نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
الادب المفرد
كِتَابُ
كتاب

271. بَابُ الْحَيَاءِ
271. حیا کا بیان

حدیث نمبر: 597
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا أَبُو مَسْعُودٍ عُقْبَةُ قَالَ‏:‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”إِنَّ مِمَّا أَدْرَكَ النَّاسَ مِنْ كَلاَمِ النُّبُوَّةِ‏:‏ إِذَا لَمْ تَسْتَحِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ‏.‏“
سیدنا ابومسعود عقبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلے نبیوں کی باتوں میں سے جو کچھ لوگوں کے پاس پہنچا ہے اس میں یہ بھی ہے کہ جب تم میں شرم و حیا نہ رہے تو جو چاہو کرو۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأنبياء: 3483 و أبوداؤد: 4797 و ابن ماجه: 4183 - انظر الصحيحة: 684»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 597 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 597  
فوائد ومسائل:
(۱)حیا ایمان کا حصہ ہے اس لیے جس میں حیا نہ رہے وہ ایمان کے ایک بڑے حصے سے محروم ہوگیا۔ حیا ہی انسان کو گھٹیا حرکات اور برے اخلاق سے روکتی ہے تو جس انسان میں حیا ہی نہ رہے اس سے کسی بھی چیز کی توقع کی جاسکتی ہے۔
(۲) حیا سابقہ شریعتوں میں بھی ایمان کا جز رہی ہے اور سابقہ ادیان سے جو اخلاقیات اسلام کا حصہ بنی ہیں ان میں سرفہرست حیا ہے۔ بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:حیا جتنی بھی ہو خیر ہی لاتی ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 597   


حدیث نمبر: 598
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ‏:‏ ”الإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ، أَوْ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ، شُعْبَةً، أَفْضَلُهَا لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإيمَانِ‏.‏“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کی ساٹھ یا ستر سے کچھ اوپر شاخیں ہیں۔ ان میں سب سے افضل لا الہ الا اللہ ہے اور سب سے کم، تکلیف دہ چیز راستے سے ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کی ایک اہم شاخ ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الإيمان، باب أمور الإيمان: 9 و مسلم: 35 و أبوداؤد: 4676 و الترمذي: 2416 و النسائي: 5004 و ابن ماجه: 57 - انظر الصحيحة: 1769»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 598 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 598  
فوائد ومسائل:
(۱)ایمان کی ساٹھ یا ستر سے زیادہ شاخوں سے کیا مراد ہے اس بارے میں علما کے کئی اقوال ہیں، راجح بات یہ ہے کہ اطاعت الٰہی کے تمام کام جن کا ذکر قرآن و سنت میں آیا ہے، وہ سبھی ایمان کی شاخیں ہیں جن میں سب سے اعلیٰ توحید باری ہے جو تمام شاخوں کی اساس ہے۔ اگر وہ نہ ہو تو ایمان کی کوئی حیثیت نہیں اور اللہ قبول کرے تو توحید کے اقرار کے بعد ادنیٰ ترین شاخ بھی انسان کی نجات کا باعث بن سکتی ہے۔ جبکہ حیا ایمان کی اہم ترین شاخ ہے جس کی تعلیم سابقہ انبیاء بھی دیتے آئے ہیں۔
(۲) امام نووی رحمہ اللہ نے ابن حبان رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ انہوں نے کہا:میں ایک عرصے تک اس حدیث کے معانی تلاش کرتا رہا۔ بالآخر میں نے قرآن و حدیث میں وارد امور اطاعت کو ملا کر شمار کیا ہے تو وہ ستر سے کچھ زیادہ تھے۔ (شرح صحیح مسلم للنووي، کتاب الإیمان، باب بیان عدد شعب الإیمان، ج:۳۵)
(۳) ایسا اخلاق جو انسان کو قبیح حرکات سے بچنے پر ابھارے اور صاحب حق کے حق میں کوتاہی کرنے سے روکے وہ حیا ہے۔ حیا کبھی فطری ہوتی ہے اور یہ کافر میں بھی ہوسکتی ہے اور کبھی خود نیت کے ساتھ احکام شرع کے مطابق پیدا کی جاتی ہے۔ یہی ایمان ہے اور پہلی کیفیت اگر مسلمان میں ہو تو بھی ایمان میں اضافے کا باعث ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 598   

1    2    3    4    Next