نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
الادب المفرد
كِتَابُ
كتاب


حدیث نمبر: 625
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي غَنِيَّةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ، وَكَانَتْ تَحْتَهُ الدَّرْدَاءُ بِنْتُ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَدِمْتُ عَلَيْهِمُ الشَّامَ، فَوَجَدْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ فِي الْبَيْتِ، وَلَمْ أَجِدْ أَبَا الدَّرْدَاءِ، قَالَتْ: أَتُرِيدُ الْحَجَّ الْعَامَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَتْ: فَادْعُ اللَّهَ لَنَا بِخَيْرٍ، فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَقُولُ: ”إِنَّ دَعْوَةَ الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ مُسْتَجَابَةٌ لأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ، عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَكٌ مُوَكَّلٌ، كُلَّمَا دَعَا لأَخِيهِ بِخَيْرٍ قَالَ: آمِينَ، وَلَكَ بِمِثْلٍ“، قَالَ: فَلَقِيتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ فِي السُّوقِ، فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ، يَأْثُرُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا صفوان بن عبداللہ بن صفوان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اور ان کے نکاح میں سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کی بیٹی درداء تھی، وہ کہتے ہیں کہ میں ان کے پاس شام آیا تو گھر میں سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہا تھیں جبکہ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ وہاں موجود نہیں تھے۔ سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کیا تم اس سال حج پر جا رہے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں! انہوں نے فرمایا: پھر ہمارے لیے بھی خیر کی دعا کرنا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: بلاشبہ مسلمان آدمی کی دعا جو وہ اپنے بھائی کے لیے اس کی عدم موجودگی میں کرتا ہے، وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔ جب وہ دعا کرتا ہے تو ایک فرشتہ اس کے سر کے پاس مقرر کر دیا جاتا ہے۔ جب بھی وہ اپنے بھائی کے لیے بھلائی کی دعا کرتا ہے تو وہ کہتا ہے: آمین اور تجھے بھی ایسا ہی ملے۔ وہ کہتے ہیں کہ پھر بازار میں مجھے سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ ملے تو انہوں نے اسی طرح کی بات کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حدیث کو بیان کیا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب الذكر و الدعاء: 88، 2733 و ابن ماجه: 2895 - انظر الصحيحة: 1399»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 625 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 625  
فوائد ومسائل:
(۱)کسی کی عدم موجودگی میں کی گئی دعا میں اخلاص زیادہ ہوتا ہے۔ ریاکاری اور دیگر مقاصد نہیں ہوتے اس سے لیے وہ دعا زیادہ قبول ہوتی ہے۔ نیز فرشتے کے آمین کہنے سے بھی قبولیت کے اسباب بڑھ جاتے ہیں۔
(۲) اس سے معلوم ہوا کہ کسی سے دعا کروانا جائز ہے، خصوصاً جب کوئی نیکی کی راہ میں جا رہا ہو تو اس سے مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔
(۳) فرشتے اللہ تعالیٰ کے مقرب اور برگزیدہ ہیں جو کبھی اللہ تعالیٰ کی معصیت نہیں کرتے۔ ان کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے اس لیے دوسروں کے لیے دعا کثرت سے کرنی چاہیے تاکہ فرشتے انسان کے لیے دعا کریں۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 625   


حدیث نمبر: 626
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ وَشِهَابٌ قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَلِمُحَمَّدٍ وَحْدَنَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”لَقَدْ حَجَبْتَهَا عَنْ نَاسٍ كَثِيرٍ.“
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے دعا کی: اے اللہ صرف مجھے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بخش دے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے اپنی دعا کو بہت سے لوگوں سے روک لیا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 6849 و ابن حبان: 986 - الإرواء: 171 - البخاري، كتاب الأدب، باب رحمة الناس و البهائم، عن أبى هريره: 6010»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 626 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 626  
فوائد ومسائل:
(۱)اس دعا کی تفصیل اس طرح ہے کہ ایک دیہاتی آیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے لگا تو اس نے دعا کی کہ اے اللہ مجھ پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم فرما اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ فرمانا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تنبیہ کی اور فرمایا:تونے اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کو محدود کر دیا ہے۔ (صحیح البخاري، الادب، حدیث:۶۰۱۰)
مطلب یہ تھا کہ اس کی رحمت کون سی کم ہے کہ اوروں پر کرے گا تو ہم سے کم ہو جائے گی۔ ایک صحیح روایت میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رحمت کے سو حصوں میں سے ایک حصہ دنیا میں مخلوق کو دیا ہے جس کی بنا پر بندے اور حیوانات ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں، ننانوے حصے اس کے پاس ہیں تو اس کی رحمت کا کیا کمال ہوگا۔
(۲) اس سے معلوم ہوا کہ دعا میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ اپنے ساتھ دوست احباب اور ہر مسلمان کے لیے دعائے خیر کرنی چاہیے۔ کیونکہ دوسروں کے لیے مانگی گئی ہر خیر اللہ تعالیٰ مانگنے والوں کو عطا کرتا ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 626   

Previous    1    2    3    Next