلے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 704   

1    2    Next