نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
الادب المفرد
كِتَابُ
كتاب

229. بَابُ هَلْ يَكُونُ قَوْلُ الْمَرِيضِ: إِنِّي وَجِعٌ، شِكَايَةً؟
229. کیا مریض کا یہ کہنا کہ ”مجھے تکلیف ہے“ شکوہ ہے؟

حدیث نمبر: 509
حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا، قَالَ: حَدَّثَنَا أبوأُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ عَلَى أَسْمَاءَ، قَبْلَ قَتْلِ عَبْدِ اللَّهِ بِعَشْرِ لَيَالٍ، وَأَسْمَاءُ وَجِعَةٌ، فَقَالَ لَهَا عَبْدُ اللَّهِ: كَيْفَ تَجِدِينَكِ؟ قَالَتْ: وَجِعَةٌ، قَالَ: إِنِّي فِي الْمَوْتِ، فَقَالَتْ: لَعَلَّكَ تَشْتَهِي مَوْتِي، فَلِذَلِكَ تَتَمَنَّاهُ؟ فَلا تَفْعَلْ، فَوَاللَّهِ مَا أَشْتَهِي أَنْ أَمُوتَ حَتَّى يَأْتِيَ عَلَيَّ أَحَدُ طَرَفَيْكَ، أَوْ تُقْتَلَ فَأَحْتَسِبَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَظْفُرَ فَتَقَرَّ عَيْنِي، فَإِيَّاكَ أَنْ تُعْرَضَ عَلَيْكَ خُطَّةٌ، فَلا تُوَافِقُكَ، فَتَقْبَلُهَا كَرَاهِيَةَ الْمَوْتِ، وَإِنَّمَا عَنَى ابْنُ الزُّبَيْرِ لِيُقْتَلَ فَيُحْزِنُهَا ذَلِكَ.
سیدنا عروہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں اور سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، یہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے قتل ہونے سے دس دن پہلے کی بات ہے، سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بیمار تھیں۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے پوچھا: آپ کی صحت کیسی ہے؟ انہوں نے فرمایا: مجھے تکلیف ہے۔ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں بھی موت کی حالت میں ہوں۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے فرمایا: شاید تم میری موت چاہتے ہو اس لیے اس کی تمنا کرتے ہو، تم ایسا نہ کرو۔ اللہ کی قسم میں اس وقت تک موت نہیں چاہتی جب تک معاملہ ایک طرف نہ ہو جائے، یا تم قتل کر دیے جاؤ اور میں اس پر صبر کر کے اللہ تعالیٰ سے ثواب لے لوں، یا تم کامیاب ہو جاؤ اور میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ تم اس بات سے بچنا کہ تم پر کوئی ایسا معاملہ پیش کیا جائے جس کی تم موافقت نہ کرتے ہو اور موت کے ڈر سے اسے قبول کر لو۔ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما کا مقصد یہ تھا کہ والدہ کی وفات پہلے ہو جائے تاکہ اگر میں قتل ہو جاؤں تو اس کا انہیں غم نہ ہو۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن أبى شيبة: 37326 و أبونعيم فى الحلية: 56/2 و ابن عبدالبر فى الاستيعاب: 907/3 و ابن عساكر فى تاريخه: 22/69»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 509 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 509  
فوائد ومسائل:
(۱)سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی عمر اس وقت تقریباً سو سال تھی۔ وہ بیمار تھیں لیکن ان کا حوصلہ جوان تھا۔ عمر کے اس حصے میں بھی اپنے بیٹے کو جرأت و بہادری کا درس دے رہی تھیں کہ موت کے ڈر سے کسی ایسی بات پر کمپرو مائز نہ کرنا جس کو تم غلط سمجھتے ہو۔
(۲) سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کا یہ کہنا کہ مجھے تکلیف ہے شکوہ نہیں بلکہ انہوں نے حقیقت سے آگاہ کیا۔ ایسا کہنا خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
(۳) یہ واقعہ ان دنوں کا ہے جب حجاج بن یوسف سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے خلاف جنگ کرنے والا تھا۔ بالآخر سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما کو شہید کر دیا گیا اور ان کی والدہ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے نہایت صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 509   


حدیث نمبر: 510
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مَوْعُوكٌ، عَلَيْهِ قَطِيفَةٌ، فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهِ، فَوَجَدَ حَرَارَتَهَا فَوْقَ الْقَطِيفَةِ، فَقَالَ أبوسَعِيدٍ: مَا أَشَدَّ حُمَّاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: ”إِنَّا كَذَلِكَ، يَشْتَدُّ عَلَيْنَا الْبَلاءُ، وَيُضَاعَفُ لَنَا الأَجْرُ“، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلاءً؟ قَالَ: ”الأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ الصَّالِحُونَ، وَقَدْ كَانَ أَحَدُهُمْ يُبْتَلَى بِالْفَقْرِ حَتَّى مَا يَجِدُ إِلا الْعَبَاءَةَ يَجُوبُهَا فَيَلْبَسُهَا، وَيُبْتَلَى بِالْقُمَّلِ حَتَّى يَقْتُلَهُ، وَلأَحَدُهُمْ كَانَ أَشَدَّ فَرَحًا بِالْبَلاءِ مِنْ أَحَدِكُمْ بِالْعَطَاءِ.“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بخار تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ انہوں نے چادر کے اوپر سے ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر رکھا تو اس کے اوپر سے بھی حرارت محسوس کی تو عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ کو کس قدر شدید بخار ہے؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم پر آزمائشیں اسی طرح سخت آتی ہیں اور ہمارے لیے اجر بھی دگنا ہے۔ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! سب سے زیادہ سخت آزمائشیں کن لوگوں پر آتی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انبیاء علیہم السلام پر، پھر نیک لوگوں پر۔ ان میں سے کسی کو اس قدر تنگ دستی کی آزمائش میں ڈالا جاتا کہ اس کے پاس ایک عبا کے سوا کچھ نہیں ہوتا تھا، جسے وہ پھاڑ کر پہن لیتے تھے۔ اور انہیں جوؤں اور پسوؤں کے ساتھ آزمائش میں ڈالا جاتا یہاں تک وہ انہیں مار ڈالتیں۔ وہ آزمائش سے اتنے خوش ہوتے تھے جتنے تم عطیہ ملنے سے خوش ہوتے ہو۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن ماجه، كتاب الفتن، باب الصبر على البلاء: 4024 - انظر الصحيحة: 144»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 510 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 510  
فوائد ومسائل:
(۱)مسلمان کی آزمائش اس کے دین کے حساب سے ہوتی ہے۔ دین میں جس قدر پختگی ہوگی آزمائش اسی قدر سخت ہوگی۔ اور اس تکلیف کا اظہار کرنا بھی جائز ہے، خصوصاً جب اسی میں شرعی مصلحت ہو۔
(۲) ابتلا و آزمائش کا سوال نہیں کرنا چاہیے، البتہ اگر مصیبت آجائے تو اس پر صبر کی دعا کرنی چاہیے اور سلف کے مصائب کو دیکھنا چاہیے۔
(۳) مصیبت پر خوشی در حقیقت اس پر ملنے والے اجر کی بنا پر ہوتی ہے۔ جس کا یقین جس قدر پختہ ہوگا وہ اسی قدر اس انعام پر زیادہ خوش ہوگا۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 510