نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
الادب المفرد
كِتَابُ
كتاب

232. بَابٌ
232. بلا عنوان

حدیث نمبر: 513
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ وَاقِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي عَبْلَةَ، قَالَ: مَرِضَتِ امْرَأَتِي، فَكُنْتُ أَجِيءُ إِلَى أُمِّ الدَّرْدَاءِ، فَتَقُولُ لِي: كَيْفَ أَهْلُكَ؟ فَأَقُولُ لَهَا: مَرْضَى، فَتَدْعُو لِي بِطَعَامٍ، فَآكُلُ، ثُمَّ عُدْتُ فَفَعَلَتْ ذَلِكَ، فَجِئْتُهَا مَرَّةً، فَقَالَتْ: كَيْفَ؟ قُلْتُ: قَدْ تَمَاثَلُوا، فَقَالَتْ: إِنَّمَا كُنْتُ أَدْعُو لَكَ بِطَعَامٍ أَنْ كُنْتَ تُخْبِرُنَا عَنْ أَهْلِكَ أَنَّهُمْ مَرْضَى، فَأَمَّا إِذْ تَمَاثَلُوا فَلا نَدْعُو لَكَ بِشَيْءٍ.
ابراہیم بن ابی عبلہ رحمہ اللہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میری بیوی بیمار ہو گئی، تو میں سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوتا تو وہ مجھ سے پوچھتیں: تیری بیوی کا کیا حال ہے؟ میں ان سے کہتا: بیمار ہی ہے، تو وہ میرے لیے کھانا منگواتیں اور میں کھا لیتا۔ پھر آتا تو اسی طرح کرتا۔ ایک دفعہ میں ان کے پاس آیا تو انہوں نے حسب سابق پوچھا: تیری بیوی کا کیا حال ہے؟ میں کہا: اس کی طبیعت کافی بہتر ہے۔ انہوں نے فرمایا: جب تم مجھے بتاتے تھے کہ میری بیوی بیمار ہے تو میں تیرے لیے کھانا منگواتی تھی، اب چونکہ اس کی طبیعت بہتر ہے (وہ کھانا بنا سکتی ہے) اس لیے ہم تیرے لیے کوئی چیز نہیں منگوائیں گے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه الطبراني فى مسند الشامين: 26/1 و أبونعيم فى الحلية: 245/5 و ابن عساكر فى تاريخه: 438/6»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 513 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 513  
فوائد ومسائل:
اس روایت سے معلوم ہوا کہ مریض کی تیمار داری کے ساتھ ساتھ اس کے اہل خانہ کی ضروریات کا بھی پوچھنا چاہیے۔ بیمار شخص کی وجہ سے ان کے جو کام رکے ہوئے ہوں ان کا ازالہ کرنا چاہیے جیسا کہ ام درداء رضی اللہ عنہا کرتی تھیں۔ مسلمان معاشرے کے لیے باہمی حقوق کے بارے میں ام درداء رضی اللہ عنہا کا عمل بہترین نمونہ ہے۔ نیز تیمار داری کے لیے مریض کے گھر جانا ضروری نہیں اس کے دوست احباب اور گھر والوں سے بھی پوچھا جاسکتا ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 513