نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
الادب المفرد
كِتَابُ
كتاب


حدیث نمبر: 554
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ‏:‏ ”احْتَجَّتِ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ، وَقَالَ سُفْيَانُ أَيْضًا‏:‏ اخْتَصَمَتِ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ، قَالَتِ النَّارُ‏:‏ يَلِجُنِي الْجَبَّارُونَ، وَيَلِجُنِي الْمُتَكَبِّرُونَ، وَقَالَتِ الْجَنَّةُ‏:‏ يَلِجُنِي الضُّعَفَاءُ، وَيَلِجُنِي الْفُقَرَاءُ‏.‏ قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لِلْجَنَّةِ‏:‏ أَنْتِ رَحْمَتِي أَرْحَمُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ، ثُمَّ قَالَ لِلنَّارِ‏:‏ أَنْتِ عَذَابِي أُعَذِّبُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ، وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْكُمَا مِلْؤُهَا‏.‏“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت اور دوزخ نے جھگڑا کیا۔ دوزخ نے کہا: مجھ میں جابر اور متکبر لوگ داخل ہوں گے۔ جنت نے کہا: مجھ میں کمزور اور فقیر لوگ داخل ہوں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جنت سے فرمایا: تو میری رحمت کی جگہ ہے، میں تیرے ذریعے سے جس پر چاہوں گا رحم کروں گا، پھر آگ سے فرمایا: تو میرے عذاب کی جگہ ہے، تیرے ذریعے سے میں جسے چاہوں گا عذاب دوں گا۔ تم دونوں میں سے ہر ایک کو بھرا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب التفسير، سورة ق، باب و تقول هل من مزيد: 4850، 7449 و مسلم: 2846 و الترمذي: 2561 و النسائي فى الكبرىٰ: 157/7 - انظر ظلال الجنة: 528»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 554 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 554  
فوائد ومسائل:
متکبرین کا ٹھکانا دوزخ ہے اس لیے جس شخص میں جہنم کا عذاب برداشت کرنے کی طاقت ہو، اور وہ کسی میں نہیں، وہ تکبر کرے اور جسے جنت میں جانا ہو وہ تکبر کو قریب نہ پھٹکنے دے۔ نیز معلوم ہوا کہ جنت اور جہنم اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ہیں۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 554   


حدیث نمبر: 555
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جَمِيعٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ‏:‏ لَمْ يَكُنْ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَحَزِّقِينَ، وَلاَ مُتَمَاوِتِينَ، وَكَانُوا يَتَنَاشَدُونَ الشِّعْرَ فِي مَجَالِسِهِمْ، وَيَذْكُرُونَ أَمْرَ جَاهِلِيَّتِهِمْ، فَإِذَا أُرِيدَ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَلَى شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ اللهِ، دَارَتْ حَمَالِيقُ عَيْنَيْهِ كَأَنَّهُ مَجْنُونٌ‏.‏
حضرت سلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام مریل اور مردہ دل نہیں تھے۔ وہ اپنی مجلسوں میں اشعار بھی پڑھا کرتے تھے، اور جاہلیت کے زمانہ کے واقعات کا تذکرہ بھی کرتے، لیکن جب ان سے اللہ کے دین کے خلاف کوئی بات کہی جاتی تو ان کی آنکھوں کے ڈھیلے گھومنے لگتے گویا کہ وہ مجنوں ہے۔
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه ابن أبى الدنيا فى منازل الأشراف: 186 و أحمد فى الزهد: 1200 و ابن أبى شيبة: 26058 - انظر الصحيحة: 434»

قال الشيخ الألباني: حسن

الادب المفرد کی حدیث نمبر 555 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 555  
فوائد ومسائل:
(۱)مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بناوٹی تقوی نہیں تھا۔ اور نہ ہی وہ ہر وقت مریل شکل بنائے رکھتے تھے کہ گویا ان پر فکر آخرت سوار ہے۔ بلکہ وہ زندہ دل تھے۔ اکٹھے رہتے اور مجلسیں بھی جمتیں۔ زمانہ جاہلیت کی باتیں بھی زیر بحث آتیں اور شعر و شاعری بھی ہوتی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ غیر اخلاقی یا دین کے مخالف کوئی گفتگو کرتے بلکہ دینی غیرت کا اور تقوے کا حال یہ تھا کہ اگر خلاف شرع کوئی بات کر دیتا یا دین کا مذاق اڑانا چاہتا تو یک دم ان کی کیفیت بدل جاتی اور آنکھیں اس قدر سرخ ہو جاتیں گویا کوئی دیوانگی در آئی ہو۔
(۲) اس سے معلوم ہوا کہ خود ساختہ تقوی اپنے اوپر سوار کیے رکھنا اور بات چیت نہ کرنا اور خود کو بہت نیک ظاہر کرنا جب کہ باطن ایسا نہ ہو، یہ بھی تکبر کی ایک قسم ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 555   

Previous    1    2    3    4    5    Next